پاکستان کو مشتعل کرنے کی بھارتی کوششیں
بھارتی بی ایس ایف میں سکھ اور ہندو فوجیوں کا باہمی تصادم۔ گپ شپ میں ’’خالصتان‘‘ کا ذکر آیا تو ہندو فوجی مشتعل ہو گئے
''بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے اپنے انٹیلی جنس ادارے میں خصوصی سَیل قائم کر رکھا ہے؛ تاہم دشمن کے تمام مذموم عزائم ہم ناکام بنا دیں گے۔ انشاء اللہ۔ کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے سیز فائر کی حالیہ خلاف ورزیوں میں پاک فوج کے 20 جوان شہید ہوئے جب کہ پاکستان کی جوابی کارروائی میں بھارت کے 40 سے زائد فوجی مارے گئے۔ اُسی روز ایل او سی پر بھارت نے سیز فائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں کھوئی رٹہ کے مقام پر فائرنگ کی اور چار پاکستانی شہید کر دیے تھے۔
ایک دن چھوڑ کر بھارت نے پھر اسی مقام پر گولے برسا دیے اور چار پاکستانی معصوم بچوں کو شہید کر ڈالا۔ بلوچستان میں بھی بھارتی کارستانیوں اور بھارتی مداخلت کے کارن درگاہ شاہ نورانی پر خودکش حملہ کر کے ساٹھ سے زائد پاکستانیوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ بھارت نے پاکستانی حدود کی زمینی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فضائی اور بحری سرحدوں میں بھی ناک گھسیڑنے کی کوشش تو کی ہے لیکن ہماری ہمہ دم بیدار فورسز نے بر وقت ان کوششوں کو نہ صرف ناکام بنایا ہے بلکہ ساری دنیا پر بھی واضح کر دیا ہے کہ ہم نیند کے متوالے ہیں نہ آرام کے۔ آزاد کشمیر میں، آگاہی پوسٹ، کے آس پاس بھارت نے اپنا ایک ڈرون بھیج کر ہمیں آزمانا چاہا ہے لیکن اُسے ساٹھ میٹر اندر آتے ہی مار گرایا گیا۔
اس سے گزشتہ روز بھارتی آبدوز نے پاکستانی پانیوں میں در آنے کی دانستہ کوشش تو کی لیکن ادھر بھی اُسے بیدار چشم پاک بحریہ کا سامنا کرنا پڑا۔ پرسوں آزاد کشمیر میں بھارتی فورسز نے وادی نیلم کو نشانہ بنایا اور ایک بس کے درجن بھر مسافروں کو شہید کر دیا۔ ایمبولنس تک کو نہ چھوڑا۔ ہمارے فوجی جوان بھی شہید ہوئے اور ایک نوجوان کپتان بھی۔
یہ ساری بھارتی شیطانیاں نومبر 2016ء کے مہینے میں ہوئی ہیں۔ نومبر کا مہینہ پاکستان کے لیے بدقسمتی کے ایام لے کر طلوع ہوا ہے۔ پانچ سال قبل یہ 26 نومبر تھا جب پاکستان کے ایک قبائلی علاقے، سلالہ، پر امریکی طیاروں نے حملہ کر کے ہمارے درجنوں فوجی جوان شہید کر دیے تھے۔ پاکستان پر یہ تازہ بھارتی حملے عین اس وقت ہوئے ہیں جب چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد اور سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف ریٹائر ہو رہے ہیں۔ رواں نومبر کے دوران پاکستان نے اپنے شہید جوانوں اور شہریوں کا بدلہ لینے کے لیے گیارہ بھارتی فوجی ہلاک کیے۔ اس کا اعلان جنرل راحیل شریف نے، جناب وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں، اس وقت کیا جب خیرپور ٹامیوالی میں فوجی مشقیں ہو رہی تھیں۔
مطلب یہ ہے کہ پاک فوج کا جواب نئی دہلی تک بروقت اور بخوبی پہنچ رہا ہے۔ بھارت نے اپنے گیارہ فوجیوں کی ہلاکت پر مگر چُپ سادھے رکھی اور دیگر نقصانات پر بھی۔ مثال کے طور پر پاکستان کے خلاف اُس کا سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ۔ اور اس دعوے کے پیشِ نظر جب بھارتی عوام اور ذمے داروں نے بھارتی افواج کے سربراہ جنرل دلبیر سنگھ، وزیر اعظم مودی اور وزیرِ دفاع منوہر پاریکر سے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کے ثبوت مانگے تو ان سب نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ اب تو بھارت بھر میں اس بارے سوال کرنا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ مُودی حکومت کو ملک کے اندر شدید قسم کی مزاحمتوں اور سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کوئی شافی جواب نہ دے کر مودی سرکار کو دوہری ندامتیں برداشت کرنا پڑ رہی ہیں۔
مثال کے طور پر اُڑی کے واقعہ کے ذمے دار بریگیڈئیر سوما شنکر کی دوبارہ تعیناتی۔ دو ماہ قبل جب مقبوضہ کشمیر کے علاقے، اُڑی، میں اٹھارہ بھارتی فوجی ہلاک ہو ئے تو یہ سوما شنکر ''صاحب'' ہی اس علاقے کے سب سے بڑے کمانڈر تھے۔ بھارت نے اس واقعہ کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہرایا تو سہی لیکن آج تک اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لا سکا۔ اسی دوران اس بریگیڈئیر کو پُراسرار طور پر وہاں سے تبدیل کر کے ایک اور ''یافت'' والی جگہ پر تعینات کر دیا گیا؛ چنانچہ شبہات کا اٹھنا لازم تھا۔ اس امر کا بھی اظہار کیا گیا کہ مودی حکومت نے اُڑی کے واقعہ پر پردہ ڈالنے کے لیے سوما شنکر کو اس نئی تعیناتی کی شکل میں انعام دیا ہے۔
اور جب بھارتی وزارتِ دفاع نے بھارتی جی ایچ کیو سے اس بارے میں استفسار کیا کہ ابھی جب کہ بریگیڈیر مذکور کی انکوائری بھی مکمل نہیں ہوئی، اُسے کیوں اور کن وجوہ کی بنا پر نئی جگہ اور پہلے سے بھی بہتر اسٹیشن دیا گیا ہے؟ تو مودی حکومت ابھی تک اپنی ہی وزارتِ دفاع کو اس کا اطمینان بخش جواب نہیں دے سکی ہے۔ ایک معروف مغربی اخبار نے یہ بھانڈا پھوڑا ہے تو بھارتی حکومت کو اس کا بھی کوئی جواب نہیں سُوجھ رہا۔ بھارت ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر دانستہ ماحول کو گرم رکھ کر اور بغیر کسی وجہ کے پاکستان کے خلاف خونی کارروائیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے پاکستان کے لیے مشکلات اور پریشانیوں میں اضافہ تو کرنا چاہتا ہے لیکن ایسا کرتے ہو ئے وہ خود بھی غیر محفوظ ہو کر رہ گیا ہے۔
اُس کی فورسز میں بددلی بھی پھیل رہی ہے اور اندرونی جھگڑے بھی روز افزوں ہیں۔ اسی ضمن کا تازہ واقعہ گزشتہ ماہ مقبوضہ کشمیر کے علاقے، کپواڑہ میں پیش آیا ہے۔ بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورسز (بی ایس ایف) میں سکھ اور ہندو فوجیوں کا باہمی تصادم۔ گپ شپ میں ''خالصتان'' کا ذکر آیا تو ہندو فوجی مشتعل ہو گئے اور انھوں نے طیش میں آ کر سکھ فوجی (مندیپ سنگھ) کو نہ صرف قتل کر دیا بلکہ اُس بد قسمت کا سر بھی کاٹ دیا۔ جب اس سنگین واردات کی خبر بھارتی ''بی ایس ایف'' کے ڈائریکٹر جنرل، ارون کمار، کو ملی تو اس پر مٹی ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس کی ذمے داری کشمیری مجاہدین پر ڈال دی گئی۔ بے شرمی سے یہ بھی اعلان کر دیا گیا کہ مندیپ سنگھ کا سر کاٹنے والا مجاہد ایل او سی پار کر گیا ہے۔ مودی سرکار اپنے ہاتھوں سے خود تیار کی گئی بلاؤں پر کب تک پردے ڈالتی رہے گی؟ کب تک بھارتی عوام کو پاکستان کے نام پر احمق بنایا جاتا رہے گا؟ رواں برس کے دوران بھارت نے چار سو سے زائد بار پاکستان کے خلاف سیز فائر کی دھجیاں اڑائی ہیں۔ پاکستان کو ان سب کا، ظاہر ہے، بر وقت جواب دینا پڑا ہے۔
یہ ساری حرکتیں آخر بھارت کر کیوں رہا ہے؟ پھڈا اصل میں کیا ہے؟ اس کا ایک جواب چند دن پہلے صدرِ آزاد کشمیر جناب سردار مسعود خان نے اِن الفاظ میں دیا ہے: ''پاکستان کے خلاف آئے روز کی بھارتی خلاف ورزیوں اور جارحیت کا مقصد سی پیک کو نقصان پہنچانا ہے۔'' میاں شہباز شریف کا بھی کہنا ہے کہ ہمارے دشمن کو اصل تکلیف ''سی پیک'' سے ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا، نے بھی کل ہی یہ بیان دیا ہے کہ بھارت ''سی پیک'' کے راستے مسدود کرنے کے لیے یہ شیطانیاں کر رہا ہے۔ اور اس سے پہلے کہ یہ شیطانیاں کسی بڑی جنگ کی شکل اختیار کر جائیں، بھارت کو باز آ جانا چاہیے۔