کچھ ذکر مشتاق احمد یوسفی کا

جسطرح صدیوں بعد بھی حسنِ یوسف کے چرچےعام ہیں اسی طرح مزاح یوسفی بھی صدیوں تک اردو دانوں کی دل بستگی کاسامان کرتا رہیگا


سید عارف November 21, 2016
یوسفی صاحب کے ہر مضمون، ہر خاکہ پر یہ گمان ہوتا ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں اور قاری کے چہرے پر ایک سوالیہ مسکراہٹ پوچھتی ہے کہ کون ہے اس پردہ زنگار کے پیچھے۔

کچھ دن ادھر کی بات ہے کہ ہمارے ایک دوست نے ایک نرم خو اور دھیمے لہجے والے صاحب سے تعارف کرایا کہ یہ اشرف فاروقی صاحب ہیں۔ پہلی نظر میں ہی اندازہ ہوا کہ کوئی تارک الدنیا ہیں جو اپنے ہی دھیان و گیان کی گتھیاں سلجھانے میں غلطاں ہیں۔ اُن سے گفتگو کا موقعہ ملا تو سمجھ آیا کہ یہ ''جنون وہ نہیں یہ جنون کوئی اور ہے'' اور جناب اردو ادب اور اردو مجلس کے عاشق زار ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھ رہا تھا اس وقت تک فاروقی صاحب کی اہلیہ سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ابھی اُن سے مل کر اور اُن کے ذوق کا اندازہ کرکے احساس ہوا کہ 'نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں سے ملیں'۔

قصہ اس تمہید طولانی کہ کچھ یوں ہے کہ یہ وہی فاروقی صاحب ہیں جنہوں نے ہمیں اکسایا بلکہ یوں کہیے کہ ورغلایہ کہ مشتاق احمد یوسفی پر کچھ لکھیے۔ اردو کی ناقدری کا دکھڑا تو زبان زدِ عام ہے لیکن اس زبان پر شاید ہی اِس سے بُرا وقت آیا ہو کہ ہم مشتاق احمد یوسفی پر رائے زنی کریں۔ ''کبھی ہم اپنے قلم کو اور کبھی اُن کو دیکھتے ہیں''۔

گوکہ یوسفی صاحب پر قلم اٹھانا اپنے کردار پر انگلیاں اٹھوانے کے مترادف ہے کہ انہوں نے طوائفوں کے قصے اور ناکردہ گناہوں کی حسرتوں کو کچھ اِس طرح بیان کیا ہے کہ اچھا بھلا آدمی اپنے آپ کو عیاش تصور کرنے لگتا ہے۔ لیکن چونکہ ''کچھ نسبت مجھ کو بھی ان سے ہے'' کہ ہمارے والدین کا وطن مولد بھی وہ ہی کوچہ خاکساراں ہے جہاں کہ یوسفی صاحب یعنی ریاست ٹونک جس کے لئے موصوف نے خود لکھا کہ وہاں کہ چک باز اور خربوزے بہت مشہور ہیں اور ہمارے نانا کہا کرتے تھے کہ وہاں کہ چک باز، خربوزے اور مشتاق میاں بڑے مشہور ہیں کہ وہ بھی اپنے قلم سے درد مند دل میں کچوکے لگاتے ہیں اور پھر اس پر مسکراہٹوں کا لیپ چڑھادیتے۔

مشتاق احمد یوسفی صاحب یکم محرم غالباً 1925ء کو ریاست ٹونک میں نواب ابراہیم علی خان کے دور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ریاست کے پولیٹکل سیکریٹری تھے اور جے پور کے پہلے مقامی مسلمان تھے جو گریجویٹ ہوئے۔ یوسفی صاحب لکھتے ہیں خاندان، تاریخ، ولادت اور جائے ولادت کے انتخاب میں میرا ووٹ نہیں لیا گیا۔ عمر عزیز کا بیشتر حصہ کراچی میں گزارا ''شہروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے۔''

