’’ماسٹر آف سونگ پکچرائزیشن‘‘

اداکار ، فلمساز وحید مراد کی 33 ویں برسی کے حوالے سے خصوصی تحریر

وحید مراد کا انتقال 23 نومبر 1983 کو کراچی میں ہوا۔: فوٹو : فائل

FAISALABAD:
پاکستان فلم انڈسٹری کو یہ اعزاز رہا ہے کہ اس نے نامساعد حالات اور محدود وسائل میں بھی اداکاری، گلوکاری، ڈائریکشن سمیت ہر شعبے میں ایسے جوہر نایاب دئیے کہ جنہوں نے بولی وڈ کے مقابلے کی فلمیں بناکر انہیں ٹف ٹائم دیا۔ اگر ہم صرف اداکاری ہی کی بات کریں تو ایک لمبی فہرست سامنے آجاتی ہے ، ان میں ہر کوئی اپنے منفرد اور جاندار کردارنگاری کے حوالے سے الگ شناخت رکھتے ہیں۔

ایکٹنگ صرف رائٹر کے لکھے جملے بولنا ہی کا نام نہیں بلکہ انہیں حقیقت کا روپ دینا ہوتا ہے۔ اس فہرست میں ایک نام وحید مراد کابھی ہے۔رومانٹک ہیرو کے طور پر پرستاروں کے دلوں پر راج کرنے والے یہ فنکار معروف فلمساز و تقسیم کار نثار مراد کی اکلوتی اولاد تھے۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے والد کے تقسیم کار ادارے کی بھاگ دوڑ سنبھالتے ہوئے فلمیں پروڈیوس ہی کرنے لگے ۔وحید مراد 2 اکتوبر 1938ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم میری کلاسو اسکول سے حاصل کی اور 1952 میں اسی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، ایس ایم کالج سے بی اے کیا۔ 1968ء میں جامعہ کراچی سے انگلش ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ اُن کی شادی سلمیٰ بیگم سے 17 ستمبر 1964ء میں ہوئی۔ وحید مراد کے دو بچے ، ایک لڑکی عالیہ مراد اور ایک لڑکا عادل مُراد ہے۔ وحید مراد 1969ء تک کراچی میں مقیم رہے لیکن جب پوری فلم انڈسٹری نے لاہور کو اپنا مرکز بنالیا، تو وہ بھی آخر 1969 میں مستقل طور پر لاہور منتقل ہوگئے۔

1960 میں انہوں نے فلم سازی کے میدان میں قدم رکھا اور بطور فلم ساز پہلی فلم ''انسان بدلتا ہے'' بنا کر اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا۔ 1961ء میں انہیں ایس ایم یوسف کی فلم ''اولاد'' میں ایک اہم رول کے لیے پہلی بار کاسٹ کیا گیا اور یوں بطور اداکار وحید مراد کی پہلی فلم ''اولاد'' اگست 1962ء میں ریلیز ہوئی اور گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ وحید مراد کو اصل شہرت اپنی ذاتی فلم ''ہیرا اور پتھر'' سے حاصل ہوئی۔ اس میں انہوں نے بطور ہیرو کام کیا اور بہت کامیاب رہی ۔ اس فلم نے بھی گولڈن جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ وحید مراد کو پاکستان کی پہلی پلاٹینیم جوبلی فلم ''ارمان'' کا فلم ساز، مصنف اور ہیرو ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

یہ فلم 1965ء میں ریلیز ہوئی اور پاکستان کی پہلی پلاٹینیم جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ وحید مراد نے بحیثیت ہدایتکار ایک فلم ''اشارہ'' بنائی۔ انہوں نے اپنی ذاتی فلموں ''سمندر'' اور ''اشارہ'' میں اپنی آواز میں گانے بھی گائے ہیں۔ چار فلموں ''ارمان''، ''احسان''، ''اشارہ'' اور ''ہیرو'' کے مصنف بھی رہ چکے ہیں۔ اُن کی فلم ''رشتہ ہے پیار کا'' پاکستان کی وہ پہلی فلم ہے جس کی فلم بندی سب سے پہلے بیرونِ ملک میں کی گئی۔ پہلی رنگین فلم ''تم ہی ہو محبوب میرے'' تھی۔ اُن کی پہلی پنجابی فلم ''مستانہ ماہی'' تھی جو بہت کامیاب رہی۔ انہوں نے کل 9 پنجابی فلموں میں کام کیا۔ وحید مراد نے'' اولاد'' سے لے کر'' زلزلہ'' تک کل 125 فلموں میں کام کیا۔ اُن کی پہلی فلم ''اولاد'' اور آخری ریلیز شدہ فلم ''زلزلہ'' ہے۔


