دورِ جدید میں بچوں کی کردار سازی

بعض بچے تیکنیکی ذہن کے حامل ہوتے ہیں اور ہمہ وقت اشیاء کی ساخت اور اس کی مرمت سازی میں منہمک رہتے ہیں۔


راحیل گوہر November 25, 2016
ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچے کی اصل شخصیت بچپن میں ہی بن جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ''ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔'' (بخاری، ابوداؤد)

آپؐ نے انسان کی خلقت کے حوالے سے یہ بنیادی اصول بیان فرما دیا کہ ہر بچہ پیدائشی طور پر فطرتِ سلیمہ پر ہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کے والدین اس کی ذہنی تشکیل و تعمیر کرتے ہیں اور اسے جس رنگ میں چاہیں ڈھال دیتے ہیں۔ آپؐ کا یہ فرمان تو انسان کے عقائد و نظریات کے بناؤ اور بگاڑ کے سلسلے میں ہے، جس کے تحت پھر وہ اپنی پوری زندگی بسر کر تا ہے۔

لیکن ہر بچے کی زندگی کی مصروفیات اور مشاغل میں ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں جو اس کے شوق اور طبیعت کے میلان کو ظاہر کر تی ہیں۔ کسی مخصوص کھیل یا تفریح میں اس کی گہری دل چسپی اس کے کردار و عمل میں مثبت یا منفی اثرات پیدا کرتی ہے۔ اس کھیل و تفریح میں وہ کھلونے بھی شامل ہیں جو اس کے ذہنی رجحان کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔

بعض بچے تیکنیکی ذہن کے حامل ہوتے ہیں اور ہمہ وقت اشیاء کی ساخت، بناوٹ کا جائزہ لینے اور اس کی مرمت سازی میں منہمک رہتے ہیں۔ اس کے برخلاف کچھ بچے ادبی ذہن رکھتے ہیں، ان کو بچپن سے ہی کہانیاں، داستانیں اور مختلف موضوعات پر پڑھتے رہنے کا جنون ہوتا ہے۔ بچوں کے اس قبیل میں بعض ہمہ وقت لڑنے جھگڑنے، دنگا فساد اور دھینگا مشتی کرنے میں اپنا وقت برباد کر تے ہیں، وہ گھروں میں نچلے بیٹھتے ہیں اور نہ اسکولوں اور مدرسوں میں۔ یہی بچے بسا اوقات ایسی چیزوں کی فرمائش کر بیٹھتے ہیں جو نہ صرف ان کے لیے بل کہ دیگر افراد کے لیے نقصان دہ اور ضرر رساں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر آج کل معاشرے میں پھیلی دوسری خرافات کے ساتھ بچوں کی اکثریت میں کھلونوں کی شکل کے ہتھیاروں سے کھیلنے کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ یہ نقلی ہتھیار بچے کبھی اپنی جیب خرچ سے از خود حاصل کر لیتے ہیں یا پھر ان کے والدین اور سرپرست خرید کر دیتے ہیں۔

اکثر والدین اور سرپرست بچوں کی نازبرداری اٹھاتے ہوئے ان کی ہر فرمائش پورا کرنا اپنے لیے لازم سمجھتے ہیں۔ یہ غیر ضروری فرمائشیں جو کسی حد تک خطرے کی علامت ہوتی ہیں اور آگے چل کر بچوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے لیے بھی وبال جان بن جاتی ہیں۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ وہ بچوں کی تعلیم پر جتنا زور دیتی ہے اور اس معاملے میں جتنی حساسیت کا مظاہرہ کر تی ہے، اس کا عشر عشیر بھی بچوں کی تربیت پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ جب کہ تعلیم کے ساتھ مناسب اور صحت مند تربیت بھی لازم و ملزوم ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ بچے کی اصل شخصیت بچپن میں ہی بن جاتی ہے اور بچپن جو اثرات ذہن پر چھوڑتا ہے وہ مستقل اور پائیدار ہوتے ہیں۔ جدید تحقیق کے مطابق بچوں کی شخصیت کی مثبت یا منفی تعمیر کا اسّی فی صد حصہ ابتدائی چھے سال کی عمر تک مکمل ہوجا تا ہے، پھر باقی زندگی انہی محاسن و معائب کا عکس ہوتا ہے۔ اس عمر میں مزاج، عادات اور ذوق و شوق کو جس راہ پر ڈال دیا جائے آیندہ بھی وہ اس اچھی یا بری راہ کا مسافر بنا رہتا ہے۔

مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ نے '' اخلاق اور فلسفہ اخلاق '' میں لکھا ہے کہ '' جن اعمال کو ہم نے زندگی کے ابتدائی دور میں انجام دیا تھا ہماری ساری زندگی ان ہی اعمال و افکار کی تکرار کا نام رہ جاتا ہے۔ پس اگر ہم بچپن ہی سے اچھی عادتیں اپنے اندر پیدا کر لیں تو بقیہ زندگی میں بھی ہم ان ہی عادات کی طرف متوجہ رہیں گے اور ان ہی کو اپنا مقصد حیات بنائیں گے اور ان سے بہت فائدہ اٹھائیں گے۔''

اصل بات یہ ہے کہ بندوقوں اور پستولوں کا کھلونوں کی صورت میں ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ، قابل غور بات یہ ہے کہ جس قسم کے کھلونے بچوں کے ہاتھوں میں دے کر ان کو مصنوعی تخریب کاری کی تربیت دی جارہی ہے، کل جب یہی بچے سن شعور کو پہنچیں گے تو بہت ممکن ہے کہ وہ اصلی ہتھیار بھی ہاتھ میں اٹھالیں۔ کیوں کہ آج ایک دوسرے کو پلاسٹک کے چھروں سے ہراساں کر کے بھگایا جا رہا ہے، تو آیندہ اپنے دشمنوں اور مخالفین کو آتشیں اسلحہ سے بھی بھونا جا سکتا ہے۔

