چارسال گزرنے کے باوجود شاہ رخ جتوئی پر فرد جرم عائد نہ کی جا سکی
مجرم شاہ رخ 2012 میں طالبعلم شاہ زیب کوقتل کرکے فرار ہوگیا تھا، 2013 میں دبئی سے گرفتارکیا گیا
4سال گزر جانے کے باوجود بیرون ملک فرارکیس میں ملوث اور شاہ زیب قتل کیس میں سزا یافتہ شاہ رخ جتوئی و دیگر پرفردجرم عائد نہ ہوسکی ،مقدمہ تاحال التوا کا شکار ہے.
تفصیلات کے مطابق مجرم شاہ رخ جتوئی دسمبر 2012 کو طالبعلم شاہ زیب کو قتل کرنے کے بعدبیرون ملک فرار ہوگیا تھا بعدازاں جنوری2013 کو ایف آئی اے نے ملزم کو دبئی سے گرفتارکیا تھا، شاہ رخ جتوئی کو بیرون ملک فرار کرانے میں اس کی مدد کرنے میں ملوث اس کے بھائی نواب علی جتوئی، سکندر علی جتوئی گروپ آف کمپنیز کے ڈائریکٹرمحمد خرم، پی آئی اے کے افسر محمود سلطان اور وصی، ٹریول ایجنٹ سہیل احمد، عمر ڈونکی ابوبکر ڈونکی و دیگر کے خلاف جعلسازی اور بیرون ملک فرار ہونے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا.
مجرم شاہ رخ جتوئی کو جون 2013کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے شاہ زیب کے قتل کے جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی تھی اور ایف آئی اے نے بیرون ملک فرار کیس کا حتمی چالان مارچ 2013میں جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت میں جمع کرایا تھا، مجرم کو جنوری 2013میں عدالتی ریمانڈ پر ملیر کی عدالت نے جیل بھیج دیا تھا ،عدالت نے متعدد بار ایف آئی اے کومقدمے کی نقول فرام کرنے کا حکم دیا تاہم 2سال بعد2015میں ایف آئی اے نے ملزمان کو مقدمے کی نقول فراہم کی.
عدالت نے متعدد بار مجرم کو عدالت میں طلب کیا لیکن جیل حکام نے سیکیورٹی کے پیش نظر ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کیاجس کے بعد گزشتہ سال محکمہ داخلہ نے مقدمہ جیل منتقل کردیا،اسی دوران مقدمہ جوڈیشل مجسٹریٹ شیر محمد کلاچی کی عدالت میں منتقل ہوا فاضل عدالت نے مقدمہ چلانے سے انکار کردیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب وہ وکیل تھے اس وقت وہ ملزم کے وکیل رہ چکے ہیں، فاضل جج کے انکار پر مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کردیا گیا،فاضل جج نے اپنی ذاتی وجواہات پر نوکری سے استعفیٰ دیدیا۔
عدالت کے خالی ہونے پر مقدمہ ایک بار بھر دوسری عدالت میں منتقل کردیا گیا موجودہ فاضل عدالت نے متعدد بار جیل میں جاکر مقدمے کی سماعت کی لیکن ملزمان کے وکلاکی عدم حاضری اورکبھی ملزمان کی عدم حاضری کے باعث عدالتی کارروائی کیے بغیر سماعت ملتوی کردی گئی، موجودہ صورت حال کے مطابق 4 سال گزر جانے کے باجود ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی ہے اور مقدمہ التواکا شکار ہے۔
تفصیلات کے مطابق مجرم شاہ رخ جتوئی دسمبر 2012 کو طالبعلم شاہ زیب کو قتل کرنے کے بعدبیرون ملک فرار ہوگیا تھا بعدازاں جنوری2013 کو ایف آئی اے نے ملزم کو دبئی سے گرفتارکیا تھا، شاہ رخ جتوئی کو بیرون ملک فرار کرانے میں اس کی مدد کرنے میں ملوث اس کے بھائی نواب علی جتوئی، سکندر علی جتوئی گروپ آف کمپنیز کے ڈائریکٹرمحمد خرم، پی آئی اے کے افسر محمود سلطان اور وصی، ٹریول ایجنٹ سہیل احمد، عمر ڈونکی ابوبکر ڈونکی و دیگر کے خلاف جعلسازی اور بیرون ملک فرار ہونے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا.
مجرم شاہ رخ جتوئی کو جون 2013کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے شاہ زیب کے قتل کے جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی تھی اور ایف آئی اے نے بیرون ملک فرار کیس کا حتمی چالان مارچ 2013میں جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت میں جمع کرایا تھا، مجرم کو جنوری 2013میں عدالتی ریمانڈ پر ملیر کی عدالت نے جیل بھیج دیا تھا ،عدالت نے متعدد بار ایف آئی اے کومقدمے کی نقول فرام کرنے کا حکم دیا تاہم 2سال بعد2015میں ایف آئی اے نے ملزمان کو مقدمے کی نقول فراہم کی.
عدالت نے متعدد بار مجرم کو عدالت میں طلب کیا لیکن جیل حکام نے سیکیورٹی کے پیش نظر ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کیاجس کے بعد گزشتہ سال محکمہ داخلہ نے مقدمہ جیل منتقل کردیا،اسی دوران مقدمہ جوڈیشل مجسٹریٹ شیر محمد کلاچی کی عدالت میں منتقل ہوا فاضل عدالت نے مقدمہ چلانے سے انکار کردیا اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب وہ وکیل تھے اس وقت وہ ملزم کے وکیل رہ چکے ہیں، فاضل جج کے انکار پر مقدمہ دوسری عدالت میں منتقل کردیا گیا،فاضل جج نے اپنی ذاتی وجواہات پر نوکری سے استعفیٰ دیدیا۔
عدالت کے خالی ہونے پر مقدمہ ایک بار بھر دوسری عدالت میں منتقل کردیا گیا موجودہ فاضل عدالت نے متعدد بار جیل میں جاکر مقدمے کی سماعت کی لیکن ملزمان کے وکلاکی عدم حاضری اورکبھی ملزمان کی عدم حاضری کے باعث عدالتی کارروائی کیے بغیر سماعت ملتوی کردی گئی، موجودہ صورت حال کے مطابق 4 سال گزر جانے کے باجود ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی ہے اور مقدمہ التواکا شکار ہے۔