مزارات کا تقدس و احترام
صوفیائے کرام اور بزرگان دین سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی گہری عقیدت رکھتے ہیں
کسی مزار کے سامنے سے ایک سادھو کا گزر ہوا، مزار کے آگے رک کر سادھو نے بڑی عقیدت سے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا۔ قریب کھڑے ہوئے ایک مسلمان نے سادھو سے طنزاً کہا ''تم تو اپنے مذہبی معاملات میں انتہائی کٹر ہو، پھر اس مسلمان کے مزار پر کیوں جھکتے ہو؟'' سادھو نے کہا کہ ''تم بھی ان کی طرح بن جاؤ، تمھارے آگے بھی جھکنے کو تیار ہوں''۔
صوفیائے کرام اور بزرگان دین سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی گہری عقیدت رکھتے ہیں، جنھوں نے برصغیر پاک و ہند کے رہنے والوں کو امن و سلامتی کا درس دیا، کسی ذات پات کو نشانہ نہیں بنایا، جن کی تعلیمات کا جوہر محبت اور خدمت انسانیت ہے۔ اپنی زمین سے محبت، مخلوق خدا سے محبت اور ان محبتوں کو سمیٹ کر خدائے واحد سے محبت جو ہمہ جہت ہے۔
ان بڑے بڑے اولیائے کرام اور بزرگان دین نے اپنے حصے کی شمع ہدایت روشن کی، جس کی تابناکی نے اندھیروں کو روشنی میں بدل دیا۔ برصغیر میں دین اسلام کی اشاعت کا کام ان صوفیائے کرام اور بزرگان دین کے بغیر ناممکن تھا۔ یہ وہی اﷲ کے نیک بندے تھے جنھوں نے منگولوں کے نیست و نابود کیے جانے والے اسلام کی آخری سانسوں کو دوبارہ روح عطا کرنے میں مدد دی، جنھوں نے اپنے تصوف سے اسے دوبارہ زندگی بخشی۔ آج جب اس پرآشوبی کے شکار مسلمانوں کے لیے صوفیائے کرام کی تعلیمات کی دوبارہ ضرورت ہے تو شدت پسند ان یادگاروں کو ہی نیست ونابود کرنے کے درپے ہیں، مگر یہ ان کی خام خیالی ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بقول شاعر کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
حضرت شاہ نورانیؒ مشہور صوفی بزرگ، جنھوں نے اپنی تعلیمات میں گروہی و نسلی عصیبت سے دور رہنے کی تلقین کی، یکجہتی و اتحاد کا پیغام دیا، جس کی آج ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ ملک کے گوشے گوشے سے عقیدت مند بلاتفریق مذہب و فرقہ اظہار عقیدت کے لیے پہنچتے ہیں۔ امن و سلامتی کا درس دینے والے ان بزرگ کے مزار کو ہی دہشت و بربریت کا نشاں بنادیا گیا، جہاں سے رواداری اور محبت بٹتی ہے اسی کو قتل گاہ بنادیا گیا، دربار کے سبز گنبدوں کو خون سے نہلادیا گیا، درجنوں جاں بحق ہوئے، زخمیوں کی تعداد سو تک پہنچی۔ اس بزرگ کے آستانے میں جہاں پہنچ کر لوگ ذہنی طور پر خود کو محفوظ سمجھتے ہیں، اپنے پیر ومرشد کا سایہ اور شفقت اپنے سروں پر محسوس کرتے ہیں، ایسی جگہ اس قسم کا سانحہ ہونا ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
شاہ نورانیؒ میں خودکش بم دھماکا پاکستان کی تاریخ میں کسی مزار پر بڑا جان لیوا حملہ ہے۔ اس سے پہلے شدت پسندوں کے حملے میں رحمان بابا اور بابا فریدؒ کے مزار کو شدید نقصان پہنچایا گیا، جب کہ 2007 میں حضرت بری امام کے مزار پر حملے میں 20 افراد ہلاک ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ ہماری عبادت گاہوں کو خون میں نہلانے والے کون لوگ ہیں؟ اور کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم کسی بڑے حادثے کو اس کی عوام دلچسپی کے حوالے سے ہی اہمیت دیتے ہیں، خواہ اس میں کتنی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، اگر ریٹنگ شامل نہیں تو وہ حادثہ ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