اسلحہ ہاتھوں میں تھامنا، مورچہ بندی کرنا تو وہ بچپن سے سیکھ لیتے ہیں، ٹرائیگر بھی بہ خوبی دبا سکتے ہیں، تو جس ماحول اور جس قسم کی منفی تربیت میں عہدِ طفولیت گزرا ہوگا وہ جوانی کے جوش اور ولولے کی کیفیت میں بھلا کیوں کر بُھلایا جاسکے گا۔ اخبارات میں اکثر یہ خبریں نظر آتی ہیں کہ مختلف جرائم میں کم عمر بچے بھی ملوث ہوتے ہیں۔ نامناسب تربیت، اخلاقی قدروں سے عاری ماحول اور والدین کی غفلت، وہ مثلث ہے جس نے نئی نسل کو بربادی کی راہ پر لگا دیا ہے اور واپسی کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔

اس کے علاوہ دوسری اہم ترین صفت جو اپنے بچوں کے کردار و عمل میں پیدا کرنا لازمی ہے وہ ان کے اندر سچائی کی فضیلت اور اہمیت کی تخم ریزی کرنا ہے۔ ان کی ظاہری اور باطنی اٹھان سچائی اور راست روی پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔ رسول عربی ﷺ کا فرمان ہے، '' جس نے کسی بچے کو پکارا کہ آؤ میں تمہیں کچھ دوں گا، پھر اس نے اسے کچھ نہ دیا تو یہ جھوٹ ہے۔ '' (مسند احمد)

اﷲ کے رسولؐ نے حکمت و موعظت سے بھرپور اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی اس ڈھب پر تربیت کریں کہ وہ راست روی اور سچائی کو مقدس، محترم اور قابل عمل سمجھنا ضروری سمجھیں۔ حق کو حق جاننا اور سچ بولنے کو اپنے اور اپنی اولاد کے لیے لازم کرلینا ہی ایک بندۂ مومن کی پہچان ہے۔ جسمانی غذا کے ساتھ اچھی اور اعلیٰ صفات سے آراستہ تربیت بچوں کی روحانی غذا ہوتی ہے۔ جو بچوں کو فضولیات، لغویات اور منکرات سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ پرورش تو جانور بھی اپنے بچوں کی کر لیتا ہے، لیکن انسان کو تو اشرف المخلوقات کی خلعت سے قدرت نے نوازا ہے اور اس پر تو بچوں کی اچھی پرورش کے ساتھ ایسی تربیت کی ذمے داری ڈالی گئی ہے جس کے زیر اثر رہ کر وہ معاشرے کا ایک نیک اور صالح انسان بن سکے۔

سورہ لقمان میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کر تے ہوئے فرمایا: '' بیٹا نماز کی پابندی کر نا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا حکم دینا اور برے باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا۔ بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔ اور ( ازراہِ غرور ) لوگوں سے اپنے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا کہ اﷲ کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کر تا۔ اور اپنی چال میں اعتدال کیے رکھنا اور (بولتے وقت) آواز کو نیچی رکھنا کیوں کہ سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے۔''

یہ وہ سنہری پند و نصائح ہیں جن کو اپنی زندگی کا محور و مرکز بنا لینے سے دنیا و آخرت دونوں سنور جاتے ہیں۔ کیوں کہ قرآن حکیم میں جہاں ایمان کا ذکر ہوا ہے تو ساتھ ہی عمل صالح کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ گویا ایمان اور نیک عمل لازم و ملزوم ہیں۔ اور قرآن کا مطلوب انسان بننے کے لیے اس کی تربیت کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ بچے کو عہد طفولیت میں جس سانچے میں ڈھالا جا ئے گا وہ آیندہ زندگی میں اسی پیکر خُو میں ڈھلا رہے گا۔ جب کہ بچے کو پیکر حسن میں ڈھالنا والدین کی ذمے داری ہے۔ اور وہ اپنی اس کوتاہی اور غفلت پر اﷲ کے حضور قابل گرفت ہوں گے۔

رسول عربی ﷺ کا ارشاد ہے کہ: '' کسی باپ نے اپنی اولاد کو کوئی تحفہ اور عطیہ حسن ادب اور اچھی سیرت سے بہتر نہیں دیا۔'' ( ترمذی )

اﷲ تعالیٰ نے تربیت کے حوالے سے ہی خبردار کیا ہے کہ: '' اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔'' ( التحریم )

اس آیہ مبارکہ کی رو سے والدین پر یہ بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنی اولاد کو بھی جہنم کے عذاب سے نجات کی فکر کریں اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ اولاد کی بہترین اور نفیس ماحول میں تربیت کی جائے۔ دور جدید میں تو یوں بھی ہر طرف گم راہیاں، غلاظتیں، کردار و عمل کو بر باد کرنے والے فتنے اور خاندانی نظام میں رخنے ڈالنے والی شیطانی قوتیں متحرک ہیں، اس لیے اس دور میں تو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو اولاد کبھی ماں باپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوا کرتی تھی آج زمانے کی سحر انگیزی میں ڈوب کر ان کی آنکھوں کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔

اور اس میں زمانے کی چیرہ دستیوں کے ساتھ والدین کی طرف سے تربیت کا فقدان بھی ہے۔ گھر، مدرسہ یا کوئی اور تعلیمی ادارہ ہو ہر سطح پر تربیت اور اصلاح حال عنقا ہے۔

ہمیں اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی آنے والی نسل کی بہترین تعلیم و تربیت کرنی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہماری مدد و نصرت فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں