پاکستان اور جاگیردارانہ جمہوریت

طبقاتی کشمکش نے سیکولر سیاست کو جنم دیا اور پنجاب میں سکھ، ہندو اور مسلمان جاگیرداروں نے یونینسٹ پارٹی بنائی۔

وطن عزیز کے اندرونی حالات آج جس نہج پر جا رہے ہیں، انھیں کسی طور بھی خوش آیند نہیں کہا جاسکتا، دنیاوی جنت اور دنیا کی رہنمائی کرنے کے دعوے کی بنیاد پر قائم کی جانے والی مملکت کے افراد، معاشرہ آج سیاسی، سماجی طور مضطرب سرکاری اور ملازمتی طور خوف میں مبتلا ہیں۔ آج کے حالات اور 71 میں ہمیں جس قومی بحران سے گزر کر ملت کو دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے ہوئے دیکھا تھا تو اس کا مواد بھی ایک عرصے سے پک رہا تھا۔ اور یہ ان غلطیوں اور لغزشوں کا نتیجہ ہے کہ جس کی تاریخ انگریز راج سے شروع ہوتی ہے۔

کیونکہ قائد اعظمؒ کے بعد ہمارے حکمرانوں نے امور سلطنت سرانجام دینے میں ایسے ایسے گھپلے کیے کہ آج ایک غیر جانبدار مبصر یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ پاکستانی قیادت نے غلطیوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں چھوڑا۔ یہ قیادت صرف سیاستدانوں پر ہی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں تمام سربرآوردہ معززین شامل ہیں۔ اور یہ بات تو الم نشرح ہے کہ یہی سربرآوردہ معززین تاریخ انسانی میں سلطنتوں کے عروج و زوال میں یکساں طور شریک رہے ہیں۔ لیکن موجودہ بحث میں ہمارا نفس مضمون پاکستان اور اس کے جاگیردار ہیں، اس لیے ہم یہاں صرف جاگیرداری کی تاریخ پر مختصر نظر ڈالیں گے۔

برصغیر کے برطانوی عہد میں بھی جاگیرداروں نے اپنے تاریخی کردار کو زندہ رکھتے ہوئے اپنی مراعات اور امتیازی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں حکومت وقت کی خوشامد اور اپنی وفاداری ثابت کرنے پر صرف کرنی شروع کردی تھیں، جس سے متاثر ہوکر اور عوامی احساسات کو دبائے رکھنے کے لیے 1860 میں لوکل ڈسٹرکٹ بورڈ کے قیام کا اعلان کرکے ان کے لیے سیاست کے دروازے کھول دیے گئے۔

نتیجتاً برٹش انڈیا ایسوسی ایشن، انجمن زمینداری اور ایگریکلچرل ایسوسی ایشنز بنیں اور جاگیرداروں کو عوام کا استحصال کرنے کا نیا ہتھیار مل گیا۔ لیجسلیٹو کونسلز کے بعد تو انھوں نے مفادپرستانہ قوانین پاس کروا کر قانونی لبادہ اوڑھ لیا۔ یہی وہ وقت تھا جب شہروں میں تعلیم یافتہ طبقے نے سیاسی شعور کے ساتھ ابھر کر 1885 میں کانگریس کی بنیاد رکھی تو جاگیرداروں نے اس کے مدمقابل 1888 میں پیٹریاٹک ایسوسی ایشن بنائی۔ کانگریس کا تعلیم یافتہ طبقہ حکومت کی خامیوں کی نشاندہی کرکے اپنا سیاسی حق منوانا چاہتا تھا جب کہ ان کے مزاحمتی لہجے کو سمجھنے سے قاصر اور سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے سرپرستی کے خواہشمند جاگیردار اپنا خاندانی حق استعمال کرنے پر تلے ہوئے تھے۔

ان کی اس طبقاتی کشمکش نے سیکولر سیاست کو جنم دیا اور پنجاب میں سکھ، ہندو اور مسلمان جاگیرداروں نے یونینسٹ پارٹی بنائی۔ جب کانگریس نے تقسیم کے بعد ہندوستان میں جاگیرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا تو سندھ و پنجاب کے جاگیردار مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے پاکستان کی تحریک میں شامل ہوگئے۔

بہت سے لوگ مسلم لیگ کے اس فیصلے کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنا سیاسی سماجی ومعاشرتی استحصال کرنے والے، گورے حکمرانوں کی حاشیہ برداری کرنے والے طبقے کو خوش آمدید کیوں کہا۔ حالانکہ قائداعظمؒ اور ان کے ساتھی ایسی مملکت کے قیام کے قائل نہ تھے کہ جس میں جاگیرداروں کی گنجائش ہو۔ قائداعظمؒ کا پیغام یہ تھا ''اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے، یہ محض آغاز ہے، اب بڑی بڑی ذمے داریاں ہمارے کندھوں پر آن پڑی ہیں اور جتنی بڑی ذمے داریاں ہیں اتنا ہی بڑا ارادہ، اتنی ہی عظیم جدوجہد کا جذبہ ہم میں پیدا ہونا چاہیے۔ پاکستان حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی گئیں، جو کوششیں کی گئیں، پاکستان کی تعمیر وتکمیل کے لیے بھی اتنی ہی قربانیوں اور کوششوں کی ضرورت ہوگی۔''


یہ تو ہر باشعور آدمی جانتا ہے کہ کوئی بھی نظام کسی دوسرے نظام سے بہتر نہیں ہوتا، بہتر تو وہ جذبہ محرکہ ہوتا ہے جس کے تحت وہ نظام چلتا ہے۔ اور ہمارے آباؤ اجداد کا جذبہ محرکہ یہ تھا کہ اس مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں گورے، کالے، عرب اور عجم کا فرق نہ ہو۔ جو چودہ سو سال پیچھے تاریخ کے اوراق کا حصہ بن چکی تھی۔ اسی جذبے کی بنا پر انھوں نے ببول کے بے وقعت کانٹوں کو تاریخی اہمیت کا حامل بنادیا تھا۔ لیکن صد افسوس کہ فرشتہ اجل نے ہمارے محبوب قائد کو اتنی جلدی ہم سے جدا کردیا کہ قوم عہد طفلی میں ہی خود کو یتیم اور بے سہارا محسوس کرنے لگی اور جاگیرداروں کو نئی زندگی مل گئی۔ کیونکہ تقسیم کے بعد سندھ و پنجاب کے تعلیم یافتہ متوسط طبقے کے چلے جانے اور بابائے قومؒ کی رحلت کے بعد وہ ملکی سیاست پر بلاشرکت غیرے حاوی ہوگئے۔

اب اگر ان کے مدمقابل کوئی تھا وہ سول وفوجی بیوروکریٹس تھے جن سے انھوں نے اپنے تاریخی کردارکو دہرا کر راہ ورسم بڑھانے اور اپنی اوالاد کے ذریعے اس میں اپنی شراکت کو یقینی بنایا۔ اس دوران اگر کوئی ان کے مفادات کے خلاف قائد اعظمؒ کے پاکستان کی بات کرتا تو اس کی زندگی مشکل کردی جاتی۔ کیونکہ یہ اپنے اپنے علاقوں کے خودمختار والی رہتے آئے ہیں۔

انھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں ریاستی اداروں کو ناکام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اپنی مرضی کے افسروں کی تقرری اور مخالفین کو تھانوں میں زدوکوب یا قتل کروا دینا ان کا محبوب ترین مشغلہ رہتا آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ذاتی سطح پر عدالتی اختیارات بھی حاصل کرلیے ہیں جن کی بنا پر وہ کئی کئی خون (قتل) کے مقدمات کے فیصلے بھی کرتے آئے ہیں۔ ماضی کی طرح آج بھی جاگیرداروں کے پاس بہت سا اسلحہ اور باڈی گارڈز کی صورت میں نیم فوجی نظام بھی ہے، اور ان باڈی گارڈز کی اچھی خاصی تعداد انھی کے علاقوں کے تھانوں کو سنگین قسم کے جرائم اور مقدمات میں مطلوب ہے۔

اکثر جاگیرداروں کی تو نجی جیلیں بھی ہیں۔ یہ اتنے طاقتور ہیں کہ گزشتہ 67 سال سے مضبوط ترین اور انتہائی Diplomatic حکمران بھی ان کے حصار کو توڑ کر حقیقی پاکستان کی طرف اپنا قدم نہیں بڑھا سکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1949 میں مسلم لیگ نے جو زرعی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن بنایا تھا اس کی سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ایوب خان کی 1959 اور بھٹو کی 1972 کی زرعی اصلاحات کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کیونکہ ابتدائی دور میں نہ تو کوئی دستور بنا اور نہ انتخابات ہوئے، اسی بنا پر انھوں نے فوج اور سول بیوروکریسی سے اپنے روابط کے باعث سندھ میں بیراج کی زرخیز زمینیں حاصل کرکے اپنے اختیارات کو وسعت دے دی تھی۔

یہ جاگیردار اپنے علاقائی اختیار و اقتدار کو بچانے کے لیے آئے دن اپنی وفاداریاں اور ہمدردیاں تبدیل کرتے ہوئے نئے نئے اتحاد قائم کرکے اپنے آپ کو ملک کا ہمدرد اور وفادار بتا کر ڈرے سہمے علاقائی عوام کو مجبور کرکے سڑکوں پر لاتے رہے ہیں اور اپنے مفادات حاصل کرتے آئے ہیں۔ اور یہ ایسا اس وقت کرتے ہیں جب انھیں حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا جاتا یا ان کے علاقائی اختیارات محدود کردیے جاتے ہیں۔ شاید اسی لیے نئی صدی میں ملکی سیاسی منظرنامے پر (پی ٹی آئی کو چھوڑ کر) کوئی بہت بڑی ہلچل نہیں دیکھی جاسکی۔ کیونکہ یہ طبقہ مکمل طور پر عنان اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔

اس سیاق وسباق میں اگر موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں قومی سیاسی منظرنامے پر سوائے چند نظریاتی جماعتوں کے ان ہی کی گرفت نظر آئے گی جنھوں نے جاگیردارانہ جمہوریت کی بقا کے لیے ملکی سیاسی زمین کو اس قدر بنجر بنادیا ہے کہ اس میں معاشی، سماجی برابری، وسائل کا عوام پر حقیقی استعمال، مواقع کی یکساں تقسیم، میرٹ، وطن عزیز سے محبت کے جذبے، رواداری، تحمل وبرداشت کی خصوصیت لیے پروقار عاجزی وانکساری کے پیکر قائداعظمؒ کی جمہوریت کا بیج کاشت ہونے کے باوجود بار بار پھل دینے سے انکار کرتا چلا آرہا ہے۔ اس لیے یہ وقت ہے کہ پاکستان کو اس کی حقیقی منزل کی جانب گامزن کیا جائے، اس سے قبل کہ مفاد پرست عناصر پھر کوئی سبز باغ دکھا کر ملک وملت کو مزید اندھیروں کی طرف نہ دھکیل دیں۔
Load Next Story