’’پینک بٹن‘‘ نہ دبائیں
اظہر علی کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر مصباح اب اس مقام پر آ چکے ہیں جب وہ کسی کی ڈکٹیشن لینا پسند نہیں کریں گے
ISLAMABAD:
دورئہ نیوزی لینڈ میں ابھی ٹیم صرف ایک ہی میچ ہاری مگر حکام کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگی ہیں، شاید انھیں دوسرے ٹیسٹ اور آسٹریلوی ٹور میں مزید خراب نتائج کی فکر ستا رہی ہے،چیف سلیکٹر انضمام الحق بھی پریشان نظر آنے لگے ہیں، گذشتہ دنوں انھوں نے دھڑا دھڑ میڈیا پر انٹرویوز دیے اور سب میں ملبہ کھلاڑیوں پر گراتے نظر آئے۔
اظہر علی اب دوسرے ٹیسٹ میں کپتانی کرنے والے ہیں مگر انضمام نے ان کی سست بیٹنگ کو دل کھول کر تنقید کا نشانہ بنایا، گوکہ سلو بیٹنگ والا پوائنٹ درست ہے مگر چیف سلیکٹر کا عوامی سطح پر یہ کہنا مناسب نہ تھا اس سے اظہر پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہو گا، اسد شفیق خود ناقص فارم کے سبب پریشان ہیں انضمام نے انھیں بھی تنقید کا نشانہ بنا کر رہا سہا اعتماد بھی ختم کر دیا، چیف سلیکٹر کو ٹیم میں جو خامیاں نظر آئیں ان کا براہ راست کھلاڑیوں کو بتانا چاہیے تھا۔
اس طرح میڈیا میں باتیں کرنے سے انھوں نے پلیئرز کو ناراض بھی کر دیا ہے، وہ پلیئنگ الیون کے انتخاب کیلیے بھی کھلے عام مشورے دے رہے ہیں، یہ بات بھی درست نہیں، انھیں اس حوالے سے فون پر گفتگو کرنا چاہیے تھے، ویسے بھی سلیکشن کمیٹی کا کام 15،16 رکنی اسکواڈ کا انتخاب ہوتا ہے اس میں سے کسے کھلانا ہے یہ ٹور مینجمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے، اب انضمام آسٹریلیا کی ''سرکاری سیر'' پر بھی جا رہے ہیں، وہاں بھی انھوں نے اگر ٹیم کے معاملات میں ایسے ہی مداخلت کی اور نتائج اچھے نہ رہے تو بڑا تنازع ہو سکتا ہے۔
اظہر علی کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر مصباح اب اس مقام پر آ چکے ہیں جب وہ کسی کی ڈکٹیشن لینا پسند نہیں کریں گے، سب سے اچھا تو یہی ہے کہ چیئرمین بورڈ چیف سلیکٹر کو ٹور سے روک دیں وہاں ان کا کوئی کام ہی نہیں ہے، اسی صورت تنازعات سے بچا جا سکے گا، اس وقت ایک شکست کے بعد '' پینک بٹن'' دبانا مناسب نہیں ہے، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کامران اکمل کے چاہنے والے انھیں دورئہ آسٹریلیا کیلیے دوبارہ ٹیم میں واپس لانے کی مہم شروع کر چکے،مجھے ایسے میں ایک اور آسٹریلوی ٹور کا مشہور زمانہ سڈنی ٹیسٹ یاد آ رہا ہے۔
خیر اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن اس وقت ایسی باتیں سرفراز احمد پر دباؤ مزید بڑھائیں گی، ویسے ہی رضوان اسکواڈکے ساتھ ہیں، کامران کو کئی بار آزمایا جا چکا اب بیٹسمین کا ٹیگ لگا کر واپس لانے سے کیا حاصل ہو گا؟ میں مانتا ہوں کہ انھوں نے قائد اعظم ٹرافی میں سب سے زیادہ 790 رنز بنائے ہیں لیکن اگر یہی سلیکشن کا معیار ہے تو پھر عثمان صلاح الدین 780، عبدالرحمان مزمل 707اور آصف ذاکر 706 رنز بنا کر بھی موقع پانے کے مستحق ہیں، سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے صرف نام پر نہ جائیں۔
ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ پرفارمرز کو ضرور موقع دیں مگر یہ دیکھ لیں کہ کہیں یہ چلے ہوئے کارتوس تو نہیں ہیں اور کتنے عرصے ملک کے کام آ سکیں گے، ویسے ہمارا بورڈ ڈومیسٹک ایونٹس کو کتنی اہمیت دیتا ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ سب سے بڑے ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کے دوران کئی اہم کھلاڑی بنگلہ دیش لیگ کھیل رہے ہیں، ڈپارٹمنٹس سارے سال انھیں تنخواہیں دیتے ہیں، جب انھیں ضرورت ہو تو وہ مزید پیسے کمانے باہر چلے جاتے ہیں۔
احمد شہزاد، عمر اکمل، جنید خان اور سہیل تنویر وغیرہ قومی ٹیم میں آنا چاہتے ہیں، مگر چیف سلیکٹر واضح کر چکے کہ اس کیلیے لیگ وغیرہ کی کارکردگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اگر ایسا ہے تو انھیں ریلیز کیوں کیا؟ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی ہدایت کیوں نہ کی جہاں پرفارمنس جانچتے؟ یہ باتیں کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہیں، البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ سلیکٹرز اب تواتر سے ڈومیسٹک میچز دیکھنے جا رہے ہیں، اسی سے انھیں ٹیلنٹ کی تلاش میں مدد ملے گی،ان دنوں ایک اور اچھی بات این سی اے کا فعال ہونا ہے۔
اتنی تنقید کے بعد شکر ہے بورڈ کو کچھ عقل آئی اور بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والوں کو کچھ کام کرنے کا خیال آگیا، مگر اس میں میرٹ کو ترجیح دینی چاہیے، پلیئرز کے انتخاب میں سفارش کو بالکل نہ مانیں، اسی طرح کوچز کو بھی ان کی صلاحیت کے مطابق استعمال کریں، جیسے سنا ہے ایمرجنگ پروگرام برائے فاسٹ بولرز و بیٹسمین میں اعجاز جونیئراورنوید انجم کو کوچنگ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، یہ دونوں ہی لیول تھری کے امتحان کو پاس نہ کر سکے تھے، جب آپ کے پاس لیول تھری کوالیفائیڈ کوچز ہیں تو انھیں کیوں موقع نہیں دے رہے، کہیں یہاں بھی تو من پسند افراد کو نوازا نہیں جا رہا ہے،اسی طرح سابق کپتان معین خان تو ''کسینو اسکینڈل'' کے بعد سے لو پروفائل میں ہیں مگر ان کے بھائی ندیم خان حیران کن رفتار سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں
ایک اعلیٰ شخصیت کا ہاتھ ان کے سر پر ہے جس نے پہلے انھیں کرکٹ کمیٹی میں شامل کرایا، اب وہ انڈر19 ٹیم کے منیجر بھی بن گئے، ندیم بھی باسط علی کی طرح ٹی وی پر تنقید کر کے نمایاں ہوئے تھے، باسط کے دور میں اچھا تو کم ہی ہوا مگر انھیںایک بار پھر ویمنز ٹیم کا کوچ بنانے سے جو نقصان ہوا وہ سب کے سامنے ہے، نیوزی لینڈ میں ٹیم پانچوں ون ڈے اور واحد ٹی ٹوئنٹی میچ ہار گئی،اسی طرح بورڈ حکام اپنوں کو نوازتے رہے تو ایسے ہی نتائج سامنے آئیں گے۔
آخر میں کچھ ہاکی فیڈریشن کے ساتھ پی سی بی کے تنازع کا ذکر ہو جائے، ایک کروڑ روپے کرکٹ بورڈ کیلیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، 4کروڑ تو آفیشلز کے دورئہ انگلینڈ پر ہی خرچ ہو گئے تھے، بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے ابھی ہاکی کے بعد اپنی سوئمنگ فیڈریشن کو ایک کروڑ ٹکا کی گرانٹ دی ہے۔
ہمارا بورڈ اس سے گیا گذرا تو نہیں، جس طرح شعیب اختر اور محمد یوسف کے جرمانے و وکلا کی فیس کئی برس بعد معاف ہو جاتی ہے ویسے ہی یہ ایک کروڑ روپے بھی گرانٹ میں بدلے جا سکتے ہیں،حکام کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے،آج ہاکی والوں کا بُرا وقت ہے جو کل کسی پر بھی آ سکتا ہے،اس لیے معاملے کو خوامخواہ مزید طول دینا مناسب نہ ہو گا۔
دورئہ نیوزی لینڈ میں ابھی ٹیم صرف ایک ہی میچ ہاری مگر حکام کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگی ہیں، شاید انھیں دوسرے ٹیسٹ اور آسٹریلوی ٹور میں مزید خراب نتائج کی فکر ستا رہی ہے،چیف سلیکٹر انضمام الحق بھی پریشان نظر آنے لگے ہیں، گذشتہ دنوں انھوں نے دھڑا دھڑ میڈیا پر انٹرویوز دیے اور سب میں ملبہ کھلاڑیوں پر گراتے نظر آئے۔
اظہر علی اب دوسرے ٹیسٹ میں کپتانی کرنے والے ہیں مگر انضمام نے ان کی سست بیٹنگ کو دل کھول کر تنقید کا نشانہ بنایا، گوکہ سلو بیٹنگ والا پوائنٹ درست ہے مگر چیف سلیکٹر کا عوامی سطح پر یہ کہنا مناسب نہ تھا اس سے اظہر پر دباؤ مزید بڑھ گیا ہو گا، اسد شفیق خود ناقص فارم کے سبب پریشان ہیں انضمام نے انھیں بھی تنقید کا نشانہ بنا کر رہا سہا اعتماد بھی ختم کر دیا، چیف سلیکٹر کو ٹیم میں جو خامیاں نظر آئیں ان کا براہ راست کھلاڑیوں کو بتانا چاہیے تھا۔
اس طرح میڈیا میں باتیں کرنے سے انھوں نے پلیئرز کو ناراض بھی کر دیا ہے، وہ پلیئنگ الیون کے انتخاب کیلیے بھی کھلے عام مشورے دے رہے ہیں، یہ بات بھی درست نہیں، انھیں اس حوالے سے فون پر گفتگو کرنا چاہیے تھے، ویسے بھی سلیکشن کمیٹی کا کام 15،16 رکنی اسکواڈ کا انتخاب ہوتا ہے اس میں سے کسے کھلانا ہے یہ ٹور مینجمنٹ پر چھوڑ دینا چاہیے، اب انضمام آسٹریلیا کی ''سرکاری سیر'' پر بھی جا رہے ہیں، وہاں بھی انھوں نے اگر ٹیم کے معاملات میں ایسے ہی مداخلت کی اور نتائج اچھے نہ رہے تو بڑا تنازع ہو سکتا ہے۔
اظہر علی کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر مصباح اب اس مقام پر آ چکے ہیں جب وہ کسی کی ڈکٹیشن لینا پسند نہیں کریں گے، سب سے اچھا تو یہی ہے کہ چیئرمین بورڈ چیف سلیکٹر کو ٹور سے روک دیں وہاں ان کا کوئی کام ہی نہیں ہے، اسی صورت تنازعات سے بچا جا سکے گا، اس وقت ایک شکست کے بعد '' پینک بٹن'' دبانا مناسب نہیں ہے، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کامران اکمل کے چاہنے والے انھیں دورئہ آسٹریلیا کیلیے دوبارہ ٹیم میں واپس لانے کی مہم شروع کر چکے،مجھے ایسے میں ایک اور آسٹریلوی ٹور کا مشہور زمانہ سڈنی ٹیسٹ یاد آ رہا ہے۔
خیر اس پر پھر کبھی بات کریں گے لیکن اس وقت ایسی باتیں سرفراز احمد پر دباؤ مزید بڑھائیں گی، ویسے ہی رضوان اسکواڈکے ساتھ ہیں، کامران کو کئی بار آزمایا جا چکا اب بیٹسمین کا ٹیگ لگا کر واپس لانے سے کیا حاصل ہو گا؟ میں مانتا ہوں کہ انھوں نے قائد اعظم ٹرافی میں سب سے زیادہ 790 رنز بنائے ہیں لیکن اگر یہی سلیکشن کا معیار ہے تو پھر عثمان صلاح الدین 780، عبدالرحمان مزمل 707اور آصف ذاکر 706 رنز بنا کر بھی موقع پانے کے مستحق ہیں، سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے صرف نام پر نہ جائیں۔
