تفہیم المسائل

مسجد آسمان کی بلند ی اور زمین کی گہرائی (تحت الثریٰ ) تک مسجد ہی ہے


Mufti Muneeburrehman December 20, 2012
جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں، القرآن ۔ فوٹو : فائل

کاروباری مراکز میں مساجد کا شرعی حکم
سوال: ایک مسلم شہری نے کاروباری غرض سے ایک عمارت تعمیر کی اور اس کا تھرڈ فلور نمازوں کی ادائیگی کے لیے وقف کیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ فلور اور دوسری منزل بھی مسجد کے لیے وقف کیے جائیں ورنہ یہ مسجد نہیں کہلائے گی اور یہاں نماز پڑھنا صحیح نہیں ہوگا؟

پروفیسر خان گل ، تھوراڑ، آزادکشمیر
جواب: فقہائے اَحناف نے اصول یہی بیان کیا ہے کہ مسجد آسمان کی بلند ی اور زمین کی گہرائی (تحت الثریٰ ) تک مسجد ہی ہے۔ تنویرالابصار مع الدرالمختار میں ہے : ترجمہ: ''مسجد آسمان کی بلندی سے تحت الثریٰ تک مسجد ہی ہے۔ ''بیری'' میں اسبیجابی سے اسی طرح منقول ہے۔ (جلد: 2 ، ص: 370-371)''۔ موجودہ دور میں بڑے پیمانے پر کثیر آبادی والے علاقوں میں جہاں مساجد فاصلے پر واقع ہوتی ہیں یا کاروباری مراکز میں جہاں لوگوں کے لئے دور جاکر نماز کی ادائیگی آسان نہیں ہوتی، اُن کی سہولت کے لیے فلیٹوں یا کاروباری عمارتوں میں نماز کے لئے باقاعدہ جگہ مختص کی جاتی ہے تاکہ اِن جگہوں سے وابستہ لوگ باجماعت نماز ادا کر سکیں۔ بعض جگہوں پر صرف جاء نماز قائم ہوتی ہے، لیکن اکثر جگہوں پر باقاعدہ پنج وقتہ اذان و نماز باجماعت ہوتی ہے جب کہ بعض جگہوں پر جمعہ کی نماز بھی ہوتی ہے۔ شرعی اعتبار سے ایسی جگہوں کی حیثیت باقاعدہ مسجد کی ہے اور وہاں پنج وقتہ نمازوں اور جمعہ کا قیام درست ہوگا، لیکن اُن مساجد کے اوپر کے حصے کو مسجد شمار نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ علامہ برہان الدین ابوالحسن علی بن ابو بکر فرغانی حنفی لکھتے ہیں: ترجمہ: '' اور حسن بن زیاد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے فرمایا: جب نچلی منزل پر مسجد بنائی اور اُس کے اوپر رہائش کے لیے مکانات ہیں، پس یہ مسجد ہوگی۔

اس لئے کہ مسجد ہمیشہ مسجد ہوتی ہے اور یہ نچلی منزل میں متحقق ہے نہ کہ اوپر والی منزل میں ۔ علاوہ ازیں امام محمد رحمہ اللہ سے اِس کے برعکس روایت کرتے ہیں۔ امام محمد کے نزدیک مسجد چونکہ عظیم جگہ ہوتی ہے اور جب اوپر رہائش ہو یا ایسا مکان ہو جسے کرائے پر دیا گیا ہو تو (مسجد کی) تعظیم دشوار ہوگی۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے دونوں وجوہات کو جائز قراردیا۔ جب وہ بغداد آئے اور تنگ گھروں کو دیکھا تو ضرورت کے اعتبار سے اُنہوں نے اِسے جائز رکھا اور امام محمد رحمہ اللہ جب ''رے'' تشریف لائے تو ضرورت کے سبب اُنہوں نے اِسے جائز رکھا اور اسی طرح اگر مکان کے وسط میں مسجد بنائی اور لوگوں کو (نماز پڑھنے کے لئے) داخلے کی عام اجازت دے دی (تو جائز ہے)۔ (ہدایہ، جلد4، ص:410)''۔

صاحبِ ہدایہ کی مندرجہ بالا عبارت کی رُو سے مندرجہ ذیل صورتیں بنتی ہیں:

(۱) نیچے مسجد ہو اور اوپر رہائشی مکان، تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اُ سے مسجد بنانا جائز ہے۔

(۲)نیچے رہائشی مکان یا دوکانیں ہوں اوراوپر مسجد ہو تو امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اس کا مسجد بنانا جائز ہے، کیونکہ اوپر رہائشی مکان یا کرائے پر دیئے جانے کی وجہ سے مسجد کی تعظیم دشوار ہے۔

(۳)بعد میں جب امام یوسف رحمہ اللہ بغداد گئے اور مکانات کی تنگی کو دیکھا تو اُنہوں نے دونوں صورتوں کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح جب امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ ''رے'' گئے تو اسی ضرورت کی بنا پر اُنہوں نے دونوں صورتوں کو جائز قراردیا۔ لہٰذا آپ نے جو صورت بیان کی ہے اگر عمارت کا مالک اُس عمارت کے تھرڈ فلور اور اُس کے اوپر آئندہ ممکنہ طور پر تعمیر کی جانے والی منزلوں کو مسجد کے لئے وقف کرنا چاہے، تو کر سکتا ہے اور دوسرے لوگوں کا اِس پر اعتراض باطل ہے، تینوں اَئِمۂ اَحناف کے نزدیک یہ جائز ہے اور اس مسجد میں نماز پڑھنے سے مسجد کا ثواب ملے گا۔

قرض کی واپسی
سوال:میرے شوہر کو رقم کی ضرورت تھی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اپنا زیور فروخت کردو، میں تمہیں بعد میں بنوا دوں گا۔ میں نے زیور بیچ کر رقم اپنے شوہر کے ہاتھ میں دی اور کہا کہ جب گھر بکے گا تو میں اپنا سونا واپس لوں گی۔ اب میرے شوہر کہتے ہیں کہ چونکہ تم نے مجھے رقم دی تھی، اس لیے میں بھی تم کو رقم دوں گا۔ مجھے معلوم کرنا ہے کہ گھر فروخت ہونے کے بعد مجھے میرا سونا واپس ملے گا یا رقم ؟ ایک بیٹی ،کراچی

جواب: آپ کا رقم دیتے وقت یہ کہنا کہ '' جب گھر بکے گا تو میں اپنا سونا واپس لوں گی''، اس امر پر دلالت کرتاہے کہ آپ نے اپنے شوہر کو سونا بطور قرض دیا تھا، لہٰذا اب آپ اپنے قرض کی واپسی کا مطالبہ کرسکتی ہیں اور شوہر پر لازم ہے کہ آپ کا قرض ادا کرے۔ اس موقف کو آپ کے اس بیان سے بھی تقویت ملتی ہے کہ :'' میرے شوہر نے مجھ سے کہا : تم اپنا زیور فروخت کردو، میں تمہیں بعد میں بنوا دوں گا ''، ظاہر ہے بعد میں سونے کا زیور ہی بنوا کردینا ہوگا۔

دورانِ نماز موبائل فون بجنے کا شرعی حکم

سوال: اکثر نماز کی حالت میں دورانِ جماعت لوگوں کے موبائل فون بجنا شروع ہوجاتے ہیں، تو اُس وقت کیا کرنا چاہئے، کیا سیدھے ہاتھ سے موبائل بند کردینا چاہئے؟۔ رب نواز فیضی، نیوکراچی

جواب: نماز کی صحت کے لئے نماز میں خشوع وخضوع مستحسن امر ہے۔قرآن مجید میں ہے: ترجمہ: ''جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں، (المومنون:2)''۔ شیخ الحدیث والتفسیر علامہ غلام رسول سعیدی، علامہ ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری کے حوالے سے حضرت حسن بصریؒ کا قول لکھتے ہیں: ''روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو نماز میں اپنی ڈاڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا، توآپ ﷺ نے فرمایا: اگراس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا ''۔ (تبیان القرآن، جلد7،ص:843)۔ حاصل کلام یہ کہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت آدابِ نماز کا خصوصی اہتمام کرنا فرائضِ بندگی میں سے ہے۔

موجودہ دور میں موبائل لوگوں کی ضرورت بن گیا ہے اور بسا اوقات نماز میں شامل ہوتے ہوئے لوگ اپنے موبائل کو بند کرنا بھول جاتے ہیں، ایسے میں دورانِ نماز اگر کال آجائے تو بہتر یہی ہے کہ ایک ہاتھ سے موبائل کا بٹن دبا کر اُسے بجنے سے روک دے تاکہ اُس کی اور دوسرے نمازیوں کی نمازوں میں خلل واقع نہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں