کیوں نہ سیوٹ جیسے جزیرے بنائے جائیں حصہ اول

جمالی صاحب کو بتادیا گیا کہ سیوٹ میں پرائیویٹ روم کا کوئی تصور نہیں ہے


Sajid Ali Sajid November 24, 2016
[email protected]

ہمارے بعض ماہرین خاصے غور و فکر اور عرق ریزی کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے ملک میں مبینہ طور پر کرپشن اور نا اہلی کا جو سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے ان کے گرد ایمانداری کے چھوٹے چھوٹے جزیرے تعمیر کرکے ان پر بند باندھا جاسکتا ہے اور بہت سی خرابیوں کو دور کیا جاسکتا ہے جس طرح قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا ہے اسی طرح اس قسم کے جزیرے مل کر سمندر کاسا تاثر پیدا کرسکتے ہیں۔

اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے اداروں کی ایک کرکے ان کی اصلاح کا کام شروع کریں تو چار سال میں یہ خواب حقیقت میں بدل سکتا ہے۔ ایسے کسی جزیرے کے لیے کوئی ماڈل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی تو ایک ادارہ ایس آئی یو ٹی (SIUT) کا ادارہ تھا جسے ملک کے تمام اداروں کے لیے ماڈل اور مثال بنایا جاسکتا ہے تاہم ایسے کسی بھی خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ڈاکٹر ادیب رضوی جیسی Comitted نابغۂ روزگار عظیم شخصیت کی ضرورت ہوگی اور یہ کام اگر ناممکن نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں۔

یعنی انتہائی ایمانداری اور مخلص انتہائی اعلیٰ پیشہ ورانہ قابلیت اور بہترین تنظیمی صلاحیتوں سے مالامال، رنگ نسل، قومیت کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیاز برتنے کے عیب سے پاک اور جب آپ ایسی شہریت رکھتے ہوں تو لوگ سرکاری اور نجی کسی سطح پر بھی مالی وسائل کی فراہمی میں کسی قسم کے بخل سے کام نہیں لیتے اور جب یہ ساری خوبیاں اور خصوصیات یکجا ہوجائیں تو پھر سیوٹ جیسا ادارہ وجود میں آتا ہے۔ لا تعداد مریض سیوٹ کی ان خدمات سے استفادہ کرکے صحت یاب ہوچکے ہیں۔

اب آخر اس ادارے میں ضرور ایسی کوئی خاص بات ہوگی کہ عبدالستار ایدھی جیسی عظیم شخصیت زندگی بھر اسی ادارے میں داخل ہوکر اپناعلاج کراتی رہی۔ ہمیں اس وقت نوبل انعام کے جینوئن ہونے پر شک ہونے لگتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ محض بعض فنی موشگافیوںکو بنیاد بناکر عبدالستار ایدھی مرحوم اور ڈاکٹر ادیب رضوی جیسی عظیم شخصیتوں کو نوبل انعام کے لیے Consider تک نہیں کیا گیا حالانکہ بہت سے ایسے افراد کو یہ انعام دے دیا گیا جنھوں نے مذکورہ دونوں شخصیتوں سے کہیں کم انسانی خدمات انجام دی تھیں۔

ہمیں سیوٹ کے بارے میں یہ کالم لکھنے کا خیال اس وقت آیا جب ہمیں اپنے ایک شناسا ایسے ڈاکٹر صاحب سے گفتگو کا موقع ملا جو اس ادارے میں پانچ چھ سال سروس کرچکے تھے انھوں نے اس ادارے کی سب سے بڑی خوبی یہ بیان کی کہ یہاں وزیراعظم سے لے کر ایک عام مزدور تک سب کے ساتھ بلا امتیاز یکساں سلوک روا رکھا جاتا ہے اور یہاں اتنے سارے مریضوں میں کوئی وی آئی پی نہیں ہوتا سب کو انتہائی اعلیٰ معیار کی یکساں علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

مذکورہ ڈاکٹر صاحب نے ہمیں سابق وزیراعظم میر ظفر اﷲ جمالی کے سیوٹ میں داخل ہونے اور آپریشن کے مرحلے سے گزرنے کی کہانی سنائی جہاں کوئی راجہ ہو یا پرجا تمام مریضوں سے یکساں سلوک ہوتا ہے اس سے بڑی مثال کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ جمالی صاحب سے بالکل ایک عام مریض کا سا سلوک کیا گیا حالانکہ وہ ڈاکٹر ادیب رضوی کے احباب خاص میں سے ایک تھے۔

جمالی صاحب کو بتادیا گیا کہ سیوٹ میں پرائیویٹ روم کا کوئی تصور نہیں ہے اور انھیں عام مریضوں کی طرح وارڈ میں رہنا ہوگا ہاں یہ کوشش ضرور کی جائے گی کہ اگر مریضوں کی تعداد اجازت دے تو جمالی صاحب کے قریب کا بیڈ خالی رکھا جائے۔

پھر آپریشن والے دن بھی جمالی صاحب کو ان کے غیر معمولی جثے کے باوجود پورے بیڈ سمیت لے جانے کے بجائے پہلے اسٹریچر پر منتقل کیا گیا اور پھر آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا ہاں آپریشن تھیٹر میں جمالی صاحب کے پرسنل کارڈیالوجسٹ کو آپریشن کے دوران موجود رہنے کی اجازت دی گئی، ڈاکٹر ادیب رضوی کا ان کا آپریشن کرنا بھی کوئی خاص بات نہیں تھی اس عمر میں بھی ڈاکٹر صاحب بیشتر مریضوں کا آپریشن خود کرتے ہیں۔

اکثر ڈاکٹر صاحب عام ملازموں کے ساتھ لائن میں لگ کر لنچ کرتے ہیں جہاں مختلف درجے کے ملازمین اکثر ان سے آگے ہوتے ہیں اور وہ بڑی خندہ پیشانی سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں اس طرح ڈاکٹر ادیب رضوی نے اپنے ادارے میں سب سے یکساں سلوک مساوات بہترین علاج معالجے کی سہولتیں سب کے لیے کے فلسفے پر مبنی ایک ایسی دنیا تخلیق کر رکھی ہے جو تمام دوسرے لوگوں کے لیے مثال ہے۔ اسی لیے ہماری یہ تجویز ہے کہ سیوٹ کے ادارے اور ڈاکٹر ادیب رضوی کی شخصیت کو ماڈل بناتے ہوئے ملک میں ایسے جزیروں کا جال بچھایا جائے اور خرابیوں کے سمندر کے اثرات زائل کیے جائیں۔

جب ہم اس کالم کا بڑا حصہ تحریر کرچکے تھے تو سندھ یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) کے بارے میں اے ایف پی کی ایک سیر حاصل رپورٹ ہماری نظر سے گزری جس کے کچھ حصے ہم اپنے کالم میں شامل کررہے ہیں جو ہماری ان تمام باتوں کی تصدیق بھی کرتے ہیں اور اضافہ بھی جو ہم تحریر کرچکے ہیں، 79 سال کی عمر میں ڈاکٹر صاحب کو گویا خاصی تقویت اور جلا اپنے کام سے محبت کی بدولت ملتی ہے وہ بڑی پرجوش انداز میں اس 42 سالہ سفر کی کہانی سناتے ہیں جس کی ابتدا آٹھ بیڈز کے وارڈ سے کر کے انھوں نے اسے جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ٹریٹمنٹ نیٹ ورک کا روپ دے دیا۔

یہ زیادہ تر عطیات سے چلتا ہے جو ایک سو روپے (ایک ڈالر) جتنا کم اور پچاس کروڑ جتنا خطیر بھی ہوسکتا ہے جو میر ظفر اﷲ جمالی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں دیا تھا اس اسپتال میں پچھلی چار دہائیوں میں لاکھوں مریضوں کا علاج کیا جاچکا ہے۔صرف 2015ء میں یہاں تین سو سے زیادہ ٹرانسپلاٹس اور دو لاکھ ساٹھ ہزار ڈائیلسز سیشنز کیے گئے، فالو اپ ٹریٹمنٹ اور دوائیں فراہم کی گئیں اور یہ سب کچھ مفت میں کیا گیا۔

رضوی کہتے ہیں ایک ترقی پذیر ملک میں حکومتیں اسٹیٹ آف دی آرٹ ہیلتھ سروس کی مالی طور پر متحمل نہیں ہوسکتیں اس ناقابل تصور غربت کو بیان کرتے ہوئے جس کا تجربہ ان کے عملے کو ملک بھر میں کچھ ہیلتھ سینٹرز میں ہوتا ہے حکومت یقینا فنڈز دیتی ہے مگر اس سے سیوٹ کے بجٹ کے صرف تیس فی صد اخراجات پورے ہوتے ہیں جب کہ رضوی صاحب کا یہ خواب اور فلسفہ کہ ہر انسان کو باوقار انداز میں علاج معالجے کی تمام سہولتوں تک رسائی کا حق ہونا چاہیے۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں