دوسرا احتجاج

عجیب بات ہے کہ پی پی کو خود یہ معلوم نہیں کہ اس پارٹی کا آغاز کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟

anisbaqar@hotmail.com

پہلا احتجاج اللہ اللہ کرکے ختم ہوا جو عمران خان کا ترتیب دیا ہوا تھا۔ اس کا انجام تو افسوسناک تھا مگر پھر بھی اظہار تشکر منایا گیا۔ ممکن ہے اس میں کوئی پہلو کامیابی کا پوشیدہ ہو، جو ہم نہ سمجھ سکے۔ مرکزی حکومت کی حمایت میں قطری شہزادہ پیش پیش ہے، کیوں نہ ہو، وہ پاکستان میں کوہ قاف سے آئے ہوئے نایاب پرندوں کے شکار کے لیے پاکستان آتے ہیں، مگر ہمارے یہاں بھی نایاب وکیلوں کی کمی نہیں۔ ایک وکیل صاحب یہ فرمانے لگے کہ اگر ان سے میں چند سوالات کورٹ میں کرلوں تو وہ شہزادے لرزہ براندام ہوجائیں گے۔

کاش کہ وہ دن آتا اور یہاں کوئی اعتراض کرتا۔ اگر صاحب فہم کوئی سیاستداں ہوتا تو وہ ہرگز بغیر ہوم ورک کے اور عوامی رائے عامہ کا جائزہ لیے بغیر کسی تحریک کا آغاز نہ کرتا، مگر آصف زرداری صاحب نے 27 دسمبر سے احتجاج کا اعلان کردیا۔ اس سے پہلے بھی جو احتجاج پی ٹی آئی نے کیا وہ بھی عوامی رنگ اور مسائل کو لیے بغیر تھا۔ اس لیے وہ عوامی مسائل کو سمجھے بغیر ہی کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس پنجاب میں منایا جائے گا۔ وہیں آغاز ہوگا۔

عجیب بات ہے کہ پی پی کو خود یہ معلوم نہیں کہ اس پارٹی کا آغاز کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ کون لوگ اور کس قسم کے لوگ تھے جنھوں نے پارٹی کی تشکیل کی تھی، اس کا خیال اور فلسفہ اور سفر کس قسم کا تھا، ان کا رہنما کون تھا، اس کے خواص کیا تھے، حکمت عملی کیا تھی، کاررواں کی ترتیب کیا تھی، اور سرفروشوں میں کون کون لوگ تھے۔ نہ پارٹی اس وقت کوئی عوامی منشور رکھتی ہے اور نہ ہی طلبا اور مزدور پارٹیاں اس میں شامل ہیں اور کسان موومنٹ کا تو دور کا بھی کوئی واسطہ اور نہ ہاری ونگ سے کوئی رابطہ ہے۔

ایک دور تھا جب پی پی کا آغاز ہوا تو مظلوم طبقات کی یہ ترجمان تھی، رفتہ رفتہ پارٹی اشرافیہ کا ایک ٹولہ بن گئی اور ماضی کے فرسودہ کارکن پارٹی کے لیڈر کہلانے لگے۔ بچے کچھے کچھ ہیں، سو وہ اپنی سانسوں کو کسی طرح پورا کر رہے ہیں۔ پارٹی نے نیا سربراہ تو بنالیا مگر نیا نعرہ نئے نظریات نہ بناسکی۔ جو عوام کی خوشحالی کی ضامن ہو اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مفلوک الحال عوام کی امنگوں کی ترجمان ہو۔ اب پارٹی نے اپنا مرکز لاہور کو بنالیا ہے جس سے پارٹی کا خیال ہے کہ وہ پنجاب میں زیادہ فعال ہوجائے گی۔ اس مفروضے سے پارٹی کی لیڈرشپ یہ سمجھتی ہے کہ وہ زیادہ فعال ہوجائے گی، جب کہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ پارٹی کی گزشتہ پانچ سالہ دور کی کارکردگی نہایت افسوسناک رہی۔ پنجاب میں جہانگیر بدر کی موت نے متوسط طبقے میں زبردست خلا پیدا کردیا، جس سے عوامی سطح پر کام کرنے اور رابطے کا خلا پیدا ہوا اور پارٹی کے باقی ماندہ لیڈر محض اپنی ذات تک محدود رہ گئے۔

پارٹی کی اعلیٰ قیادت ایک محدود علاقے تک ہی کام کرسکتی ہے۔بے نظیر شہید کی طرح جرأت بے باکی اور کوچہ بہ کوچہ رابطہ مہم نہیں چلاسکتی۔ پورے ملک کی سطح پر ترقیاتی کاموں کی یکساں شرح اور علمی ادبی حلقے میں کام کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہ تھی۔ لاہور میں 1979ء مارچ میں بی بی نے جو ادبی کنونشن منعقد کیا تھا اس نے ادیبوں اور شاعروں میں ایک ولولہ پیدا کردیا تھا۔ بی بی نے مزدور فرنٹ اور ادیب فرنٹ پر یکساں کام کیا اور کسی محاذ کو خالی نہ رہنے دیا، خواہ وہ سڑکیں ہوں یا میونسپل کارپوریشن۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ، مگر کام اولیت رکھتا تھا۔ بی بی کے رخصت ہونے کے بعد پی پی کی حکومت تو رہی مگر ترقیاتی کاموں کی صورتحال ابتر ہو چلی، جب کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پنجاب حکومت نے ترقیاتی کاموں پر خاصی توجہ دی اور لاہور میں ترقیاتی کاموں کی رفتار بڑھی اور دیگر علاقے بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے۔


جب کہ کراچی خستہ حالی کا شکار ہوا جس کی وجہ سے میڈیا اور عام لوگوں میں ترقیاتی کاموں کا تجزیہ کیا جاتا رہا۔ کراچی ماس ٹرانزٹ پر توجہ نہ دی گئی جس کی وجہ سے انفرادی ٹریفک میں بے انتہا اضافہ ہوا اور سڑکیں جام ہونے کا منظر پیش کرنے لگیں اور گاڑی کی پارکنگ ایک مسئلہ بن گیا اور فلائی اوور اسکیم بھی خاطر خواہ نتائج نہ دے سکیں۔ عید قرباں کے بعد سے کچرا اٹھانے کا پروگرام بھی التوا کا شکار رہا اور اب خبر آنے کو ہے کہ کراچی کے رہائشیوں کو کچرے سے نجات ملنے والی ہے اور کچرا چین کی کسی کمپنی کو یہ تحفہ دیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک اعلامیے کے تحت رکن سازی کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور کراچی کی صدارت کی کرسی ڈاکٹر عاصم حسین کے سپرد کی گئی ہے۔ کراچی جیسے شہر کی کرسی ڈاکٹر عاصم کے سپرد کی گئی ہے جو ویسے ہی عام لوگوں سے کافی دور ہیں اور نہ ہی ان کا عام آدمیوں سے کوئی تعلق ہے اور نہ وہ کبھی پیپلز پارٹی کے سرکردہ رکن رہے۔

البتہ ان کو صدر بنانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ معاشی طور پر فعال شخصیت ہیں اور وہ پارٹی پر رقم خرچ کرسکتے ہیں۔ ظاہر ہے جب کوئی پارٹی ایسے لوگوں کو پارٹی میں پوزیشنیں نہیں دیتی جو عوام کو قریب تر رکھتے ہوں تو وہ مظاہرے یا احتجاج کے قابل نہیں رہ جاتی۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کے باقی ماندہ عہدیدار بھی عوامی آدمی نہیں ہیں اور نہ علاقوں میں ان کی آمدورفت ہے۔ پی پی ایک زمانے میں صرف ایسے لوگوں کو پارٹی کی پوزیشن دیتی تھی جو جسم و جاں سے پارٹی کے کام آسکتے تھے اور عوام کی جائز ضروریات کو مدنظر رکھتے تھے۔

