کئی برس سے کچرا گھر بنا ہوا شہر قائد
حکمرانوں اور انتظامیہ کے صفائی کے دعوے بھی کچرے کا ڈھیر بن گئے
KARACHI:
کراچی، جی عروس البلاد کراچی نجانے کتنی دہائیوں سے اپنے اجڑنے پر ماتم کناں ہے۔ بحرانوں کا یہ شہر پانی کی کمیابی، بجلی کی نایابی، امن و امان کی ابتر صورت حال، صحت و صفائی کے فقدان، بے روزگاری، بھتاخوری، چائنا کٹنگ، قبضہ گروپ، لینڈمافیا، تجاوزات، بے ہنگم ٹریفک جیسے کئی اور مہلک امراض میں مبتلا ہے اور علاج ۔۔۔ بس دعوے، دعوے اور دعوے یا پھر وعدے اور یقین دہانیاں جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئیں۔ باقی کو تو رہنے دیتے ہیں صرف کچرے کی بات ہی کرلیتے ہیں اور کچرے پر کیا بات کی جائے کہ کراچی اب '' کچراچی'' میں بدل گیا ہے۔ ٹی وی چینلز چیختے رہتے ہیں، اخبارات سیاہ ہوتے رہتے ہیں اور شہری بے حال ہوچکے ہیں لیکن ارباب اختیار ہیں کہ بہرے بنے ہوئے ہیں۔
اب اس بے حسی پر کیا کہیں، چلیے ماضی کی کچھ خبریں دیکھتے اور حکم رانوں اور انتظامیہ کے صفائی کے دعوؤں اور وعدوں کو کچرے کا ڈھیر بنتا دیکھتے ہیں۔
٭ جگہ جگہ کچرے کے انبار، شہریوں کا جینا دوبھر
21 مارچ 2013
کراچی کی شاہ راہ پر لگے کچرے کے ڈھیر سے شہریوں کو گزرنا مشکل ہوگیا ہے۔ آج کل اگر کراچی میں کچرے کے انبار پر نظر دوڑائی جائے تو لگتا ہے50 فی صد بھی کچرا ٹھکانے نہیں لگایا جارہا ہے۔ صوبۂ سندھ کے مرکز اور منی پاکستان کہلانے والے شہر کراچی کی سڑکوں پر کچرے اور گندگی کے ڈھیر سندھ حکومت کی 5 سالہ کارکردگی کی کہانی سنا رہے ہیں۔ کراچی میں ان دنوں شہری انتظامیہ کی جانب سے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے نہ لگانے کے باعث شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔
ان دنوں شہر کی گلیوں سمیت بڑی شاہ راہوں پر بھی کچرا ہی کچرا دکھائی دے رہا ہے جس سے پیدل چلنے والے افراد، گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، بعض مقامات پر کچرے کے لگے ڈھیر سے سڑکیں تک بند ہوگئی ہیں۔ کراچی میں ایم اے جناح روڈ، صدر، گلشن اقبال ٹاؤن، ناظم آباد، لیاقت آباد، کلفٹن، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقے شدید متاثر ہیں جہاں کچرا سڑکوں پر پھیلا دکھائی دے رہا ہے۔
٭ صحت اور ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ادارے نیشنل فورم آف انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ کے صدر نعیم قریشی کہتے ہیں کہ کراچی میں روزانہ 10ہزار ٹن سے زیادہ کچرا جمع ہوجاتا ہے جسے ٹھکانے لگانا شہری انتظامیہ کی ذمے داری ہے، مگر آج کل اگر کراچی میں لگے کچرے کے انبار پر نظر دوڑائی جائے تو لگتا ہے کہ 50 فی صد کچرا بھی ٹھکانے نہیں لگایا جارہا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اپنے5 سالوں میں شہری حکومت پر جو تجربات کیے ہیں اس سے شہر میں کسی قسم کا مربوط سسٹم نہیں بن سکا، بلدیاتی نظام اور کمشنری نظام کی رد و بدل نے کراچی کے نظام کا ڈھانچا ہی بگاڑ دیا ہے۔
