بچوں کی بول چال کی اصلاح سے غفلت مناسب نہیں
ذہنی وجسمانی نشوونما کے تناظر میں بچے کی عمر کے ابتدائی پانچ برس بے حد اہم ہوتے ہیں۔
ذہنی وجسمانی نشوونما کے تناظر میں بچے کی عمر کے ابتدائی پانچ برس بے حد اہم ہوتے ہیں۔ ان برسوں میں وہ اپنے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں ادراک حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور نسبتاً جلدی سیکھتے ہیں۔
اس دوران جو زبان، الفاظ، ادب و آداب بچے سیکھتے ہیں، پھر عمر بھر اسی پر عمل کرتے، لیکن عموماً ابتدائی برسوں میں والدین بچوں کی زبان، گفتگو کے طریقے یا الفاظ کے چناؤ پر اتنا غور نہیں کرتے۔ ننھا بچہ الفاظ کی ادائی غلط کرے یا نامناسب الفاظ استعمال کرے، تو اکثر والدین سمجھانے یا سرزنش کرنے کے بہ جائے اس کے معصومانہ انداز سے ہی محظوظ ہونے میں محو ہوجاتے ہیں اور پھر دیگر لوگوں کے سامنے اس سے وہ الفاظ اور اندازہ دُہرانے کی فرمائش کرتے ہیں، جس سے یہ چیز بہ جائے سدھرنے کے مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ابتداً بچے کو صرف ایک زبان ہی سکھانی چاہیے، لیکن روس کی ایک چار سالہ بچی Bella Devyatkina دنیا کی سات زبانوں پر عبور رکھتی ہے۔ اس نے نہ صرف روسی بلکہ انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی ، جرمن، چینی اور عربی زبان میں پوچھے گئے سوالات کا بڑی روانی سے اسی زبان میں جواب دے کر سب کو حیران کر دیا۔ اس امر سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ اگر بچے کو مادری زبان کے ساتھ دیگر زبان کے حوالے سے بھی بتایا جائے تو وہ بہ یک وقت ایک سے زائد زبانیں سیکھ سکتا ہے۔
کسی غیر ملکی زبان کو سیکھنے میں بہت سے لوگوں کو کئی برس لگ جاتے ہیں، لیکن یہ روسی بچی بیلا کئی زبانوں میں روانی سے گفتگو کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیلا کے والدین نے اپنی بیٹی کو اس وقت انگریزی سکھانی شروع کی، جب وہ صرف دو برس کی تھی۔ اس دوران انہیں اندازہ ہوا کہ بیلا کی یادداشت غیر معمولی ہے اور وہ بہت جلد ہر بات کو ذہن نشین کر لیتی ہے، یہ دیکھ کر انھوں نے اسے مزید زبانیں سکھانے کا فیصلہ کیا اور مختلف زبانیں سکھانے کے لیے اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔ ساڑھے تین سال کی عمر میں، وہ تین غیر ملکی زبانیں روانی سے بولنے لگی تھی۔ اگلے چھے ماہ میں اس نے مزید دو زبانیں سیکھ لیں۔ بیلا روزانہ چھے گھنٹے تک غیر ملکی زبانیں پڑھتی ہے۔
ماہرین اس ضمن میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی برسوں سے اگر ہم بچوں کو جتنی زیادہ زبانیں سکھانا چاہیں، وہ بہ آسانی سیکھ جائے گا۔ لہٰذا والدین کو زیادہ سے زیادہ زبانیں سکھانے اور اپنی نشست وبرخاست میں بہترین الفاظ کے انتخاب پر توجہ دینی چاہیے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ والدین کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو مادری وقومی زبان صحیح بولنی آتی ہو یا نہیں، لیکن انگریزی فر فر بولتا ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی زبان میں عبور حاصل کیے بغیر کسی دوسری زبان میں عبور حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بعض تعلیمی اداروں میں بھی والدین پر زور دیا جاتا ہے کہ بچوں سے انگریزی میں گفتگو کریں لہٰذا بچے کی انگریزی گفتگو بہتر کرنے کے چکر میں انگریزی پر اس قدر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اردو اچھی طرح سمجھنے کے باوجود اردو میں روانی سے گفتگو کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
معروف افریقی راہ نما نیلسن منڈیلا کا مشہور قول ہے کہ ''ایک انسان سے آپ اس زبان میں بات کریں، جو وہ سمجھتا ہو تو بات اس کے دماغ تک جاتی ہے، مگر آپ اس سے اس کی اپنی زبان میں بات کریں تو بات اس کے دل تک جاتی ہے۔''
یہ بات سو فی صد درست ہے، جس کا مشاہدہ ہم روزمرہ کی زندگی میں کرتے ہیں۔ خصوصاً مادری زبان کے ساتھ عموماً سوتیلوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کئی والدین بچوں سے مادری زبان میں گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں اس کی ضرورت نہیں اور مادری زبان سے تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی میں فرق آجائے گا، جب کہ یہ درست نہیں، کیوں کہ اس طرح بچے جب بڑے ہوتے ہیں، تو وہ اپنی زبان سمجھنے اور بولنے سے قاصر رہتے اور اس زبان کی مٹھاس سے ناآشنا رہتے ہیں۔
مادری زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ماہرین لسانیات، نفسیات، عمرانیات اور تعلیم سب ہی مادری زبان سکھائے جانے کے حق میں ہیں۔ دنیا بھر میں مادری زبان کو بنیادی تعلیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے مادری زبان ہی کے ذریعے تعلیم کا آغاز کر کے اپنی نسلوں کو ملکی ترقی کے حوالے سے تیار کیا، گو کہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ شاید اسی لیے ہماری قوم تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ اقوام سے بہت پیچھے ہے۔ لہٰذا نئی نسل کو قومی اور غیر ملکی زبان کے ساتھ مادری زبان سکھانے پر بھی توجہ دیا جائے۔
چھوٹے بچوں کو زبان سکھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے بہترین الفاظ اور درست تلفظ کے ساتھ گفتگو کی جائے۔ مختلف اشیا، کھلونوں، رنگوں، جانوروں وغیرہ کی تصاویر یا کھلونوں کو دکھا کر ان کے نام یاد کرائے جائیں۔ اسی زبان میں کہانیاں سنائی جائیں۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گفتگو کی جائے۔
بڑوں کی طرح آج کل کے بچے بھی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ کی آمیزش کرتے ہیں۔ مثلاً انگریزی اور اردو کے الفاظ کو ملا کر گفتگو کرنا عام ہے۔ اگر ابتدا میں ان کی اصلاح کر دی جائے اور ان کو ایک زبان میں گفتگو کا عادی بنایا جائے، تو وہ بڑے ہوکر بھی بہترین گفتار کر سکتے ہیں، بلکہ اکثر ایسے نوجوان بہترین مقرر ثابت ہوتے ہیں۔
کسی بھی زبان کو سکھانے کے ساتھ بچے کی حوصلہ افزائی اور اس کو اعتماد بخشنا بھی بے حد ضروری ہے۔ بچے کو یہ سمجھانا بے احد اہم ہے کہ کسی بھی زبان میں گفتگو شخصیت میں احساس کم تری یا برتری پیدا نہیں کرتی، بلکہ یہ محض گفتگو کا ایک ذریعہ ہے۔ اپنی بات یا اپنی رائے دوسرے تک پہنچانا اہم ہے۔ کسی بھی زبان میں گفتگو کرنا جس پر عبور حاصل ہو اور سامع اس کو بہتر طور پر سمجھ سکے۔ یہ شخصیت کی خوبی ہے۔ اس کے بہ جائے محض دوسرے کو مرعوب کرنے کے لیے کسی غیر ملکی زبان میں ٹوٹی پھوٹی گفتگو کرنا یہ تاثر دیتا ہے کہ مخاطب کو اپنی شخصیت پر اعتماد نہیں ہے۔
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو مدنظر رکھا جائے، تو بچے یقیناً مختلف زبانوں پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ گفتگو پر بھی ملکہ حاصل کر لیں گے۔
اس دوران جو زبان، الفاظ، ادب و آداب بچے سیکھتے ہیں، پھر عمر بھر اسی پر عمل کرتے، لیکن عموماً ابتدائی برسوں میں والدین بچوں کی زبان، گفتگو کے طریقے یا الفاظ کے چناؤ پر اتنا غور نہیں کرتے۔ ننھا بچہ الفاظ کی ادائی غلط کرے یا نامناسب الفاظ استعمال کرے، تو اکثر والدین سمجھانے یا سرزنش کرنے کے بہ جائے اس کے معصومانہ انداز سے ہی محظوظ ہونے میں محو ہوجاتے ہیں اور پھر دیگر لوگوں کے سامنے اس سے وہ الفاظ اور اندازہ دُہرانے کی فرمائش کرتے ہیں، جس سے یہ چیز بہ جائے سدھرنے کے مزید پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ابتداً بچے کو صرف ایک زبان ہی سکھانی چاہیے، لیکن روس کی ایک چار سالہ بچی Bella Devyatkina دنیا کی سات زبانوں پر عبور رکھتی ہے۔ اس نے نہ صرف روسی بلکہ انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی ، جرمن، چینی اور عربی زبان میں پوچھے گئے سوالات کا بڑی روانی سے اسی زبان میں جواب دے کر سب کو حیران کر دیا۔ اس امر سے یہ نتیجہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ اگر بچے کو مادری زبان کے ساتھ دیگر زبان کے حوالے سے بھی بتایا جائے تو وہ بہ یک وقت ایک سے زائد زبانیں سیکھ سکتا ہے۔
کسی غیر ملکی زبان کو سیکھنے میں بہت سے لوگوں کو کئی برس لگ جاتے ہیں، لیکن یہ روسی بچی بیلا کئی زبانوں میں روانی سے گفتگو کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیلا کے والدین نے اپنی بیٹی کو اس وقت انگریزی سکھانی شروع کی، جب وہ صرف دو برس کی تھی۔ اس دوران انہیں اندازہ ہوا کہ بیلا کی یادداشت غیر معمولی ہے اور وہ بہت جلد ہر بات کو ذہن نشین کر لیتی ہے، یہ دیکھ کر انھوں نے اسے مزید زبانیں سکھانے کا فیصلہ کیا اور مختلف زبانیں سکھانے کے لیے اساتذہ کی خدمات حاصل کیں۔ ساڑھے تین سال کی عمر میں، وہ تین غیر ملکی زبانیں روانی سے بولنے لگی تھی۔ اگلے چھے ماہ میں اس نے مزید دو زبانیں سیکھ لیں۔ بیلا روزانہ چھے گھنٹے تک غیر ملکی زبانیں پڑھتی ہے۔
ماہرین اس ضمن میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی برسوں سے اگر ہم بچوں کو جتنی زیادہ زبانیں سکھانا چاہیں، وہ بہ آسانی سیکھ جائے گا۔ لہٰذا والدین کو زیادہ سے زیادہ زبانیں سکھانے اور اپنی نشست وبرخاست میں بہترین الفاظ کے انتخاب پر توجہ دینی چاہیے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ والدین کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو مادری وقومی زبان صحیح بولنی آتی ہو یا نہیں، لیکن انگریزی فر فر بولتا ہو، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اپنی زبان میں عبور حاصل کیے بغیر کسی دوسری زبان میں عبور حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ بعض تعلیمی اداروں میں بھی والدین پر زور دیا جاتا ہے کہ بچوں سے انگریزی میں گفتگو کریں لہٰذا بچے کی انگریزی گفتگو بہتر کرنے کے چکر میں انگریزی پر اس قدر زور دیا جاتا ہے کہ وہ اردو اچھی طرح سمجھنے کے باوجود اردو میں روانی سے گفتگو کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
معروف افریقی راہ نما نیلسن منڈیلا کا مشہور قول ہے کہ ''ایک انسان سے آپ اس زبان میں بات کریں، جو وہ سمجھتا ہو تو بات اس کے دماغ تک جاتی ہے، مگر آپ اس سے اس کی اپنی زبان میں بات کریں تو بات اس کے دل تک جاتی ہے۔''
یہ بات سو فی صد درست ہے، جس کا مشاہدہ ہم روزمرہ کی زندگی میں کرتے ہیں۔ خصوصاً مادری زبان کے ساتھ عموماً سوتیلوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کئی والدین بچوں سے مادری زبان میں گفتگو کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ ان کے خیال میں اس کی ضرورت نہیں اور مادری زبان سے تلفظ اور الفاظ کی ادائیگی میں فرق آجائے گا، جب کہ یہ درست نہیں، کیوں کہ اس طرح بچے جب بڑے ہوتے ہیں، تو وہ اپنی زبان سمجھنے اور بولنے سے قاصر رہتے اور اس زبان کی مٹھاس سے ناآشنا رہتے ہیں۔
مادری زبان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ماہرین لسانیات، نفسیات، عمرانیات اور تعلیم سب ہی مادری زبان سکھائے جانے کے حق میں ہیں۔ دنیا بھر میں مادری زبان کو بنیادی تعلیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے مادری زبان ہی کے ذریعے تعلیم کا آغاز کر کے اپنی نسلوں کو ملکی ترقی کے حوالے سے تیار کیا، گو کہ پاکستان میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ شاید اسی لیے ہماری قوم تعلیم کے میدان میں ترقی یافتہ اقوام سے بہت پیچھے ہے۔ لہٰذا نئی نسل کو قومی اور غیر ملکی زبان کے ساتھ مادری زبان سکھانے پر بھی توجہ دیا جائے۔
چھوٹے بچوں کو زبان سکھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان سے بہترین الفاظ اور درست تلفظ کے ساتھ گفتگو کی جائے۔ مختلف اشیا، کھلونوں، رنگوں، جانوروں وغیرہ کی تصاویر یا کھلونوں کو دکھا کر ان کے نام یاد کرائے جائیں۔ اسی زبان میں کہانیاں سنائی جائیں۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں گفتگو کی جائے۔
بڑوں کی طرح آج کل کے بچے بھی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ کی آمیزش کرتے ہیں۔ مثلاً انگریزی اور اردو کے الفاظ کو ملا کر گفتگو کرنا عام ہے۔ اگر ابتدا میں ان کی اصلاح کر دی جائے اور ان کو ایک زبان میں گفتگو کا عادی بنایا جائے، تو وہ بڑے ہوکر بھی بہترین گفتار کر سکتے ہیں، بلکہ اکثر ایسے نوجوان بہترین مقرر ثابت ہوتے ہیں۔
کسی بھی زبان کو سکھانے کے ساتھ بچے کی حوصلہ افزائی اور اس کو اعتماد بخشنا بھی بے حد ضروری ہے۔ بچے کو یہ سمجھانا بے احد اہم ہے کہ کسی بھی زبان میں گفتگو شخصیت میں احساس کم تری یا برتری پیدا نہیں کرتی، بلکہ یہ محض گفتگو کا ایک ذریعہ ہے۔ اپنی بات یا اپنی رائے دوسرے تک پہنچانا اہم ہے۔ کسی بھی زبان میں گفتگو کرنا جس پر عبور حاصل ہو اور سامع اس کو بہتر طور پر سمجھ سکے۔ یہ شخصیت کی خوبی ہے۔ اس کے بہ جائے محض دوسرے کو مرعوب کرنے کے لیے کسی غیر ملکی زبان میں ٹوٹی پھوٹی گفتگو کرنا یہ تاثر دیتا ہے کہ مخاطب کو اپنی شخصیت پر اعتماد نہیں ہے۔
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو مدنظر رکھا جائے، تو بچے یقیناً مختلف زبانوں پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ گفتگو پر بھی ملکہ حاصل کر لیں گے۔