قومی مفاد اجیت دوال کی نظر میں
میرے نزدیک ریاست کا قیام ضروری ہے اور اس کے مفادات کا تحفظ اہم ترین نکتہ ہونا چاہیے۔
پچھلے سال بھارتی وزیراعظم کے مشیر برائے امور سلامتی' اجیت دوال نے نئی دہلی کی این جی او '' للیت دوشی ممیوریل فاؤنڈیشن'' میں ایک لیکچردیا تھا۔ اس میں میڈیا اور قومی مفاد کا تعلق بھی زیر بحث آیا۔ یہ لیکچر اہم سیاسی و معاشرتی موضوعات پر بھارتی حکمران طبقے کا انداز فکر و عمل اجاگرکرتا ہے۔ اس کے خاص نکات قارئینِ ایکسپریس کی خدمت میں پیش ہیں۔
حال ہی میں ایک اہم سیاست داں (سابق کانگریسی وزیر' ششی تھررو) نے یہ بیان دیا کہ جب ریاست قتل کرانے لگے' تو ہم سب قاتل بن جاتے ہیں۔ (اس وقت بھارتی عدالت نے یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا سنائی تھی)۔ مگر اس بیان کی رو سے ریاست کے تمام عسکری ادارے قاتل بن جاتے ہیں... وہ فوج جو میدان جنگ میں لڑے' پولیس جو دہشت گردوں کا مقابلہ کرے اور وہ شہری بھی جو اپنا دفاع کرتے ہوئے حملہ آور کو مار ڈالے۔
دراصل انسان کو زندگی بھر اس مخمصے سے نبردآزما رہنا پڑتا ہے۔ حکومت میں بیٹھے لیڈر اورسرکاری افسربھی اکثر اس بحران سے گذرتے ہیں۔ کبھی ایک طرف عوامی مفاد ہوتا ہے' تو دوسری طرف قومی مفاد! کبھی ان بھارتیوں کا مفاد بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پھر ہرانسان کی اپنی اقدار'مذہب' اصول' سوچ اور نظام بھی ہوتا ہے۔ یہ ساری چیزیں کسی بھی فیصلے سے متصادم ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر جب امریکا میں واقعہ نائن الیون پیش آیا' تو امریکی صدر جارج بش نے ایک بیان میں کہا ''امریکی حکومت آزادی کی قدر و قیمت سے خوب آگاہ ہے۔ لیکن جب بھی آزادی کا قومی مفادات سے ٹکراؤ ہوا' تو حکومت آخر الذکر کو ترجیع دے گی۔'' گویا جب قومی مفادات کو خطرہ ہو' تو ان آزادیوں کی بھی قربانی دینا ممکن ہے جنہیں عطا کرنے کی ضمانت آئین نے دی ہے۔
ریاست کوقدم قدم پر اس سوال سے سابقہ پڑتا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ؟ معاملہ ریاستی دفاعی اداروںسے متعلق ہو' تو مسئلہ گھمبیرہو جاتا ہے۔ تب دیکھا جاتا ہے کہ جنگ مبنی بر انصاف ہے یا ظلم ؟ کسی علاقے میں مداخلت جائز ہے یا ناجائز ؟ یہ حقیقت ہے' بعض اوقات یہ فیصلہ کرنا نہایت کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے کہ کیا صحیح ہے یا اور کیا غلط! حتیٰ کہ مذہبی کتب میں بھی یہ مسئلہ آیا ہے اور اسے حل کرنے کی کوشش ہوئی۔
بھگوت گیتا باب 2کے ایک شلوک (نمبر38) میں انسان کو بتایا گیا ہے کہ جب وہ کسی مخمصے کا نشانہ بنے' تو اسے کیا قدم اٹھانا چاہے: ''اگر تم دکھ یا خوشی' نفع یا نقصان اور جیت یا ہار کو ایک نظر سے دیکھتے ہو تو یہ سب کچھ تمہارے لیے بے معنی ہو چکا۔ چناں چہ میدان جنگ میں تم جو کچھ کرو گے' وہ گناہ نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ یہ اپنی ذات' شہرت' دولت' طاقت اور عزت کے لیے نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کے لیے ہو گا۔''
قرآن مجید کی دوسری سورہ میں بھی ایک آیت (191) میں مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے جنگ کریں اور ان(جارح کفار) کو جہاں پاؤ' مار ڈالو اور(ریاستی اقدام کے ذریعے ) انہیں (اپنے علاقے سے) باہر نکال دو اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت (جرم ) ہے۔'' گو یا مسلمانوں کی مذہبی کتاب نے قتال کو جائز قرار دیا ہے' فتنہ انگیزی کونہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر مخمصے نے کیوں جنم لیا؟ اور آج تک یہ مسئلہ کیوں حل نہ ہو سکا؟
یہ مخمصہ جنم لینے کی تین وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ ہر بات اپنی مخصوص اقدار (Values) رکھتی ہے۔ مثلاً ہر انسان اپنے مذہب، روحانیت ' مادی زندگی وغیرہ کے متعلق اپنی سوچ و فکر رکھتا ہے۔ لیکن ریاست کی اقدار مختلف ہوتی ہیں جسے معاشرے ' آنے والی نسلوں اور معاشرتی اصولوں کا تحفظ کرنا ہے۔ گویا شہری اور ریاست کی اقدار کا ٹکراؤ ہونا ممکن ہے۔ میں خود اسی ٹکراؤ کا شکار ہو چکا۔
میں ایک ہندو برہمن ہوں چناںچہ میں گوشت کو ہاتھ تک نہ لگاتا ۔ مگر جب مجھے اپنی ذمہ داریوں کے سلسلے میں سات برس پاکستان رہنا پڑا' تو وہاں اکثر سبزیوں کے علاوہ گوشت بھی کھانا پڑتا۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا کہ میں غلط کام کر رہا ہوں۔ پھر احساس ہوتا کہ ایک بڑا مقصد حاصل کرنے کی خاطر قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ معنی یہ کہ ملک و قوم کی خاطر اپنے اصولوں اور خواہشوں کو تج دینا میرے نزدیک جائز ہے۔ تب انسان کو بے غرض ہونا پڑتا ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ ریاست بالعموم حاکمانہ اصل رکھتی ہے اور وہ ہمیشہ انصاف پسندی' حقیقت پسندی اور انسان دوستی نہیں دکھاتی۔ ایسی صورت حال میں شہریوں کو اندرونی و بیرونی طور پر اس سے لڑنا پڑتا ہے۔ یہ ماجرا اکثر ممالک میں نظر آتا ہے کہ ریاست اور شہریوں کی اقدار میں تصادم ہو گیا۔ اسی موقع پر یہ اہم سوال بھی اٹھتا ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ یہ راہ ریاست کے لیے مفید ہے؟
تیسری وجہ عملی ہے... وہ یہ کہ ریاست اپنی اقدار کیونکر نمایاں اور استعمال کرتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ چند لوگ ہی انہیں عملی صورت دیتے ہیں۔ بادشاہت اور آمریت میں ایسے لوگوں کی تعداد ایک دو ہوتی ہے۔ جبکہ جمہوری مملکت میں شاید حقیقی طاقت دو تین سو لوگ رکھتے ہیں ۔ اگرچہ ایک حالیہ سروے نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں ریاستی طاقتیں ''173'' لوگوں میں مرتکز ہیں۔سچ یہ ہے کہ تقریباً ہر حکومت میں اصل طاقت چند ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ مگر یہ اہم بات نہیں۔ بنیادی امر یہ ہے کہ یہ سب انسان ہیں۔ چناں چہ جب وہ فیصلے کریں، تو خود کار طریقے سے اپنی شخصیتیں تج کر مملکت کی مجموعی اکائی کا روپ نہیں دھارلیتے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص اپنے نظریات، اقدار، پسند نا پسند، مفادات، نقطہ نظر وغیرہ رکھتا ہے۔ اسی سچائی سے مخمصہ جنم لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خود مملکت یا ریاست کی اخلاقیات کے متعلق ماضی و حال میں مختلف انتہا پسندانہ نظریات ملتے ہیں۔روس کا دانشور، میخائیل باکونین انارکیت کے بانیوں میں شامل ہے۔ اس نے ایک بار ریاست کی اخلاقیات پر مقالہ لکھا۔ مقالے میں اس نے معاہدہ عمرانی (سوشل کنٹریکٹ) کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ باکونین لکھتا ہے کہ جب ایک بچہ جنم لے تو وہ معاشرے کا حصّہ بن جاتا ہے۔ مگر معاہدہ عمرانی کی رو سے تب ریاست اور بچے کے مابین ایک معاشرتی بندھن قرار پاتا ہے... یہ کہ اگر بچے نے ریاست کے قوانین کی پاس داری کی، تو ریاست اس کی حفاظت کرے گی۔
