’’افغان مونا لیزا‘‘ کی آڑ میں پاکستان کو بدنام کرنے کی مغربی مہم

جعلی دستاویزات رکھنے پر شربت گلہ کو علامتی سزا ملی، مغربی میڈیا اسے ظلم و جبر سے تعبیر کررہا ہے


تزئین حسن November 20, 2016
آج بھی مغربی حکومتیں شامی پناہ گزینوں کے مسئلہ پر بدترین خود غرضی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ فوٹو: فائل

ایک سے زیادہ مرتبہ مغربی جریدے 'نیشنل جیوگرافک' کے ٹائٹل کی زینت بننے والی افغان مونا لیزا شربت گلّہ پاکستان میں جعلی شہریت کے کاغذات رکھنے کے جرم میں پندرہ دن قید، جرمانے اور ملک بدری کی سزا سننے کے بعد افغانستان پہنچ چکی ہے۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر خاتون کی ملک بدری کو روکنے کی کوشش کی، پاکستانی حکومت نے ان کے علاج کے اخراجات اٹھانے کی بھی پیشکش کی جسے افغان مونا لیزا نے مسترد کر دیا۔

دھوکہ دہی کے اس مقدمے میں شربت گلّہ کی گرفتاری سے مغربی دنیا کو پاکستان کی مخالفت کا ایک نیا موقع مل گیا۔ مغربی اور بھارتی میڈیا کے علاوہ عرب میڈیا، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شربت گلّہ کے حق میں اٹھ کھڑی ہوئیں۔

'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے شربت گلّہ کی ملک بدری کو صریح ناانصافی قرار دیتے ہوئے، اسے پاکستانی حکومت کا افغان مہاجرین کے ساتھ ظالمانہ رویہ قرار دیا۔ تنظیم کے مطابق پناہ گزینوںکو تنازعہ کے دوران واپسی پر مجبور کرنا 'جبری واپسی کے خلاف بنائے جانے والے قانون کی خلاف ورزی ہے اور یہ عمل انسانوں کو سنگین خطرات سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔

عالمی میڈیا میں شربت گلہ کے معاملے کی کوریج دیکھ کو یوں محسوس ہوتاہے، جیسے' نیشنل جیوگرافک' میگزین میں تصویر چھپنے کے بعد افغان خاتون صعوبت زدہ مہاجرین کی ایک علامت بن گئیں، انھیں عالمی شہرت حاصل ہوئی اس لئے انھیں ہر قانون سے بالاتر سمجھنا چاہیے تھا۔

سوال یہ ہے کہ برطانیہ میں کوئی شخص جعلی کاغذات استعمال کرتے ہوئے پکڑا جائے تو کیا برطانوی قانون اسے کوئی رعایت دے گا؟ ایسے بے شمار کیسز مغربی ممالک میں موجود ہیں، جعلی دستاویزات رکھنے والے لوگ جیلوں میں گل سڑ رہے ہیں، اس کے مقابلے میں پاکستان میں شربت گلہ کو محض علامتی سزا ملی، جس کا زیادہ ترحصہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں گزارا گیا۔ حالانکہ افغان خاتون کو 14برس قید کی سزا ہوسکتی تھی۔ تاہم عجیب بات ہے کہ انسانی ہمدردی رکھنے والے پاکستان کی تحسین کے بجائے اسے ولن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔

مغربی خبررساں ادارے' رائٹرز' کا لکھنا ہے''پاکستان ایسے وقت میں ڈھائی ملین افغان مہاجرین گھر بھیجنے کے لئے دباؤ ڈال رہا ہے جب افغانستان میں طالبان کی خونی مزاحمت جاری ہے''۔ سوال یہ ہے کہ کیا افغان عوام کی موجودہ حالت زار کا ذ مہ دار پاکستان ہے؟ کیا یہ ذمہ داری ان دو سپر پاورز پر عائد نہیں ہوتی جنہوں نے بالترتیب 1979ء اور 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا؟ آخر وہ اس تمام تر تباہی کا ازالہ کیوں نہیں کرتیں۔

کیا ذمہ دار افغانستان کی کٹھ پتلی اور کرپٹ جمہوری حکومتیں نہیں جو امریکا سے بلین ڈالرز کی امداد حاصل کرنے کے باوجود افغانستان میں مہاجرین کی آباد کاری کے لئے بنیادی انفراسٹرکچر بھی تیار نہیں کرسکیں؟ مزید ذمہ داری ناٹو افواج پر عائد ہوتی ہے جو پندرہ برس کے بعد بھی افغانستان کو ایک محفوظ ملک نہیں بناسکیں۔

یاد رہے کہ نیشنل جیوگرافک کے فوٹوگرافر اسٹیو مک کری نے 1984ء میں پشاور کے ایک پناہ گزین کیمپ میں شربت گلہ کی تصویر بنائی تھی جو ماہ جون1985ء کے میگزین کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ یہ تصویر ہجرت کرنے والے خاندانوں کی صعوبتوں کی عکاس تھی۔ اُس وقت سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈا مہم کے لئے پاکستان میں قائم افغان پناہ گزین کیمپ مغربی میڈیا والوں کے لئے ایک سیاحتی منزل کا درجہ رکھتے تھے۔