شہری انتظامیہ کسی بھی ڈسٹرکٹ میں کام کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ صفائی ستھرائی سمیت کئی مسائل حل طلب ہیں۔ نعیم قریشی مزید کہتے ہیں کہ رہائشی علاقوں میں کچرا جمع ہونے سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فلیٹوں اور دکانوں کے قریب بکھرے کچرے کے ڈھیر کے باعث شہر کے باسیوں کا نظام زندگی بھی سخت متاثر ہو رہا ہے۔ اگر گاربیج جمپنگ سسٹم مکمل طور سے کام کرے تو یہ مسئلہ جلد حل ہوسکتا ہے شہری مسائل کے حل کے لیے سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ کراچی شہر کی سڑکوں پر دن بہ دن بڑھتے کوڑا کرکٹ اور کچرے کا ڈھیر اور ا س سے اٹھتی بدبو اور تعفن شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
ایم جناح روڈ پر گل پلازا کے ساتھ کچرا کا پہاڑ کھڑا ہے، تعفن شہریوں کے لیے اذیت کا باعث بن گیا ہے۔ مختلف قومیتوں کا گل دستہ شہر کراچی، اپنی خوش بو اور رنگ کھونے لگا ہے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹر، نکاسی آب کا گندا پانی اب اس کی شناخت بن گیا ہے۔ ارباب اختیار عوام کی آواز سننے کو تیار نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ کے باہر بھی گندگی کا ڈھیر لگا ہے۔ سائیں سرکار کے نوٹسز اور ہدایات سب بے کار ہوگئے۔ عوام کس سے شکایت کریں، ان کا حکومت سے بار بار ایک ہی مطالبہ ہے کہ کچرے کے پہاڑوں سے ان کی جان چھڑوائی جائے۔
٭ شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل، بیماریاں پھیلنے کا خدشہ
24 اگست 2014
کراچی: بلدیاتی اداروں کی مجرمانہ غفلت، بے پروائی اور عدم دل چسپی نے شہر کو کچرا کنڈی میں تبدیل کر دیا۔ کوڑا کرکٹ اور غلاظت کے ڈھیروں سے اٹھنے والے تعفن سے وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ پیدا ہوگیا، بلدیاتی اداروں کی چشم پوشی سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سڑکوں پر سیوریج کا پانی جمع ہوگیا، تفصیلات کے مطابق بلدیاتی اداروں کی مجرمانہ غفلت اور عدم دل چسپی نے شہر کو کچرا کنڈی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اداروں کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں شہر بھر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، جن سے اٹھنے والے تعفن نے مکینوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔
صفائی کے ناقص انتظامات کے سبب شہر میں وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے جو کسی بھی غیر معمولی صورت حال کا سبب بن سکتا ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی ادارے کے افسران عملی اقدامات نہیں کرتے اور میڈیا کے لیے خصوصی طور پر گروپ تصاویر بنواتے ہیں اگر ان کے علاقوں کا دورہ کیا جائے تو کچرے اور غلاظت کے ڈھیر سے بھرا ہوتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی تمام تر توجہ مبینہ طور پر شہر میں لگائے جانے والے پتھاروں، ٹھیلوں، کیبنوں اور دکانوں کی حدود سے باہر رکھے ہوئے سامان کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی پر مرکوز رہتی ہے جب کہ فٹ پاتھوں پر قائم تجاوزات کے باعث پیدل چلنے والوں کو بھی سڑک استعمال کرنا پڑتی ہے۔
