میڈیا کی مشکلات

ایمرجنسی کے دوران انڈین ایکسپریس کو اسٹیبلشمنٹ کے غیظ و غضب کا نشانہ بھی بننا پڑا

پاکستان میں ایک متنازعہ خبر کے ایشو پر ایک بحث شروع ہے کہ آیا خبر کا سورس ظاہر کیا جانا چاہیے یا نہیں۔ عمومی رائے یہ ہے کہ سورس ظاہر نہ کیا جائے۔ اس سے جہاں ایک طرف پاکستانی پریس کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے وہیں حکومتی پالیسی کی کمزوری بھی عیاں ہوتی ہے۔ اس بات کا تو کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اس مسئلے کا انجام کیا ہو گا لیکن اب تک یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا فتح یاب رہا ہے۔

اس سے بھارتی میڈیا کو یہ سبق ملتا ہے کہ حکومت خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو' میڈیا عوام کے حق میں آواز بلند کر سکتا ہے اور اسے حکومت کے دباؤ کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا چاہیے۔ میڈیا کو کسی سے دبنے کی ضرورت نہیں تاہم خبروں میں کسی قسم کے تعصب یا جانبداری کا تاثر نہیں ہونا چاہیے۔ جنرل پرویز مشرف نے آرمی چیف کے طور پر کارگل میں جو مہم جوئی کی تھی اس وقت بھی میڈیا میں اس کی مخالفت کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے آج کا بھارتی میڈیا اس مثال پر پورا نہیں اتر سکتا۔

بھارتی حکومت نے پٹھانکوٹ کے واقعے کی خبر دینے پر این ڈی ٹی وی پر ایک دن کی پابندی عائد کر دی تھی جس کا چینل نے خود دفاع کیا جب کہ دوسرے ادارے لاتعلق رہے تاآنکہ ایڈیٹرز گلڈ نے از خود احتجاج کی آواز اٹھائی جس کے بعد چینل نے سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کر دیا۔ اسی دوران دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ این ڈی ٹی وی کے مالک پرونائے رائےPronnoy Roy کو کہا گیا کہ وہ وزیر اطلاعات و نشریات کے روبرو حاضر ہوں جہاں چینل کو ایک مصالحتی فارمولا پیش کیا گیا لیکن یہ رائے کے کریڈٹ کی بات تھی کہ انھوں نے اپنے موقف سے انحراف نہ کیا۔

وزیر اطلاعات ونیکایہہ نادیدو Venkaiah Nadidu نے کہا کہ این ڈی ٹی وی پر ایک روز کی پابندی قوم کے مفاد میں لگائی گئی تھی لیکن ایسا کہنے میں وہ اعتماد سے عاری محسوس ہوئے۔ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ آخر قومی مفاد کی بات کرنے والے وزیر صاحب کون ہوتے ہیں اور یہ کہ انھیں اختیار کس نے دیا؟ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے وزیر موصوف کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور انھوں نے اپنی بات پر اصرار نہیں کیا۔ یہ حقیقت ہے کہ میڈیا کا منظرنامہ تبدیل ہو گیا ہے۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اس وقت کے ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر شیام لال کو اخبار کے مالک شانتی پرشاد جین کی طرف سے یہ کہنے کی جرات ہی نہیں ہوتی تھی کہ اخبار میں کونسی خبر چھاپنی ہے اور کون سی نہیں چھاپنی، خواہ یہ بات بالواسطہ طور پر ہی کیوں نہ بتانی ہو۔ میں شانتی پرشاد جین کو جانتا تھا اور وہ یہی سمجھتے تھے کہ اخبار کا مالک محض ٹرسٹی ہے جسے مہاتما گاندھی نے متعین کیا تھا۔


انڈین ایکسپریس کے مالک رام ناتھ گوئینکا Ramnath Goenka بھی قابل تعریف ہیں۔ میں ان کے اخبار میں کام کر رہا تھا اور مجھے پتہ تھا کہ اندرا گاندھی کی حکومت نے اس اخبار کے اشتہارات پر پابندی لگا رکھی ہے جس کی وجہ سے اس اخبار کی مالی حالت بہت کمزور ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود گوئینکا نے حکومت سے مصالحت کی کوئی کوشش نہ کی۔ انھوں نے اپنے ایڈیٹروں کو مکمل آزادی دے رکھی تھی کہ وہ حکومت کے خلاف جو چاہیں لکھیں اور شایع کریں۔

ایمرجنسی کے دوران انڈین ایکسپریس کو اسٹیبلشمنٹ کے غیظ و غضب کا نشانہ بھی بننا پڑا لیکن اس نے حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ ایسے بہت سے مواقع آئے جب اس اخبار نے سنسر شپ کی خلاف ورزی کی۔ مقامی زبانوں کے اخبارات انگریزی اخبارات سے کہیں زیادہ جرأتمندانہ رویہ رکھتے تھے۔ آج کا بھارتی میڈیا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کچھ بھی شایع نہیں کرتا بلکہ صحافی خود ہوا کا رخ پہچان کر اسی سمت میں چلنے لگتے ہیں حتیٰ کہ بہت سے اخبارات کی یک جہتی پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے جب کہ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ اس تبدیلی کی وجوہات بہت ساری ہیں۔ پہلی بات یہ کہ میڈیا ہاؤسز اخبارات اور ٹی وی چینلز کے کمرشل ہونے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اصولوں کے بجائے ان کی ترجیح زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب جو تھوڑے بہت دیانتدار صحافی باقی رہ گئے ہیں وہ بھی آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے۔ ت

اہم بنگلہ دیش بدستور مثالی کردار کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہاں کے دو چوٹی کے اخبارات ''دی اسٹار'' (انگریزی) اور ''پروتھن آؤ'' (بنگالی) وزیراعظم شیخ حسینہ کے آمرانہ طرز عمل پر کھلی تنقید کرتے ہیں حالانکہ شیخ حسینہ ذرا سی تنقید بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی جنہوں نے کہ ملک کی آزادی کی جنگ لڑی لیکن ان کی بیٹی نے اپنے والد کے تمام اصولوں کی نفی کر دی ہے۔

مشکل حالات میں کس طرح اپنے موقف پر قائم رہا جا سکتا ہے،یہ بڑا اہم سوال ہے۔ مزید برآں کسی جمہوری معاشرے میں پریس کی آزادی بہت ناگزیر ہوتی ہے جس سے کسی حالت میں بھی دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ جو حکمران اظہار خیال پر پابندیاں عائد کرتے ہیں عوام خود ان سے انتقام لے لیتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی جن کی صد سالہ سالگرہ عنقریب منائی جا رہی ہے وہ اس کی خود ایک مثال ہیں۔ 1977ء کے انتخاب میں ان کی کانگریس پارٹی کا صفایا پھر گیا تھا۔ حتیٰ کہ خود اندرا اپنی نشست بھی ہار گئیں۔ کسی جمہوری نظام میں مطلق العنانی عوام کے پاس ہوتی ہے جس کا انھوں نے بار بار اظہار بھی کیا اور ڈان نے بھی عوام پر واضح کر دیا کہ اصل اختیار عوام کا ہی ہوتا ہے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story