آ بیل مجھے مار
حقیقت یہ ہے کہ مودی کا دور بھرم، خوش فہمی اور خودستائی سے عبارت ہے۔
ستر برس سے کرپشن میں جکڑے بھارت کو چند دنوں میں پاک صاف بنانے کے لیے مودی کے 8 نومبر کی رات کے اچانک اعلان نے بھارتی عوام کو پل بھر میں کنگال کر ڈالا۔ ان کے پاس موجود ہزار اور پانچ سو روپے کے کرنسی نوٹ منسوخی کے بعد ردی کے ٹکڑے بن چکے تھے۔ 9 نومبر کی صبح سے پورے بھارت میں بینکوں کے سامنے نوٹ تبدیل کرانے کے لیے عوام کا رش قابل دید تھا۔
یہ سلسلہ اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ عوامی دھکم پیل میں اب تک ساٹھ سے زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کالے دھن کو گرفت میں لینے اور کرپشن کو ختم کرنے کے عوام سے بارہا وعدے کیے تھے، مگر سوال یہ ہے کہ جب وہ ریاست گجرات میں ایک طاقتور وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی وہاں اپنے دس سالہ طویل دور میں کرپشن پر قابو نہ پاسکے تو وہ پورے بھارت کو اس مرض سے چند روز میں کیسے نجات دلاسکیں گے؟
واقعہ یہ ہے کہ مودی نے جب سے بھارت کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا ہے وہ بھارت کو شارٹ کٹ کے ذریعے سپر پاور بنانے کے لیے نت نئی ترکیبیں استعمال کر رہے ہیں، مگر ان سے بھارت کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہو رہا ہے۔ انھوں نے امریکی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے صدر اوباما سے گہری دوستی گانٹھی، مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوسکا، حتیٰ کہ اوباما بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا ممبر تک نہ بنوا سکے تو پھر بھارت امریکی حمایت سے سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بھلا کیسے بن سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مودی کا دور بھرم، خوش فہمی اور خودستائی سے عبارت ہے۔ کچھ لوگ اسے سیاہ ترین دور کا نام بھی دے رہے ہیں۔
اس دور میں بے روزگاری افراط زر اور مہنگائی عروج پر ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر آگئی ہے اسٹاک ایکسچینج اور روپے کی قدر میں کمی مسلسل جاری ہے۔ اب انھوں نے بڑے نوٹوں کو منسوخ کرکے کرپشن پر قابو پانے کے لیے اپنی دانست میں یہ آسان نسخہ دریافت کیا ہے مگر حقیقتاً یہ آ بیل مجھے مار کی دعوت دینے والا پرانا ناکام نسخہ ہے جو ان کی مقبولیت کو خاک میں ملانے کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت کا دھڑن تختہ بھی کرسکتا ہے۔
کرنسی منسوخ کرنے کے اس طریقے کو کئی ممالک کے حکمران کرپشن کے خاتمے اور معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لیے آزما چکے ہیں مگر وہ اپنے مقصد میں کیا کامیاب ہوتے انھیں تو الٹا اپنے اقتدار سے ہی محروم ہونا پڑا۔ 1982 میں گھانا میں افراط زر کرپشن اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے وہاں کی حکومت نے پچاس کے نوٹ کو منسوخ کردیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کے نتیجے میں شہریوں کو نوٹ بدلوانے کے لیے بینکوں کے آگے لمبی لمبی قطاریں لگانا پڑیں۔
