رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

روپے میں سولہ آنے، ایک آنے میں چار پیسے اور ایک پیسے میں تین پائیاں ہوا کرتی تھیں

TIRAH VALLEY:
یہ تب کی بات ہے جب روپے میں سولہ آنے، ایک آنے میں چار پیسے اور ایک پیسے میں تین پائیاں ہوا کرتی تھیں، ہونے کو تو پائی میں دمڑیاں بھی ہوتی تھیں لیکن لین دین اور خرید و فروخت میں دمڑیاں تو کیا، پائیاں بھی استعمال نہیں ہوتی تھیں اور پیسوں پر بات ختم ہو جاتی تھی۔ ایک پیسے کا سکہ تو تھا ہی، دو پیسوں کا بھی سکہ ہوتا تھا جو ٹکا کہلاتا تھا اور ایسے دو ٹکوں سے آنا بنتا تھا۔

آنے کے علاوہ دو آنوں، چار آنوں اور آٹھ آنوں کے بھی سکے ہوتے تھے جو بالترتیب دوّنی، چوّنی اور اٹھنّی کہلاتے تھے جب کہ سب سے بڑا سکہ روپے کا تھا جو خالص چاندی اور ایک تولہ وزن کا ہوتا تھا۔ گویا روپے کی قدر ایک تولہ چاندی کے برابر تھی اور سنار حضرات سونے کے زیورات خریدتے اور بیچتے وقت تولے کے باٹ کے طور پر یہی روپے کا سکہ استعمال کرتے تھے۔

ہم نے جب پانچ سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کیا تو ہمیں ایک پیسہ خرچی ملتی تھی۔ تانبے کا بنا، گاڑی کے پہیے کی شکل کا یہ سکہ سوراخ والا پیسہ کہلاتا تھا کہ اس کے بیچوں بیچ بڑا سا سوراخ ہوتا تھا۔ تب اسکولوں کے اوقات بھی آجکل سے زیادہ ہوتے تھے اور دن بھر پڑھائی ہوتی تھی، صبح اسکول گئے ہوئے بچے شام کو گھر لوٹتے تھے، دو وقفے ملتے تھے جن میں اسی ایک پیسے سے بچے اپنی پسند کی چیزیں کھاتے اور کھیل کود کر تازہ دم ہو جایا کرتے۔

دونوں وقفوں میں بچوں کی ریفریشمینٹ کا بندوبست پارو نام کا مقامی ہندو دکاندار اور اس کی بہن ملکر کرتے تھے۔ صبح جب ہم اسکول پہنچتے تو گیٹ پر کبھی پارو تو کبھی اس کی بہن کو بیٹھا ہوا پاتے، جو بچے اس وقت ان کے پاس پیسہ جمع کراتے انھیں وہ دونوں وقفوں میں چپاتی کی سائز کے دو دو تلے ہوئے پاپڑ مونگ کی چٹپٹی گاڑھی دال کے ساتھ کھانے کو دیتے۔ جو ڈیڑھ دو سو بچے روزانہ ایک ایک پیسہ ان کے پاس جمع کراتے، ان کی شکلیں ان دونوں کو یاد رہتی تھیں اور وہ انھیں کبھی شکایت کا موقعہ نہیں دیتے تھے۔

جو بچے دال پاپڑ نہیں کھانا چاہتے تھے وہ اسکول آتے وقت راستے میں کسی دکان سے اپنی پسند کی کوئی اور چیز خرید لیتے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ گھر سے نکلتے ہی بھگڑے ماء کی دکان یا چوک میں بھاون شاہ کی دکان سے اس ایک پیسے میں اتنے بھنے ہوئے چنے آتے کہ ہماری قمیص کی سامنے کی دونوں جیبیں بھر جایا کرتیں اور گڑ کی ڈلی اس کے سوا ملتی تھی۔

پیسوں، ٹکوں اور آنوں کا انگریزوں کا وضع کردہ یہ نظام آزادی کے دس پندرہ سال بعد تک رائج رہا، روپے میں اگرچہ چونسٹھ پیسے ہوا کرتے تھے لیکن ان چونسٹھ پیسوں میں جتنی چیزیں ملتی تھیں وہ اب چونسٹھ روپوں میں بھی نہیں ملتیں جب کہ اب روپیہ بھی سو پیسوں کا ہے، روپے پیسے میں سے برکت اٹھ گئی ہے، پہلے بچہ ایک پیسہ جیب خرچ پا کر خوشی خوشی اسکول جاتا تھا، اب دس بیس روپے لے کر بھی منہ بسورتا ہے، نوٹ مسلتے ہوئے ماں باپ کی طرف یوں دیکھتا ہے جیسے پوچھ رہا ہو کہ اس میں بھلا کیا آئے گا۔