انہوں نے ایک پشتو فلم ''پختون پہ ولایت کے'' میں بھی کام کیا، یہ اداکار آصف خان کی ذاتی فلم ''کالا دھندا گورے لوگ ''کا پشتو ورژن تھا۔ وحید مراد نے یوں تو بہت سی فلمیں پروڈیوس کیں لیکن انہیں سب سے زیادہ فخر فلم ''احسان'' بنانے پر تھا، جس کا موضوع بیوہ عورتیں تھیں۔ ان کو رومانی اور کامیڈی رول زیادہ پسند تھے ۔ بھارت میں اداکار جتیندر نے وحید مراد سے مشابہت رکھنے کی وجہ سے شہرت حاصل کی اور ان کے سٹائل کو کاپی کیا۔ وحید مراد کے بارے میں فلم بینوں، فلم سازوں، ہدایت کاروں اور ناقدین کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ گانوں کی پکچرائزیشن میں ان کو کمال کی مہارت حاصل تھی اور اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔

اسی وجہ سے انہیں ''ماسٹر آف سونگ پکچرائزیشن'' کا خطاب بھی دیا گیا۔ انہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں بنائی گئی دو فلموں ''ڈاکٹر اور بھیا'' میں کام کیا۔ بحیثیت فلم ساز کل گیارہ فلمیں پروڈیوس کیں۔ فلم ساز کی حیثیت سے آخری فلم ''ہیرو'' ہے۔ ہیرو کی حیثیت سے آخری ریلیز شدہ فلم ''زلزلہ'' ہے۔ وحید مراد نے اپنی 23 سالہ فلمی زندگی میں اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر 32 ایوارڈ حاصل کیے جو کہ ان کی فنی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ وحید مراد کی 125 فلموں میں سے ایک فلم ''شبانہ'' نے ڈائمنڈ جوبلی بنائی جبکہ تین فلموں نے پلاٹینیم جوبلی، 28 فلموں نے گولڈن جوبلی، 55 فلموں نے سلور جوبلی بنائی اور وحید مراد کی صرف 28 فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ وہ اپنی 23 سالہ فلمی زندگی میں کئی بار بیماریوں اور حادثات کا شکار ہوئے۔ 5 ستمبر 1980ء کو وہ پہلی بار شدید بیمار ہوئے۔6 جولائی 1982ء کو اُن پر ایک بار پھر بیماری کا شدید حملہ ہوا۔

وحید مراد کو السر کی بیماری 2 جنوری 1983ء کو ہوئی، ان کی طبیعت بہت ہی زیادہ خراب ہوگئی۔ ایک آپریشن میں ان کے معدے کا ایک تہائی حصّہ متاثر ہونے کی وجہ سے کاٹ دیا گیا۔ اس موقع پر انہیں بڑی مقدار میں خون کی بوتلیں لگائی گئیں ۔

آخرکار کچھ عرصہ زیر علاج رہنے کے بعد وہ صحت یاب ہو کر گھر لوٹ گئے لیکن اس آپریشن کے بعد سے ان کی صحت کافی خراب رہنے لگی اور ان کا اعصابی نظام ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا۔ 27 ستمبر 1983 کو ان کی کار ایک رکشا کو بچاتے ہوئے ایک کھمبے سے جاٹکرائی، یہ حادثہ لاہور میں ظفر علی روڈ پر ہوا۔ 13 نومبر 1983 کو وحید مراد نے اپنی منہ بولی بہن ممتاز ایوب (اداکارہ انیتا ایوب کی والدہ) کے گھر اپنے بیٹے عادل مراد کی سالگرہ منائی۔ سلمیٰ وحید اور عالیہ اس دوران امریکا میں مقیم تھیں۔ وحید مراد نے اپنے آخری لمحات میں اپنی منہ بولی بہن ممتاز ایوب کے گھر میں گزارے اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔ وحید مراد کا انتقال 23 نومبر 1983 کو کراچی میں ہوا۔
Load Next Story