دیہی علاقوں کے لوگوں کو میلوں کا سفر طے کرکے شہروں میں آکر نوٹ بدلوانا پڑے مگر وقت مقررہ پر پرانی کرنسی نہیں بدلوائی جاسکی جس سے کروڑوں کرنسی نوٹ ضایع ہوگئے۔ اس دقت طلب مرحلے سے تنگ آکر لوگ حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہوگئے جس سے خوف کھا کر حکومت کو 50 کے نوٹ کی منسوخی کا حکم واپس لینا پڑا۔ میانمار میں 1987 میں فوجی حکومت نے ملک میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کو قابو میں کرنے کے لیے کرنسی کی ویلیو کو 80 فیصد تک ختم کردیا تھا، اس سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کاروباری برادری میں بھی سخت ہیجان پیدا ہوگیا تھا۔ نقدی سے محروم لوگ سڑکوں پر آگئے، بغاوت کے آثار پیدا ہوگئے جس سے گھبرا کر فوجی حکمراں کو اپنے فیصلے کو واپس لینا پڑا۔
کانگو میں 1990 میں فوجی سربراہ موبت سیسی نے ملک میں جاری اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے ملک میں رائج پوری کرنسی کو متروک کرکے واپس لینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ ملک میں کرنسی کے بحران کی وجہ سے نوبت خانہ جنگی تک پہنچ گئی۔ نتیجتاً ملک میں ایک نیا مارشل لا لگ گیا جس سے موبت کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ 1991 میں روس میں گورباچوف نے 50 اور 100 روبل کے نوٹ کینسل کردیے، مقصد ملک کو معاشی بحران سے نجات دلانا تھا مگر اس اقدام سے معیشت کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا، البتہ عوام میں حکومت مخالف جذبات عروج پر پہنچ گئے، نتیجتاً ملک بکھر گیا اور ساتھ ہی سوشلزم نظام کی جگہ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی۔
ملک کو کرپشن اور معاشی مشکلات سے نجات دلانے کے لیے شمالی کوریا میں بھی 2000 میں وہاں جاری کرنسی کی قدر سے دو صفر ہٹا دیے گئے، جس سے سو کا نوٹ صرف ایک کا رہ گیا۔ اس اقدام کا معیشت پر مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ معیشت کا ڈھانچہ پہلے سے زیادہ کمزور ہوگیا۔ ملک میں یہ اقدام وہاں کے وزیر خزانہ کی جانب سے اٹھایا گیا تھا جسے فوجی حکمراں کم جونگ ال نے ملک سے غداری کے الزام میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر کرنسی کی پرانی ویلیو پھر سے بحال کردی۔ خود بھارت میں 1978 میں مرار جی ڈیسائی کے دور میں ایسا ہی اقدام اٹھایا جاچکا ہے مگر وہ ناکام ثابت ہوا۔
مودی کی جانب سے بھارت میں کرنسی کو منسوخ کرنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ بظاہر وہاں کی معیشت کے غیر معمولی مستحکم ہونے اور دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہونے کا خوب دھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر حقیقتاً اندر سے بھارتی معیشت ڈھول کا پول ہوچکی ہے جسے پٹری پر لانے کے لیے مودی کو یہ خطرناک طریقہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ زرعی شعبے کی مسلسل خرابی نے بھارتی معیشت کو سب سے بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ بھارتی منصوبہ سازوں کے زرعی شعبے سے سوتیلی ماں جیسے سلوک نے زرعی شعبے کی ترقی کو تنزلی میں تبدیل کردیا ہے۔
بھارت میں وقت پر بارشوں کے نہ ہونے اور نقلی بیج کی بھرمار نے کسانوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ زراعت میں خسارے اور سرکاری قرضوں کی واپسی کے تقاضوں نے کسانوں کو خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے۔ روز ہی درجنوں کسان خودکشیاں کر رہے ہیں مگر حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں قطعی ناکام ہے۔ مودی اس وقت تمام تر توجہ بھارت کو دنیا کی عظیم فوجی قوت بنانے پر مبذول کیے ہوئے ہیں۔ بھارتی بجٹ کا پچھتر فیصد حصہ جدید اسلحہ خریدنے پر خرچ ہو رہا ہے، وہ خود اپنے سیر سپاٹوں پر بے دریغ رقم خرچ کر رہے ہیں، ساتھ ہی ترقی یافتہ مغربی ممالک کے سربراہوں کی مہمانداری پر فیاضی سے کام لیا جا رہا ہے۔
کاش کہ یہ رقم بھارت کے بھوکے ننگے عوام پر خرچ کی جاتی تو وہ مودی حکومت سے بدظنی کا اظہار نہ کرتے۔ کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کی مصیبت میں پھنسانے سے عوام میں ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آرہی ہے جب کہ یوپی اور پنجاب کے الیکشن سر پر آچکے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کا جیتنا اس کی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے خلاف متحد ہوچکی ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں مودی کے سحر نے ان پارٹیوں کو شکست سے دوچار کردیا تھا مگر اب ان پارٹیوں کی پوزیشن بحال ہو رہی ہے، جس سے مودی سرکار کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔
بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔ اب تک بھارت میں جو بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے اس میں خود بھارتی سرمایہ کاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے وہ اپنے کالے دھن کو غیر ملکی کمپنیوں کے نام سے بھارت میں سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں جس کا مقصد ٹیکس بچانا اور مراعات حاصل کرنا تھا۔ یہ طریقہ دراصل آف شور کمپنیوں جیسا ہے۔
کاش کہ پاکستانی سرمایہ کار بھی اس بھارتی طریقے کو اپناتے تو وہ شاید پانامہ لیکس جیسے اسکینڈل سے محفوظ رہتے۔ بہرحال اس وقت مودی کرنسی منسوخ کرکے ایک خطرناک مصیبت میں پھنس چکے ہیں جس کے انجام سے وہ اب خود خوف زدہ ہوں گے، ایسے ماحول میں ان کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے دعویٰ کیا ہے کہ کرنسی کی تبدیلی سے کشمیر میں جاری تحریک آزادی کھٹائی میں پڑ گئی ہے، کیونکہ کرنسی بدلوانے کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگانے کی وجہ سے اب کشمیری نوجوانوں کے پاس حکومت مخالف تحریک کے لیے ٹائم نہیں ہے، کئی کشمیری لیڈروں نے پاریکر کے اس بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ تحریک آزادی روپے پیسے سے ماورا ہے، کوئی غیور قوم محض روپیوں پیسوں کی خاطر آزادی کا سودا نہیں کرسکتی۔
یہ سلسلہ اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ عوامی دھکم پیل میں اب تک ساٹھ سے زیادہ لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کالے دھن کو گرفت میں لینے اور کرپشن کو ختم کرنے کے عوام سے بارہا وعدے کیے تھے، مگر سوال یہ ہے کہ جب وہ ریاست گجرات میں ایک طاقتور وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے بھی وہاں اپنے دس سالہ طویل دور میں کرپشن پر قابو نہ پاسکے تو وہ پورے بھارت کو اس مرض سے چند روز میں کیسے نجات دلاسکیں گے؟
واقعہ یہ ہے کہ مودی نے جب سے بھارت کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا ہے وہ بھارت کو شارٹ کٹ کے ذریعے سپر پاور بنانے کے لیے نت نئی ترکیبیں استعمال کر رہے ہیں، مگر ان سے بھارت کو فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہو رہا ہے۔ انھوں نے امریکی آشیرباد حاصل کرنے کے لیے صدر اوباما سے گہری دوستی گانٹھی، مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہ ہوسکا، حتیٰ کہ اوباما بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ کا ممبر تک نہ بنوا سکے تو پھر بھارت امریکی حمایت سے سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بھلا کیسے بن سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مودی کا دور بھرم، خوش فہمی اور خودستائی سے عبارت ہے۔ کچھ لوگ اسے سیاہ ترین دور کا نام بھی دے رہے ہیں۔
اس دور میں بے روزگاری افراط زر اور مہنگائی عروج پر ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کم ترین سطح پر آگئی ہے اسٹاک ایکسچینج اور روپے کی قدر میں کمی مسلسل جاری ہے۔ اب انھوں نے بڑے نوٹوں کو منسوخ کرکے کرپشن پر قابو پانے کے لیے اپنی دانست میں یہ آسان نسخہ دریافت کیا ہے مگر حقیقتاً یہ آ بیل مجھے مار کی دعوت دینے والا پرانا ناکام نسخہ ہے جو ان کی مقبولیت کو خاک میں ملانے کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت کا دھڑن تختہ بھی کرسکتا ہے۔
کرنسی منسوخ کرنے کے اس طریقے کو کئی ممالک کے حکمران کرپشن کے خاتمے اور معاشی بدحالی کو دور کرنے کے لیے آزما چکے ہیں مگر وہ اپنے مقصد میں کیا کامیاب ہوتے انھیں تو الٹا اپنے اقتدار سے ہی محروم ہونا پڑا۔ 1982 میں گھانا میں افراط زر کرپشن اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے وہاں کی حکومت نے پچاس کے نوٹ کو منسوخ کردیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کے نتیجے میں شہریوں کو نوٹ بدلوانے کے لیے بینکوں کے آگے لمبی لمبی قطاریں لگانا پڑیں۔
دیہی علاقوں کے لوگوں کو میلوں کا سفر طے کرکے شہروں میں آکر نوٹ بدلوانا پڑے مگر وقت مقررہ پر پرانی کرنسی نہیں بدلوائی جاسکی جس سے کروڑوں کرنسی نوٹ ضایع ہوگئے۔ اس دقت طلب مرحلے سے تنگ آکر لوگ حکومت کے خلاف بغاوت پر آمادہ ہوگئے جس سے خوف کھا کر حکومت کو 50 کے نوٹ کی منسوخی کا حکم واپس لینا پڑا۔ میانمار میں 1987 میں فوجی حکومت نے ملک میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کو قابو میں کرنے کے لیے کرنسی کی ویلیو کو 80 فیصد تک ختم کردیا تھا، اس سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کاروباری برادری میں بھی سخت ہیجان پیدا ہوگیا تھا۔ نقدی سے محروم لوگ سڑکوں پر آگئے، بغاوت کے آثار پیدا ہوگئے جس سے گھبرا کر فوجی حکمراں کو اپنے فیصلے کو واپس لینا پڑا۔
کانگو میں 1990 میں فوجی سربراہ موبت سیسی نے ملک میں جاری اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے ملک میں رائج پوری کرنسی کو متروک کرکے واپس لینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ ملک میں کرنسی کے بحران کی وجہ سے نوبت خانہ جنگی تک پہنچ گئی۔ نتیجتاً ملک میں ایک نیا مارشل لا لگ گیا جس سے موبت کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ 1991 میں روس میں گورباچوف نے 50 اور 100 روبل کے نوٹ کینسل کردیے، مقصد ملک کو معاشی بحران سے نجات دلانا تھا مگر اس اقدام سے معیشت کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا، البتہ عوام میں حکومت مخالف جذبات عروج پر پہنچ گئے، نتیجتاً ملک بکھر گیا اور ساتھ ہی سوشلزم نظام کی جگہ ملک میں سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی۔
ملک کو کرپشن اور معاشی مشکلات سے نجات دلانے کے لیے شمالی کوریا میں بھی 2000 میں وہاں جاری کرنسی کی قدر سے دو صفر ہٹا دیے گئے، جس سے سو کا نوٹ صرف ایک کا رہ گیا۔ اس اقدام کا معیشت پر مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ معیشت کا ڈھانچہ پہلے سے زیادہ کمزور ہوگیا۔ ملک میں یہ اقدام وہاں کے وزیر خزانہ کی جانب سے اٹھایا گیا تھا جسے فوجی حکمراں کم جونگ ال نے ملک سے غداری کے الزام میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا کر کرنسی کی پرانی ویلیو پھر سے بحال کردی۔ خود بھارت میں 1978 میں مرار جی ڈیسائی کے دور میں ایسا ہی اقدام اٹھایا جاچکا ہے مگر وہ ناکام ثابت ہوا۔
مودی کی جانب سے بھارت میں کرنسی کو منسوخ کرنے سے صاف پتا چلتا ہے کہ بظاہر وہاں کی معیشت کے غیر معمولی مستحکم ہونے اور دنیا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہونے کا خوب دھنڈورا پیٹا جاتا ہے مگر حقیقتاً اندر سے بھارتی معیشت ڈھول کا پول ہوچکی ہے جسے پٹری پر لانے کے لیے مودی کو یہ خطرناک طریقہ اختیار کرنا پڑا ہے۔ زرعی شعبے کی مسلسل خرابی نے بھارتی معیشت کو سب سے بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ بھارتی منصوبہ سازوں کے زرعی شعبے سے سوتیلی ماں جیسے سلوک نے زرعی شعبے کی ترقی کو تنزلی میں تبدیل کردیا ہے۔
بھارت میں وقت پر بارشوں کے نہ ہونے اور نقلی بیج کی بھرمار نے کسانوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ زراعت میں خسارے اور سرکاری قرضوں کی واپسی کے تقاضوں نے کسانوں کو خودکشیوں پر مجبور کردیا ہے۔ روز ہی درجنوں کسان خودکشیاں کر رہے ہیں مگر حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں قطعی ناکام ہے۔ مودی اس وقت تمام تر توجہ بھارت کو دنیا کی عظیم فوجی قوت بنانے پر مبذول کیے ہوئے ہیں۔ بھارتی بجٹ کا پچھتر فیصد حصہ جدید اسلحہ خریدنے پر خرچ ہو رہا ہے، وہ خود اپنے سیر سپاٹوں پر بے دریغ رقم خرچ کر رہے ہیں، ساتھ ہی ترقی یافتہ مغربی ممالک کے سربراہوں کی مہمانداری پر فیاضی سے کام لیا جا رہا ہے۔
کاش کہ یہ رقم بھارت کے بھوکے ننگے عوام پر خرچ کی جاتی تو وہ مودی حکومت سے بدظنی کا اظہار نہ کرتے۔ کرنسی نوٹوں کی تبدیلی کی مصیبت میں پھنسانے سے عوام میں ان کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آرہی ہے جب کہ یوپی اور پنجاب کے الیکشن سر پر آچکے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی کا جیتنا اس کی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیاں حکومت کے خلاف متحد ہوچکی ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں مودی کے سحر نے ان پارٹیوں کو شکست سے دوچار کردیا تھا مگر اب ان پارٹیوں کی پوزیشن بحال ہو رہی ہے، جس سے مودی سرکار کی راتوں کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں۔
بھارت میں بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔ اب تک بھارت میں جو بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے اس میں خود بھارتی سرمایہ کاروں نے اہم کردار ادا کیا ہے وہ اپنے کالے دھن کو غیر ملکی کمپنیوں کے نام سے بھارت میں سرمایہ کاری کرتے رہے ہیں جس کا مقصد ٹیکس بچانا اور مراعات حاصل کرنا تھا۔ یہ طریقہ دراصل آف شور کمپنیوں جیسا ہے۔
کاش کہ پاکستانی سرمایہ کار بھی اس بھارتی طریقے کو اپناتے تو وہ شاید پانامہ لیکس جیسے اسکینڈل سے محفوظ رہتے۔ بہرحال اس وقت مودی کرنسی منسوخ کرکے ایک خطرناک مصیبت میں پھنس چکے ہیں جس کے انجام سے وہ اب خود خوف زدہ ہوں گے، ایسے ماحول میں ان کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے دعویٰ کیا ہے کہ کرنسی کی تبدیلی سے کشمیر میں جاری تحریک آزادی کھٹائی میں پڑ گئی ہے، کیونکہ کرنسی بدلوانے کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگانے کی وجہ سے اب کشمیری نوجوانوں کے پاس حکومت مخالف تحریک کے لیے ٹائم نہیں ہے، کئی کشمیری لیڈروں نے پاریکر کے اس بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ تحریک آزادی روپے پیسے سے ماورا ہے، کوئی غیور قوم محض روپیوں پیسوں کی خاطر آزادی کا سودا نہیں کرسکتی۔