ایک، دو، پانچ اور دس پیسوں کے سکے تو کب کے لد چکے، آجکل کے بچوں نے دیکھے ہی نہیں، پچیس اور پچاس پیسے کے سکے بھی متروک ہو چکے ہیں، ایک اور دو روپے کے سکے صرف فقیروں کو دینے کے کام آتے ہیں، ان کا ملتا ولتا کچھ نہیں، پانچ روپے کا سکہ بھی لگتا ہے کچھ ہی دنوں کا مہمان ہے۔ پیسوں کو پر لگ گئے ہیں، انھیں اڑتے ہوئے تو خیر نہیں دیکھا لیکن یہ ہمارے ہاتھوں میں بھی نہیں رہے اور مسلسل پہنچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔


پیسے اب زیادہ تو ہیں مگر پہنچ سے دور، اور جب کم تھے تو ختم ہونے میں نہیں آتے تھے، کم از کم اسکول کی کاپیوں میں تو ہم یہی دیکھتے تھے، لگے ہاتھوں یہ قصہ بھی سن لیجئے۔ ہمارے ایک ہندو ٹیچر تھے مسٹر کیول، جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے، لیکن ان کا اسلامی نام پتہ نہیں کیا تھا، وہ ہمیں حساب پڑھاتے تھے۔ ایک دن جب وہ پیریڈ لے رہے تھے، ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن، مسٹر علی اکبر تنیو، اچانک انسپیکشن کے لیے آ دھمکے اور سیدھے ہمارے کلاس روم پہنچ کر دروازے میں کھڑے ہو گئے۔

مسٹر کیول، بلیک بورڈ پر لکھنے میں اتنے محو تھے کہ انھوں نے مسٹر تنیو کو نہیں دیکھا۔ ان کا پڑھایا ہوا کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کیونکہ وہ حساب کو اتنا طول دیتے تھے کہ روپے سے پیسے اور پائی تک تو آتے ہی تھے، دمڑی تک بھی جانے کی کوشش کرتے جو انھوں نے خود بھی کبھی نہیں دیکھی تھی۔

مزے کی بات کہ ہمارے نصاب میں حساب کی جو کتاب شامل تھی وہ انھی تنیو صاحب کی لکھی ہوئی تھی۔ ہمارے ٹیچر کو دمڑیوں کا پیچھا کرتے دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا، پہلے کھنکار کر مسٹر کیول کو اپنی طرف متوجہ کیا، پھر بولے: آپ لوگوں کے لیے لوگ بالکل صحیح کہتے ہیں کہ بنیا چمڑی تو ادھڑ والے گا پر دمڑی نہیں چھوڑے گا۔ انھوں نے مسٹر کیول کو سمجھایا کہ جو چیز روز مرہ زندگی میں عملی طور پر رائج نہ ہو اس کا پڑھنا پڑھانا بھی فضول اور وقت کا زیاں ہے۔

ان کا مطلب تھا کہ جب لین دین اور خرید و فروخت پیسوں سے کم پائیوں اور دمڑیوں میں نہیں ہوتی تو ہمیں حساب کے سوال کا جواب بھی پیسوں پر ختم کر دینا چاہیے۔ وہ تو مسٹر کیول کو سمجھا کر چلے گئے وہ اپنی بنیوں والی فطرت سے مجبور تھے، سو کہاں باز آنے والے تھے، ان کے جاتے ہی بلیک بورڈ پر اپنا ادھورا چھوڑا ہوا سوال مکمل کرنے میں لگ گئے اور دمڑیوں تک پہنچ کر ہی دم لیا۔

سو ہم بات کر رہے تھے ساٹھ ستر سال پہلے اور آج کے کرنسی نظام میں فرق کی۔ جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، پرانا نظام معیشت کے مقامی تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر وضع کیا گیا تھا جو افراط زر (پیسے کے پھیلاؤ) کو روکتا تھا اور کم سے کم پیسوں میں لوگوں کی ضروریات پوری کرتا تھا، اس کے برعکس موجودہ اعشاری نظام، مقامی معیشت کو مغربی منڈیوں میں بیچنے اور وہاں کے سرمایہ دارانہ نظام سے منسلک کرنے کی شعوری کوشش کے طور پر متعارف کروایا گیا، جس کا نتیجہ ایک طرف افراط زر تو دوسری جانب روزافزوں گرانی، غربت اور بیروزگاری کی صورت میں برآمد ہوا اور مسلسل ہو رہا ہے۔

ہماری معیشت عالمی بینک اور آئی ایم ایف پر پوری طرح محتاج ہو چکی ہے اور ہم جو اس ابتری کے ذمے دار ہیں اس دلدل سے نکلنے کے جتن کرنے کی بجائے نیا قرض لے کر پرانے قرض کا سود ادا کرنے میں لگے ہیں اور سمجھتے ہیں ملک ترقی کر رہا ہے۔ یہ سوچ ایک لحاظ سے صحیح بھی ہے کہ اگر ایٹم بم بنا کر ترقی کی جا سکتی ہے تو اپنی معیشت کو سرمایہ دارانہ نظام کے تابع کر کے اور مغربی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر کیوں ترقی نہیں کی جا سکتی؟

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
Load Next Story