٭ بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث ڈسٹرکٹ سینٹرل کے علاقے نیو کراچی، صبا سنیما چورنگی، صنعتی ایریا، گودھرا کالونی، نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگی، ڈسکو موڑ، خواجہ اجمیر نگری، انڈا موڑ، ناگن چورنگی، فور کے چورنگی، بابا موڑ، دو منٹ چورنگی، کریلا اسٹاپ، نارتھ ناظم آباد شپ اونر کالج، شارع نور جہاں، نصرت بھٹو کالونی، عبداﷲ کالج، لنڈی کوتل چورنگی، ضیا الدین چورنگی، موسی کالونی، کریم آباد، لیاقت آباد سندھی ہوٹل، سپر مارکیٹ، چونا ڈپو، ناظم آباد، رضویہ سوسائٹی، گل بہار، گل برگ، فیڈرل بی ایریا، ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے علاقے خصوصاً اولڈ سٹی ایریاز جس میں گارڈن، کھارادر، رام سوامی، رنچھوڑ لائن، چونا بھٹی، لائٹ ہاؤس، ڈینسو ہال، جوبلی، مارواڑی لائن، لیاری، لی مارکیٹ، جونا مارکیٹ، برنس روڈ، پاکستان چوک، ڈسٹرکٹ ایسٹ کے علاقے گلشن اقبال ڈسکو بیکری، عزیز بھٹی، بہادر آباد، دھوراجی کالونی، ڈالمیا، پی آئی بی کالونی، پرانی سبزی منڈی، ڈرگ روڈ، مبینہ ٹاون اسکاوٹ کالونی، گل زار ہجری، ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے اورنگی ٹاون، مومن آباد، فقیر کالونی، پیر آباد، پاک کالونی، سعید آباد، گلشن غازی، بلدیہ ٹاون، مواچھ گوٹھ، جنگل اسکول، مشرف کالونی، قائم خانی کالونی، رانگڑ محلہ، عابد آباد، ڈسٹرکٹ کورنگی کے علاقے زمان ٹاون، کورنگی کراسنگ، لانڈھی، شرافی گوٹھ، چکرا گوٹھ، عوامی کالونی، لانڈھی خرم آباد، زمان آباد جب کہ ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقے میمن گوٹھ، بن قاسم ٹاون، شاہ لطیف ٹاون، ملیر سٹی بکرا پیڑی، سہراب گوٹھ نئی سبزی منڈی، صفورا گوٹھ، موسمیات چوک، اوکھائی میمن اور ایئرپورٹ بھٹائی آباد سمیت دیگر علاقوں کی سڑکیں، گلیاں اور محلے نہ صرف صفائی سے محروم ہیں، بل کہ جگہ جگہ کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر سے علاقہ مکینوں کو شدید تعفن برداشت کرنا پڑتا ہے۔
٭ بلدیاتی ادارے خواب غفلت سے نہیں جاگے تو شہر میں نہ صرف وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے بل کہ صفائی کی ابتر صورت حال شہریوں کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے، جس کی تمام تر ذمے داری بلدیاتی اداروں پر عاید ہوگی۔ گلستان رفیع ملیر سٹی میں سیوریج کی لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے گٹر ابل پڑے ہیں، سیوریج کا پانی سڑکوں پر جمع ہوکر جوہڑ میں تبدیل ہوگیا ہے، جس سے مکینوں بالخصوص نمازیوں اور اسکول جانے والے طلبہ و طالبات کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، غلیظ پانی کی بدبو سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے جب کہ سیوریج کے پانی میں مچھروں کی افزائش نسل سے ڈینگی اور ملیریا پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
٭ سالانہ ساڑھے تین ارب خرچ کے باوجود کراچی بدستور کچرے کا ڈھیر، روشن شیخ
27 مارچ 2015
سالانہ ساڑھے تین ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے، گذشتہ 20 دنوں سے کراچی میں صفائی کی مہم چل رہی ہے، کراچی میں روزانہ 11ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، اس میں سے بہ مشکل 3 ہزار ٹن ہی باقاعدہ روزانہ ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر روشن علی شیخ نے اربن ری سورس سینٹر میں منعقدہ فورم میں کیا، انھوں نے مزید بتایا کہ شہر قائد کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے میونسپل ادارے ناکام ہوچکے ہیں، کراچی دنیا کا گندا ترین شہر کہلانے لگا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ کچرا کراچی کی دونوں لینڈ فل سائٹ دیہہ جام چاکرو، سرجانی اور گوندھ پاس حب ریور روڈ تک نہیں پہنچ پاتا بل کہ یہ کچرا لیاری ندی، ملیر ندی اور ابراہیم حیدری میں سمندر کے کنارے یا پھر شہر کے دیگر کھلے مقامات پر ڈال دیا جاتا ہے، کراچی میں27 فی صد کچرا ری سائیکل ہوتا ہے جس سے وابستہ افراد کروڑوں روپے روزانہ کماتے ہیں لیکن سرکار کو کچھ آمدنی نہیں ہوتی، انھوں نے بتایا کہ اس وقت بلدیہ عظمی کراچی میں 13ہزار خاکروب ہیں، جس میں سے آدھے گھوسٹ ملازمین ہیں، اس وقت بلدیاتی ادارے شہر سے کچرا اٹھانے پر سالانہ ساڑھے 3 ارب روپے خرچ کررہے ہیں، یعنی ایک کروڑ روپے اس کام پر روزانہ خرچ کیے جاتے ہیں جب کہ شہر میں کچرے کے ڈھیروں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔
٭ شہر کو صاف رکھنے کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل
شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے لاہور کی طرز پر کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا ہے، جو نجی شعبے کے تعاون سے ہنگامی بنیادوں پر ماحول کی صفائی کے لیے اقدامات بروئے کار لائے گا، اس منصوبے کے لیے کراچی کو 6 زونز میں تقسیم کیا جائے گا، اس منصوبے کے تحت ہر گھر سے کچرا اٹھایا جائے گا، گلی و محلے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے جھاڑو اور سڑکوں کو دھویا بھی جائے گا، کچرے کو گھروں سے لینڈ فل سائٹ پر پہنچایا جائے گا جب کہ دوسرے مرحلے میں کچرے کو ری سائیکل کیا جائے گا، جس کے ذریعے بجلی، گیس اور فیول پیدا کیا جائے گا اور آمدنی میں اضافہ ہوگا، صنعتی و طبی شعبہ کے کچرے کو الگ سے ٹھکانے لگایا جائے گا۔
روشن شیخ علی نے کہا کہ سالڈ ویسٹ کی صنعت سے وابستہ کسی فرد کو بھی بے روزگا نہیں کیا جائے گا، وہ ملازم کے ایم سی کے ہی رہیں گے، ان کی آپریٹنگ اتھارٹی تبدیل ہوتے ہی ان کی اجرت میں25 فی صد اضافہ ہوجائے گا اور گھوسٹ ملازمین کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
شہر میں ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار لوگوں کا کاروبار کچرا جمع کرنا ہے، شہر بھر میں افغانی بچے اور دیگر افراد صبح سویرے کچرا جمع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، پہلے وہ مقناطیس سے دھات کو کچرے سے چنتے ہیں، بوتل شیشہ الگ کرلیتے ہیں، کاغذ الگ کرنے کے بعد باقی بچ جانے والے کچرے کو جلایا جاتا ہے جس سے شہر کی فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، ابھی موجودہ صورتحال میں کچرا جیسے ہی لینڈ فل سائٹ پر پہنچتا ہے تو لینڈ فل سائٹ پر رہائش پزیر200 خاندان اس کچرے کی چھانٹی کے لیے آجاتے ہیں بل کہ ان لوگوں نے باقاعدہ اپنی بستیاں آباد کر رکھی ہیں، یہ لوگ کینسر، ہیپاٹائیٹس بی اور سی و دیگر بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، لینڈ فل سائیٹ پر ان کو کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں۔
دیکھ لی آپ نے گزشتہ سالوں کی کچھ خبریں۔ رواں سال میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ '' دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے'' کراچی واقعی '' کچراچی'' بن گیا ہے لیکن حکم رانوں اور انتظامیہ کی بے شرمی اور ہٹ دھرمی ملاحظہ کیجیے کہ جو اب بھی وعدے اور دعوؤں کے انبار لگائے جارہے ہیں۔ اہل کراچی آخر جائیں تو جائیں کہاں۔۔۔۔۔۔؟
کراچی، جی عروس البلاد کراچی نجانے کتنی دہائیوں سے اپنے اجڑنے پر ماتم کناں ہے۔ بحرانوں کا یہ شہر پانی کی کمیابی، بجلی کی نایابی، امن و امان کی ابتر صورت حال، صحت و صفائی کے فقدان، بے روزگاری، بھتاخوری، چائنا کٹنگ، قبضہ گروپ، لینڈمافیا، تجاوزات، بے ہنگم ٹریفک جیسے کئی اور مہلک امراض میں مبتلا ہے اور علاج ۔۔۔ بس دعوے، دعوے اور دعوے یا پھر وعدے اور یقین دہانیاں جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوئیں۔ باقی کو تو رہنے دیتے ہیں صرف کچرے کی بات ہی کرلیتے ہیں اور کچرے پر کیا بات کی جائے کہ کراچی اب '' کچراچی'' میں بدل گیا ہے۔ ٹی وی چینلز چیختے رہتے ہیں، اخبارات سیاہ ہوتے رہتے ہیں اور شہری بے حال ہوچکے ہیں لیکن ارباب اختیار ہیں کہ بہرے بنے ہوئے ہیں۔
اب اس بے حسی پر کیا کہیں، چلیے ماضی کی کچھ خبریں دیکھتے اور حکم رانوں اور انتظامیہ کے صفائی کے دعوؤں اور وعدوں کو کچرے کا ڈھیر بنتا دیکھتے ہیں۔
٭ جگہ جگہ کچرے کے انبار، شہریوں کا جینا دوبھر
21 مارچ 2013
کراچی کی شاہ راہ پر لگے کچرے کے ڈھیر سے شہریوں کو گزرنا مشکل ہوگیا ہے۔ آج کل اگر کراچی میں کچرے کے انبار پر نظر دوڑائی جائے تو لگتا ہے50 فی صد بھی کچرا ٹھکانے نہیں لگایا جارہا ہے۔ صوبۂ سندھ کے مرکز اور منی پاکستان کہلانے والے شہر کراچی کی سڑکوں پر کچرے اور گندگی کے ڈھیر سندھ حکومت کی 5 سالہ کارکردگی کی کہانی سنا رہے ہیں۔ کراچی میں ان دنوں شہری انتظامیہ کی جانب سے کوڑا کرکٹ کو ٹھکانے نہ لگانے کے باعث شہر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔
ان دنوں شہر کی گلیوں سمیت بڑی شاہ راہوں پر بھی کچرا ہی کچرا دکھائی دے رہا ہے جس سے پیدل چلنے والے افراد، گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، بعض مقامات پر کچرے کے لگے ڈھیر سے سڑکیں تک بند ہوگئی ہیں۔ کراچی میں ایم اے جناح روڈ، صدر، گلشن اقبال ٹاؤن، ناظم آباد، لیاقت آباد، کلفٹن، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقے شدید متاثر ہیں جہاں کچرا سڑکوں پر پھیلا دکھائی دے رہا ہے۔
٭ صحت اور ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنے والے ادارے نیشنل فورم آف انوائرمنٹ اینڈ ہیلتھ کے صدر نعیم قریشی کہتے ہیں کہ کراچی میں روزانہ 10ہزار ٹن سے زیادہ کچرا جمع ہوجاتا ہے جسے ٹھکانے لگانا شہری انتظامیہ کی ذمے داری ہے، مگر آج کل اگر کراچی میں لگے کچرے کے انبار پر نظر دوڑائی جائے تو لگتا ہے کہ 50 فی صد کچرا بھی ٹھکانے نہیں لگایا جارہا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے اپنے5 سالوں میں شہری حکومت پر جو تجربات کیے ہیں اس سے شہر میں کسی قسم کا مربوط سسٹم نہیں بن سکا، بلدیاتی نظام اور کمشنری نظام کی رد و بدل نے کراچی کے نظام کا ڈھانچا ہی بگاڑ دیا ہے۔
شہری انتظامیہ کسی بھی ڈسٹرکٹ میں کام کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ صفائی ستھرائی سمیت کئی مسائل حل طلب ہیں۔ نعیم قریشی مزید کہتے ہیں کہ رہائشی علاقوں میں کچرا جمع ہونے سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فلیٹوں اور دکانوں کے قریب بکھرے کچرے کے ڈھیر کے باعث شہر کے باسیوں کا نظام زندگی بھی سخت متاثر ہو رہا ہے۔ اگر گاربیج جمپنگ سسٹم مکمل طور سے کام کرے تو یہ مسئلہ جلد حل ہوسکتا ہے شہری مسائل کے حل کے لیے سسٹم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
٭ کراچی شہر کی سڑکوں پر دن بہ دن بڑھتے کوڑا کرکٹ اور کچرے کا ڈھیر اور ا س سے اٹھتی بدبو اور تعفن شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔
ایم جناح روڈ پر گل پلازا کے ساتھ کچرا کا پہاڑ کھڑا ہے، تعفن شہریوں کے لیے اذیت کا باعث بن گیا ہے۔ مختلف قومیتوں کا گل دستہ شہر کراچی، اپنی خوش بو اور رنگ کھونے لگا ہے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، ابلتے گٹر، نکاسی آب کا گندا پانی اب اس کی شناخت بن گیا ہے۔ ارباب اختیار عوام کی آواز سننے کو تیار نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رہائش گاہ کے باہر بھی گندگی کا ڈھیر لگا ہے۔ سائیں سرکار کے نوٹسز اور ہدایات سب بے کار ہوگئے۔ عوام کس سے شکایت کریں، ان کا حکومت سے بار بار ایک ہی مطالبہ ہے کہ کچرے کے پہاڑوں سے ان کی جان چھڑوائی جائے۔
٭ شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل، بیماریاں پھیلنے کا خدشہ
24 اگست 2014
کراچی: بلدیاتی اداروں کی مجرمانہ غفلت، بے پروائی اور عدم دل چسپی نے شہر کو کچرا کنڈی میں تبدیل کر دیا۔ کوڑا کرکٹ اور غلاظت کے ڈھیروں سے اٹھنے والے تعفن سے وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ پیدا ہوگیا، بلدیاتی اداروں کی چشم پوشی سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سڑکوں پر سیوریج کا پانی جمع ہوگیا، تفصیلات کے مطابق بلدیاتی اداروں کی مجرمانہ غفلت اور عدم دل چسپی نے شہر کو کچرا کنڈی میں تبدیل کر دیا ہے۔ اداروں کی ناقص کارکردگی کے نتیجے میں شہر بھر میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہیں، جن سے اٹھنے والے تعفن نے مکینوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔
صفائی کے ناقص انتظامات کے سبب شہر میں وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے جو کسی بھی غیر معمولی صورت حال کا سبب بن سکتا ہے، شہریوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی ادارے کے افسران عملی اقدامات نہیں کرتے اور میڈیا کے لیے خصوصی طور پر گروپ تصاویر بنواتے ہیں اگر ان کے علاقوں کا دورہ کیا جائے تو کچرے اور غلاظت کے ڈھیر سے بھرا ہوتا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیاتی اداروں کی تمام تر توجہ مبینہ طور پر شہر میں لگائے جانے والے پتھاروں، ٹھیلوں، کیبنوں اور دکانوں کی حدود سے باہر رکھے ہوئے سامان کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی پر مرکوز رہتی ہے جب کہ فٹ پاتھوں پر قائم تجاوزات کے باعث پیدل چلنے والوں کو بھی سڑک استعمال کرنا پڑتی ہے۔
