جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں تیسرا حصہ
حکومت اور اپوزیشن، میوزیکل چیئر کے ایسے کھیل میں مصروف ہیں جس میں عوام صرف اور صرف خسارے میں ہیں۔
حکومت سے وابستہ اُمیدیں تو نہ جانے کب سے ٹوٹ چکی ہیں اور حکومتِ وقت کو اس کی پرواہ ہو بھی کیونکر سکتی ہے کہ ان کی ترجیحات ہی کچھ مختلف ہیں۔ ان کے نزدیک تو عوام کی بنیادی ضروریات سے زیادہ اہم کام اینٹ، گارے، سیمنٹ کی بلند و بالا تعمیرات ہیں۔ حکومت سے کیا غلہ کریں کہ اپوزیشن سے بھی عوام نے اُمیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں کہ وہ حکومت وقت کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے نہ صرف ان کی اصلاح کریں گے بلکہ عوام کے بنیادی حقوق کی پامالی پر بھی واویلا ضرور کریں گے، مگر سب کی سب سراب ہی ثابت ہوئی ہیں۔ اپوزیشن کا حال اس احتجاج سے بھی گیا گزرا ہے جو خواجہ سراؤں نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کیا ہے۔ مزید کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ قدغن کا خدشہ تحریروں پر ایسے منڈلاتا رہتا ہے کہ کب جانے کیسا سدیس آملے۔
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پہلا حصہ)
اپوزیشن سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (دوسرا حصہ)
حکومت اور اپوزیشن تو بناء کسی شک میوزیکل چیئر کے ایسے کھیل میں مصروف ہیں جس میں عوام صرف اور صرف خسارے میں ہیں۔ یہ کھیل صرف ایسے اشرافیہ کے لئے فائدہ مند بنا ہوا ہے جو اشرافیہ بھی صرف ایسے ہیں جن کو صرف ضرب المثل میں ہی اشرافیہ گردانا جاسکتا ہے، مگر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اداروں، شعبوں، خدمات کی فراہمی کے مراکز سے قائم کی گئی اُمیدیں بھی موجودہ حالات میں ٹوٹتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ پاکستان میں اِس وقت کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں بچا (ماسوائے خاکی والوں کے) جو عوام کی اُمیدوں کا ترجمان بن کے ابھرا ہو۔
زیرِ قید حاشیہ ادارے سے بھی اب تو عوام کو کچھ نہ کچھ شکایات پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ انصاف کی فراہمی ہو، یا قانون کی بالادستی، بنیادی حقوق کی فراہمی کے ادارے ہوں، یا خدمات عامہ کے ادارے ہر جانب سے عوام کی امیدیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ انصاف کا عالم یہ ہے کہ عدلیہ میں مقدمات کی بھرمار ہے، سائلین سالہا سال سے مقدمات کی پیروی میں اپنی کئی نسلیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کا حال یہ ہوگیا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے اس ادارے کو ایک تفتیشی ادارہ سمجھ لیا ہے اور ایسے کیسز کی بھرمار ہے جن کا نہ سر ہے نہ پیر، اور جو تفتیشی ادارے ہیں جیسے نیب، ایف آئی اے وغیرہ تو ان کی تحقیقات کا بھی اللہ ہی حافظ ہے کہ ہر ادارے کا باوا آدم نرالا ہے۔ پولیس کا نظام دیکھیں تو ایسا ہے کہ تنخواہیں دو گنا ہونے کے باوجود نذرانہ ایسے لیا جاتا ہے جیسے یہ فرائض میں شامل ہو، عوام جن کی تنخواہ کیلئے اس لئے ٹیکس ادا کرتے ہیں کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کریں گے، لیکن وہ پروٹوکول کے فرائض میں عوام کو اچھوت سے زیادہ کا درجہ دینے کو تیار ہی نہیں۔
