ترک صدر کا یادگار دورۂ پاکستان

ترک صدر نے کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی پاکستانی موقف کی تائید کی۔


[email protected]

ABU DHABI: ترکی کے صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے دور روزہ دورے پر پاکستان پہنچے تو وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت وزراء اور سرکاری شخصیات نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے صدر مملکت ممنون حسین کی دعوت پر پاکستان کے دورے پر پہنچے تھے۔

معزز مہمان نے اپنے دورے کے دوران صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف اور دیگر سے ملاقاتوں کے علاوہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ جس کے باعث انھیں پاکستان کی پارلیمنٹ سے تیسری بار خطاب کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 4 سال بعد اس ایوان سے خطاب کرنا میرے لیے یقیناً اعزاز کی بات ہے۔

انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے دردناک واقعات کی مذمت کرتا ہوں، میں کشمیریوں کے کرب سے اچھی طرح واقف ہوں، مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عوامی خواہشات کے مطابق حل ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔ ترکی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھی کوشش کرے گا۔ اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں کہا کہ رجب طیب اردوان اور ترکی کے عوام نے آئین کی پاسداری اور بالادستی کی خاطر فوجی بغاوت کو ناکام بنا کر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، جس پر میں انھیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ترک صدر نے کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی واضح الفاظ میں پاکستانی موقف کی تائید کی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کھل کر کہا کہ داعش سے جو اسلحہ پکڑا گیا ہے اس کا تعلق مغربی دنیا سے ہے، دیگر دہشت گرد تنظیموں کو بھی مغرب کی حمایت حاصل ہے اور یہ تنظیمیں صرف مسلمان ممالک کو اپنا ہدف بنا کر نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انھوں نے ایک مسلم دوست رہنما کی حیثیت سے یہ بھی کہا کہ ہمیں دین کی تعلیمات کے مطابق آگے بڑھنا ہوگا۔

دین اسلام کی چھت تلے ہی ہمیں متحد و یکجان رہنا ہوگا۔ انھوں نے پاکستان سے اپنے تعلقات کا اظہار نہایت جذباتی انداز سے کیا اور کہا کہ میں خوش ہوں کہ پاکستان میں جمہوری عمل مستحکم ہو رہا ہے اور پاکستان نے جمہوریت کو مستحکم کرکے عالم اسلام کے دیگر ملکوں کے لیے رخشندہ مثال قائم کی ہے۔

انھوں نے اس بات پر بھی پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی پر بھی پاکستان کی جانب سے مجھے اولین حمایت اور مبارکباد کا پیغام ملا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے ترک صدر رجب طیب اردوان کے خطاب کے دوران بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہ مہمانوں کی گیلری میں موجود تھے اور انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان کی آمد پر انھیں سیلوٹ بھی کیا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہمارا ہدف اقتصادی تعاون کو ایک ارب ڈالر تک بڑھانا ہے۔ پاکستان کے ساتھ ہمارا تعلق روز آخر تک رہے گا۔ ترک حکومت پاکستان کے انڈر گریجویٹ اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بھی بھرپور تعاون کرے گی۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے مسئلہ کشمیر پر جس انداز سے حمایت کی ہے، اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو کچلنے کے لیے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور کنٹرول لائن پر کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب وہ بلا اشتعال فائرنگ نہ کرتا ہو۔ اس نے سرحدوں پر صورتحال کو کشیدہ بنا رکھا ہے اور بلا اشتعال فائرنگ و گولہ باری سے جانی و مالی نقصان بھی ہو رہا ہے۔ پاکستان بھارتی فورسز کی ان کارروائیوں پر بار بار احتجاج کرتا رہا ہے مگر بھارت پر اس احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہورہا۔ ترک صدر کا اپنے خطاب میں کنٹرول لائن اور مسئلہ کشمیر کا ذکر کرنا اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ ان مسائل اور معاملات کی سنگینی اور حساسیت سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کیا جائے۔

اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ خود ترکی بھی قبرص کے حوالے سے ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہے جیسی کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کو ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ بعض دیگر معاملات بھی ایسے ہیں جن میں پاکستان اور ترکی کو یکساں صورتحال کا سامنا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے ایک موقع پر یہ بھی بتایا کہ 2017 تک پاکستان اور ترکی آزادانہ تجارت کا معاہدہ بھی کرلیں گے۔ اس صورت میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آزادانہ تجارت کا معاہدہ پاکستان اور ترکی کو ایک دوسرے کے مزید قریب لانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا عمران خان نے بائیکاٹ کیا۔ یہ پی ٹی آئی کا نہایت افسوس ناک فیصلہ تھا۔ ترک سفیر نے بھی عمران خان سے ایک ملاقات کرکے انھیں پارلیمنٹ سے مشترکہ اجلاس میں شرکت پر رضامند کرنے کی کوشش کی تھی مگر انھوں نے ترک سفیر کی درخواست کو بھی نظر انداز کردیا۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرکے نہ صرف پاکستان کے عالمی وقارکو عالمی سطح پر مجروح کرنے کی کوشش کی بلکہ داخلی سطح پر بھی اپنی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس میں شک نہیں کہ دنیا بھر میں اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور ان کے اراکین کے منتخب حکومت کے وزیراعظم سے اختلافات ہوتے ہیں اور ان اختلافات کا اظہار ان کا جمہوری اور آئینی حق تصور کیا جاتا ہے لیکن مسلم دنیا کے معتبر دوست اور عظیم مہمان کے خطاب اور ان کے خیالات کو ایوان میں بیٹھ کر سننے کا بیش قیمت موقع ضایع کرکے تحریک انصاف نے دراصل اپنے ہی ساتھ زیادتی کی ہے۔

اس سے قبل بھی کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوا تھا اس وقت بھی پاکستان تحریک انصاف نے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ ایک سیاسی طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہ ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے یہ فیصلے قومی مفاد کے لیے سراسر نقصان دہ تھے۔ ان فیصلوں سے نہ صرف ایک عام پاکستانی کو دکھ ہوا بلکہ تحریک انصاف کے کارکنوں میں بھی کوئی اچھا تاثر نہیں گیا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ان فیصلوں سے پاکستان کے بدخواہوں کو یہ پیغام گیا ہے کہ پاکستانی قوم ایسے اہم موقعے پر بھی متحد نہیں ہے۔ دراصل عمران خان طبیعت کے اعتبار سے ضدی ہیں اور احتجاج و انتشار کی سیاست کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے فیصلوں پر اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں نے بھی انھیں ہدف تنقید بنایا ہے لیکن سابق وفاق وزیر مشاہد اللہ خان نے سب سے دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان پاکستان کے فتح اللہ گولن ہیں۔ اب آنے والی تاریخ عمران خان کے موجودہ کردار کا تعین از خود کرے گی۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا دورہے پاکستان تاریخی تھا، جب کہ وزیراعظم کی طرف سے لاہور میں الوداعی دعوت بھی یادگار تھی، جس میں سندھ بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک تھے اور ترکی کے صدر نے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے شاندار اہتمام کی میزبانی پر شکریہ ادا کیا۔ آنے والے وقت میں دونوں ملکوں کے اس تعاون سے دونوں ممالک ترقی و خوشحالی سے ہمکنار ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