1956ء میں یوسفی صاحب پاکستان آگئے اور مقامی بینک میں ملازمت شروع کی اور ترقی کرتے کرتے بینک کے صدر بن گئے۔ کراچی میں اُن کے شروع کے چند سال عسرت و تنگدستی کی وہ کہانی ہے جو اِس وقت ہر اُس مہاجر کی داستان تھی جو جائیدادوں کے کلیم میں نہ پڑے۔ زرگزشت اسی دور کی کہانی ہے جس میں چیرہ دست لوگ دنوں اور مہینوں میں کروڑ پتی بن گئے اور صاحب ناموس خاندانی اپنی روایتی عزت بچاتے بچاتے پہلے گوشہ نشین ہوئے اور پھر تارک وطن ہی ہوگئے کہ ''اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔''

پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے سلسلہ میں یوسفی صاحب تقریباً گیارہ سال لندن میں رہے جس کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ ''اِس شہر میں اور تو کوئی برائی نہیں ہے بس یہ کہ غلط جگہ پر واقع ہے۔'' لندن ہی کا مشاہدہ ان سے کہلواتا ہے کہ
''بدصورت انگریز عورت نایاب ہے، بڑی مشکل سے نظر آتی ہے۔ یعنی ہزار میں ایک۔ پاکستانی اور ہندوستانی اُسی عورت سے شادی کرتا ہے تاکہ انگریز سمجھ میں آسکے لیکن کچھ عرصہ بعد ہوتا یہ ہے کہ عورت بھی سمجھ میں نہیں آتی۔''

کسی انگریز مصنفہ نے ہی کہا ہے کہ
''طنز وہ تیز دھار نشتر ہے جو کہ صرف چھونے سے زخمی کردیتا ہے لیکن زخم مشکل سے ہی دیکھا جاسکتا ہے۔''

یوسفی صاحب کے ہاں یہ بات بعد التزام نظر آتی ہے کہ روانی میں پڑھتے ہوئے چلے جائیے اور زیرِ لب مسکراہٹ ہنسی میں اور ہنسی قہقہہ میں تبدیل ہوجاتی ہے اور یہ ہی قہقہہ حساس قاری کی طبیعت کو جملے کی کاٹ پراگندہ نہیں ہونے دیتا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ یوسفی صاحب لکھتے ہیں
''میں مزاح کو دفاعی میکینزم سمجھتا ہوں۔ یہ تلوار نہیں، اُس شخص کا ذرہ بکتر ہے جو شدید زخمی ہونے کے بعد اسے پہن لیتا ہے۔''

ابنِ انشاء کا کہنا ہے کہ
''اگر مزاحیہ ادب کے موجودہ دور کو ہم کسی نام سے منسوب کرتے ہیں تو وہ یوسفی صاحب کا نام ہی ہے۔''

میرا یہ خیال ہے کہ جس طرح صدیاں گزرجانے کے باوجود حسنِ یوسف کے چرچے عام ہیں اسی طرح مزاح یوسفی بھی آنی والی صدیوں میں اردو دانوں کی دل بستگی کا سامان کرتا رہے گا۔ قصہ مختصر یوسفی صاحب نے زرگزشت میں لکھا ہے کہ
''جہاں سچ بول کر سقراط کو زہر کا پیالہ پینا پڑتا ہے وہاں چاتر مزاح نگار، الف لیلہ کے شیراز کی طرح ایک ہزار ایک کہانیاں سنا کر بھی اپنی جان و آبرو صاف بچا لے جاتا ہے۔''

اِس بات کی صداقت سے کوئی بھی شخص جس نے چراغ تلے، خاکم بدھن، زرگزشت اور آب گم پڑھی ہیں، وہ انکار نہیں کرسکتا کہ ہر مضمون، ہر خاکہ پر یہ گمان ہوتا ہے کہ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں اور قاری کے چہرے پر ایک سوالیہ مسکراہٹ پوچھتی ہے کہ کون ہے اس پردہ زنگار کے پیچھے۔

یہ مضمون نارتھ کیرولینا یونیورسٹی میں اردو مجلس میں پڑھا گیا تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامعتعارفکےساتھ[email protected] پر ای میل کریں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں