کراچی منگھو پیر اور شیدی برادری
شہر کراچی کے قدیم اور پسماندہ علاقے منگھو پیر میں صفائی کی حالت انتہائی ابتر ہوگئی ہے
لاہور:
شہر کراچی کے قدیم اور پسماندہ علاقے منگھو پیر میں صفائی کی حالت انتہائی ابتر ہوگئی ہے ۔ منگھو پیر کے مختلف گوٹھوں جان محمد گوٹھ ، نور الدین گوٹھ ، مشکی پاڑہ گوٹھ ، سر مستانی محلہ ، مکرانی پاڑہ ، حاجی اللہ بخش گوٹھ ، حاجی حمزہ گوٹھ ، اللہ بچایو گوٹھ ، غلام محمد گوٹھ ، حاجی محمود گوٹھ ، عمر گوٹھ ، یعقوب شاہ بستی ، مری گوٹھ میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ان گوٹھوں میں کچرا اٹھانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے ، بلدیاتی ادارے کئی کئی ماہ تک کچرا نہیں اٹھاتے ، سیوریج نظام ناکارہ ہونے کی وجہ سے گٹر ابل رہے ہیں ، گٹروں سے ڈھکن غائب ہیں جس کی وجہ سے اب تک کئی بچے گٹروں میں گر کر زخمی ہوچکے ہیں ، منگھو پیر کی سڑکوں اور گلیوں میں سیوریج کا پانی کھڑا ہے جس سے پورے علاقے میں مکھی اور مچھروںکی بہتات ہوگئی ہے اور مہلک وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے .
منگھو پیر کا مشہور فٹبال گراونڈ علاقے کی سب سے بڑی کچرا کنڈی میں تبدیل ہوگیا ہے ، منگھو پیر کے مختلف علاقوں سے کچرا لاکر اس گراونڈ میں ڈمپ کیا جاتا ہے اور بعد ازاں کچرے کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف فٹبال گرانڈ کے اطراف کے علاقوں میں دھوئیں کے بادل چھا جا تے ہیں ، دھوئیں کے باعث منگھو پیر مزار پر واقع گرم پانی کے چشمے پر آنے والے زائرین کو بھی شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔منگھو پیر کے گوٹھوں کے مکینوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ منگھوپیر میں صحت و صفائی کے نظام کو درست کیا جائے ، کچرا اٹھانے کا بندوبست کیا جائے اور سیوریج سسٹم کی مرمت کی جائے ۔ قبروں کی دیکھ بھال کا موچر انتطام ہونا چاہیے،لینڈ مافیہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہاں سوشل ورکر عبدالغنی بلوچ اور ان کے پر جوش رفقا منگھو پیر میں فلاحی کاموں میں پیش پیش ہیں۔
یہ قدیم اور خوبصورت مقام کراچی شہر سے تقریبا دس میل کے فاصلے پر شمال کی جانب واقع ہے اس مقام کو 1927ء سے قبل ہی پکی سڑک کے ذریعے کراچی شہر سے ملادیا گیا تھا ۔ یہ مقام ہمیشہ سر سبز و شاداب رہا ہے ۔ اس جگہ کی شہرت کی اصل وجہ یہاں واقع حضرت سخی سلطان منگھو پیر کا مقبرہ ہے ۔ آپ کے مرقد پر ہمیشہ زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ آپ کے مزار مبارک کے قریب کئی قبریں موجود ہیں جو آپ کے عقیدت مندوں کی ہیں ۔ ان قبروں میں دو قبریں زیادہ نمایاں ہیں ، ان میں سے ایک قبر بڑی اور دوسری چھوٹی ہے ۔
