محمد میاں…عزم کے مینار
8 جنوری 1953ء کو کراچی کے طلبا نے تعلیم کو عام اور سستا کرنے اور نئی تعلیمی پالیسی کے قیام کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔
محمد میاں 88 سال کے ہوگئے۔ میاں صاحب اگرچہ اب جسمانی طور پر کمزور ہوگئے ہیں مگر ان کی یادداشت آج بھی کمال کی ہے۔ محمد میاں آج بھی اس ملک میں استحصال سے پاک معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں۔ بائیں بازو کے دانشور، صحافی، ادیب اور شاعر محمد میاں کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے۔ ان کے والد کا شمار ہندوستان کے اہل حدیث کے ممتاز عالموں میں ہوتا تھا۔
ان کے والد محمد یوسف شیخ الحدیث تھے۔ محمد میاں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد کی نگرانی میں حاصل کی۔ یہ مذہبی تعلیم تھی۔ پھر دہلی کے فتح پور مسلم اسکول سے میٹرک کیا اور سینٹ اسٹیفن کالج میں داخلہ لیا۔ محمد میاں کے بڑے بھائی انڈین رائل ایئرفورس میں ملازم تھے۔ میاں صاحب اپنے خاندان والوں کے ہمراہ رائل ایئرفورس کے طیارے میں پشاور اترے اور پھر کراچی آ گئے۔ 50ء کی دہائی کراچی کے طلبا کے لیے جدوجہد کی دہائی تھی۔ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کے بچوں کے علاوہ پورے ملک سے نوجوان کراچی آنے لگے تھے۔ شہر میں اسکول کالجوں کی کمی تھی اور کراچی یونیورسٹی قائم نہیں ہوئی تھی۔ تعلیمی اداروں میں فیس زیادہ تھی۔ کراچی میں نوجوانوں میں ترقی پسند خیالات پھیل رہے تھے۔
کمیونسٹ پارٹی نے اپنے طلبا کی فرنٹ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کردی تھی۔ ڈی ایس ایف کے نمایندے کالجوں کے علاوہ اسکولوں میں قائم ہونے والی انجمنوں کے عہدیدار منتخب ہوچکے تھے۔ جماعت اسلامی نے اپنے نظریات کی ترویج کے لیے اسلامی جمعیت طلبا قائم کردی تھی۔ محمد میاں ڈاکٹر منظور احمد اور پروفیسر خورشید وغیرہ جمعیت کو منظم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ محمد میاں کے آباؤ اجداد نے انگریزوں کے خلاف تاریخی جدوجہد کی تھی۔ ان میں انقلابی جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہ جذبہ میاں صاحب میں اب بھی موجود ہے۔ محمد میاں نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر تعلیم کو سستا کرنے کی جدوجہد میں حصہ لینا شروع کیا۔
8 جنوری 1953ء کو کراچی کے طلبا نے تعلیم کو عام اور سستا کرنے اور نئی تعلیمی پالیسی کے قیام کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ مشتاق گورمانی کی ہدایت پر پولیس نے طلبا پر گولی چلا دی اس کے نتیجے میں کئی طلبا شہید ہوئے۔ طلبا نے وزیر داخلہ کی کار کو نذرآتش کردیا۔ اس دن ڈی جے کالج سے بندر روڈ تک کا علاقہ جنگ کا میدان بنا رہا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اس تحریک کی قیادت کرنے والے ڈی ایس ایف کے رہنماؤں سے مذاکرات کیے اور طلبا کے مطالبات منظور کیے گئے۔ اس تحریک کے نتیجے میں کراچی یونیورسٹی فعال ہوئی۔ اس تحریک کو چلانے کے لیے ایک ایکشن کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں اسلامی جمعیت طلبا کی نمایندگی کرنے والے وفد میں محمد میاں شامل تھے۔
محمد میاں نے ایس ایم کالج سے فلسفہ میں بی اے آنرز اور انگریزی میں ایم اے کیا اور کالج کے پرنسپل پروفیسر غلام مصطفیٰ شاہ نے انھیں لیکچرار کی حیثیت سے ملازمت دے دی۔ اس تحریک کے دوران محمد میاں اور بائیں بازو کے رہنماؤں کے درمیان طویل مباحثہ ہوا۔
60ء کی دہائی میں محمد میاں اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلے دمشق اور پھر برطانیہ گئے۔ جہاں انھوں نے لندن یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات میں داخلہ لیا، مگر اب میاں صاحب ڈارون کے نظریہ ارتقاء، کارل مارکس اور اینگلز کے مادی جدلیات کے فلسفے سے بہت متاثر ہو چکے تھے، انھوں نے کیریئر بنانے کا خیال دل سے نکال دیا۔ محمد میاں ایک جرمن خاتون کی زلفوں کے اسیر ہوئے۔ کچھ عرصہ لیبیا میں انگریزی اخبار کے ایڈیٹر رہے اور کچھ عرصہ لندن میں بی بی سی اردو سروس میں کام کیا۔ وہ لندن میں فلسطینی اور جنوبی افریقہ کے عوام کی تحریکوں کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے لگے۔ اسی طرح ویتنام کے خلاف امریکی سامراج کی فوج کشی کے خلاف جلسوں اور جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ معروف فلسفی برٹرینڈ رسل اور فرانسیسی دانشور ژاں پال سارتر ویتنام میں امریکی فوج کے خلاف مظالم کے خلاف تحریک کے ہر اول دستہ میں شامل تھے۔
محمد میاں نے سوشلزم کے نفاذ کے لیے چلنے والی مزاحمتی تحریک کا حصہ بننے کے لیے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ میاں صاحب کے لیے غیر ملکی خبر رساں ایجنسیوں اور دوسرے اداروں میں ملازمت کے خاطرخواہ مواقع موجود تھے مگر انھوں نے پاکستان کے غریب عوام سے یکجہتی اور جدوجہد کو درست راستہ جانا اور کراچی آگئے یہاں انھیں انگریزی اخبار دی سن میں ملازمت مل گئی۔
جب 1969ء میں اسرائیل نے لبنان میں پی ایل او کے دفاتر پر حملہ کیا، اردن کے شاہ حسین کے ایما پر جنرل ضیاء الحق نے اردن میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تو اخبار نے رپورٹنگ کے لیے محمد میاں کو بیروت بھیجا۔ وہ واحد پاکستانی صحافی تھے جو بیروت گئے جہاں انھوں نے فلسطینی گروپوں سے یکجہتی کا بھی اظہار بھی کیا۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی سے روزنامہ مساوات شایع کیا تو اس کے ایڈیٹر شوکت صدیقی کے اصرار پر میاں محمد روزنامہ مساوات میں اسسٹنٹ ایڈیٹر ہو گئے، مگر پالیسی اختلافات کی بناء پر چند دن بعد مستعفی ہو گئے۔
محمد میاں نے مزدور پاکستان پارٹی میں شمولیت اختیار کی، خیبرپختونخوا اور پنجاب کے تفصیلی دورے کیے۔ خیبرپختونخوا کے علاقے ہشت نگر میں چلنے والی کسانوں کی تحریک میں حصہ لیا اور خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقوں میں جا کر کسانوں کے حالات کا مطالعہ کیا اور کسانوں میں طبقاتی شعور پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے بھٹو دور میں سائٹ اور لانڈھی میں چلنے والی مزدور تحریکوں کی حمایت میں فضا ہموار کی۔ محمد میاں نے لانڈھی میں چلنے والی تحریک کو چلانے والے خفیہ سیل کے متحرک رکن تھے۔
میاں صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کو متحرک کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ بائیں بازو کے طلبا کا اتحاد یونائیٹڈ اسٹوڈنٹس فرنٹ قائم ہوا۔ اس فرنٹ نے اسلامی جمعیت طلبا کے تھنڈر اسکواڈ کے جبر کے خاتمے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ میاں صاحب اساتذہ کے رہنما ڈاکٹر ظفر عارف کے اس مشکل دور میں ہم رکاب تھے۔ جب سندھ کے گورنراور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل جہانداد نے کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ظفر عارف کو چارج شیٹ جاری کی تو اس کے جواب کا مسودہ ظفر عارف اور محمد میاں نے مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ ڈاکٹر ظفر عارف کا یہ جواب پاکستان اور دنیا بھر میں بہت مقبول ہوا۔ میاں صاحب نے انگریزی کے رسالہ آؤٹ لک اور روزنامہ صداقت میں معرکۃ الآراء میں اداریے تحریر کیے۔ انھوں نے فوجی آمریت کے خلاف اردو میں نئی اصطلاحات تخلیق کیں۔
میاں صاحب ہمیشہ سائنس کے پھیلاؤ کے لیے کوشاں رہے۔ انھوں نے 80ء کی دہائی میں حیات کے نام سے ایک ماہنامہ شایع کیا۔ حیات میں سائنسی موضوعات پر آسان اور سادہ زبان میں مضامین شایع ہوتے تھے۔ گردش زمانہ کی بناء پر حیات کجھ عرصہ بعد بند ہوا مگر میاں صاحب کے جذبہ میں فرق نہ پڑا۔ آج کل میاں صاحب کی نگرانی میں سائنس کا ایک اور رسالہ علم و حرفت شایع ہونا شروع ہو رہا ہے۔ اس رسالہ کی زبان سادہ اور استدلال انتہائی منطقی ہیں۔ میاں صاحب کا کہنا ہے کہ مادری زبان میں سائنس کی تعلیم سے طالب علموں کی استعداد زیادہ بہتر ہو سکتی ہے۔ سائنس کے ذریعے صنعتی انقلاب پیدا کیا جا سکتا ہے۔ میاں صاحب اب بھی سائنٹیفک سوشلزم پر یقین رکھتے ہیں۔
انھوں نے مزدوروں کے بین الاقوامی ترانہ انٹرنیشنل کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ مزدور یوم مئی کے جلوسوں میں یہ ترانہ پڑھتے ہیں۔ میاں صاحب طالبان کی تحریک کو ہمدردی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ بیماری کے باوجود اب بھی شاعری کرتے ہیں اور فلسفے کے مختلف موضوعات پر سیر حاصل بحث کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں میاں صاحب غریبوں کی بستیوں میں نوجوانوں کو مارکس ازم سے آگاہی کے لیے اسٹڈی سرکل منعقد کرتے تھے۔
کراچی کی مضافاتی بستی مچھر کالونی میں غیر مسلم مزدوروں میں آگاہی کے لیے انھوں نے برسوں کوششیں کیں۔ لیاری سے میاں صاحب کو والہانہ لگاؤ تھا، اس کے ٹیلنٹ کو سراہتے تھے، گزشتہ ہفتے میاں صاحب کی اہلیہ انتقال کر گئیں، مگر میاں صاحب کا عزم جوان ہے۔ وہ آج بھی استحصال اور سامراجیت کے خاتمے کے لیے چی گویرا کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ میاں صاحب سماج کی تبدیلی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے عزم کا مینار ہیں۔ا