میڈاس کو ادائیگیوں کا معاملہ پیسے خرچ ہوئے تو حکومت حساب بھی دیگی سپریم کورٹ
میڈاس کوادائیگی پیپرارولزکیخلاف ہوئی،وکیل اشعرصدیقی، رولز کی پابندی ضروری ہے،جسٹس جواد
ISLAMABAD:
سپریم کورٹ نے وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈز سے صحافیوں کو دیے گئے 15 کروڑ روپے کے علاوہ بجٹ پبلسٹی،میڈیا اشتہاری مہم اور پریس کونسل آف پاکستان کو دی گئی رقوم کی تفصیل طلب کرلی ہے۔
جبکہ حکومت کو وزارتوں اور سرکاری اداروں میں اشتہارات اورادائیگیوں کے طریقہ کارکی جامع رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔گزشتہ روز میڈیا کمیشن کے قیام اور میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈکو غیر قانونی ادائیگیوں کے مقدموںکی ایک ساتھ سماعت کے دوران وزارت اطلاعات کے وکیل ذوالفقار ملوکہ نے جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ اسپیشل فنڈزکا بیشتر حصہ پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی مالی امداد میں خرچ ہو جاتا ہے اس سال پی بی سی کو3 ارب 40 کروڑ روپے دیے گئے۔انھوں نے بتایا پی بی سی ایک قومی ادارہ ہے جو ملک بھر میں آگاہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
جسٹس جواد نے کہا اگر یہ رقم غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور پروگراموں پر خرچ ہو رہی ہو تو پھر ٹھیک ہوگا لیکن اگر صرف پراپیگنڈے کیلئے استعمال ہو رہی ہو تو پھر عدالت جا ئزہ لینے کی مجاز ہے،فاضل جج نے کہا ہم برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی)کے بارے میں سنتے تھے کہ وہ ایک آزاد ادارہ ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں، بی بی سی پراپیگنڈے کی سب سے بڑی مشینری ہے بلکہ استعمارکا سب سے بڑا آلہ ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا ایک زمانہ تھا مغرب میں روس کیخلاف فلمیں بنتی تھی اور ہر شخص بلا سوچے سمجھے روس کیخلاف بولتا تھا اب یہی کام اسلام کیخلاف ہو رہاہے،اسلام مخالف فلمیں بن رہی ہیں۔ذوالفقار ملوکہ نے پی بی سی کے اخراجات کی تفصیل پیش کی جس پر جسٹس جواد نے کہا یہ اخراجات صحیح لگتے ہیں،اگرواقعی کہیں پرغلطی ہے تواس کیلیے مجازفورم سے رجوع کیاجاسکتاہے ۔
عدالت نے نجی نیوز ایجنسیوںکو سرکاری رقوم دینے کا معاملہ اٹھایا۔ جسٹس جواد نے کہا ایک کاروباری کو سرکاری رقوم دینے کا کیا جواز ہے؟ وزارت اطلاعات کے وکیل نے جواب میںکہا پوری دنیا میں نجی کمپنیوںکی مالی مددکی جاتی ہے،جسٹس جوادکا کہنا تھا ہم نے دنیا کی پیروی نہیںکرنی اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔فاضل وکیل نے کہا صحافیوں کی مالی مدد بھی کی جاتی ہے لیکن عزت نفس کی وجہ سے خفیہ رکھا جاتا ہے،عدالت نے اس پر حیرانی کا اظہارکیا ۔جسٹس جواد نے کہا عوام کے پیسے میں سے جو بھی لے گا اسے خفیہ نہیں رکھا جا سکتا،آرٹیکل19اے کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ اس کے خون پسینے کی کمائی میںکون کون حصہ دار ہیں۔