''اوئے'' کا کلچر پولیس کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ اپنی شکایات کے بجائے عوام بے چارے اس ادارے کی دیواروں سے بھی دور بھاگتے ہیں کہ اس ادارے کو خوف کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ خدمت عامہ کے جتنے ادارے ہیں ان میں سب کام ہورہے ہیں سوائے خدمات عامہ کے۔ سفری سہولیات کا حال یہ ہے کہ ہر منصوبہ سیاسی مفادات کی تکمیل تو ہے مگر عوام کی فلاح سے کوسوں دور۔ صحت کا عالم یہ ہے کہ عوام کو اسپتالوں سے صحت کے بجائے مزید بیماریاں تحفے میں ملتی ہیں۔ خزانے کا حال یہ ہے کہ بوڑھے پنشنرز خودکشیوں پر مائل ہورہے ہیں۔ زراعت کا شعبہ دیکھیں تو کسان واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ صنعتی شعبے کا جائزہ لیں تو پہلے بیان کئے گئے اشرافیہ کی صنعتیں پھل پھول رہی ہیں مگر چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا کباڑہ ہوگیا ہے۔ پراپرٹی پر حالیہ ٹیکس نے اس کاروبار کو بھی ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بین الصوبائی رابطے کے ادارے باقی سب کام بخوبی کر رہے ہیں سوائے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھنے کے، بلکہ کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں بین الصوبائی جھگڑوں کی وزارت یا ادارہ بھی قائم کردیا جائے۔ تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ طبقاتی تقسیم کو ایسے واضح کردیا گیا ہے کہ ایک طبقہ اونچی عمارات اور دوسرے طبقے کی پہچان ٹوٹے اسکول بن چکے ہیں۔ ایک میڈیم کے طالبعلم تعلیم حاصل کرتے ہی دروازے پر پڑی اعلیٰ ملازمت اٹھا رہے ہیں اور دوسرے میڈیم کے طالبعلم ہونہار ہونے کے باوجود دوسرے درجے کی ملازمتوں پر مجبور ہیں۔
داخلہ، خارجہ، دفاع، پٹرولیم، صنعت، حرفت، طب، تعلیم، قانون، انصاف، شعور، آگاہی، سماجیات، جبر، ریونیو، لینڈ، پٹوار، خواتین کے مسائل، درآمدات و برآمدات، بین المذاہب ہم آہنگی، اقلیتوں کے حقوق، معاشرت، بہبود، فلاح، مساوات، ایوان، تفتیش، تحقیقات، سمندری تجارت، دہشت گردی، ہوا بازی، رجسٹریشن، خوراک، پانی و بجلی، ریلوے، شاہرات، جنگلات، ٹیکس، ادب، فنون لطیفہ، ثقافت، زبان، اطفال، مذہب، گروہی مساوات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، قدیمیت، جدیدیت، وغیرہ سے متعلق پاکستان میں اس وقت جتنے بھی ادارے، وزارتیں، ڈویژن، مکمل شعبہ جات، ذیلی شعبے کام کر رہے ہیں یا قائم ہیں ان میں سے کوئی ایک ادارہ بھی ایسا بتادیں جو آج کے دن پاکستان میں اپنا فرض مکمل ادا کر رہا ہو۔ کوئی ایک شعبہ یا ادارہ ایسا بتا دیں جو پاکستان کے عوام کی امنگوں پر پورا اترتے ہوئے ان کی امیدوں کا محور بن پایا ہو؟۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پہلا حصہ)
اپوزیشن سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (دوسرا حصہ)
حکومت اور اپوزیشن تو بناء کسی شک میوزیکل چیئر کے ایسے کھیل میں مصروف ہیں جس میں عوام صرف اور صرف خسارے میں ہیں۔ یہ کھیل صرف ایسے اشرافیہ کے لئے فائدہ مند بنا ہوا ہے جو اشرافیہ بھی صرف ایسے ہیں جن کو صرف ضرب المثل میں ہی اشرافیہ گردانا جاسکتا ہے، مگر سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ اداروں، شعبوں، خدمات کی فراہمی کے مراکز سے قائم کی گئی اُمیدیں بھی موجودہ حالات میں ٹوٹتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ پاکستان میں اِس وقت کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں بچا (ماسوائے خاکی والوں کے) جو عوام کی اُمیدوں کا ترجمان بن کے ابھرا ہو۔
زیرِ قید حاشیہ ادارے سے بھی اب تو عوام کو کچھ نہ کچھ شکایات پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ انصاف کی فراہمی ہو، یا قانون کی بالادستی، بنیادی حقوق کی فراہمی کے ادارے ہوں، یا خدمات عامہ کے ادارے ہر جانب سے عوام کی امیدیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہو رہی ہیں۔ انصاف کا عالم یہ ہے کہ عدلیہ میں مقدمات کی بھرمار ہے، سائلین سالہا سال سے مقدمات کی پیروی میں اپنی کئی نسلیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کا حال یہ ہوگیا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے اس ادارے کو ایک تفتیشی ادارہ سمجھ لیا ہے اور ایسے کیسز کی بھرمار ہے جن کا نہ سر ہے نہ پیر، اور جو تفتیشی ادارے ہیں جیسے نیب، ایف آئی اے وغیرہ تو ان کی تحقیقات کا بھی اللہ ہی حافظ ہے کہ ہر ادارے کا باوا آدم نرالا ہے۔ پولیس کا نظام دیکھیں تو ایسا ہے کہ تنخواہیں دو گنا ہونے کے باوجود نذرانہ ایسے لیا جاتا ہے جیسے یہ فرائض میں شامل ہو، عوام جن کی تنخواہ کیلئے اس لئے ٹیکس ادا کرتے ہیں کہ وہ انہیں تحفظ فراہم کریں گے، لیکن وہ پروٹوکول کے فرائض میں عوام کو اچھوت سے زیادہ کا درجہ دینے کو تیار ہی نہیں۔
''اوئے'' کا کلچر پولیس کا ٹریڈ مارک بن چکا ہے۔ اپنی شکایات کے بجائے عوام بے چارے اس ادارے کی دیواروں سے بھی دور بھاگتے ہیں کہ اس ادارے کو خوف کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ خدمت عامہ کے جتنے ادارے ہیں ان میں سب کام ہورہے ہیں سوائے خدمات عامہ کے۔ سفری سہولیات کا حال یہ ہے کہ ہر منصوبہ سیاسی مفادات کی تکمیل تو ہے مگر عوام کی فلاح سے کوسوں دور۔ صحت کا عالم یہ ہے کہ عوام کو اسپتالوں سے صحت کے بجائے مزید بیماریاں تحفے میں ملتی ہیں۔ خزانے کا حال یہ ہے کہ بوڑھے پنشنرز خودکشیوں پر مائل ہورہے ہیں۔ زراعت کا شعبہ دیکھیں تو کسان واویلا کرتے نظر آتے ہیں۔ صنعتی شعبے کا جائزہ لیں تو پہلے بیان کئے گئے اشرافیہ کی صنعتیں پھل پھول رہی ہیں مگر چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا کباڑہ ہوگیا ہے۔ پراپرٹی پر حالیہ ٹیکس نے اس کاروبار کو بھی ٹھکانے لگا دیا ہے۔ بین الصوبائی رابطے کے ادارے باقی سب کام بخوبی کر رہے ہیں سوائے صوبوں کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھنے کے، بلکہ کچھ بعید نہیں کہ مستقبل میں بین الصوبائی جھگڑوں کی وزارت یا ادارہ بھی قائم کردیا جائے۔ تعلیم کی صورت حال یہ ہے کہ طبقاتی تقسیم کو ایسے واضح کردیا گیا ہے کہ ایک طبقہ اونچی عمارات اور دوسرے طبقے کی پہچان ٹوٹے اسکول بن چکے ہیں۔ ایک میڈیم کے طالبعلم تعلیم حاصل کرتے ہی دروازے پر پڑی اعلیٰ ملازمت اٹھا رہے ہیں اور دوسرے میڈیم کے طالبعلم ہونہار ہونے کے باوجود دوسرے درجے کی ملازمتوں پر مجبور ہیں۔
داخلہ، خارجہ، دفاع، پٹرولیم، صنعت، حرفت، طب، تعلیم، قانون، انصاف، شعور، آگاہی، سماجیات، جبر، ریونیو، لینڈ، پٹوار، خواتین کے مسائل، درآمدات و برآمدات، بین المذاہب ہم آہنگی، اقلیتوں کے حقوق، معاشرت، بہبود، فلاح، مساوات، ایوان، تفتیش، تحقیقات، سمندری تجارت، دہشت گردی، ہوا بازی، رجسٹریشن، خوراک، پانی و بجلی، ریلوے، شاہرات، جنگلات، ٹیکس، ادب، فنون لطیفہ، ثقافت، زبان، اطفال، مذہب، گروہی مساوات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، قدیمیت، جدیدیت، وغیرہ سے متعلق پاکستان میں اس وقت جتنے بھی ادارے، وزارتیں، ڈویژن، مکمل شعبہ جات، ذیلی شعبے کام کر رہے ہیں یا قائم ہیں ان میں سے کوئی ایک ادارہ بھی ایسا بتادیں جو آج کے دن پاکستان میں اپنا فرض مکمل ادا کر رہا ہو۔ کوئی ایک شعبہ یا ادارہ ایسا بتا دیں جو پاکستان کے عوام کی امنگوں پر پورا اترتے ہوئے ان کی امیدوں کا محور بن پایا ہو؟۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