قومی مفاد کی تاریخ
ایک جدید نظریے کی دلچسپ ومعلومات افروز داستان جسے ناقدین ڈھکوسلا قراردیتے ہیں اور حمایتی ملک وقوم کی بقاوترقی کا ضامن
یکم ستمبر 2016ء کو بھارتی وزیر اطلاعات' وینکایا نائیڈو نے چنائے (مدارس) میں اخباری ایڈیٹروں کی ایک کانفرنس کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے بھارتی وزیر اطلاعات نے کہا: ''میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ درست اور مصدقہ خبر دے۔ مگر اسے ہر خبر دیتے ہوئے قومی مفاد بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہر ایڈیٹر و صحافی کو اصول و قوانین بنا لینے چاہیں۔''
یہ حقیقت ہے' بھارت ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں حکومت کی ازحد تمنا ہوتی ہے کہ ملکی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا وہ خبر شائع یا نشر کرنے سے گریز کرے جس کی بدولت کسی قسم کے قومی مفاد کو زک پہنچے۔ اس ضمن میں بعض ممالک میں چکمہ یا دھوکا دینا بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔ لیری مسیلون سپیکس 1981ء تا 1987ء امریکی صدر کا ترجمان رہا۔ اس کا قول ہے: ''جب قومی مفادات کی بات آئے ' تو میں جھوٹ تو نہیں بولتا مگر ''ڈاج'' ضرور دے جاتا ہوں۔''
ماضی کی کہانی
قومی مفاد(National interest ) کی سادہ سی تشریح یہ ہے: عسکری، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، سیاسی سطح پر ایسی پالیسی تشکیل دینا جو ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہو۔ یہ نظریہ امور خارجہ میں خصوصی درجہ رکھتا ہے کیونکہ تب قومی مفادات کا تحفظ شرط اول بن جاتا ہے۔نظریہ قومی مفاد جدید دور کی پیداوار ہے۔ اس نے پندرہویں صدی میں جنم لیا جب بعض دانش ور قوم پرستی (Nationalism) کی حمایت کرنے لگے۔ ان میں اطالوی فلسفی، نکولو مکیاولی کو اولیّت حاصل ہے۔
پندرہویں صدی سے قبل دنیا میں بادشاہتوں اور سلطنتوں کا دور دورہ تھا۔ تب بادشاہ مذہبی، معاشی، سیاسی یا ذاتی دشمنی کے لحاظ سے دیگر ممالک کے خلاف جنگیں چھیڑا کرتے تھے۔ یورپ میں بھی ہر ریاست دوسری ریاستوں سے دست و گریباں رہتی۔ تبھی مکیاولی اور دیگر دانش ور نظریہ قوم پرستی کی ترویج کرنے لگے تاکہ ایک قوم کو جغرافیائی، لسانی، تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے دیگر ریاستوں کے خلاف متحد کیا جاسکے۔
نظریہ قوم پرستی کی مثالیں انیسویں صدی میں سامنے آئیں۔ تب مخصوص جغرافیائی علاقوں میں متحارب ریاستوں نے ایک دوسرے سے اتحاد کرلیا۔ یوں امریکا،جرمنی، فرانس، اٹلی، مملکت متحدہ (برطانیہ)، ہالینڈ وغیرہ جیسے جدید ممالک وجود میں آئے۔ بیسویں صدی میں بھی قوم پرستی نے کئی نئے ممالک تخلیق کیے جن میں مصر، لبنان، یوگوسلاویہ وغیرہ شامل ہیں۔
درج بالا ''قومی ریاستوں'' (Nation States) ہی میں سب سے پہلے نظریہ قومی مفاد نے رواج پایا۔ اس نظریے کے دو بنیادی معنی ہیں: اول بطور سیاسی عمل یہ پالیسیاں بنانے یا مسترد کرنے میں حکومت (یا حزب اختلاف) کے کام آتا ہے۔ دوم اس کے ذریعے خارجہ پالیسی تشکیل دی جاتی اور اُس کی تشریح بھی ہوتی ہے۔ دونوں اعتبار سے قومی مفاد سامنے رکھ کر دیکھا جاتا ہے کہ کون سا عمل ملک و قوم کے لیے بہتر ہے۔
نظریہ قومی مفاد نے اخلاقیات اور قانون کو خاصی حد تک متاثر کیا۔ مثال کے طور پر تین چار صدیاں قبل اگر کوئی ہندوستانی مسلمان ایران یا عرب جاکر وہاں کے بادشاہوں کا ملازم بن جاتا تھا، تو اسے برا نہ سمجھاجاتا۔ لیکن آج کوئی پاکستانی وزارت خارجہ کااہلکار اعلیٰ عہدے اور اچھی تنخواہ کے لالچ میں کسی اور ملک چلا جائے، تو اکثر لوگ یہی کہیں گے کہ اس نے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا اور ملک و قوم کا غدار بن گیا۔