پرنسپل انفارمیشن افسر نے کہا یہ رقم بیماری یا بیٹے بیٹی کی شادی کیلیے دی جاتی ہے جبکہ ذوالفقار ملوکہ کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار ان کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہ کہیںکہ اس رقم سے کچھ صحافیوںکو خریدا جاتا ہے، انھوں نے کہا عدالت کو بتایا جائے کہ کس کوکس بنیاد پر رقم دی گئی جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ چیمبر میں تفصیل دی جاسکتی ہے، عدالت نے یہ درخواست مستردکر دی ۔جسٹس جواد نے کہا بند لفافے میں تفصیل فراہم کر دی جائے، فیصلہ عدالت کریگی کہ اس کو عام کرنا ہے یا نہیں ۔انھوں نے کہا پیسہ عوام کی جیب سے نکلا ہے، عدالت اس کی تفصیل جاننا چاہے گی، جسٹس خلجی عارف نے کہا وزارت اطلاعات کاکام معلومات عام کرنا ہے لیکن یہاں پر معاملہ برعکس ہے۔
جسٹس جوادکا کہنا تھا یہ کوئی ایٹمی کوڈ نہیں،حکومت تفصیل دینے کی پابند ہے،اصغر خان کیس میں عدالت کا ایک فیصلہ آ چکا ہے، انھوں نے کہا امریکہ میں ایک ڈبل ایجنٹ کو اگر 80لاکھ ڈالردیے گئے تواس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے کہ اس کا نام ظاہرکرنا ہے یا صیغہ راز میں رکھنا ہے۔واشنگٹن میں سفارتخانے کو اگر 80لاکھ ڈالرگئے تو اس کا حساب بھی لازمی ہے، پیسے خرچ ہوئے تو حکومت حساب بھی دے گی،خفیہ رکھنے کا فیصلہ حکومت نہیںکرے گی، ابصار عالم نے ایک دفعہ پھر بجٹ پبلسٹی مہم کیلیے12کروڑ 38 لاکھ،اے پی این ایس کو امدادکی مد میں30 کروڑ روپے اور میڈیا مہم کے44کروڑ روپے کا معاملہ اٹھایا ، وزارت اطلاعات کے وکیل ذوالفقار ملوکہ نے کہا حکومت درخواست گزارکی طرف سے اخبار اور چینل مالکان کے اثاثے ظاہرکرنے کی استدعا کی حمایت کرتی ہے۔
ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے کہا ان کے موکل نے کسی صحافی کوکوئی چیز غیر قانونی طور پر نہیں دی ،انھوں نے کہا ان کے موکل کو صحافیوں اور اینکر پرسن کی عزت عزیز ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علیزئی نے اسدکھرل کی طرف سے مقدمے میں فریق بننے کی مخالفت کی اورکہا کہ وہ متاثرہ فریق نہیں،27 وزارتوں کے بارے میں مبہم انداز میں الزام لگایا گیا ہے،جسٹس جواد نے کہا عدالت کیلئے بنیادی انسانی حقوق کے مقدمات میںکسی متاثرہ شخص کا ہونا ضروری نہیں،آئین نے عدالت کو ایک ایسا اختیار دیا ہے جس کے ذریعے وہ خود بھی ان معاملات کا جائزہ لے سکتی ہے،عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو وزارتوںکی تعداد اور ہر وزارت کی اشتہاری مہم کیلیے فنڈ اور سیکرٹ فنڈکی تفصیل دینے کوکہا جس پر انھوں نے وقت دینے کی استدعا کی ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے چیئرمین پیمرا اور بورڈکے دیگر ارکان کی تقرری کے نوٹیفکیشن بھی پیش کیے۔
عدالت نے سماعت ملتوی کرکے قرار دیا کہ اس مقدمے میں عبوری حکم آج جاری کر دیا جائے گا۔یو ایس ایف کے سابق چیف ایگزیکٹو ریاض اشعر صدیقی کے وکیل راجہ عامر عباس نے یونیورسل سروس فنڈکے مقدمے میں ابتدائی دلائل دیے اورکہا کہ میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈکو ادائیگی پیپرا رولزکیخلاف ہوئی، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وکیل وسیم سجاد نے کہا چیف ایگزیکٹو افسر اخراجات کی منظوری دے سکتا ہے جس پر جسٹس جواد نے کہا منظوری جو بھی دے لیکن پیپرا رولزکی پابندی لازمی ہے۔راجہ عامر عباس نے کہا13 کروڑ 50لاکھ روپے سیاسی مہم کیلئے دیے گئے۔جسٹس جواد نے کہا یونیورسل سروس فنڈکے ذریعے ٹیلی کام کے شعبے میںکم ترقی یافتہ یا غیر ترقی یا فتہ علاقوں میں انفرااسٹرکچر ڈویلپ کیا جاتا ہے اس کا اشتہار بازی سے کوئی تعلق نہیں،دونوںکیس آج پھر سنے جائیں گے۔
