اسلامی انڈکس
کیا کسی بھی ملک میں اسلام کے فکری اصولوں کی بنیاد پرعوام کوحکومتی سہولیات دی جارہی ہیں یا نہیں۔
HYDERABAD:
اسلامی قوانین اورفکرکوتناظرمیں رکھ کراسلامک انڈکس ترتیب دیے گئے ہیں۔انگریزی میں انھیں Islamcity Indexکانام دیاگیاہے۔انتہائی محنت بلکہ ریاضت سے مرتب شدہ اصول بالکل نئے یااجنبی نہیں ہیں۔تمام مسلمان علماء کو بخوبی اَزبرہیں۔ہمارے جیسے ملک میں سارادن انھی پربات ہوتی رہتی ہے۔لیکن ان تمام قدرتی اورفطری اصولوں کوترتیب دیکرپوری دنیاکے ممالک کے حالات کا تجزیہ کرنے کی کوشش پہلی بارکی گئی ہے۔ داد دیتا ہوں ان مسلمان سماجی اوراقتصادی سائنسدانوں کو جنہوں نے تجزیاتی طرزفکر اختیار کیا۔ ہمارے سامنے وہ حقائق رکھے جو ہم جانتے ہیں مگربات کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔
جاننے کے لیے بلکہ پرکھنے کے لیے کہ دنیاکے مختلف ممالک کاسماجی، عدالتی، انتظامی اورمعاشرتی نظام کیاہے؟ان میں ہمارے عظیم مذہب کے آفاقی اصولوں کی فکراورروح کس حد تک مروجہ ہے۔چاربڑے پیمانے رکھے گئے ہیں۔ پہلا اصول،اقتصادیات کا ہے۔ دوسرا اصول،نظام حکومت اور انصاف کاہے۔تیسرااصول انسانی اورسیاسی حقوق کاہے اور چوتھاپیمانہ بین الاقوامی تعلقات کا ہے۔
تمام شعبوں میں صرف ایک مضبوط اَمر کو مدِنظر رکھا گیا ہے کہ کیا کسی بھی ملک میں اسلام کے فکری اصولوں کی بنیاد پرعوام کوحکومتی سہولیات دی جارہی ہیں یا نہیں۔سادہ سے نظرآنے والے پیمانے دراصل بالکل سادہ نہیں ہیں۔یہ انتہائی دقیق اور پیچیدہ سوالات ہیں،جنکے جوابات کسی بھی معاشرے کوآئینہ دکھادیتے ہیں۔معاشرہ اصلیت میں کیا ہے۔ اعلانات، دعوؤں اورزمینی حقائق میں کتنافرق ہے۔ ایسا لگتاہے کہ یہ تحقیق کسی بھی ملک کودلیل کی بنیادپربرہنہ ساکردیتی ہے۔ کسی بھی ملک کاایک رخ جوکم ازکم ہمارے جیسے منافق معاشرے میں دیکھنا ناممکن ہوچکاہے،تحقیق کی عینک سے مجبوراًدیکھناپڑتاہے۔
چاراصولوں کوسامنے رکھ کرایک انڈکس بنایاگیاہے۔اس میں دنیاکے تمام ممالک ترتیب وار موجودہیں۔انڈکس میں دنیاکے153ممالک کا تفصیل سے تجزیہ کیاگیاہے۔یادرہے کہ یہ کوئی یہود و ہنود کا ترتیب شدہ انڈکس نہیں ہے۔یہ کسی سازش کانتیجہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ یہ مسلمان سائنسدانوں کاہی کام ہے۔حسین عسکری، اقتصادیات میں پی ایچ ڈی ہیں۔حسین محمد خان فنانس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتے ہیں۔ان کی معاونت ڈاکٹر مائدن نے کی ہے جوشعبہ اقتصادیات میں امتیازی حیثیت کی حامل ہیں۔حسین عسکری ایرانی نژاد ہیں۔
پوری دنیاکے ممالک کاانڈکس سامنے پڑا ہوا ہے۔ شدیددکھ کی بات یہ ہے کہ دنیامیں اسلامی قوانین کی روح کے مطابق کام کرنے والی سرِفہرست قوموں میں کوئی بھی مسلمان ملک شامل نہیں ہے۔ہالینڈوہ ملک قراردیاگیاہے جسکااقتصادی،قانونی،حکومتی ڈھانچہ اورانسانی حقوق کی حرمت،اسلامی فکرکے بہت نزدیک ہے۔اس کے بعد سویڈن، سوئزرلینڈاوردیگرممالک ہیں۔قیامت یہ ہے کہ پہلے 38ممالک میں ایک بھی مسلم ملک نہیں ہے۔ 39نمبر پر قطر اورچالیسویں نمبرپرمتحدہ امارات آتاہے۔انڈکس میں سعودی عرب 59نمبر پر ہے۔
ایران 116نمبر پر موجود ہے۔ملکوں کی فہرست153نمبرکی ہے۔پاکستان شرمناک حدتک نیچے ہے۔پاکستان148نمبرپرہے۔ہم سے نیچے یمن اورسوڈان ہیں۔لکھتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے کہ ہم پوری دنیاکے مسلمان ممالک میں بھی نچلی ترین سطح پر ہیں۔ مگریہاں شرم کس کوآتی ہے۔ انتشارکے شکار ہمارے جیسے بدقسمت ملک میں ہر ناجائزروش عملی طورپرسکہ رائج الوقت ہے۔
پاکستان کے اقتصادی شعبے کے متعلق اسلامی انڈکس کی بیان کردہ حقیقت حیران کن ہے۔اس میں گیارہ عناصر شامل ہیں۔انکاصرف ذکرکرونگا۔اسلامی اصولوں کے لحاظ سے اقتصادی آزادی اورعام لوگوں کے لیے کاروبارکرنے کی سہولتیں انتہائی کم ہیں۔بالکل اسی طرح عام لوگوں کے لیے ملازمتیں پیداکرنے کی حکومتی صلاحیتیں ناپید ہے۔ ساتھ ساتھ عام آدمی کومیرٹ پرسرکاری یاغیرسرکاری شعبہ میں نوکری کاحصول تقریباًناممکن ہے۔ٹیکس اوراسلامی شعائر کے متعلق بینکاری نہ ہونے کے برابرہے۔سماجی بھلائی کانظام بھی اس قدرناتواں ہے کہ پوراملک عجیب وغریب سماجی مسائل کاشکارہے۔
آخرمیں اقتصادی انصاف مکمل طورپر ناپیدہے۔مجموعی طورپراس شعبے میں پاکستان کے حاصل کردہ نمبر3.5ہیں۔الجزائرہم سے بہترہے۔اس شعبہ میںحاصل کردہ نمبر4.17ہیں۔یہ تمام حقائق میرے بیان کردہ نہیں ہیں۔ورلڈبینک یاکسی صیہونی ادارے کے تیارکردہ ہندسے بھی نہیں ہیں۔بین الاقوامی ساکھ رکھنے والے مسلمان سائنسدانوں کی آزادانہ تحقیق ہے۔اس سے ہم کیانتیجہ اَخذکریں،وہی جوکچھ نظرآرہاہے یاآنکھیں بند کرکے آگے گزرجائیں۔مطلب صاف ظاہر ہے۔ پاکستان کے اقتصادی نظام کااسلام کے انقلابی اصولوں سے دوردورکاکوئی واسطہ نہیں ہے۔
اگلے شعبے پرقلم اُٹھانااوربھی دشوارہے۔بنیادی نقطہ قانون کی حکمرانی اورحکومتی کارکردگی ہے۔اس میں چار مختلف عنوان ہیں۔پہلاقانونی دیانت کاہے۔صحیح لفظ نہیں مل رہا۔پہلاعنوانLegal Integrityکاہے۔عنوان طالبعلم کی نظرسے پہلی بارگزراہے۔اس میں ہروہ اَمرشامل ہے جسکاعملی طورپرانصاف سے کسی قسم کاکوئی تعلق ہے۔ عدلیہ کی غیرجانبداری سے لے کر اہلیت پرسوال اُٹھائے گئے ہیں۔فوج،پولیس،جرائم کاقومی نقصان اورجرائم کی روک تھام سب کچھ اس میں شامل ہیں۔
دوسراعنصراتناوسیع ہے کہ اس کے متعلق ایک کالم میں لکھنابہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اسکانامManagement Index ہے۔ یہ ظاہرکرتاہے کہ کوئی بھی ملک اپنے انسانی اورقدرتی وسائل کوکس درجہ سنجیدگی سے دیکھتاہے۔آبی وسائل سے لے کر جانوروں تک کی حفاظت تک انڈکس میں شامل ہے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ حکومت عملی طورپرحکومتی اُمورکیسے سرانجام دے رہی ہے۔چوتھانکتہ یہ کہ حکومت کے متعلق لوگوں کی رائے کیاہے۔ چاروں شعبوں میں ہالینڈ نمبر ایک پرہے۔اس کے حاصل کردہ نمبر9ہیں۔پاکستان نے اس شعبہ میں صرف 1.3نمبرحاصل کیے ہیں۔ مجموعی طورپرہم سوڈان اوریمن سے بھی پیچھے ہیں۔اس انڈکس پرکسی قسم کایقین نہ کریں۔ اکیلے بیٹھ جائیے۔