بڑی قبر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ میاں سردار خان کی ہے جو قبیلہ جوکھیو کے ساتھ جنگ کرتا ہوا قتل ہوا تھا ۔ یہ قبائلی جنگ 1506ء میں لڑی گئی تھی ۔ اس وقت سندھ پر سمہ خاندان کی حکومت تھی ۔ یہاں دوچشمے واقع ہیں ان میں سے ایک گرم پانی کا اور دوسرا ٹھنڈے پانی کا ہے ۔ گرم پانی کے چشمے میں غسل کرنے سے نہ صرف جلدی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں بلکہ جزام اور گردے کی بیماریوں کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ دوسری طرف سید شیرشاہ بابا کا مزار ہے جن کے صاحبزادوں سید امید علی شاہ اور ان کے بیٹے سید صالح شاہ کے مزار شیرشاہ ولیج نزد کباڑی مارکیٹ میں ہیں۔
منگھوپیر مزار کے قریب ایک گرم تالاب بھی واقع ہے جس میں کئی مگر مچھ موجود ہیں ۔ کمانڈر کارلیس نے 1838ء میں یہاں کا دورہ کیا تھا ، وہ یہاں کے مگر مچھوں کا ذکر اس طرح کرتاہے ، یہاں تالاب میں مگر مچھ موجود ہیں جن کی تعداد سیکڑوں تک ہے ۔ ان میں سے سب سے پرانے مگر مچھ کا نام مورسواب ہے ۔ یہ یہاں کے تمام مگر مچھوں کا جد امجد ہے ۔ یہ مزار کے مجاوروں کا سدھایا ہوا اور ان سے اتنا آشنا ہے کہ اس کا نام پکارنے پر یہ فورا پانی سے باہر آجاتا ہے ۔ منت مانگنے والے ان مگرمچھوں کے لیے بکرے لے کر آتے ہیں جنہں یہ ذراسی دیر میں ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں یہ ایک مشہور شہر تھا جو بعد میں کسی حادثے کا شکار ہوکر تباہ و برباد ہوگیا تھا ۔
حضرت حاجی سخی سلطان منگھو پیر کا اسم گرامی حضرت حافظ حسن ہے ، آپ عربی نسل ہیں ، آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی سے ملتا ہے ۔ آپ والدہ کی جانب سے حضرت امام حسن اور والد کی جانب سے حضرت امام حسین کی اولاد ہیں ۔ آپ حسنی و حسینی ہونے کے علاوہ حضرت بابا فرید گنج شکر کے خلیفہ ہونے کی وجہ سے چشتی بھی کہلاتے ہیں ۔ آپ تیرہویں صدی عیسویں یعنی تقریبا سات سو سال قبل حجاز سے ہجرت کرکے برصغیر تشریف لائے۔ کچھ ہی عرصے بعد بابا فرید شکر گنج نے آپ کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا اور منگھو پیر کے مقام پر جاکر تبلیغ اسلام کی ہداہت فرمائی ۔بند مراد خان کا سیاحتی علاقہ اس کے قریب تھا،آپ اپنے پیر و مرشد کی ہداہت پر منگھو پیر تشریف لے آئے ۔ اس وقت یہ جگہ بالکل غیر آباد اور ویران تھی ۔ اسی مزار سے ایک سڑک حب ندی سے ہوتی ہوئی شاہ بلاول نورانی(شاہ لاہوت) جاتی ہے۔
منگھو پیر بابا نے قلیل عرصے میں تبلیغ اور اشاعت دین کے ضمن میں زبردست کارہائے نمایاںانجام دیے اور بڑی تعداد میں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا ۔ مسلمانوں کی طرح ہندو بھی آپ سے بے حد عقیدت رکھتے ہیں اور آپ کو لالہ جراح کے نام سے پکارتے ہیں ۔ ہر سال 8اور9ذالحج کو آپ کا عرس مبارک منعقد ہوتا ہے جس میں آپ کے عقیدت مند جوق در جوق شرکت کرتے ہیں ۔