سپریم کورٹ نے وزارت اطلاعات کے خفیہ فنڈز سے صحافیوں کو دیے گئے 15 کروڑ روپے کے علاوہ بجٹ پبلسٹی،میڈیا اشتہاری مہم اور پریس کونسل آف پاکستان کو دی گئی رقوم کی تفصیل طلب کرلی ہے۔
جبکہ حکومت کو وزارتوں اور سرکاری اداروں میں اشتہارات اورادائیگیوں کے طریقہ کارکی جامع رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔گزشتہ روز میڈیا کمیشن کے قیام اور میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈکو غیر قانونی ادائیگیوں کے مقدموںکی ایک ساتھ سماعت کے دوران وزارت اطلاعات کے وکیل ذوالفقار ملوکہ نے جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ اسپیشل فنڈزکا بیشتر حصہ پاکستان براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی مالی امداد میں خرچ ہو جاتا ہے اس سال پی بی سی کو3 ارب 40 کروڑ روپے دیے گئے۔انھوں نے بتایا پی بی سی ایک قومی ادارہ ہے جو ملک بھر میں آگاہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
جسٹس جواد نے کہا اگر یہ رقم غیر جانبدارانہ رپورٹنگ اور پروگراموں پر خرچ ہو رہی ہو تو پھر ٹھیک ہوگا لیکن اگر صرف پراپیگنڈے کیلئے استعمال ہو رہی ہو تو پھر عدالت جا ئزہ لینے کی مجاز ہے،فاضل جج نے کہا ہم برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی)کے بارے میں سنتے تھے کہ وہ ایک آزاد ادارہ ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں، بی بی سی پراپیگنڈے کی سب سے بڑی مشینری ہے بلکہ استعمارکا سب سے بڑا آلہ ہے۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا ایک زمانہ تھا مغرب میں روس کیخلاف فلمیں بنتی تھی اور ہر شخص بلا سوچے سمجھے روس کیخلاف بولتا تھا اب یہی کام اسلام کیخلاف ہو رہاہے،اسلام مخالف فلمیں بن رہی ہیں۔ذوالفقار ملوکہ نے پی بی سی کے اخراجات کی تفصیل پیش کی جس پر جسٹس جواد نے کہا یہ اخراجات صحیح لگتے ہیں،اگرواقعی کہیں پرغلطی ہے تواس کیلیے مجازفورم سے رجوع کیاجاسکتاہے ۔
عدالت نے نجی نیوز ایجنسیوںکو سرکاری رقوم دینے کا معاملہ اٹھایا۔ جسٹس جواد نے کہا ایک کاروباری کو سرکاری رقوم دینے کا کیا جواز ہے؟ وزارت اطلاعات کے وکیل نے جواب میںکہا پوری دنیا میں نجی کمپنیوںکی مالی مددکی جاتی ہے،جسٹس جوادکا کہنا تھا ہم نے دنیا کی پیروی نہیںکرنی اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔فاضل وکیل نے کہا صحافیوں کی مالی مدد بھی کی جاتی ہے لیکن عزت نفس کی وجہ سے خفیہ رکھا جاتا ہے،عدالت نے اس پر حیرانی کا اظہارکیا ۔جسٹس جواد نے کہا عوام کے پیسے میں سے جو بھی لے گا اسے خفیہ نہیں رکھا جا سکتا،آرٹیکل19اے کے تحت ہر شہری کا حق ہے کہ وہ یہ جان سکے کہ اس کے خون پسینے کی کمائی میںکون کون حصہ دار ہیں۔