ابھی کچھ دن قبل ہی گڈانی شپ بریکنگ کا خوفناک حادثہ ہوا، لیکن افسوس ہم پانامہ اسیکنڈل اور دھرنوں میں زیادہ متو جہ رہے۔ اسی طرح اب سے کچھ دن پہلے حب میں شاہ بلاول نورانی کے مزار پر بم دھماکے کی خبر آئی۔ ایک تو وہ علاقہ بنیادی سہولتوں سے ماورا موئن جو دڑو کا گمان لگتا ہے۔ حادثے میں ہلاکتیں اتنی زیادہ تھیں اس کے باوجود خبر کو اہمیت نہ مل سکی۔ وزراء کی الزام تراشیاں اور مقدمہ بازی کی خبر اور غریب عوام کی بے بس موت میں کچھ فرق تو ہمیشہ رہا ہے۔ عدل ومساوات اور امن کا دور دورہ ہوتا تو ایسے حادثے ہوتے ہی کیوں؟ ہم روز ایک انسانی المیے کا شکار ہوتے ہیں مگر تدارک کوئی نہیں، نہ حکومتی ذمے داری پر، نہ ہی کسی فرد وا حد کی سطح پر ہوسکا۔
اب آپ کہیں گے یہ فرد واحد کہاں سے آگیا؟ تو جناب یہ فرد واحد کا اعجاز ہی تھا کہ اس نے ایک بگڑی ہوئی قوم کو یکجا کیا۔ ہم سب کیا نہیں جانتے کہ برصغیر میں صوفیاء کرام ہی تھے جنھوں نے انسانیت کا درس دیا۔ مساوات، برداشت، صلہ رحمی، بھائی چارہ، عفو ودرگزر اور برابری کی وہ مثال قائم کی کہ ہم مذہب تو کیا، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ان کے دربار پر سر جھکانے پر آمادہ ہوئے۔ دنیا سے رخصت ہونے کے سیکڑوں سال بعد بھی ہر رنگ و نسل کے انسان ان کی عقیدت کا گن گاتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ حق و باطل کی جنگ ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔
کل بھی معرکہ جاری تھا اور آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو مذہبی شدت پسندی اپنے مسلکی اختلاف کو لے کر دوسروںکی جان لینے کو جنت کا راستہ سمجھنے کے فریب میں مبتلا ہیں۔ ان کی تعلیمات سے خائف شدت پسند ان کی یادگاروں کو نیست و نابود کرنے کے درپے ہیں۔ لیکن بزرگان دین کے مزارات کا تقدس اتنا ہی مقدس ہے، جتنا کہ خود ان اولیائے کرام کی ذات مبارک ہم سب کے لیے اہم ہے۔ وہ انسانوں کو ڈرا دھمکا کر اپنی جانب راغب نہیں کرتے تھے۔
گہوارہ امن کے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے ہم سب کو ایک متحد قوم بن کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ آپس کے تعصب اور مخالفت کو پس پشت ڈال کر ہی ہم اس عفریت کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اس بارے میں بابا فریدؒ کی ایک خوبصورت مثال ہمارے سامنے ہے۔ کسی نے ان کو قینچی کا تحفہ دینا چاہا تو انھوں نے تحفہ دینے والے مہربان سے کہا تھا کہ مجھے قینچی کا تحفہ نہیں چاہیے کہ یہ الگ کرتی ہے، مجھے دینا چاہتے ہو تو سوئی کا تحفہ دو، جو نہ قیمت دیکھتی ہے نہ رنگ، بس آپس میں ملادیتی ہے۔
ممتاز تاریخ داں محمد مجیب اپنی کتاب ''دی انڈین مسلم'' میں فرماتے ہیں کہ ''یہ صوفیائے کرام ہی تھے جنھوں نے اپنے طرز تبلیغ اور اپنے رویے سے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں کے دل جیت لیے اور انھیں مشرف بہ اسلام کیا''۔ ان کی تعلیمات سے ہمیں بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی تاریخ کی ان بے مثال عظیم ہستیوں سے سبق سیکھ کر کتنے درست فیصلے کرتے ہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی فیصلہ کرے گا۔ ایک امن و محبت کا درس دینے والے صوفی بزرگ نے کیا خوبصورت بات کہی ہے، جو آج کے تناظر میں بھی ٹھیک ہے کہ ''سانپ دیکھنے میں خوبصورت ہوتے ہیں، مگر ان کے پہلو میں شہد نہیں زہر ہوتا ہے''۔ گرمی ہو یا سردی، تم اپنا سفر جاری رکھو، کیونکہ اب بیٹھنے کا وقت نہیں رہا، ایسا نہ ہو کہ اندھیرا چھا جائے اور تم وہ نقش پا نہ دیکھ سکو جو تمھیں اپنی منزل کی جانب لے جائے گا۔