آپ کو شاید یاد ہو جب لالو کھیت میں ذوالفقار علی بھٹو نے جلسہ کیا تھا، اس میں انھوں نے پروٹوکول کا بالکل خیال نہ رکھا تھا، یہ جلسہ لالو کھیت مارکیٹ کے سامنے اس وقت جو کھلی جگہ تھی کیا گیا تھا۔ آج کوئی بھی ایسا نہیں جو لالو کھیت سے 50 افراد کو بھی جمع کرسکے اور وہ خود کو کراچی کا لیڈر کہلواتے ہیں اور اب معاشی طور پر ایسے لوگوں کو ہی لیڈر بنایا جارہا ہے۔ البتہ شہلا رضا نے سخت دور دیکھا ہے مگر وہ براہ راست الیکشن کے ذریعے نہیں آئیں۔ ایسی صورت میں جو پارٹی بن رہی ہے وہ ایسے لوگوں پر مشتمل نہیں ہے جو احتجاج، دھرنے اور ہڑتال کی سیاست کرسکیں، جب کہ پارٹیوں میں تین قسم کے عوامی اثاثے ہوتے ہیں ایک فکری اور خیالی معاملات کو جنم دینے والے اور لوگوں کے مطالبات اور مشکلات کو سمجھنے والے جو عوام کو کسی مرکز پر جمع کرسکیں۔ اس وقت پاکستان اور انڈیا میں جو بھی لوگ سیاست کے قافلے کو لے کر چل رہے ہیں سب بڑے سرمایہ داروں کے نمایندے ہیں یا خود سرمایہ کاری کے ذریعے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب صرف سرمایہ ہی پارٹی چلانے والوں کا سرچشمہ ہے۔

غور فرمائیے آصف علی زرداری نے فرمایا کہ وہ جلد پاکستان آرہے ہیں مگر ان کی پارٹی کی طرف سے یہ بیان دیا گیا کہ ان کی آمد خود زرداری کے لیے مناسب نہیں۔ ظاہر ہے جس پارٹی میں لیڈرشپ کی بنیاد دولت پر ہی ہو، وہ کب مشکلات کا سامنا کرسکتے ہیں۔ اس پر سے آصف زرداری کا یہ اعلان کہ 27 دسمبر سے احتجاج کی سیاست کا دور ہوگا اور اس سیاست کا دور جس کی نئی بنیاد لاہور میں ڈالی جائے گی۔ علاقائی اور محلہ داری والے چھوٹے لیڈر تو اب پیپلز پارٹی میں ختم ہوتے جا رہے ہیں اور جوں جوں یہ سندھ کارڈ کھیلیں گے ویسے ویسے پی پی پنجاب میں اپنی اساس کھوتی چلی جائے گی، کیونکہ پنجاب میں جو طبقہ نواز شریف کا ساتھ دے رہا ہے وہ اصولی طور پر پنجاب کی سیاست درست خیال کرتا ہے۔

پنجاب کا وہ طبقہ جو کاروباری ہے یا مڈل کلاس سے ابھر کر آیا ہے وہ نواز شریف کی سرمایہ دارانہ سیاست کو درست خیال کرتا ہے اور بھارت سے تصادم کو پسند نہیں کرتا، کیونکہ اس طرح ان کے چھوٹے کاروباری مفادات ہیں، جن کا تحفظ ہوتا ہے۔ پنجاب کا ایک اعلیٰ کاروباری اور ادب نواز طبقہ ہے، اس کو بھی بھارت نوازی کا شوق ہے گوکہ وہ زیادہ نہیں ہے مگر تصادم کا شوق اس کو بھی نہیں ہے۔

البتہ ایک مذہبی طبقہ ہے جو بھارت سے جنگی فضا کو قائم نہیں رکھنا چاہتا۔ ابھی حالیہ فوجی نمائش جو کراچی میں ہوئی اس میں نواز شریف نے امن کی بات کو بڑھا چڑھا کر کیا اور کہا کہ ہم اسلحے کی دوڑ کو اچھا نہیں سمجھتے اور یہی ان کا بنیادی نظریہ ہے جس پر ان کی سلطنت کا دارومدار ہے۔ لہٰذا موجودہ حکمت عملی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نواز حکومت مستقبل میں بھی کامیابی سے آگے چلتی رہے گی، کیونکہ اب ضرب عضب کی کامیاب کارروائی کے بعد طالبان یا داعش کا کوئی خطرہ پاکستان کی حکومت کو نہ رہا۔ اور نہ پاکستان میں اب کوئی مضبوط سیاسی قوت ہے اور نہ کوئی عوامی مطالبہ ہے۔ پی پی نے جو بڑا ایجی ٹیشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے یہ ایسا ہے جیسے کہ کاغذ کا پیٹ بھرنا۔ کیونکہ پارٹی نے بے نظیر بی بی شہید کے اصولوں سے وفا نہ کی اور نہ قافلہ اس راہ سے گزرا۔
Load Next Story