جے مینوں ’’فہمی‘‘ نہ ملے تو مرجا واں
یہ بزعم خویش ’’انسان‘‘ بنا ہوا ہے ورنہ انسانیت کے سارے بال و پر اس کے وجود سے جھڑ چکے ہیں
UNITED NATIONS:
لوگ انسان کے بارے میں نہ جانے کیا کیا بولتے رہتے ہیں یہ حیوان ناطق ہے حیوان اعلیٰ ہے حیوان یہ ہے وہ ہے بلکہ ''لوگ'' کیوں... یہ خود ہی اپنے بارے میں بولتا رہتا ہے۔ یعنی
ہم کوزہ و ہم کوزہ و ہم گل کوزہ
اپنے بارے میں اس کی لاف زنیوں کا کوئی ایک بھی ایسا گواہ نہیں ہے جو یہ خود نہ ہو بلکہ اگر دوسری مخلوقات کو اس کی طرح یہ دو چھٹانک زبان مل گئی تو اس کے خلاف جو چارج شیٹ تیار ہو گی وہ بہت زیادہ لمبی ہو گی، کیونکہ ایسے کام بھی کرتا ہے جسے جانور تو کیا شیطان بھی سن کر منہ چھپانے لگے، لیکن اگر اپنے بارے میں اس کے طول طویل قصیدے کو ذرا گہرائی میں پڑھا جائے تو اس کی ساری قوت ساری لن ترانیاں جھوٹ نکلتی ہیں سوائے اس طوطے یا مینا کے، جس میں اس کی جان ہے۔
دراصل یہ دو جڑواں پریاں ہیں بھولی بھالی معصوم اور خوب صورت چندے آفتاب و چندے ماہتاب... الگ الگ تو ان کے نام خوش فہمی اور غلط فہمی ہیں لیکن دونوں مل کر صرف فہمی اور فہمیاں کہلاتی ہیں اور اگر انسان کی زندگی کو ان ''فہمیوں'' سے الگ کر دیا جائے تو باقی کچھ بھی نہیں بچے گا پھر کہاں کا انسان، کہاں کا طاقتور کہاں کا حیوان ناطق صرف حیوان احمق بن کر رہ جائے گا یعنی اس کی بے مجابا اور پرشور دھڑکنیں صرف اس ایک قطرہ خون میں سمٹ کر بہہ جاتی ہیں۔
اس فہمی یا فہمیوں کی برکت سے یہ ابھی تک زندہ بھی ہے اور شرمندہ بھی نہیں ہے اسی کی وجہ سے یہ بزعم خویش ''انسان'' بنا ہوا ہے ورنہ انسانیت کے سارے بال و پر اس کے وجود سے جھڑ چکے ہیں بلکہ یہ ایسا مردہ ہے جو خود کو زندہ سمجھ کر بیٹھا ہوا ہے صرف ''فہمی'' کے بل بوتے پر ... ویسے تو یہ زندہ ہے کہ بدست مردہ ہے اور وہ مردہ بھی یہ خود ہی ہے وہ کسی فلم کا مکالمہ ہے نا... کہ... جج بھی میں ہوں گواہ بھی میں ہوں وکیل بھی میں ہوں مجرم بھی میں اور جلاد بھی میں خود ہوں ؎ زندہ ہیں کتنے لوگ زندگی کیے بغیر
از مہرتا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ
ویسے تو انسان نے اس دنیا میں بہت کچھ کیا اور کمایا ہے لیکن اگر اسے کچھ فیض یا فائدہ پہنچا ہے کوئی سکون ملا ہے کوئی آرام نصیب ہوا ہے تو وہ اس خوب صورت اور بے مثل و بے مثال پری ''فہمی'' کی وجہ سے، کبھی کبھی تو ہم سوچتے ہیں کہ اگر اس کے پاس ''یہ فہمیاں'' نہ ہوتیں تو یہ تو کب کا مر چکا ہوتا اور وہ بھی اپنے ہی ہاتھوں بلکہ اب بھی کہاں زندہ ہے اگر فہمیوں کو اس سے الگ کر لیا جائے
مگر غبار ہوئے پر ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
کچھ لوگ ریڈی میڈ فہمیوں سے بھی کام چلا لیتے ہیں کیونکہ
اس سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو
دو چار ''فہمیاں'' مجھے دن رات چاہیے
اس سلسلے میں پہلے صرف تعویذات اور عملیات یا ماہران علم نجوم اور علم عیب کی دکانوں میں فہمیاں بکتی تھیں اور جسے جتنی اور جس قسم کی فہمی درکار ہوتی تھی وہاں سے جا کر لے آتے تھے یعنی یہ اطمینان رہتا تھا کہ ... لے آئیں گے بازار سے جا کر کچھ فہمیاں اور ... لیکن پھر فہمیوں کی مانگ اتنی بڑھ گئی کہ ''سیاست'' کے نام سے فہمیوں کا ایک اور بہت زیادہ مارکیٹ کھل گئی اس مارکیٹ کی خوبی یہ تھی کہ فہمیاں حاصل کرنے کے لیے کہیں آنا جانا بھی نہیں پڑتا تھا گھر بیٹھے بیٹھے ہی جتنی مرضی اتنی فہمیاں حاصل کر لیتا تھا کمال تو یہ ہے کہ پیزا وغیرہ کی طرح ہوم ڈلیوری کے لیے ''آرڈر'' دینے کی بھی اب ضرورت نہیں رہی۔
صبح سویرے ''اخبار کوریئر سروس'' کے ذریعے گھر گھر گلی گلی ''فہمیاں'' پہنچائی جاتی ہیں جس کی جو مرضی ہو جس کمپنی یا ماڈل کی ''فہمی'' کسی کو درکار ہوتی ہے ہاتھ بڑھا کر لے لیتا ہے، شام کو فہمیاں سپلائی کرنے کا کام ٹی الیکرونک چینلوں کو ٹھیکے پر دیا گیا ہے اور یہ ''سروس'' اتنی زبردست ہے کہ دہلیز پھلانگ کر اور گھر کے اندر گھس کر ''فہمیاں'' پہنچا دی جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اور کھپت کے مطابق اب بہت ساری ''کمپنیاں'' جنھیں اصطلاحاً سیاسی پارٹیاں کہا جاتا ہے، زبردست قسم کے سیلز مین بھی پیدا ہو گئے مارکیٹنگ کوالٹی کنٹرول اور سپلائی کے جدید طریقے اپنائے گئے ہیں۔
دراصل فمہیوں کی اس نئی انڈسٹری کا بنیادی نظریہ یہ ہے کہ پہلے مارکیٹ پیدا کرو اور بیچو اور چونکہ کرپشن کی مارکیٹ بڑی سدا بہار ہے اور تمام فہمیوں کے کارخانے اسے دن رات وسعت دینے میں کوشاں رہتے ہیں اس لیے اس کا پھیلاؤ بھی بے پناہ ہے اتنا کہ اگر کہیں ایک بندہ بشر بھی نہ ہو یعنی نہ بندہ نہ بندے کی ذات ہو وہاں بھی کرپشن دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے۔
ظاہر ہے کہ اسے مٹانے کی ''فہمی'' ہر دل میں پیدا ہو گی اور جب فہمیاں بیچنے والے فہمی کی مارکیٹ پر بھی قابض ہوں یہ ایسا ہے جیسا ایک پنکچر لگانے والی دکان کھولنے سے پہلے گلیوں، سڑکوں وغیرہ میں کیلیں پھیلا آئے یا معالج لوگ ہر گھر میں جراثیم اور بیماریاں پھینک آئیں، لیکن اس کے باوجود ماننا پڑے گا کہ اگر فہمیاں نہ ہوتیں تو انسان کا تو سب کچھ چوپٹ ہو جاتا ہے اس لیے جو لوگ ''فہمیاں'' اگاتے ہیں پیدا کرتے ہیں بیچتے ہیں بانٹتے ہیں وہ لائق تحسین ہیں جھنجھنے اور جھنجھنے بنانے والے نہ ہوتے تو بچے تو رو رو کر ''ماں'' کا ناک میں دم کر دیتے، اسی ایک بزرگہ نے کہا ہے کہ
جے مینوں فہمیاں نہ ملیاں تے مر جاواں