پرنسپل انفارمیشن افسر نے کہا یہ رقم بیماری یا بیٹے بیٹی کی شادی کیلیے دی جاتی ہے جبکہ ذوالفقار ملوکہ کا کہنا تھا کہ کبھی کبھار ان کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا یہ کہیںکہ اس رقم سے کچھ صحافیوںکو خریدا جاتا ہے، انھوں نے کہا عدالت کو بتایا جائے کہ کس کوکس بنیاد پر رقم دی گئی جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ چیمبر میں تفصیل دی جاسکتی ہے، عدالت نے یہ درخواست مستردکر دی ۔جسٹس جواد نے کہا بند لفافے میں تفصیل فراہم کر دی جائے، فیصلہ عدالت کریگی کہ اس کو عام کرنا ہے یا نہیں ۔انھوں نے کہا پیسہ عوام کی جیب سے نکلا ہے، عدالت اس کی تفصیل جاننا چاہے گی، جسٹس خلجی عارف نے کہا وزارت اطلاعات کاکام معلومات عام کرنا ہے لیکن یہاں پر معاملہ برعکس ہے۔
جسٹس جوادکا کہنا تھا یہ کوئی ایٹمی کوڈ نہیں،حکومت تفصیل دینے کی پابند ہے،اصغر خان کیس میں عدالت کا ایک فیصلہ آ چکا ہے، انھوں نے کہا امریکہ میں ایک ڈبل ایجنٹ کو اگر 80لاکھ ڈالردیے گئے تواس کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے کہ اس کا نام ظاہرکرنا ہے یا صیغہ راز میں رکھنا ہے۔واشنگٹن میں سفارتخانے کو اگر 80لاکھ ڈالرگئے تو اس کا حساب بھی لازمی ہے، پیسے خرچ ہوئے تو حکومت حساب بھی دے گی،خفیہ رکھنے کا فیصلہ حکومت نہیںکرے گی، ابصار عالم نے ایک دفعہ پھر بجٹ پبلسٹی مہم کیلیے12کروڑ 38 لاکھ،اے پی این ایس کو امدادکی مد میں30 کروڑ روپے اور میڈیا مہم کے44کروڑ روپے کا معاملہ اٹھایا ، وزارت اطلاعات کے وکیل ذوالفقار ملوکہ نے کہا حکومت درخواست گزارکی طرف سے اخبار اور چینل مالکان کے اثاثے ظاہرکرنے کی استدعا کی حمایت کرتی ہے۔
ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے کہا ان کے موکل نے کسی صحافی کوکوئی چیز غیر قانونی طور پر نہیں دی ،انھوں نے کہا ان کے موکل کو صحافیوں اور اینکر پرسن کی عزت عزیز ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل دل محمد علیزئی نے اسدکھرل کی طرف سے مقدمے میں فریق بننے کی مخالفت کی اورکہا کہ وہ متاثرہ فریق نہیں،27 وزارتوں کے بارے میں مبہم انداز میں الزام لگایا گیا ہے،جسٹس جواد نے کہا عدالت کیلئے بنیادی انسانی حقوق کے مقدمات میںکسی متاثرہ شخص کا ہونا ضروری نہیں،آئین نے عدالت کو ایک ایسا اختیار دیا ہے جس کے ذریعے وہ خود بھی ان معاملات کا جائزہ لے سکتی ہے،عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو وزارتوںکی تعداد اور ہر وزارت کی اشتہاری مہم کیلیے فنڈ اور سیکرٹ فنڈکی تفصیل دینے کوکہا جس پر انھوں نے وقت دینے کی استدعا کی ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے چیئرمین پیمرا اور بورڈکے دیگر ارکان کی تقرری کے نوٹیفکیشن بھی پیش کیے۔
عدالت نے سماعت ملتوی کرکے قرار دیا کہ اس مقدمے میں عبوری حکم آج جاری کر دیا جائے گا۔یو ایس ایف کے سابق چیف ایگزیکٹو ریاض اشعر صدیقی کے وکیل راجہ عامر عباس نے یونیورسل سروس فنڈکے مقدمے میں ابتدائی دلائل دیے اورکہا کہ میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈکو ادائیگی پیپرا رولزکیخلاف ہوئی، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وکیل وسیم سجاد نے کہا چیف ایگزیکٹو افسر اخراجات کی منظوری دے سکتا ہے جس پر جسٹس جواد نے کہا منظوری جو بھی دے لیکن پیپرا رولزکی پابندی لازمی ہے۔راجہ عامر عباس نے کہا13 کروڑ 50لاکھ روپے سیاسی مہم کیلئے دیے گئے۔جسٹس جواد نے کہا یونیورسل سروس فنڈکے ذریعے ٹیلی کام کے شعبے میںکم ترقی یافتہ یا غیر ترقی یا فتہ علاقوں میں انفرااسٹرکچر ڈویلپ کیا جاتا ہے اس کا اشتہار بازی سے کوئی تعلق نہیں،دونوںکیس آج پھر سنے جائیں گے۔