ڈومیسٹک کرکٹ کے ٹاپ پرفارمرز کو ضرور موقع دیں مگر یہ دیکھ لیں کہ کہیں یہ چلے ہوئے کارتوس تو نہیں ہیں اور کتنے عرصے ملک کے کام آ سکیں گے، ویسے ہمارا بورڈ ڈومیسٹک ایونٹس کو کتنی اہمیت دیتا ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ سب سے بڑے ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی کے دوران کئی اہم کھلاڑی بنگلہ دیش لیگ کھیل رہے ہیں، ڈپارٹمنٹس سارے سال انھیں تنخواہیں دیتے ہیں، جب انھیں ضرورت ہو تو وہ مزید پیسے کمانے باہر چلے جاتے ہیں۔
احمد شہزاد، عمر اکمل، جنید خان اور سہیل تنویر وغیرہ قومی ٹیم میں آنا چاہتے ہیں، مگر چیف سلیکٹر واضح کر چکے کہ اس کیلیے لیگ وغیرہ کی کارکردگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اگر ایسا ہے تو انھیں ریلیز کیوں کیا؟ ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے کی ہدایت کیوں نہ کی جہاں پرفارمنس جانچتے؟ یہ باتیں کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہیں، البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ سلیکٹرز اب تواتر سے ڈومیسٹک میچز دیکھنے جا رہے ہیں، اسی سے انھیں ٹیلنٹ کی تلاش میں مدد ملے گی،ان دنوں ایک اور اچھی بات این سی اے کا فعال ہونا ہے۔
اتنی تنقید کے بعد شکر ہے بورڈ کو کچھ عقل آئی اور بھاری بھرکم تنخواہیں لینے والوں کو کچھ کام کرنے کا خیال آگیا، مگر اس میں میرٹ کو ترجیح دینی چاہیے، پلیئرز کے انتخاب میں سفارش کو بالکل نہ مانیں، اسی طرح کوچز کو بھی ان کی صلاحیت کے مطابق استعمال کریں، جیسے سنا ہے ایمرجنگ پروگرام برائے فاسٹ بولرز و بیٹسمین میں اعجاز جونیئراورنوید انجم کو کوچنگ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، یہ دونوں ہی لیول تھری کے امتحان کو پاس نہ کر سکے تھے، جب آپ کے پاس لیول تھری کوالیفائیڈ کوچز ہیں تو انھیں کیوں موقع نہیں دے رہے، کہیں یہاں بھی تو من پسند افراد کو نوازا نہیں جا رہا ہے،اسی طرح سابق کپتان معین خان تو ''کسینو اسکینڈل'' کے بعد سے لو پروفائل میں ہیں مگر ان کے بھائی ندیم خان حیران کن رفتار سے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں
ایک اعلیٰ شخصیت کا ہاتھ ان کے سر پر ہے جس نے پہلے انھیں کرکٹ کمیٹی میں شامل کرایا، اب وہ انڈر19 ٹیم کے منیجر بھی بن گئے، ندیم بھی باسط علی کی طرح ٹی وی پر تنقید کر کے نمایاں ہوئے تھے، باسط کے دور میں اچھا تو کم ہی ہوا مگر انھیںایک بار پھر ویمنز ٹیم کا کوچ بنانے سے جو نقصان ہوا وہ سب کے سامنے ہے، نیوزی لینڈ میں ٹیم پانچوں ون ڈے اور واحد ٹی ٹوئنٹی میچ ہار گئی،اسی طرح بورڈ حکام اپنوں کو نوازتے رہے تو ایسے ہی نتائج سامنے آئیں گے۔
آخر میں کچھ ہاکی فیڈریشن کے ساتھ پی سی بی کے تنازع کا ذکر ہو جائے، ایک کروڑ روپے کرکٹ بورڈ کیلیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے، 4کروڑ تو آفیشلز کے دورئہ انگلینڈ پر ہی خرچ ہو گئے تھے، بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے ابھی ہاکی کے بعد اپنی سوئمنگ فیڈریشن کو ایک کروڑ ٹکا کی گرانٹ دی ہے۔
ہمارا بورڈ اس سے گیا گذرا تو نہیں، جس طرح شعیب اختر اور محمد یوسف کے جرمانے و وکلا کی فیس کئی برس بعد معاف ہو جاتی ہے ویسے ہی یہ ایک کروڑ روپے بھی گرانٹ میں بدلے جا سکتے ہیں،حکام کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہیے،آج ہاکی والوں کا بُرا وقت ہے جو کل کسی پر بھی آ سکتا ہے،اس لیے معاملے کو خوامخواہ مزید طول دینا مناسب نہ ہو گا۔