باکونین لکھتا ہے کہ یہ معاہدہ بولنے اور سوچنے سمجھنے سے عاری انسان اور طاقتور ریاست کے مابین انجام پاتا ہے۔ لہٰذا اس معاہدے کی بنیاد ہی ناقص ہے۔ دوسری طرف مکیاولی اور دیگر فلسفی استادہ ہیں جو حکومت کو مطلق طاقت دینے کے حامی ہیں۔مثال کے طور پر برطانوی فلسفی، تھامس ہابز کا کہنا ہے کہ یہ شہری کی ذمے داری ہے کہ وہ ریاست و حکومت کی حاکمیت تسلیم کرے۔ جمہوریت کا جوہر یہ ہے کہ عوام جن اصول و قوانین پر عمل کرتے ہیں، انہیں وہ خود تشکیل دیتے اور پارلیمنٹ میں انہی کے منتخب کردہ نمائندے ان پر عملدرآمد یقینی بناتے ہیں۔ پھر وہ لوگ ان قوانین کا جائزہ لیتے ہیں جو قانون کے ماہر ہوں۔ غرض جمہوریت کا اصل مقصد یہ ہے کہ مملکت میں قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے۔
جمہوریت میں الیکشن اور ووٹ ڈالنا بنیادی حیثیت نہیں رکھتا۔ الیکشن کا طریق کار اس لیے اختیار کیا گیا تاکہ قوانین بنانے والے لوگ منتخب ہوکر آئیں اور ایسے قانون بنائیں جن پر عام لوگ ہی نہیں ان سمیت خواص بھی عمل کریں۔ یوں جمہوریت کے ذریعے ایک قابل قبول مملکت و حکومت کو جنم دینے کی کوشش ہوئی۔لیکن بعض اوقات پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندے یا حکومت وقت عوام کی خواہشات اور امنگوں پر پوری نہیں اترتی کیونکہ وہ مملکت، شہریوں اور ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کرپاتی۔ ایسے ہی موقع پر مخمصہ کنفیوژن کی حالت اختیار کرلیتا ہے اور جمہوریت کے فوائد جاتے رہتے ہیں۔ تبھی انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ بہترین حکومت کیونکر تشکیل دی جائے؟
میرے نزدیک انسان کی کوتاہیوں اور غلطیوں سے کوئی نظام ناکام ہوجائے تو اس کے معنی یہ نہیں کہ نظام یا نظریے میں کوئی خرابی تھی۔ پھر اس بات پر تو سبھی دانشور اور فلسفی متفق ہیں کہ اگر انسان کو معاشرے میں رہنا ہے، تو اسے نظم و ضبط اپنانا ہوگا۔ یہ نظم و ضبط جو اکائی لاگو کرتی ہے اسی کو ریاست کا نام دیا گیا۔
اگر کوئی انسان تارک الدنیا بن جائے۔ جنگل میں رہے اور انسانوں سے بہت کم رابطہ رکھے تو عموماً ریاستی اصول و قوانین اس پر لاگو نہیں ہوتے۔ لیکن اگر آپ معاشرتی جانور ہیں، معاشرے میں رہتے ہیں، آپ کا چلن و رویہ میرے طرز زندگی اور بقا پر اثر انداز ہوتا ہے، تو آپ مکمل آزادی حاصل نہیں کرسکتے۔ آپ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی بھی ذی حس کو گولی مار دیں۔ مگر دوسرے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی صورت میں اپنا دفاع کرسکے۔ چناں چہ ایک معاشرے میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی خاطر اصول و قوانین بنانے پڑتے ہیں تاکہ بتایا جائے، کون کس حد تک آزادی رکھتا ہے، شہریوں کے حقوق کیا ہیں اور ذمے داریاں کیا!
کرہ ارض پر ریاست اس لیے بھی وجود میں آئی کہ انسان تن تنہا کئی قسم کے خطرات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ صرف ریاستی طاقت ہی اسے بہترین سکیورٹی فراہم کرسکتی ہے۔ ظاہر ہے، ایک واحد انسان پورے لشکر کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ لہذا ہر علاقے میں انسانوں کو ریاست تشکیل دینا پڑی۔سوال یہ ہے کہ ریاست کی اولیّں ذمے داری کیا ہے؟ ہزاروں سال پہلے جب پہلی ریاست وجود میں آئی، تب سے یہ نظریہ چلا آرہا ہے کہ ریاست کی اولیّن ذمے داری خود کو محفوظ و مامون رکھنا اور اپنا دفاع کرنا ہے۔ اگرچہ اسی وجہ سے کئی مشکلات اور مسائل جنم لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ذرا سوچیے کہ بھارتی حکومت کی پہلی ذمے داری کیا ہے؟ یہ کہ مملکت کی جغرافیائی حدود برقرار رہیں، اس کی خود مختاری کو گزند نہ پہنچے۔ آئین کی بنیادی اقدار محفوظ اور قائم رہیں۔ شہریوں کو مکمل سکیورٹی ملے، ادارے بخیرو خوبی اپنا کام کریں اور یہ کہ اس کی تہذیب و ثقافت پھلے پھولے۔ ریاست یہ طریقے اپنا کر دراصل اپنے آپ کی حفاظت کرتی ہے۔ گویا ریاست کے اپنے مفادات کی نگہبانی اس پر فرض ہے۔لیکن ریاست جب بھی اپنے مفادات کو تحفظ دے، تو اقدار کا تصادم خود بخود جنم لیتا ہے۔ بہت سے لوگ ریاستی مفادات کو مقدم نہیں سمجھتے اور اپنے نظریات و اصولوں کی ترویج چاہتے ہیں۔ بنیادی مسئلہ تبھی پیدا ہوتا ہے۔
میرے نزدیک ریاست کا قیام ضروری ہے اور اس کے مفادات کا تحفظ اہم ترین نکتہ ہونا چاہیے۔ اس تحفظ کی خاطر ہمیں جنگیں بھی کرنا پڑیں تو جائز ہے۔ شہریوں یا کسی فرد کی اقدار پر ریاستی مفادات قربان نہیں کیے جاسکتے۔ گویہ ضروری ہے کہ ریاست منصفانہ اور قانونی طریق کار سے کام کرے۔ اس کے اقدامات ہر لحاظ سے درست ہوں۔ تبھی وہ ریاست اور اس میں آباد عوام ترقی کرسکتے ہیں۔
حال ہی میں ایک اہم سیاست داں (سابق کانگریسی وزیر' ششی تھررو) نے یہ بیان دیا کہ جب ریاست قتل کرانے لگے' تو ہم سب قاتل بن جاتے ہیں۔ (اس وقت بھارتی عدالت نے یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا سنائی تھی)۔ مگر اس بیان کی رو سے ریاست کے تمام عسکری ادارے قاتل بن جاتے ہیں... وہ فوج جو میدان جنگ میں لڑے' پولیس جو دہشت گردوں کا مقابلہ کرے اور وہ شہری بھی جو اپنا دفاع کرتے ہوئے حملہ آور کو مار ڈالے۔
دراصل انسان کو زندگی بھر اس مخمصے سے نبردآزما رہنا پڑتا ہے۔ حکومت میں بیٹھے لیڈر اورسرکاری افسربھی اکثر اس بحران سے گذرتے ہیں۔ کبھی ایک طرف عوامی مفاد ہوتا ہے' تو دوسری طرف قومی مفاد! کبھی ان بھارتیوں کا مفاد بھی مدنظر رکھنا پڑتا ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔ پھر ہرانسان کی اپنی اقدار'مذہب' اصول' سوچ اور نظام بھی ہوتا ہے۔ یہ ساری چیزیں کسی بھی فیصلے سے متصادم ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر جب امریکا میں واقعہ نائن الیون پیش آیا' تو امریکی صدر جارج بش نے ایک بیان میں کہا ''امریکی حکومت آزادی کی قدر و قیمت سے خوب آگاہ ہے۔ لیکن جب بھی آزادی کا قومی مفادات سے ٹکراؤ ہوا' تو حکومت آخر الذکر کو ترجیع دے گی۔'' گویا جب قومی مفادات کو خطرہ ہو' تو ان آزادیوں کی بھی قربانی دینا ممکن ہے جنہیں عطا کرنے کی ضمانت آئین نے دی ہے۔
ریاست کوقدم قدم پر اس سوال سے سابقہ پڑتا ہے کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ؟ معاملہ ریاستی دفاعی اداروںسے متعلق ہو' تو مسئلہ گھمبیرہو جاتا ہے۔ تب دیکھا جاتا ہے کہ جنگ مبنی بر انصاف ہے یا ظلم ؟ کسی علاقے میں مداخلت جائز ہے یا ناجائز ؟ یہ حقیقت ہے' بعض اوقات یہ فیصلہ کرنا نہایت کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے کہ کیا صحیح ہے یا اور کیا غلط! حتیٰ کہ مذہبی کتب میں بھی یہ مسئلہ آیا ہے اور اسے حل کرنے کی کوشش ہوئی۔
بھگوت گیتا باب 2کے ایک شلوک (نمبر38) میں انسان کو بتایا گیا ہے کہ جب وہ کسی مخمصے کا نشانہ بنے' تو اسے کیا قدم اٹھانا چاہے: ''اگر تم دکھ یا خوشی' نفع یا نقصان اور جیت یا ہار کو ایک نظر سے دیکھتے ہو تو یہ سب کچھ تمہارے لیے بے معنی ہو چکا۔ چناں چہ میدان جنگ میں تم جو کچھ کرو گے' وہ گناہ نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ یہ اپنی ذات' شہرت' دولت' طاقت اور عزت کے لیے نہیں بلکہ ایک عظیم مقصد کے لیے ہو گا۔''
قرآن مجید کی دوسری سورہ میں بھی ایک آیت (191) میں مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے جنگ کریں اور ان(جارح کفار) کو جہاں پاؤ' مار ڈالو اور(ریاستی اقدام کے ذریعے ) انہیں (اپنے علاقے سے) باہر نکال دو اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت (جرم ) ہے۔'' گو یا مسلمانوں کی مذہبی کتاب نے قتال کو جائز قرار دیا ہے' فتنہ انگیزی کونہیں۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر مخمصے نے کیوں جنم لیا؟ اور آج تک یہ مسئلہ کیوں حل نہ ہو سکا؟
یہ مخمصہ جنم لینے کی تین وجوہ ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ ہر بات اپنی مخصوص اقدار (Values) رکھتی ہے۔ مثلاً ہر انسان اپنے مذہب، روحانیت ' مادی زندگی وغیرہ کے متعلق اپنی سوچ و فکر رکھتا ہے۔ لیکن ریاست کی اقدار مختلف ہوتی ہیں جسے معاشرے ' آنے والی نسلوں اور معاشرتی اصولوں کا تحفظ کرنا ہے۔ گویا شہری اور ریاست کی اقدار کا ٹکراؤ ہونا ممکن ہے۔ میں خود اسی ٹکراؤ کا شکار ہو چکا۔
میں ایک ہندو برہمن ہوں چناںچہ میں گوشت کو ہاتھ تک نہ لگاتا ۔ مگر جب مجھے اپنی ذمہ داریوں کے سلسلے میں سات برس پاکستان رہنا پڑا' تو وہاں اکثر سبزیوں کے علاوہ گوشت بھی کھانا پڑتا۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا کہ میں غلط کام کر رہا ہوں۔ پھر احساس ہوتا کہ ایک بڑا مقصد حاصل کرنے کی خاطر قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔ معنی یہ کہ ملک و قوم کی خاطر اپنے اصولوں اور خواہشوں کو تج دینا میرے نزدیک جائز ہے۔ تب انسان کو بے غرض ہونا پڑتا ہے۔
دوسری وجہ یہ کہ ریاست بالعموم حاکمانہ اصل رکھتی ہے اور وہ ہمیشہ انصاف پسندی' حقیقت پسندی اور انسان دوستی نہیں دکھاتی۔ ایسی صورت حال میں شہریوں کو اندرونی و بیرونی طور پر اس سے لڑنا پڑتا ہے۔ یہ ماجرا اکثر ممالک میں نظر آتا ہے کہ ریاست اور شہریوں کی اقدار میں تصادم ہو گیا۔ اسی موقع پر یہ اہم سوال بھی اٹھتا ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ یہ راہ ریاست کے لیے مفید ہے؟
تیسری وجہ عملی ہے... وہ یہ کہ ریاست اپنی اقدار کیونکر نمایاں اور استعمال کرتی ہے؟ سچ یہ ہے کہ چند لوگ ہی انہیں عملی صورت دیتے ہیں۔ بادشاہت اور آمریت میں ایسے لوگوں کی تعداد ایک دو ہوتی ہے۔ جبکہ جمہوری مملکت میں شاید حقیقی طاقت دو تین سو لوگ رکھتے ہیں ۔ اگرچہ ایک حالیہ سروے نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں ریاستی طاقتیں ''173'' لوگوں میں مرتکز ہیں۔سچ یہ ہے کہ تقریباً ہر حکومت میں اصل طاقت چند ہی لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ مگر یہ اہم بات نہیں۔ بنیادی امر یہ ہے کہ یہ سب انسان ہیں۔ چناں چہ جب وہ فیصلے کریں، تو خود کار طریقے سے اپنی شخصیتیں تج کر مملکت کی مجموعی اکائی کا روپ نہیں دھارلیتے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص اپنے نظریات، اقدار، پسند نا پسند، مفادات، نقطہ نظر وغیرہ رکھتا ہے۔ اسی سچائی سے مخمصہ جنم لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ خود مملکت یا ریاست کی اخلاقیات کے متعلق ماضی و حال میں مختلف انتہا پسندانہ نظریات ملتے ہیں۔روس کا دانشور، میخائیل باکونین انارکیت کے بانیوں میں شامل ہے۔ اس نے ایک بار ریاست کی اخلاقیات پر مقالہ لکھا۔ مقالے میں اس نے معاہدہ عمرانی (سوشل کنٹریکٹ) کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ باکونین لکھتا ہے کہ جب ایک بچہ جنم لے تو وہ معاشرے کا حصّہ بن جاتا ہے۔ مگر معاہدہ عمرانی کی رو سے تب ریاست اور بچے کے مابین ایک معاشرتی بندھن قرار پاتا ہے... یہ کہ اگر بچے نے ریاست کے قوانین کی پاس داری کی، تو ریاست اس کی حفاظت کرے گی۔
باکونین لکھتا ہے کہ یہ معاہدہ بولنے اور سوچنے سمجھنے سے عاری انسان اور طاقتور ریاست کے مابین انجام پاتا ہے۔ لہٰذا اس معاہدے کی بنیاد ہی ناقص ہے۔ دوسری طرف مکیاولی اور دیگر فلسفی استادہ ہیں جو حکومت کو مطلق طاقت دینے کے حامی ہیں۔مثال کے طور پر برطانوی فلسفی، تھامس ہابز کا کہنا ہے کہ یہ شہری کی ذمے داری ہے کہ وہ ریاست و حکومت کی حاکمیت تسلیم کرے۔ جمہوریت کا جوہر یہ ہے کہ عوام جن اصول و قوانین پر عمل کرتے ہیں، انہیں وہ خود تشکیل دیتے اور پارلیمنٹ میں انہی کے منتخب کردہ نمائندے ان پر عملدرآمد یقینی بناتے ہیں۔ پھر وہ لوگ ان قوانین کا جائزہ لیتے ہیں جو قانون کے ماہر ہوں۔ غرض جمہوریت کا اصل مقصد یہ ہے کہ مملکت میں قانون کی حکمرانی قائم ہوجائے۔
جمہوریت میں الیکشن اور ووٹ ڈالنا بنیادی حیثیت نہیں رکھتا۔ الیکشن کا طریق کار اس لیے اختیار کیا گیا تاکہ قوانین بنانے والے لوگ منتخب ہوکر آئیں اور ایسے قانون بنائیں جن پر عام لوگ ہی نہیں ان سمیت خواص بھی عمل کریں۔ یوں جمہوریت کے ذریعے ایک قابل قبول مملکت و حکومت کو جنم دینے کی کوشش ہوئی۔لیکن بعض اوقات پارلیمنٹ میں بیٹھے نمائندے یا حکومت وقت عوام کی خواہشات اور امنگوں پر پوری نہیں اترتی کیونکہ وہ مملکت، شہریوں اور ان کے مفادات کا تحفظ نہیں کرپاتی۔ ایسے ہی موقع پر مخمصہ کنفیوژن کی حالت اختیار کرلیتا ہے اور جمہوریت کے فوائد جاتے رہتے ہیں۔ تبھی انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ بہترین حکومت کیونکر تشکیل دی جائے؟
میرے نزدیک انسان کی کوتاہیوں اور غلطیوں سے کوئی نظام ناکام ہوجائے تو اس کے معنی یہ نہیں کہ نظام یا نظریے میں کوئی خرابی تھی۔ پھر اس بات پر تو سبھی دانشور اور فلسفی متفق ہیں کہ اگر انسان کو معاشرے میں رہنا ہے، تو اسے نظم و ضبط اپنانا ہوگا۔ یہ نظم و ضبط جو اکائی لاگو کرتی ہے اسی کو ریاست کا نام دیا گیا۔
اگر کوئی انسان تارک الدنیا بن جائے۔ جنگل میں رہے اور انسانوں سے بہت کم رابطہ رکھے تو عموماً ریاستی اصول و قوانین اس پر لاگو نہیں ہوتے۔ لیکن اگر آپ معاشرتی جانور ہیں، معاشرے میں رہتے ہیں، آپ کا چلن و رویہ میرے طرز زندگی اور بقا پر اثر انداز ہوتا ہے، تو آپ مکمل آزادی حاصل نہیں کرسکتے۔ آپ کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ کسی بھی ذی حس کو گولی مار دیں۔ مگر دوسرے کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسی صورت میں اپنا دفاع کرسکے۔ چناں چہ ایک معاشرے میں نظم و ضبط پیدا کرنے کی خاطر اصول و قوانین بنانے پڑتے ہیں تاکہ بتایا جائے، کون کس حد تک آزادی رکھتا ہے، شہریوں کے حقوق کیا ہیں اور ذمے داریاں کیا!
کرہ ارض پر ریاست اس لیے بھی وجود میں آئی کہ انسان تن تنہا کئی قسم کے خطرات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ صرف ریاستی طاقت ہی اسے بہترین سکیورٹی فراہم کرسکتی ہے۔ ظاہر ہے، ایک واحد انسان پورے لشکر کا مقابلہ نہیں کرپاتا۔ لہذا ہر علاقے میں انسانوں کو ریاست تشکیل دینا پڑی۔سوال یہ ہے کہ ریاست کی اولیّں ذمے داری کیا ہے؟ ہزاروں سال پہلے جب پہلی ریاست وجود میں آئی، تب سے یہ نظریہ چلا آرہا ہے کہ ریاست کی اولیّن ذمے داری خود کو محفوظ و مامون رکھنا اور اپنا دفاع کرنا ہے۔ اگرچہ اسی وجہ سے کئی مشکلات اور مسائل جنم لیتے ہیں۔
مثال کے طور پر ذرا سوچیے کہ بھارتی حکومت کی پہلی ذمے داری کیا ہے؟ یہ کہ مملکت کی جغرافیائی حدود برقرار رہیں، اس کی خود مختاری کو گزند نہ پہنچے۔ آئین کی بنیادی اقدار محفوظ اور قائم رہیں۔ شہریوں کو مکمل سکیورٹی ملے، ادارے بخیرو خوبی اپنا کام کریں اور یہ کہ اس کی تہذیب و ثقافت پھلے پھولے۔ ریاست یہ طریقے اپنا کر دراصل اپنے آپ کی حفاظت کرتی ہے۔ گویا ریاست کے اپنے مفادات کی نگہبانی اس پر فرض ہے۔لیکن ریاست جب بھی اپنے مفادات کو تحفظ دے، تو اقدار کا تصادم خود بخود جنم لیتا ہے۔ بہت سے لوگ ریاستی مفادات کو مقدم نہیں سمجھتے اور اپنے نظریات و اصولوں کی ترویج چاہتے ہیں۔ بنیادی مسئلہ تبھی پیدا ہوتا ہے۔
میرے نزدیک ریاست کا قیام ضروری ہے اور اس کے مفادات کا تحفظ اہم ترین نکتہ ہونا چاہیے۔ اس تحفظ کی خاطر ہمیں جنگیں بھی کرنا پڑیں تو جائز ہے۔ شہریوں یا کسی فرد کی اقدار پر ریاستی مفادات قربان نہیں کیے جاسکتے۔ گویہ ضروری ہے کہ ریاست منصفانہ اور قانونی طریق کار سے کام کرے۔ اس کے اقدامات ہر لحاظ سے درست ہوں۔ تبھی وہ ریاست اور اس میں آباد عوام ترقی کرسکتے ہیں۔