'چارلی ولسن وار' اور 'ریمبو فور' جیسی فلمیں بنا کر مغرب ان مجاہدین کے کارناموں کا کریڈٹ لینے میں فخر محسوس کرتا تھا جنھیں آنے والے برسوں میں دہشت گرد قراردیاگیا اور جنھیں ٹھہرانے کے ''جرم'' میں وزیرستان کے غریب عوام بچوں، بوڑھوں پر ڈرون بموں کی بارش کی گئی۔

شربت گلّہ کی تصویر کے حامل میگزین سرورق کو مقبول ترین ٹائٹل تصاویر تسلیم کیاگیا۔ اس تصویر نے مغربی فوٹو گرافرکو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا مگر شربت گلّہ اور ان کے خاندان کی حالت زار اور کسم پرسی ویسی کی ویسی رہی۔ 2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد مک کری کو پھر افغان دوشیزہ اور اس کی آنکھوں کی یاد ستائی، وہ اپنے کریو کے ساتھ ایک بار پھر پاکستان پہنچ گئے۔

سن 2002ء میں شربت گلّہ جو افغانستان کے علاقے تورا بورا منتقل ہوچکی تھیں، کو نیشنل جیوگرافک کی ڈاکومنٹری کے لئے برف پوش راستوں سے گزر کر واپس آنا پڑا۔ اس دفعہ مک کری خالی ہاتھ نہیں آئے بلکہ شربت گلّہ کی بیٹی کے لئے محض ایک سلائی مشین کا تحفہ بھی لائے۔ شنید ہے کہ اب مغربی فوٹو گرافر ایک بار پھرشربت گلہ پر ڈاکومنٹری بنانے آ رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس دفعہ ان کا ایجنڈا پہلے دو ایجنڈوں سے کتنا مختلف ہوتا ہے۔



ایک طویل عرصہ پاکستان میں مہمان بن کر زندگی بسر کرنے والی شربت گلہ خود بھی پاکستان کو مطعون کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ انھوں نے ایک مغربی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:'' میں نے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان ہی میں ہی جیؤںگی اور پاکستان ہی میں مروں گی مگر انھوں (پاکستانیوں) نے میرے ساتھ بہت بُرا کیا۔'' پاکستان کے لئے شربت گلّہ کے جذبات ان کے اس ملک کے ساتھ نفرت اور محبت کے ملے جلے تعلق کی عکاسی کر رہے ہیں۔

خاتون کے جذبات اپنی جگہ مگر کیا ڈھائی ملین افغان پناہ گزینوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کر نا ممکن ہے؟ یہ کام امریکا، جرمنی اور جاپان ایسے ممالک کرسکتے ہیں بھلا؟افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے باعث لاکھوں افغانوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہا جانا اور چار عشروں تک بلا امتیاز ان کی مہمان نوازی ایک ایسی حقیقت ہے جس کی انسانی تاریخ میں نظیر کم ہی ملے گی۔

آپ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے کسی جمعہ یا اتوار بازار چلے جائیں یا کلفٹن کی گلف سپر مارکیٹ یا طارق روڈ کے رابی سینٹر پہنچ جائیں، آپ کو وہاں کپڑا بیچنے والے پشتواور فارسی بولنے والے افغان ہی ملیں گے۔ ملک بھر میں لنڈا کا کاروبار کرنے والوں کی اکثریت بھی افغانوں ہی کی ہے۔یہی منظرکراچی بلکہ ملک بھر کے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ملے گا۔ افغانوں کو خیبر پختون خوا کے پشتو بولنے والوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر کھلایا ہی ہے، باقی ملک نے بھی اپنے ٹیکسز سے فراہم کی جانے والی سرکاری سہولتوں کو ان کے ساتھ کھلے دل سے بانٹا ہے۔

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے اسے بصد خوشی اپنا دینی اور انسانی فریضہ سمجھ کر اداکیا۔ بین الاقوامی امدادی اداروں نے بھی یقیناً اس مہمان نوازی میں کسی حد تک اپنا حصّہ ڈالا مگر حقیقت یہی ہے کہ نوے کی دہائی کے اوائل میں روسی افواج کی واپسی کے بعد بیشتر غیر ملکی اور عالمی اداروں نے اپنے آپریشنز ختم کر دئیے تھے اور ان کی دلچسپی مہاجرین میں ختم ہو گئی تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکا اور دوسرے ممالک ہمیشہ اپنا کام نکل جانے کے بعد پتلی گلی سے نکل لیتے ہیں جبکہ ان کی مہمات کے منفی اثرات بھگتنے کے لئے پاکستانی رہ جاتے ہیں۔

یقیناً بڑی تعداد میں افغان بچے پاکستان میں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے، انھوں نے کبھی افغانستان نہ دیکھا۔ اس تناظر میں ان کا پاکستان کو اپنا ملک سمجھنا اپنی جگہ درست لیکن بین الاقوامی قوانین کسی بھی ملک کے جعلی شہریت کے کاغذات بنوانے کی اجازت نہیں دیتے۔ خود مغربی ملکوں میں اگر کوئی غیر قانونی تارک وطن جعلی کاغذات کے ساتھ پکڑا جائے تو اسے کیا سزا دی جاتی ہے؟ اس کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ دنیا کے باقی بالخصوص مغربی ممالک پناہ گزینوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔

آج بھی مغربی حکومتیں شامی پناہ گزینوں کے مسئلہ پر بدترین خود غرضی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ جرمنی جیسے مستحکم معاشی ملک نے جب ایک ملین مہاجرین کو پناہ دینے کا اعلان کیا تو وہاں شدید مظاہرے شروع ہو گئے اور پناہ گزینوں کے خلاف تشدد کی وارداتوں میں شدّت آ گئی۔ حتیٰ کہ ایسی تنظیمیں وجود میں آ گئیں جو پناہ گزینوں کے خلاف کھلم کھلا نازی نعرے استعمال کر رہی ہیں۔ ایسی تنظیموں کے لیڈرز ہٹلر کے انداز میں تصویریں بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کررہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی نفرت انگیز گفتگوؤں میں اس قدر شدّت آ گئی ہے کہ جرمن حکومت کو فیس بک پر مقدمہ کرنا پڑا کہ وہ نسل پرستی کے روک تھام کے لئے جرمن حکومت کی کوششوں کا ساتھ نہیں دے رہی اور پناہ گزینوں کے خلاف نفرت انگیز فیس بک پیجز ختم نہیں کررہی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے غریب عوام کی فراخ دل واقع ہوئے، وہ خود بھوکے سوتے رہے لیکن انھوں نے کبھی افغان مہاجرین کے خلاف ایک بھی مظاہرہ نہیں کیا۔

پاکستانی سیاست دانوں نے کبھی افغان مہاجرین کے خلاف نفرت بھڑکا کرکبھی پاکستانی عوام سے ووٹ لینے کی کوشش نہیں کی۔ دوسری طرف جرمنی، امریکا، برطانیہ، اور فرانس کی دائیں بازو کی جماعتوں کے تعصب کا گراف مسلسل بڑھ رہاہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد غریب اور جنگ زدہ تھی مگر ان میں ایک قابل لحاظ تعداد خوشحال تاجروں اور سرمایہ کا روں کی بھی تھی جنہوں نے یہاں پاکستانیوں سے بہترکاروبار جمائے اور کروڑوں نہیں اربوں روپے کمائے مگر ان 37 برسوں میں کسی ایک بھی افغان تاجر نے اپنی آمدنی پر ٹیکس ادا نہیں کیا۔ ان تمام حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے کردار کی تحسین کرنے کے بجائے اسے بین الاقوامی سطح پر مطعون کرنے کی مہم کو عالمی اداروں اور مغربی میڈیا کی منافقت ہی قرار دیاجاسکتاہے۔

افغانستان کی اشرف غنی حکومت اس وقت امریکا سے اربوں ڈالرز کی امداد لے رہی ہیں، لیکن وہ اپنے ہی لوگوں کے مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کررہی ہے۔ بھارت میں افغانستان کی سفیر شاہدہ ابدالی نے اعلان کیا ہے کہ شربت گلہ عنقریب مفت علاج کے لئے بھارت کا دورہ کریں گی۔ یاد رہے کہ افغان خاتون ہیپا ٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہیں۔ بھارت بھی اس معاملے کو غلط رنگ دے کر پاکستان کو بدنام کرنے کا ایک اور موقع حاصل کرنا چاہتاہے۔

مغربی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو پاکستان پر تنقید کرنے سے پہلے اس سوال پر غور کرنا چاہئے کہ نیٹو افواج کو پندرہ برس تک افغانستان میں رکھنے، ایک ٹریلین ڈالر خرچ کرنے اور جمہوریت کے قیام و استحکام کے امریکی دعووں کے باوجود ابھی تک یہاں مہاجرین کی آبادکاری کیوں ممکن نہیں؟ کیا مغربی میڈیا نے اپنے حکمرانوں سے یہ سوال پوچھا؟یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ پورے عالمی میڈیا میں کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھا رہا کہ آخرشربت گلّہ نے جعلی شناختی کارڈ کیوں بنوایا؟

دھوکہ دہی امریکا، یورپی ممالک، عرب دنیا اور بھارت سمیت دنیا کے ہر ملک میں جرم ہے۔ اس جرم کا ذکر کرنے کے بجائے مغربی میڈیا پاکستان کی طرف سے قانون کی ایک کارروائی کو ظلم سے تعبیرکررہاہے۔مغربی میڈیا اپنی حکومتوں کی بے رحمی اور بے حسی پر ذرا غور کرے کہ شامی مہاجرین اور ان کے بچے سمندروں میں ڈوب رہے ہیں لیکن وہ انھیں اپنے ہاں قدم رکھنے کی اجازت نہیں دے رہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