تیسرے عنصرکی طرف آئیے۔یہ انسانی اورسیاسی حقوق کے متعلق ہے۔ان میں انسانی ترقی کی شرح،انسانی اورسیاسی آزادی،خواتین کے حقوق اورجمہوریت کے اصولوں پرعمل کرنے کی صلاحیت شامل ہیں۔ایک انتہائی اہم نکتہ بھی اس عنصرکاحصہ ہے۔وہ ہے خوش وخرم رہنے کی سوچ(Perceptions of wellbeing)۔اس میں شخصی حفاظت،زندگی گزارنے کادرجہ اورمطمئن رہنا،سب کچھ شامل ہے۔اس کیٹیگری میں ناروے اوّل نمبرپرہے اوراس کے ملکی نمبر9ہیں۔اس عنوان میں پاکستان کے نمبرمحض2.61ہیں۔یہ ہیٹی اورعراق سے بھی نیچے ہے۔ ترکمنستان اورلبنان بھی ہمارے سے بہت آگے ہیں۔
اسلامی انڈکس کی آخری کیٹیگری بین الاقوامی روابط کی ہے۔اس میں گلوبلائزیشن سے لے کراندورنی اوربیرونی جنگیں سب کچھ شامل ہے۔یہ باریک نکتہ تک موجودہے کہ ملک میں غیرملکی آناپسندبھی کرتے ہیں یا نہیں۔اس شعبہ میں سب سے اوّل نمبرپرآئس لینڈموجودہے۔اس کے حاصل کردہ نمبر8ہیں۔امریکا اس شعبہ میں بہت نیچے ہے۔ یہ 85نمبرپرہے۔پاکستان کے حاصل کردہ نمبرصرف اور صرف3.8ہیں۔ہم سوڈان اورکانگوتک سے پیچھے ہیں۔
باربارعرض کرونگاکہ یہ اعدادوشمارمسلمان سائنسدانوں نے قرآن اور آقاؐکی سیرت کوسامنے رکھ کرترتیب دیے ہیں۔اس میں فرقہ واریت یاکسی قسم کاکوئی تعصب شامل نہیں ہے۔یہ ایک تحقیقی کوشش ہے کہ ہم اپنے عظیم مذہب کو عملی زندگی اورحکومتی امورمیں کتناساتھ لے کرچل رہے ہیں۔ ان مفکرین نے یہ بھی گزارشات کی ہیں کہ مسلمان ممالک میں قران مجیدکے آفاقی اصولوں اورطرزحکومت میں کسی قسم کاکوئی ربط نہیں ہے۔یہ سوچ رکھنے والوں کے لیے ایک تازیانہ ہے۔ایک علمی کوڑاہے جوملکوں اورحکومت کے جسموں پر برستاہے۔کیایہ مشکل بات نہیں ہے کہ اسلام کے اصول صرف اورصرف مغربی ممالک نے اپنارکھے ہیں۔
کوئی جذباتی بات نہیں کرناچاہتامگرحقیقت یہی ہے کہ مسلمان ملک ہمارے عظیم مذہب کے فکری اصولوں سے بہت زیادہ خوف ذدہ نظرآتے ہیں۔کیاحرمین شرفین کاملک اور کیا ایران کی یہ درپے حکومتوں کی عملی کارکردگی۔رپورٹ کے مطابق تومسلمان ممالک کااسلام سے صرف اورصرف لفظی ساتعلق ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمان ممالک کہیں اورہیں اوراسلامی فکرپرعمل کرنے والے مغربی سیکڑوں نوری سال آگے کھڑے ہوئے ہیں۔یہ فرق کیسے ختم ہوگا،اسکا جواب تلاش کرنابالکل مشکل نہیں ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ جواب جاننے کے بعدبھی کوئی مسلمان ملک ان آفاقی اصولوں پرعمل کرنے کی جرات نہیں کریگا۔