بڑھتی ہوئی کشیدگی
کشمیر کی جدوجہد آزادی پہلی بار اس قدر تند و تیز ہو گئی ہے کہ بھارت سرکار کے لیے اس پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان بی کربی نے کہا ہے کہ امریکا ہندوستان اور پاکستان سے مسلسل رابطے میں ہے، امریکا کو پاک بھارت کشیدگی پر سخت تشویش ہے، جان کربی نے کہا ہے کہ امریکا دونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کا خواہش مند ہے۔
امریکی انتخابات کے نتیجے میں ٹرمپ کے امریکا کے صدر منتخب ہونے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نئی امریکی حکومت کی خارجہ پالیسی میں پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا رجحان بڑھے گا اور بھارت سے تعلقات میں بہتری آئے گی۔ صدر اوباما کے دور میں بھی پاکستان پر یہ الزامات لگائے جاتے رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کے اڈے موجود ہیں جنھیں ختم کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کا رویہ صدر منتخب ہونے سے پہلے ہی پاکستان کے حوالے سے سخت رہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے مشیر برملا کہہ رہے ہیں کہ اب کہانیاں سنانے سے کام نہیں چلے گا، اب پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف ٹھوس کارروائیاں کرنا ہوں گی۔ نئے صدر اپنی حکومت کے لیے وزرا وغیرہ کے انتخاب میں مصروف ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق ٹرمپ نے جنرل (ر) فلائن کو امریکی سلامتی کا مشیر مقرر کر دیا ہے۔ مائیک پمپیو سی آئی اے کے ڈائریکٹر ہوں گے اور امریکا کے نئے اٹارنی جنرل سینٹر جیف سیشنز ہوں گے۔ عام خیال یہ ہے کہ ٹرمپ دہشتگردی کے خلاف سخت پالیسی اپنائیں گے اور جن ملکوں پر دہشتگردوں کی حمایت کا الزام ہے ان کے خلاف بھی ٹرمپ حکومت سخت پالیسی اپنائے گی۔
لائن آف کنٹرول پر بڑھتی ہوئی کشیدگی اور مختلف سیکٹروں میں بھارتی فوج کی طرف سے مسلسل فائرنگ کو سیاسی حلقے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی پہلی بار اس قدر تند و تیز ہو گئی ہے کہ بھارت سرکار کے لیے اس پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 133 روز سے ہڑتال جاری ہے۔ سری نگر میں نماز جمعہ پر پابندی کو اب 5 ماہ ہو رہے ہیں۔ حالیہ جدوجہد کے دوران 100 سے زیادہ کشمیری جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں جس کی وجہ کشمیر میں سخت کشیدگی ہے۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے سنجیدہ حلقے اس صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستانی سپاہیوں کا جو جانی نقصان ہوا اس کے بعد پاکستانی مسلح افواج کی طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ سرحد پر جوابی کارروائی سے بھارتی فوج کا پاکستانی فوج کے جانی نقصان سے زیادہ جانی نقصان ہوا۔ پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل نے بھارتی حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے سپاہیوں کے جانی نقصان کا اعتراف کریں۔
بھارتی وزارت دفاع کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں تسلیم کیا گیا ہے کہ کنٹرول لائن پر پاک فوج کی کارروائی میں 13 بھارتی فوجیوں کا جانی نقصان ہوا۔ کنٹرول لائن پر ہونے والی جھڑپوں میں 7 پاکستانی سپاہیوں کے جانی نقصان کے حوالے سے بھارتی فوج اپنے جانی نقصان کے اعتراف سے کترا رہی تھی۔ جنرل راحیل کے بیان کے بعد اب بھارتی فوج کے ترجمان کے بیان سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ پاکستانی فوج کے جانی نقصان سے زیادہ نقصان بھارتی فوج کا ہوا۔ جنرل راحیل نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ بھارت جانتا ہے کہ پاکستان کیا کر سکتا ہے۔
دونوں ملکوں کے لائن آف کنٹرول پر ہونے والے جانی نقصان کے بعد میڈیا میں یہ خبریں مع تصاویر کے شایع ہوئیں کہ پاکستانی سمندری حدود میں ایک بھارتی آبدوز گھس آئی تھی، پاک بحریہ نے فلیٹ یونٹس کی مدد سے اس کا سراغ لگا لیا اور بھارتی آبدوز کو پاکستانی سمندری حدود سے باہر نکال دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ بھارتی آبدوز پاکستانی سمندری حدود میں کسی خفیہ مشن پر آئی تھی۔
اس حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارتی آبدوز میں بھارتی کمانڈوز اور دہشتگرد موجود تھے جن کا مبینہ مشن یہ تھا کہ ساحل پر اترنے کے بعد بلوچستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں حصہ لیں۔ اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے سے سخت پریشان ہے اور وہ اس معاہدے کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلسل رخنہ اندازی کر رہا ہے۔ بھارتی آبدوز کی پاکستانی پانیوں میں موجودگی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے جو مختلف حربے استعمال کر رہا ہے، آبدوز کی مداخلت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کے معاہدے پر بھارت ناراض ہے اس کی کوشش ہے کہ اس معاہدے کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹیں کھڑی کی جائیں۔ چینی اخبار گلوبل ٹائمز میں شایع ہونے والے ایک آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر سی پیک کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس خطے کی بدقسمتی یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے یہ دو بڑے ملک جو اتفاق سے ایٹمی طاقت بھی ہیں، پچھلے 69 سال سے مسلسل محاذ آرائی کا شکار ہیں۔ اس عرصے میں دو بڑی جنگوں کے علاوہ لائن آف کنٹرول پر مسلسل کشیدگی رہتی ہے، جو پچھلے دنوں سے باضابطہ محاذ آرائی میں بدل گئی ہے۔ جب سے نریندر مودی برسر اقتدار آئے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
بی جے پی ایک کٹر مذہبی جماعت ہے جو بھارت کو ایک ہندو ریاست میں بدلنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کے اس ایجنڈے کی وجہ سب سے زیادہ نقصان سیکولرزم کو ہو رہا ہے۔ بی جے پی کے رہنما غالباً یہ سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ اگر بھارت میں سیکولرزم ناکام ہو گیا تو بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ بھارتی حکومت کے کرتا دھرتا مسلسل یہ رٹ لگا رہے ہیں کہ ہم اپنی سرحدوں پر ایک اور مذہبی ریاست قبول نہیں کریں گے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر وہ بھارت کو ایک ہندو ریاست بنانے کے ایجنڈے پر کام کرتے رہے تو بھارت میں مذہبی اور لسانی حوالے سے بہت ساری تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں گی۔
امریکا کی نئی حکومت دونوں ملکوں کے درمیان اگر بہتر تعلقات دیکھنا چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی سنجیدہ کوشش کرنا ہو گی۔ اوباما اور ٹرمپ پاکستانی حکومتوں پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومتیں دہشتگردوں کی حمایت کرتی ہیں ہو سکتا ہے ان کا یہ الزام درست ہو لیکن روسی جہاد سے پہلے نہ پاکستان میں دہشتگرد تھے نہ دہشتگرد تنظیمیں تھیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روس کو افغانستان سے نکالنے کے لیے امریکا نے جن دہشتگردوں کو استعمال کیا، کیا یہ اسی کی باقیات نہیں؟