اس نظریے نے ایک منفی معاشی نظریے ''تجاریت'' (Mercantilism) کو بھی عملی شکل اختیار کرنے میں مدد دی۔ اس نظریے کی تشریح یہ ہے کہ ایک ملک ''جائز و ناجائز'' طریقوں سے دوسرے ممالک کو اپنا مال و سامان فروخت کرکے ترقی و خوشحالی پاسکتا ہے۔ چناںچہ اسی نظریے نے برطانیہ، اسپین، ہالینڈ، اٹلی، پرتگال وغیرہ کی حکومتوں کو دنیا میں نئی منڈیاں تلاش کرنے پر ابھارا۔ تب یہ یورپی طاقتیں نئی منڈیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے نو آبادیاتی طاقتیں بن بیٹھیں۔ انہوں نے پھر ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں کئی علاقوں پر قبضہ کیا، انہیں نو آبادیوں کی شکل دی اور نہ صرف اپنا مال فروخت کرنے لگیں بلکہ بڑے پیمانے پر وہاں کے قومی وسائل بھی لوٹ لیے۔
یہ ساری لوٹ مار اور غنڈہ گردی ''قومی مفاد'' کے جھنڈے تلے ہی انجام پائی۔امریکا بھی ایک نوآبادتی طاقت ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ نظریاتی و معاشی طور پر نوآبادیاں بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
متنازع نظریہ
اکثر نظریات و خیالات کے مانند قومی مفاد کا نظریہ بھی متنازع ہے۔ کئی دانشور و حکمران قومی سلامتی وترقی کے لیے اس نظریے کو اپنانا لازمی سمجھتے ہیں۔ بعض دانشوروں کے نزدیک یہ نظریہ ایک سراب یا ڈھکوسلا ہے۔ ایک طرف سابق ایرانی صدر' احمدی نژاد جیسے لوگ ہیں۔ احمدی نژاد کا کہنا تھا: ''اپنے قومی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر میں ہر قدم اٹھانے اور ہر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔''
دوسری طرف نظریہ قومی مفاد کے مخالف دانشوروں کی بھی کمی نہیں۔ مثلاً مشہور جنوبی افریقن شاعر وادیب بریئسٹن بریتاخ کہتا ہے: ''حکومتیں اپنا کام کرتے ہوئے انسانی حقوق نہیں قومی مفاد کو مد نظر رکھتی ہیں۔'' اسی طرح امریکی عمرانیات داں' تھامس سوویل کا خیال ہے: ''سیاست ایسا آرٹ ہے جس کی مدد سے ذاتی اور خود غرضانہ خواہشات کو قومی مفاد کا چولا پہنانا ممکن ہے۔''
ان دونوں کے درمیان ایسے دانش ور استادہ ہیں جو ہر قومی مفاد کو فائدے یا نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ اگر کسی بظاہر عقلی بات سے قوم ومملکت کو نقصان پہنچ رہا ہے' تو قومی مفاد کے پیش نظر اسے پوشیدہ رکھنا چاہیے۔ ایک برطانوی دانشور' کرسٹ کرسٹی کہتا ہے: '' جب قومی مفادات پر مخصوص (ذاتی) مفاد کر ترجیح دی جائے' تو ملک و قوم کو اس (کوتاہی) کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔''
پچھلے ماہ وطن عزیز میں ایک متنازع معاملے نے نظریہ قومی مفاد کو بہت نمایاںکر د یا۔ ہوا یہ کہ ایک صحافی نے معاصر انگریزی اخبار میں ایک خبر شائع کرائی۔ اس میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت وقت نے فوج کومتنبہ کیا ہے، وہ بعض جنگجو تنظیموں کی حمایت نہ کرے کیونکہ اس باعث بیرون ممالک پاکستان کو اچھا نہیں سمجھا جا رہا۔ خبر کی اشاعت کے بعدکئی لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ فو ج کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی سازش ہے۔ چناںچہ خبر قومی مفاد کے منافی قرار پائی۔
پہلی بات تو ہے یہ کہ ایک ملک کی فوج کا کسی ایک قومی تنظیم یا تنظیموں کی حمایت کرنا کوئی نئی یا اچھوتی بات نہیں۔1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی خفیہ ایجنسی، را اور بھارتی فوج ہی نے مشرقی پاکستان میں جنگجو تنظیمیں مثلاً مکتی باہنی' قادر باہنی' مجیب باہنی وغیرہ کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا تھا... انہی جنگجو تنظیموں کی گوریلاجنگ ہماری شکست کی اصل وجہ بنی۔ بھارتی فوج میں اتنا بوتا نہیں تھا کہ وہ باقاعدہ جنگ میں پاک افواج کو شکست دے پاتی ۔
بھارتی حکومت اوربھارتی فوج آج بھی کئی جنگجو تنظیموں کی سرپرست ہے۔ مثال کے طور پر ''سلوا جدم'' (Salwa Judum) جو نکسالیوں کی جدوجہد ختم کرنے کے لیے بنائی گئی۔ یہ تنظیم وسطی بھارت میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف وزریوں میں ملوث ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں را کے تنخواہ دار غداروں نے تنظیمیں بنا کر مجاہدین میں پھوٹ ڈلوائی۔ پھر یہ سچائی بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارتی حکمران پاکستان مخالف جنگجو تنظیموں کے سرپرست بن چکے۔ وہ ان تنظیموں کو اسلحہ و سرمایہ' دونوں فراہم کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں دہشت گردانہ اور فرقہ وارانہ کارروائیوں سے بدامنی وافراتفری کا سماں پیدا کیا جاسکے۔
غرض متنازع خبر کی اشاعت کے بعد جنگجوئی کی طرف مائل تنظیموں کے قیام کا ذمے دار محض اپنی فوج کو قرار دینا احمقانہ پن ہے۔ پھر حقیقت یہ ہے کہ ایک ملک جب حالت جنگ میں ہو' تو وطن پرست جنگجو تنظیمیں ملک وقوم کے دفاع میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انسانی تاریخ ایسی تنظیموں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے جنہیں اصطلاح میں ''ملیشیا'' کہا جاتا ہے۔ امریکیوں نے جب برطانیہ کے خلاف تحریک آزادی کا آغاز کیا' تو امریکا میں سول جنگجو تنظیموں کا دور دورہ تھا۔ انہی تنظیموں کے اشتراک و ادغام سے وہ امریکی فوج وجود میں آئی جس نے برطانوی فوج کو شکست دی۔
یوں آج کی سپر پاور ایک آزاد مملکت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھری ۔دوسری جنگ عظیم میں سٹالن گراڈ کی لڑائی انسانی تاریخ میں خوفناک ترین معرکہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً بیس لاکھ انسان مارے گئے یا زخمی ہوئے تھے۔ اس لڑائی میں روسی شہر' سٹالن گراڈ کے شہریوں نے بھی حملہ آور جرمنوں سے دلیرانہ مقابلہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی گوریلا تنظیمیں تشکیل دیں اور جرمن فوج پر کامیاب شب خون مارے ۔
غرض محب وطن تنظیموں کی موجودگی قومی دفاع مضبوط بنانے میں کام آتی ہے اور پاکستان بھی پچھلے ایک عشرے سے حالتِ جنگ میں ہے۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز دیدہ اور نادیدہ' دو قسم کی طاقتوں سے نبردآزما ہیں۔ ایسے میں سول ملیشاؤں کی موجودگی ضرورت بن جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ ملکی اصول و قوانین کا احترام کرتی رہیں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ انگریزی اخبار کی متنازع خبر میں جن پاکستانی تنظیموں کا حوالہ آیا' وہ بھارتی حکومت اور اس کے سرپرستوں کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتی ہیں۔ وجہ یہ کہ ان تنظیموں کے قائدین خصوصاً نہتے کشمیریوں پر بھارتی سکیورٹی فورسز کے ظلم و ستم کے خلاف شدت سے آواز بلند کرتے ہیں۔ اور وہ بے یارو مددگار کشمیریوں کی ہر ممکن مدد بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اسی باعث عام پاکستانیوں کا وسیع طبقہ انہیں پسند کرتا اور سراہتا ہے۔ جبکہ متنازع خبر میں ان کانام آنے سے بھارتی میڈیا نے خوشی سے بغلیں بجائیں اور اس امر کو خاص طور پر اپنی خبروں و تحریروں میں نمایاں کر کے پیش کیا۔
انگریزی اخبار میں خبر چھپنے کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ فوج اب صوبہ پنجاب میں بھی آپریشن شروع کرنا چاہتی ہے کہ وہاں ان بااثر سیاسی شخصیات پر ہاتھ ڈالا جائے جو کرپشن ، دہشت گردوں اور غنڈوں کی سرپرستی کرنے میں ملوث ہیں۔ یہ آپریشن روکنے کے لیے متنازع خبر کا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ فوج اپنی ذمے داریاں پوری نہ کرسکے اور اس کا دھیان بٹ جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2014ء سے جاری پاک فوج کے عسکری آپریشنوں اور کرپشن کے خلاف لڑائی کی بدولت پاکستان میں نہ صرف امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی بلکہ قانون کا بول بالا بھی ہوا۔ سرکاری اداروں پر کچھ حد تک عوام کا اعتماد بحال ہوگیا اور وہ اپنی کارگزاری دکھانے لگے۔ ان کامیابیوں کے باعث پاکستانی عوام کھلے دل سے پاک افواج کے گن گانے لگے۔
لیکن خبر چلا کر یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت صحیح کہتا ہے، پاک فوج جارح مزاج (Rough) ہے اور وہ جنگجو تنظیموں کی سرپرست بنی بیٹھی ہے۔ اس طرح نہ صرف بین الاقوامی سطح پر فوج کو زک پہنچانے کی کوشش ہوئی بلکہ یہ خبر ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں کا مورال گرانے کا بھی سبب بن گئی۔ اسی لیے بعض ماہرین نے خبر دینے والے صحافی اور اخبار کو غدار قرار دے ڈالا۔
پاکستانی میڈیا کو دراصل یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی رائے بھی حدود و قیود رکھتی ہے، خاص طور پر جب قومی مفادات کا معاملہ درمیان میں آجائے۔ اولیور رینڈل ہومز 1902ء تا 1932ء امریکا میں سپریم کورٹ کا جج رہا ہے۔ اسی کا مشہور مقولہ ہے'': انسان کو اتنا زیادہ آزاد نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پُرہجوم تھیٹر میں کھڑے ہوکر ''آگ، آگ'' کا راگ الاپنے لگے۔''
وطن عزیز میں قوم کا سیاسی و معاشرتی شعور اجاگر کرنے میں پرنٹ والیکٹرونک میڈیا یقیناً خاص کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن اسے سیکھنا ہوگا کہ ایسی حساس خبروں کو کیسے برتا جاتا ہے جن کے ذریعے قومی مفاد یا قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے چاہے وہ درست ہوں یا غط! کہا جاتا ہے کہ امریکا کا میڈیا سب سے زیادہ آزاد و خود مختار ہے۔ لیکن وہاں بھی جب کوئی ایسی خبر آئے جو ملک و قوم کی عزت بین الاقوامی سطح پر اچھالنے اور بدنام کرنے لگے، تو اسے دبا دیا جاتا ہے۔ یا پھر خبر کی تیزی و تندی ختم کرکے اس کی اشاعت کی جاتی ہے۔
ہمارا دین کیا کہتا ہے؟
نیشن اسٹیٹ یا قومی ریاست ایک جدید اور مغربی دنیا میں جنم لینے والا عجوبہ ہے۔ اس نے قوم پسندی کے نظریات سے جنم لیا جن کی رو سے بالعموم اپنے ملک، قوم یا نسل کو اعلیٰ و برتر سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں۔ سورہ الحجرات آیت 13 میں خدا تعالیٰ فرماتے ہیں :''اے لوگو! ہم نے تمہیں (ایک) مرد اور عورت سے پیدا فرمایا۔ اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار (باتقویٰ) ہو۔''
درج بالا آیت مبارکہ کی رو سے انسانوں کو اس لیے اقوام میں تقسیم کیا گیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچاننا آسان ہوجائے۔ اس لیے نہیں کہ وہ اپنے اوپر غرور وفخر کریں، اپنے لوگوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے انصاف و قانون کو ہاتھ سے چھوڑ دیں اور دفاع کے نام پر دوسری اقوام پر حملہ کردیں۔ ان خرابیوں کے سبب ہی اسلام میں قوم پرستی کو ناپسندیدہ نظریہ سمجھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قومی مفاد بذات خود اچھی یا بری شے نہیں، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ اگر قومی مفاد اپنانے کا یہ مطلب ہے کہ معاشرے یا ریاست میں انصاف و قانون کی رٹ قائم ہوجائے، ظالم اپنے انجام کو پہنچے اور مظلوم کی داد رسی ہو، تو اسے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن قومی مفاد کی آڑ لے کر ذاتی مقاصد پورے کیے جانے لگیں تو وہ محض بدی پھیلانے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے' بھارت ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں حکومت کی ازحد تمنا ہوتی ہے کہ ملکی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا وہ خبر شائع یا نشر کرنے سے گریز کرے جس کی بدولت کسی قسم کے قومی مفاد کو زک پہنچے۔ اس ضمن میں بعض ممالک میں چکمہ یا دھوکا دینا بھی جائز سمجھا جاتا ہے۔ لیری مسیلون سپیکس 1981ء تا 1987ء امریکی صدر کا ترجمان رہا۔ اس کا قول ہے: ''جب قومی مفادات کی بات آئے ' تو میں جھوٹ تو نہیں بولتا مگر ''ڈاج'' ضرور دے جاتا ہوں۔''
ماضی کی کہانی
قومی مفاد(National interest ) کی سادہ سی تشریح یہ ہے: عسکری، معاشی، معاشرتی، ثقافتی، سیاسی سطح پر ایسی پالیسی تشکیل دینا جو ملک و قوم کے لیے مفید ثابت ہو۔ یہ نظریہ امور خارجہ میں خصوصی درجہ رکھتا ہے کیونکہ تب قومی مفادات کا تحفظ شرط اول بن جاتا ہے۔نظریہ قومی مفاد جدید دور کی پیداوار ہے۔ اس نے پندرہویں صدی میں جنم لیا جب بعض دانش ور قوم پرستی (Nationalism) کی حمایت کرنے لگے۔ ان میں اطالوی فلسفی، نکولو مکیاولی کو اولیّت حاصل ہے۔
پندرہویں صدی سے قبل دنیا میں بادشاہتوں اور سلطنتوں کا دور دورہ تھا۔ تب بادشاہ مذہبی، معاشی، سیاسی یا ذاتی دشمنی کے لحاظ سے دیگر ممالک کے خلاف جنگیں چھیڑا کرتے تھے۔ یورپ میں بھی ہر ریاست دوسری ریاستوں سے دست و گریباں رہتی۔ تبھی مکیاولی اور دیگر دانش ور نظریہ قوم پرستی کی ترویج کرنے لگے تاکہ ایک قوم کو جغرافیائی، لسانی، تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے دیگر ریاستوں کے خلاف متحد کیا جاسکے۔
نظریہ قوم پرستی کی مثالیں انیسویں صدی میں سامنے آئیں۔ تب مخصوص جغرافیائی علاقوں میں متحارب ریاستوں نے ایک دوسرے سے اتحاد کرلیا۔ یوں امریکا،جرمنی، فرانس، اٹلی، مملکت متحدہ (برطانیہ)، ہالینڈ وغیرہ جیسے جدید ممالک وجود میں آئے۔ بیسویں صدی میں بھی قوم پرستی نے کئی نئے ممالک تخلیق کیے جن میں مصر، لبنان، یوگوسلاویہ وغیرہ شامل ہیں۔
درج بالا ''قومی ریاستوں'' (Nation States) ہی میں سب سے پہلے نظریہ قومی مفاد نے رواج پایا۔ اس نظریے کے دو بنیادی معنی ہیں: اول بطور سیاسی عمل یہ پالیسیاں بنانے یا مسترد کرنے میں حکومت (یا حزب اختلاف) کے کام آتا ہے۔ دوم اس کے ذریعے خارجہ پالیسی تشکیل دی جاتی اور اُس کی تشریح بھی ہوتی ہے۔ دونوں اعتبار سے قومی مفاد سامنے رکھ کر دیکھا جاتا ہے کہ کون سا عمل ملک و قوم کے لیے بہتر ہے۔
نظریہ قومی مفاد نے اخلاقیات اور قانون کو خاصی حد تک متاثر کیا۔ مثال کے طور پر تین چار صدیاں قبل اگر کوئی ہندوستانی مسلمان ایران یا عرب جاکر وہاں کے بادشاہوں کا ملازم بن جاتا تھا، تو اسے برا نہ سمجھاجاتا۔ لیکن آج کوئی پاکستانی وزارت خارجہ کااہلکار اعلیٰ عہدے اور اچھی تنخواہ کے لالچ میں کسی اور ملک چلا جائے، تو اکثر لوگ یہی کہیں گے کہ اس نے قومی مفادات کو نقصان پہنچایا اور ملک و قوم کا غدار بن گیا۔
اس نظریے نے ایک منفی معاشی نظریے ''تجاریت'' (Mercantilism) کو بھی عملی شکل اختیار کرنے میں مدد دی۔ اس نظریے کی تشریح یہ ہے کہ ایک ملک ''جائز و ناجائز'' طریقوں سے دوسرے ممالک کو اپنا مال و سامان فروخت کرکے ترقی و خوشحالی پاسکتا ہے۔ چناںچہ اسی نظریے نے برطانیہ، اسپین، ہالینڈ، اٹلی، پرتگال وغیرہ کی حکومتوں کو دنیا میں نئی منڈیاں تلاش کرنے پر ابھارا۔ تب یہ یورپی طاقتیں نئی منڈیاں ڈھونڈتے ڈھونڈتے نو آبادیاتی طاقتیں بن بیٹھیں۔ انہوں نے پھر ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا میں کئی علاقوں پر قبضہ کیا، انہیں نو آبادیوں کی شکل دی اور نہ صرف اپنا مال فروخت کرنے لگیں بلکہ بڑے پیمانے پر وہاں کے قومی وسائل بھی لوٹ لیے۔
یہ ساری لوٹ مار اور غنڈہ گردی ''قومی مفاد'' کے جھنڈے تلے ہی انجام پائی۔امریکا بھی ایک نوآبادتی طاقت ہے۔ فرق یہ ہے کہ وہ نظریاتی و معاشی طور پر نوآبادیاں بنانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
متنازع نظریہ
اکثر نظریات و خیالات کے مانند قومی مفاد کا نظریہ بھی متنازع ہے۔ کئی دانشور و حکمران قومی سلامتی وترقی کے لیے اس نظریے کو اپنانا لازمی سمجھتے ہیں۔ بعض دانشوروں کے نزدیک یہ نظریہ ایک سراب یا ڈھکوسلا ہے۔ ایک طرف سابق ایرانی صدر' احمدی نژاد جیسے لوگ ہیں۔ احمدی نژاد کا کہنا تھا: ''اپنے قومی مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر میں ہر قدم اٹھانے اور ہر کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔''
دوسری طرف نظریہ قومی مفاد کے مخالف دانشوروں کی بھی کمی نہیں۔ مثلاً مشہور جنوبی افریقن شاعر وادیب بریئسٹن بریتاخ کہتا ہے: ''حکومتیں اپنا کام کرتے ہوئے انسانی حقوق نہیں قومی مفاد کو مد نظر رکھتی ہیں۔'' اسی طرح امریکی عمرانیات داں' تھامس سوویل کا خیال ہے: ''سیاست ایسا آرٹ ہے جس کی مدد سے ذاتی اور خود غرضانہ خواہشات کو قومی مفاد کا چولا پہنانا ممکن ہے۔''
ان دونوں کے درمیان ایسے دانش ور استادہ ہیں جو ہر قومی مفاد کو فائدے یا نقصان کے ترازو میں تولتے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ اگر کسی بظاہر عقلی بات سے قوم ومملکت کو نقصان پہنچ رہا ہے' تو قومی مفاد کے پیش نظر اسے پوشیدہ رکھنا چاہیے۔ ایک برطانوی دانشور' کرسٹ کرسٹی کہتا ہے: '' جب قومی مفادات پر مخصوص (ذاتی) مفاد کر ترجیح دی جائے' تو ملک و قوم کو اس (کوتاہی) کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔''
پچھلے ماہ وطن عزیز میں ایک متنازع معاملے نے نظریہ قومی مفاد کو بہت نمایاںکر د یا۔ ہوا یہ کہ ایک صحافی نے معاصر انگریزی اخبار میں ایک خبر شائع کرائی۔ اس میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومت وقت نے فوج کومتنبہ کیا ہے، وہ بعض جنگجو تنظیموں کی حمایت نہ کرے کیونکہ اس باعث بیرون ممالک پاکستان کو اچھا نہیں سمجھا جا رہا۔ خبر کی اشاعت کے بعدکئی لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ فو ج کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی سازش ہے۔ چناںچہ خبر قومی مفاد کے منافی قرار پائی۔
پہلی بات تو ہے یہ کہ ایک ملک کی فوج کا کسی ایک قومی تنظیم یا تنظیموں کی حمایت کرنا کوئی نئی یا اچھوتی بات نہیں۔1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی خفیہ ایجنسی، را اور بھارتی فوج ہی نے مشرقی پاکستان میں جنگجو تنظیمیں مثلاً مکتی باہنی' قادر باہنی' مجیب باہنی وغیرہ کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا تھا... انہی جنگجو تنظیموں کی گوریلاجنگ ہماری شکست کی اصل وجہ بنی۔ بھارتی فوج میں اتنا بوتا نہیں تھا کہ وہ باقاعدہ جنگ میں پاک افواج کو شکست دے پاتی ۔
بھارتی حکومت اوربھارتی فوج آج بھی کئی جنگجو تنظیموں کی سرپرست ہے۔ مثال کے طور پر ''سلوا جدم'' (Salwa Judum) جو نکسالیوں کی جدوجہد ختم کرنے کے لیے بنائی گئی۔ یہ تنظیم وسطی بھارت میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف وزریوں میں ملوث ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں را کے تنخواہ دار غداروں نے تنظیمیں بنا کر مجاہدین میں پھوٹ ڈلوائی۔ پھر یہ سچائی بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بھارتی حکمران پاکستان مخالف جنگجو تنظیموں کے سرپرست بن چکے۔ وہ ان تنظیموں کو اسلحہ و سرمایہ' دونوں فراہم کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں دہشت گردانہ اور فرقہ وارانہ کارروائیوں سے بدامنی وافراتفری کا سماں پیدا کیا جاسکے۔
غرض متنازع خبر کی اشاعت کے بعد جنگجوئی کی طرف مائل تنظیموں کے قیام کا ذمے دار محض اپنی فوج کو قرار دینا احمقانہ پن ہے۔ پھر حقیقت یہ ہے کہ ایک ملک جب حالت جنگ میں ہو' تو وطن پرست جنگجو تنظیمیں ملک وقوم کے دفاع میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انسانی تاریخ ایسی تنظیموں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے جنہیں اصطلاح میں ''ملیشیا'' کہا جاتا ہے۔ امریکیوں نے جب برطانیہ کے خلاف تحریک آزادی کا آغاز کیا' تو امریکا میں سول جنگجو تنظیموں کا دور دورہ تھا۔ انہی تنظیموں کے اشتراک و ادغام سے وہ امریکی فوج وجود میں آئی جس نے برطانوی فوج کو شکست دی۔
یوں آج کی سپر پاور ایک آزاد مملکت بن کر دنیا کے نقشے پر ابھری ۔دوسری جنگ عظیم میں سٹالن گراڈ کی لڑائی انسانی تاریخ میں خوفناک ترین معرکہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں تقریباً بیس لاکھ انسان مارے گئے یا زخمی ہوئے تھے۔ اس لڑائی میں روسی شہر' سٹالن گراڈ کے شہریوں نے بھی حملہ آور جرمنوں سے دلیرانہ مقابلہ کیا تھا۔ انہوں نے اپنی گوریلا تنظیمیں تشکیل دیں اور جرمن فوج پر کامیاب شب خون مارے ۔
غرض محب وطن تنظیموں کی موجودگی قومی دفاع مضبوط بنانے میں کام آتی ہے اور پاکستان بھی پچھلے ایک عشرے سے حالتِ جنگ میں ہے۔ پاکستانی سیکورٹی فورسز دیدہ اور نادیدہ' دو قسم کی طاقتوں سے نبردآزما ہیں۔ ایسے میں سول ملیشاؤں کی موجودگی ضرورت بن جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ ملکی اصول و قوانین کا احترام کرتی رہیں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ انگریزی اخبار کی متنازع خبر میں جن پاکستانی تنظیموں کا حوالہ آیا' وہ بھارتی حکومت اور اس کے سرپرستوں کی نظروں میں خار بن کر کھٹکتی ہیں۔ وجہ یہ کہ ان تنظیموں کے قائدین خصوصاً نہتے کشمیریوں پر بھارتی سکیورٹی فورسز کے ظلم و ستم کے خلاف شدت سے آواز بلند کرتے ہیں۔ اور وہ بے یارو مددگار کشمیریوں کی ہر ممکن مدد بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اسی باعث عام پاکستانیوں کا وسیع طبقہ انہیں پسند کرتا اور سراہتا ہے۔ جبکہ متنازع خبر میں ان کانام آنے سے بھارتی میڈیا نے خوشی سے بغلیں بجائیں اور اس امر کو خاص طور پر اپنی خبروں و تحریروں میں نمایاں کر کے پیش کیا۔
انگریزی اخبار میں خبر چھپنے کے بعد قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ بعض ماہرین کا دعویٰ ہے کہ فوج اب صوبہ پنجاب میں بھی آپریشن شروع کرنا چاہتی ہے کہ وہاں ان بااثر سیاسی شخصیات پر ہاتھ ڈالا جائے جو کرپشن ، دہشت گردوں اور غنڈوں کی سرپرستی کرنے میں ملوث ہیں۔ یہ آپریشن روکنے کے لیے متنازع خبر کا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ فوج اپنی ذمے داریاں پوری نہ کرسکے اور اس کا دھیان بٹ جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ 2014ء سے جاری پاک فوج کے عسکری آپریشنوں اور کرپشن کے خلاف لڑائی کی بدولت پاکستان میں نہ صرف امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی بلکہ قانون کا بول بالا بھی ہوا۔ سرکاری اداروں پر کچھ حد تک عوام کا اعتماد بحال ہوگیا اور وہ اپنی کارگزاری دکھانے لگے۔ ان کامیابیوں کے باعث پاکستانی عوام کھلے دل سے پاک افواج کے گن گانے لگے۔
لیکن خبر چلا کر یہ تاثر دیا گیا کہ بھارت صحیح کہتا ہے، پاک فوج جارح مزاج (Rough) ہے اور وہ جنگجو تنظیموں کی سرپرست بنی بیٹھی ہے۔ اس طرح نہ صرف بین الاقوامی سطح پر فوج کو زک پہنچانے کی کوشش ہوئی بلکہ یہ خبر ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں کا مورال گرانے کا بھی سبب بن گئی۔ اسی لیے بعض ماہرین نے خبر دینے والے صحافی اور اخبار کو غدار قرار دے ڈالا۔
پاکستانی میڈیا کو دراصل یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آزادی رائے بھی حدود و قیود رکھتی ہے، خاص طور پر جب قومی مفادات کا معاملہ درمیان میں آجائے۔ اولیور رینڈل ہومز 1902ء تا 1932ء امریکا میں سپریم کورٹ کا جج رہا ہے۔ اسی کا مشہور مقولہ ہے'': انسان کو اتنا زیادہ آزاد نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پُرہجوم تھیٹر میں کھڑے ہوکر ''آگ، آگ'' کا راگ الاپنے لگے۔''
وطن عزیز میں قوم کا سیاسی و معاشرتی شعور اجاگر کرنے میں پرنٹ والیکٹرونک میڈیا یقیناً خاص کردار ادا کررہا ہے۔ لیکن اسے سیکھنا ہوگا کہ ایسی حساس خبروں کو کیسے برتا جاتا ہے جن کے ذریعے قومی مفاد یا قومی سلامتی خطرے میں پڑ جائے چاہے وہ درست ہوں یا غط! کہا جاتا ہے کہ امریکا کا میڈیا سب سے زیادہ آزاد و خود مختار ہے۔ لیکن وہاں بھی جب کوئی ایسی خبر آئے جو ملک و قوم کی عزت بین الاقوامی سطح پر اچھالنے اور بدنام کرنے لگے، تو اسے دبا دیا جاتا ہے۔ یا پھر خبر کی تیزی و تندی ختم کرکے اس کی اشاعت کی جاتی ہے۔
ہمارا دین کیا کہتا ہے؟
نیشن اسٹیٹ یا قومی ریاست ایک جدید اور مغربی دنیا میں جنم لینے والا عجوبہ ہے۔ اس نے قوم پسندی کے نظریات سے جنم لیا جن کی رو سے بالعموم اپنے ملک، قوم یا نسل کو اعلیٰ و برتر سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے تمام انسان ایک ہی آدم کی اولاد ہیں۔ سورہ الحجرات آیت 13 میں خدا تعالیٰ فرماتے ہیں :''اے لوگو! ہم نے تمہیں (ایک) مرد اور عورت سے پیدا فرمایا۔ اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار (باتقویٰ) ہو۔''
درج بالا آیت مبارکہ کی رو سے انسانوں کو اس لیے اقوام میں تقسیم کیا گیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچاننا آسان ہوجائے۔ اس لیے نہیں کہ وہ اپنے اوپر غرور وفخر کریں، اپنے لوگوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے انصاف و قانون کو ہاتھ سے چھوڑ دیں اور دفاع کے نام پر دوسری اقوام پر حملہ کردیں۔ ان خرابیوں کے سبب ہی اسلام میں قوم پرستی کو ناپسندیدہ نظریہ سمجھا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قومی مفاد بذات خود اچھی یا بری شے نہیں، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ اگر قومی مفاد اپنانے کا یہ مطلب ہے کہ معاشرے یا ریاست میں انصاف و قانون کی رٹ قائم ہوجائے، ظالم اپنے انجام کو پہنچے اور مظلوم کی داد رسی ہو، تو اسے اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن قومی مفاد کی آڑ لے کر ذاتی مقاصد پورے کیے جانے لگیں تو وہ محض بدی پھیلانے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