٭ بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی کے باعث ڈسٹرکٹ سینٹرل کے علاقے نیو کراچی، صبا سنیما چورنگی، صنعتی ایریا، گودھرا کالونی، نارتھ کراچی پاور ہاؤس چورنگی، ڈسکو موڑ، خواجہ اجمیر نگری، انڈا موڑ، ناگن چورنگی، فور کے چورنگی، بابا موڑ، دو منٹ چورنگی، کریلا اسٹاپ، نارتھ ناظم آباد شپ اونر کالج، شارع نور جہاں، نصرت بھٹو کالونی، عبداﷲ کالج، لنڈی کوتل چورنگی، ضیا الدین چورنگی، موسی کالونی، کریم آباد، لیاقت آباد سندھی ہوٹل، سپر مارکیٹ، چونا ڈپو، ناظم آباد، رضویہ سوسائٹی، گل بہار، گل برگ، فیڈرل بی ایریا، ڈسٹرکٹ ساؤتھ کے علاقے خصوصاً اولڈ سٹی ایریاز جس میں گارڈن، کھارادر، رام سوامی، رنچھوڑ لائن، چونا بھٹی، لائٹ ہاؤس، ڈینسو ہال، جوبلی، مارواڑی لائن، لیاری، لی مارکیٹ، جونا مارکیٹ، برنس روڈ، پاکستان چوک، ڈسٹرکٹ ایسٹ کے علاقے گلشن اقبال ڈسکو بیکری، عزیز بھٹی، بہادر آباد، دھوراجی کالونی، ڈالمیا، پی آئی بی کالونی، پرانی سبزی منڈی، ڈرگ روڈ، مبینہ ٹاون اسکاوٹ کالونی، گل زار ہجری، ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے اورنگی ٹاون، مومن آباد، فقیر کالونی، پیر آباد، پاک کالونی، سعید آباد، گلشن غازی، بلدیہ ٹاون، مواچھ گوٹھ، جنگل اسکول، مشرف کالونی، قائم خانی کالونی، رانگڑ محلہ، عابد آباد، ڈسٹرکٹ کورنگی کے علاقے زمان ٹاون، کورنگی کراسنگ، لانڈھی، شرافی گوٹھ، چکرا گوٹھ، عوامی کالونی، لانڈھی خرم آباد، زمان آباد جب کہ ڈسٹرکٹ ملیر کے علاقے میمن گوٹھ، بن قاسم ٹاون، شاہ لطیف ٹاون، ملیر سٹی بکرا پیڑی، سہراب گوٹھ نئی سبزی منڈی، صفورا گوٹھ، موسمیات چوک، اوکھائی میمن اور ایئرپورٹ بھٹائی آباد سمیت دیگر علاقوں کی سڑکیں، گلیاں اور محلے نہ صرف صفائی سے محروم ہیں، بل کہ جگہ جگہ کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر سے علاقہ مکینوں کو شدید تعفن برداشت کرنا پڑتا ہے۔
٭ بلدیاتی ادارے خواب غفلت سے نہیں جاگے تو شہر میں نہ صرف وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے بل کہ صفائی کی ابتر صورت حال شہریوں کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے، جس کی تمام تر ذمے داری بلدیاتی اداروں پر عاید ہوگی۔ گلستان رفیع ملیر سٹی میں سیوریج کی لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے گٹر ابل پڑے ہیں، سیوریج کا پانی سڑکوں پر جمع ہوکر جوہڑ میں تبدیل ہوگیا ہے، جس سے مکینوں بالخصوص نمازیوں اور اسکول جانے والے طلبہ و طالبات کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، غلیظ پانی کی بدبو سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے جب کہ سیوریج کے پانی میں مچھروں کی افزائش نسل سے ڈینگی اور ملیریا پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔
٭ سالانہ ساڑھے تین ارب خرچ کے باوجود کراچی بدستور کچرے کا ڈھیر، روشن شیخ
27 مارچ 2015
سالانہ ساڑھے تین ارب روپے خرچ کرنے کے باوجود کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے، گذشتہ 20 دنوں سے کراچی میں صفائی کی مہم چل رہی ہے، کراچی میں روزانہ 11ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، اس میں سے بہ مشکل 3 ہزار ٹن ہی باقاعدہ روزانہ ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر روشن علی شیخ نے اربن ری سورس سینٹر میں منعقدہ فورم میں کیا، انھوں نے مزید بتایا کہ شہر قائد کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے میونسپل ادارے ناکام ہوچکے ہیں، کراچی دنیا کا گندا ترین شہر کہلانے لگا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ کچرا کراچی کی دونوں لینڈ فل سائٹ دیہہ جام چاکرو، سرجانی اور گوندھ پاس حب ریور روڈ تک نہیں پہنچ پاتا بل کہ یہ کچرا لیاری ندی، ملیر ندی اور ابراہیم حیدری میں سمندر کے کنارے یا پھر شہر کے دیگر کھلے مقامات پر ڈال دیا جاتا ہے، کراچی میں27 فی صد کچرا ری سائیکل ہوتا ہے جس سے وابستہ افراد کروڑوں روپے روزانہ کماتے ہیں لیکن سرکار کو کچھ آمدنی نہیں ہوتی، انھوں نے بتایا کہ اس وقت بلدیہ عظمی کراچی میں 13ہزار خاکروب ہیں، جس میں سے آدھے گھوسٹ ملازمین ہیں، اس وقت بلدیاتی ادارے شہر سے کچرا اٹھانے پر سالانہ ساڑھے 3 ارب روپے خرچ کررہے ہیں، یعنی ایک کروڑ روپے اس کام پر روزانہ خرچ کیے جاتے ہیں جب کہ شہر میں کچرے کے ڈھیروں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔
٭ شہر کو صاف رکھنے کے لیے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل
شہر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے لاہور کی طرز پر کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا ہے، جو نجی شعبے کے تعاون سے ہنگامی بنیادوں پر ماحول کی صفائی کے لیے اقدامات بروئے کار لائے گا، اس منصوبے کے لیے کراچی کو 6 زونز میں تقسیم کیا جائے گا، اس منصوبے کے تحت ہر گھر سے کچرا اٹھایا جائے گا، گلی و محلے کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے جھاڑو اور سڑکوں کو دھویا بھی جائے گا، کچرے کو گھروں سے لینڈ فل سائٹ پر پہنچایا جائے گا جب کہ دوسرے مرحلے میں کچرے کو ری سائیکل کیا جائے گا، جس کے ذریعے بجلی، گیس اور فیول پیدا کیا جائے گا اور آمدنی میں اضافہ ہوگا، صنعتی و طبی شعبہ کے کچرے کو الگ سے ٹھکانے لگایا جائے گا۔
روشن شیخ علی نے کہا کہ سالڈ ویسٹ کی صنعت سے وابستہ کسی فرد کو بھی بے روزگا نہیں کیا جائے گا، وہ ملازم کے ایم سی کے ہی رہیں گے، ان کی آپریٹنگ اتھارٹی تبدیل ہوتے ہی ان کی اجرت میں25 فی صد اضافہ ہوجائے گا اور گھوسٹ ملازمین کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔
شہر میں ایک اندازے کے مطابق 60 ہزار لوگوں کا کاروبار کچرا جمع کرنا ہے، شہر بھر میں افغانی بچے اور دیگر افراد صبح سویرے کچرا جمع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، پہلے وہ مقناطیس سے دھات کو کچرے سے چنتے ہیں، بوتل شیشہ الگ کرلیتے ہیں، کاغذ الگ کرنے کے بعد باقی بچ جانے والے کچرے کو جلایا جاتا ہے جس سے شہر کی فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے، ابھی موجودہ صورتحال میں کچرا جیسے ہی لینڈ فل سائٹ پر پہنچتا ہے تو لینڈ فل سائٹ پر رہائش پزیر200 خاندان اس کچرے کی چھانٹی کے لیے آجاتے ہیں بل کہ ان لوگوں نے باقاعدہ اپنی بستیاں آباد کر رکھی ہیں، یہ لوگ کینسر، ہیپاٹائیٹس بی اور سی و دیگر بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں، لینڈ فل سائیٹ پر ان کو کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں۔
دیکھ لی آپ نے گزشتہ سالوں کی کچھ خبریں۔ رواں سال میں بھی کچھ نہیں بدلا۔ '' دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے'' کراچی واقعی '' کچراچی'' بن گیا ہے لیکن حکم رانوں اور انتظامیہ کی بے شرمی اور ہٹ دھرمی ملاحظہ کیجیے کہ جو اب بھی وعدے اور دعوؤں کے انبار لگائے جارہے ہیں۔ اہل کراچی آخر جائیں تو جائیں کہاں۔۔۔۔۔۔؟