منگھو پیر بابا کی درگاہ سے متصل شیدی محلہ میں ہجری مہینہ رجب کے دو تا پانچ تاریخ تک تاریخی شیدی میلہ منایا جاتا ہے ۔ میلہ کا آغاز صبح کے وقت کیا جاتا ہے جو شام تک جاری رہتا ہے پہلے روز کی رسومات کے دوران دھمال سے تقریبات شروع کی جاتی ہیں ، مگرمان بجایا جاتا ہے جو بڑا سا ڈھول ہوتا ہے ، بکرے کی قربانی دی جاتی ہے بعدازاں جلوس کی شکل میں زائرین مگر مچھوں کے تالاب پر جاکر وہاں سب سے قدیم مگر مچھ مور سواب جس کی عمر سو سال کے قریب ہے کو نہلایا جاتا ہے اور پھر اسے سیندور اور خوشبو لگائی جاتی ہے بعدازاں اسے ہار پہنانے کے بعد حلوے سے اس کا منہ میٹھا کیا جاتا ہے اور گوشت کھلایا جاتا ہے اس کے بعد زائرین خواجہ حسن المعروف منگھو پیر بابا کے مزار پر حاضری دیتے ہیں ۔
شیدی میلہ کے خادم غلام اکبر شیدی کے مطابق یہ میلہ پشت در پشت چار سو سال سے ہورہا ہے جس میںہماری کھارادر ، لاسی،حیدر آباد اور بیلہ راشید کمیونٹی کے لوگوں کے علاوہ دیگر ہزاروں زائرین شرکت کرتے ہیں ، یہ میلہ چار روز تک جاری رہتا ہے ، ان چار دنوں میں رسمیں ادا کی جاتی ہیں ۔ منگھو پیر مگر مچھو ں کے تالاب کے خلیفہ محمد سجاد کے مطابق آٹھ سو انسٹھ سال سے یہاں مگر مچھ موجود ہیں اور روزانہ مزار پر آنے والے ہزاروں زائرین عقیدت کے طور پر انھیں گوشت کھلاتے ہیں ۔ اس وقت تالاب میں ایک سو مگر مچھ موجود ہیں ان میں سب سے پرانی جوڑی مور سواب کی ہے جس کی عمر سو سال کے قریب ہیں اور ہر سال شیدی میلے کے موقع پر اس کی رسو مات ادا کی جاتی ہیں۔
کراچی میں شیدیوں کی چار بڑی برادریاں اہمیت کی حامل ہیں جنھیں مکان کہا جاتا ہے ۔ کھارادر مکان ، لاسی مکان ، حیدر آبادی مکان اور بیلا مکان شامل ہیں ۔ کھارادر مکان کھارادر پولیس چوکی ، لاسی مکان لیاری لی مارکیٹ سابقہ تانگہ اسٹینڈ موجودہ چنگ چی اسٹاپ ، حیدرآبادی مکان لیاری آٹھ چوک شیدی ولیج روڈ پر اور بیلا مکان لیاری میں فدا حسین شیخا روڈ بغدادی پر واقع ہیں ۔ ان برادریوں کے الگ الگ سربراہ ( پٹیل ) ہوتے ہیں ۔ان چار مکانوں کی نسبت سے شیدی میلہ چار دنوں تک جاری رہتا ہے ۔ چاروں برادریاں میلے کے چار دنوں کے انتظامات باری باری کرتی ہیں ۔
مثلا پہلے دن میلے کا سارا انتظام کھارادر برادری کرتی ہے دوسرے دن لاسی برادری ، تیسرے دن حیدرآبادی برادری ، چونکہ بیلا برادری کے افراد میلے میں کم شرکت کرتے ہیں اس لیے چوتھے دن چاروں برادریاں مل کر انتظامات کرتی ہیں ۔ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے شیدی کچھی ، بلوچی اور سندھی زبان بولتے ہیں ۔ چار بڑی برادریوں کے علاوہ شیدیوں کی ایک چھوٹی برادری کا ٹھیاواڑی گجراتی ( میٹھا ) ہے جس سے تعلق رکھنے والے افراد قیام پاکستان کے بعد انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تھے ۔ اس برادری کا مکان لیاری ککری گراونڈ کے قریب واقع ہے لیکن ان کا کوئی مگرمان نہیں ہے ۔ یہ اپنے عرس اور دھمال میں کھارادر کا سیلانی مگر مان استعمال کرتے ہیں ۔
شہر کراچی کے قدیم اور پسماندہ علاقے منگھو پیر میں صفائی کی حالت انتہائی ابتر ہوگئی ہے ۔ منگھو پیر کے مختلف گوٹھوں جان محمد گوٹھ ، نور الدین گوٹھ ، مشکی پاڑہ گوٹھ ، سر مستانی محلہ ، مکرانی پاڑہ ، حاجی اللہ بخش گوٹھ ، حاجی حمزہ گوٹھ ، اللہ بچایو گوٹھ ، غلام محمد گوٹھ ، حاجی محمود گوٹھ ، عمر گوٹھ ، یعقوب شاہ بستی ، مری گوٹھ میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ان گوٹھوں میں کچرا اٹھانے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے ، بلدیاتی ادارے کئی کئی ماہ تک کچرا نہیں اٹھاتے ، سیوریج نظام ناکارہ ہونے کی وجہ سے گٹر ابل رہے ہیں ، گٹروں سے ڈھکن غائب ہیں جس کی وجہ سے اب تک کئی بچے گٹروں میں گر کر زخمی ہوچکے ہیں ، منگھو پیر کی سڑکوں اور گلیوں میں سیوریج کا پانی کھڑا ہے جس سے پورے علاقے میں مکھی اور مچھروںکی بہتات ہوگئی ہے اور مہلک وبائی امراض پھیلنے کا خدشہ ہے .
منگھو پیر کا مشہور فٹبال گراونڈ علاقے کی سب سے بڑی کچرا کنڈی میں تبدیل ہوگیا ہے ، منگھو پیر کے مختلف علاقوں سے کچرا لاکر اس گراونڈ میں ڈمپ کیا جاتا ہے اور بعد ازاں کچرے کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف فٹبال گرانڈ کے اطراف کے علاقوں میں دھوئیں کے بادل چھا جا تے ہیں ، دھوئیں کے باعث منگھو پیر مزار پر واقع گرم پانی کے چشمے پر آنے والے زائرین کو بھی شدید اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔منگھو پیر کے گوٹھوں کے مکینوں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ منگھوپیر میں صحت و صفائی کے نظام کو درست کیا جائے ، کچرا اٹھانے کا بندوبست کیا جائے اور سیوریج سسٹم کی مرمت کی جائے ۔ قبروں کی دیکھ بھال کا موچر انتطام ہونا چاہیے،لینڈ مافیہ کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ یہاں سوشل ورکر عبدالغنی بلوچ اور ان کے پر جوش رفقا منگھو پیر میں فلاحی کاموں میں پیش پیش ہیں۔
یہ قدیم اور خوبصورت مقام کراچی شہر سے تقریبا دس میل کے فاصلے پر شمال کی جانب واقع ہے اس مقام کو 1927ء سے قبل ہی پکی سڑک کے ذریعے کراچی شہر سے ملادیا گیا تھا ۔ یہ مقام ہمیشہ سر سبز و شاداب رہا ہے ۔ اس جگہ کی شہرت کی اصل وجہ یہاں واقع حضرت سخی سلطان منگھو پیر کا مقبرہ ہے ۔ آپ کے مرقد پر ہمیشہ زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ آپ کے مزار مبارک کے قریب کئی قبریں موجود ہیں جو آپ کے عقیدت مندوں کی ہیں ۔ ان قبروں میں دو قبریں زیادہ نمایاں ہیں ، ان میں سے ایک قبر بڑی اور دوسری چھوٹی ہے ۔
بڑی قبر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ میاں سردار خان کی ہے جو قبیلہ جوکھیو کے ساتھ جنگ کرتا ہوا قتل ہوا تھا ۔ یہ قبائلی جنگ 1506ء میں لڑی گئی تھی ۔ اس وقت سندھ پر سمہ خاندان کی حکومت تھی ۔ یہاں دوچشمے واقع ہیں ان میں سے ایک گرم پانی کا اور دوسرا ٹھنڈے پانی کا ہے ۔ گرم پانی کے چشمے میں غسل کرنے سے نہ صرف جلدی بیماریاں دور ہوجاتی ہیں بلکہ جزام اور گردے کی بیماریوں کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے ۔ دوسری طرف سید شیرشاہ بابا کا مزار ہے جن کے صاحبزادوں سید امید علی شاہ اور ان کے بیٹے سید صالح شاہ کے مزار شیرشاہ ولیج نزد کباڑی مارکیٹ میں ہیں۔
منگھوپیر مزار کے قریب ایک گرم تالاب بھی واقع ہے جس میں کئی مگر مچھ موجود ہیں ۔ کمانڈر کارلیس نے 1838ء میں یہاں کا دورہ کیا تھا ، وہ یہاں کے مگر مچھوں کا ذکر اس طرح کرتاہے ، یہاں تالاب میں مگر مچھ موجود ہیں جن کی تعداد سیکڑوں تک ہے ۔ ان میں سے سب سے پرانے مگر مچھ کا نام مورسواب ہے ۔ یہ یہاں کے تمام مگر مچھوں کا جد امجد ہے ۔ یہ مزار کے مجاوروں کا سدھایا ہوا اور ان سے اتنا آشنا ہے کہ اس کا نام پکارنے پر یہ فورا پانی سے باہر آجاتا ہے ۔ منت مانگنے والے ان مگرمچھوں کے لیے بکرے لے کر آتے ہیں جنہں یہ ذراسی دیر میں ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ کسی زمانے میں یہ ایک مشہور شہر تھا جو بعد میں کسی حادثے کا شکار ہوکر تباہ و برباد ہوگیا تھا ۔
حضرت حاجی سخی سلطان منگھو پیر کا اسم گرامی حضرت حافظ حسن ہے ، آپ عربی نسل ہیں ، آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی سے ملتا ہے ۔ آپ والدہ کی جانب سے حضرت امام حسن اور والد کی جانب سے حضرت امام حسین کی اولاد ہیں ۔ آپ حسنی و حسینی ہونے کے علاوہ حضرت بابا فرید گنج شکر کے خلیفہ ہونے کی وجہ سے چشتی بھی کہلاتے ہیں ۔ آپ تیرہویں صدی عیسویں یعنی تقریبا سات سو سال قبل حجاز سے ہجرت کرکے برصغیر تشریف لائے۔ کچھ ہی عرصے بعد بابا فرید شکر گنج نے آپ کو اپنا خلیفہ مقرر فرمایا اور منگھو پیر کے مقام پر جاکر تبلیغ اسلام کی ہداہت فرمائی ۔بند مراد خان کا سیاحتی علاقہ اس کے قریب تھا،آپ اپنے پیر و مرشد کی ہداہت پر منگھو پیر تشریف لے آئے ۔ اس وقت یہ جگہ بالکل غیر آباد اور ویران تھی ۔ اسی مزار سے ایک سڑک حب ندی سے ہوتی ہوئی شاہ بلاول نورانی(شاہ لاہوت) جاتی ہے۔
منگھو پیر بابا نے قلیل عرصے میں تبلیغ اور اشاعت دین کے ضمن میں زبردست کارہائے نمایاںانجام دیے اور بڑی تعداد میں غیر مسلموں کو مشرف بہ اسلام کیا ۔ مسلمانوں کی طرح ہندو بھی آپ سے بے حد عقیدت رکھتے ہیں اور آپ کو لالہ جراح کے نام سے پکارتے ہیں ۔ ہر سال 8اور9ذالحج کو آپ کا عرس مبارک منعقد ہوتا ہے جس میں آپ کے عقیدت مند جوق در جوق شرکت کرتے ہیں ۔
منگھو پیر بابا کی درگاہ سے متصل شیدی محلہ میں ہجری مہینہ رجب کے دو تا پانچ تاریخ تک تاریخی شیدی میلہ منایا جاتا ہے ۔ میلہ کا آغاز صبح کے وقت کیا جاتا ہے جو شام تک جاری رہتا ہے پہلے روز کی رسومات کے دوران دھمال سے تقریبات شروع کی جاتی ہیں ، مگرمان بجایا جاتا ہے جو بڑا سا ڈھول ہوتا ہے ، بکرے کی قربانی دی جاتی ہے بعدازاں جلوس کی شکل میں زائرین مگر مچھوں کے تالاب پر جاکر وہاں سب سے قدیم مگر مچھ مور سواب جس کی عمر سو سال کے قریب ہے کو نہلایا جاتا ہے اور پھر اسے سیندور اور خوشبو لگائی جاتی ہے بعدازاں اسے ہار پہنانے کے بعد حلوے سے اس کا منہ میٹھا کیا جاتا ہے اور گوشت کھلایا جاتا ہے اس کے بعد زائرین خواجہ حسن المعروف منگھو پیر بابا کے مزار پر حاضری دیتے ہیں ۔
شیدی میلہ کے خادم غلام اکبر شیدی کے مطابق یہ میلہ پشت در پشت چار سو سال سے ہورہا ہے جس میںہماری کھارادر ، لاسی،حیدر آباد اور بیلہ راشید کمیونٹی کے لوگوں کے علاوہ دیگر ہزاروں زائرین شرکت کرتے ہیں ، یہ میلہ چار روز تک جاری رہتا ہے ، ان چار دنوں میں رسمیں ادا کی جاتی ہیں ۔ منگھو پیر مگر مچھو ں کے تالاب کے خلیفہ محمد سجاد کے مطابق آٹھ سو انسٹھ سال سے یہاں مگر مچھ موجود ہیں اور روزانہ مزار پر آنے والے ہزاروں زائرین عقیدت کے طور پر انھیں گوشت کھلاتے ہیں ۔ اس وقت تالاب میں ایک سو مگر مچھ موجود ہیں ان میں سب سے پرانی جوڑی مور سواب کی ہے جس کی عمر سو سال کے قریب ہیں اور ہر سال شیدی میلے کے موقع پر اس کی رسو مات ادا کی جاتی ہیں۔
کراچی میں شیدیوں کی چار بڑی برادریاں اہمیت کی حامل ہیں جنھیں مکان کہا جاتا ہے ۔ کھارادر مکان ، لاسی مکان ، حیدر آبادی مکان اور بیلا مکان شامل ہیں ۔ کھارادر مکان کھارادر پولیس چوکی ، لاسی مکان لیاری لی مارکیٹ سابقہ تانگہ اسٹینڈ موجودہ چنگ چی اسٹاپ ، حیدرآبادی مکان لیاری آٹھ چوک شیدی ولیج روڈ پر اور بیلا مکان لیاری میں فدا حسین شیخا روڈ بغدادی پر واقع ہیں ۔ ان برادریوں کے الگ الگ سربراہ ( پٹیل ) ہوتے ہیں ۔ان چار مکانوں کی نسبت سے شیدی میلہ چار دنوں تک جاری رہتا ہے ۔ چاروں برادریاں میلے کے چار دنوں کے انتظامات باری باری کرتی ہیں ۔
مثلا پہلے دن میلے کا سارا انتظام کھارادر برادری کرتی ہے دوسرے دن لاسی برادری ، تیسرے دن حیدرآبادی برادری ، چونکہ بیلا برادری کے افراد میلے میں کم شرکت کرتے ہیں اس لیے چوتھے دن چاروں برادریاں مل کر انتظامات کرتی ہیں ۔ان برادریوں سے تعلق رکھنے والے شیدی کچھی ، بلوچی اور سندھی زبان بولتے ہیں ۔ چار بڑی برادریوں کے علاوہ شیدیوں کی ایک چھوٹی برادری کا ٹھیاواڑی گجراتی ( میٹھا ) ہے جس سے تعلق رکھنے والے افراد قیام پاکستان کے بعد انڈیا سے ہجرت کرکے آئے تھے ۔ اس برادری کا مکان لیاری ککری گراونڈ کے قریب واقع ہے لیکن ان کا کوئی مگرمان نہیں ہے ۔ یہ اپنے عرس اور دھمال میں کھارادر کا سیلانی مگر مان استعمال کرتے ہیں ۔