آبی مدفن طویل عرصے پانی میں دفن انسانی باقیات وہ کون تھے ان کی موت کیسے واقع ہوئی

گویا دریا، جھیلیں اور سمندر بھی آبی مدفن بنتے ہیں۔

تحقیق کا عمل جاری ہے اور جلد ہی نتائج سامنے آجائیں گے۔ فوٹو : فائل

MULTAN:
بحری جہازوں کی تباہی، جان داروں کی قربانی، آخری رسومات کی ادائیگی، حادثات اور سیلاب کی تباہ کاریاں، یہ وہ مسائل ہیں جن کی وجہ سے پانی والے یا آبی مدفن وجود میں آئے ورنہ تو انسان معلوم وقت سے ہی اپنے مرنے والوں کو یا تو زمین میں دفن کرتا آیا ہے یا آگ میں جلاتا آیا ہے، البتہ کچھ مذاہب میں مُردوں کو پانی کے حوالے بھی کیا جاتا رہا ہے۔

گویا دریا، جھیلیں اور سمندر بھی آبی مدفن بنتے ہیں۔ بعد میں پانی ان کا کیا حشر کرتا ہے، ان کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوتا، لیکن اگر خاص قسم کے حالات میں ان باقیات کو چھیڑا نہ جائے تو یہ پانی میں ہزاروں سال تک بالکل صحیح سلامت پڑی رہتی ہیں۔ ایسی جزوی طور پر غرقاب باقیات کی جینیاتی ٹیسٹنگ بھی کی جاتی ہے اور ان کا تجزیہ بھی کیا جاسکتا ہے، جب کہ ماضی میں ایسا ممکن نہ تھا۔ یہ آبی مدفن ایک طرف تو ماضی کی بصیرت اور وجدان فراہم کرتے ہیں تو ساتھ ہی یہ زمانۂ حال کے لیے بھی نئی پراسراریت کو جنم دیتے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ہم پانی میں سکون سے پڑے ہوئے ان مدفنوں کا تجزیہ کرکے اور ان پر تحقیق کرکے کس حد تک اہم رازوں سے پردہ اٹھاسکتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم قارئین کو کچھ ایسے ہی مدفنوں کے بارے میں بتارہے ہیں:

٭روپ کنڈ جھیل.... کھوپڑیوں والی جھیل:
روپ کنڈ جھیل انڈیا میں کوہ ہمالیہ کے سلسلے میں سطح سمندر سے لگ بھگ 5000 میٹر یا 16000فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ ایک منجمد جھیل ہے جو پورا سال جمی رہتی ہے، مگر موسم گرما میں صرف ایک ماہ کے لیے اس جھیل کی سطح پر جمی برف جب پگھلتی ہے تو جھیل میں نہ جانے کب سے پڑی ہوئی سیکڑوں انسانی کھوپڑیاں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ اس کھوپڑیوں والی جھیل کے بارے میں سب سے پہلے انیسویں صدی میں پتا چلا تھا جب ایک پہاڑی رینجر اہل کار نے اس جھیل کو 1942میں دیکھا تھا۔ اس کے اندر اتنی بڑی تعداد میں کھوپڑیاں تھیں کہ اس جھیل کو کھوپڑیوں والی جھیل یا Skeleton Lake کا نام دے دیا گیا۔



1942 کے شروع میں یہ سوچا گیا کہ یہ جاپانی فوجیوں کی کھوپڑیاں ہیں، مگر بعد میں ریڈیو کاربن ٹیسٹنگ سے پتا چلا کہ یہ زیادہ پرانی ہیں اور 850 عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ یہ لوگ کسی برفانی تودے کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ کچھ اور لوگوں کا یہ کہنا تھا کہ انہوں نے کوئی مذہبی رسم ادا کرتے ہوئے اجتماعی خودکشی کی تھی، جب کہ بعض کا دعویٰ تھا کہ وہ کسی دشمن کے ہاتھوں مارے گئے ہوں گے جس نے ان سب کو مار کر اس جھیل میں پھینک دیا تھا۔ پھر 2013میں ایک تحقیق سے پتا چلا کہ یہ لوگ خوف ناک ژالہ باری کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ مرنے والے ہر فرد کے بالائی جسم پر ضربوں کے نشان ہیں، مگر اس سے نیچے کچھ نہیں ہے۔

اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ نہ تو مرنے والے کسی برفانی تودے کا شکار ہوئے تھے اور نہ ہی وہ کسی دشمن قبیلے سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ یہ کون لوگ تھے اور انہیں کس نے اس طرح مارا کہ انہیں ہمیشہ کے لیے جھیل میں محفوظ کردیا؟ یہ سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے۔

٭سوئیڈن میں غرقاب کھوپڑیوں کا مقبرہ:
یہ 2009کی بات ہے جب ماہرین آثارقدیمہ نے سوئیڈن میں کھدائی کی تو ایک قبل ازتاریخ جھیل دریافت ہوئی جو اصل میں غرقاب کھوپڑیوں کا ایک یکتا اور منفرد مقبرہ تھی۔ یہ مقبرہ جھیل Vattern کے مشرقی کنارے پر واقع تھا، جس میں لگ بھگ 8,000 سال پرانی کھوپڑیاں تھیں۔ ماہرین آثارقدیمہ نے ان کھوپڑیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ انکشاف کیا کہ یہ11افراد کی کھوپڑیاں ہیں، جن میں عورتیں، مرد اور بچے شامل ہیں۔ دو کو بری طرح چھیدا اور کھودا گیا تھا، جب کہ باقی کے صرف آثار بتارہے تھے کہ یہ کبھی ہوتے تھے۔ یہ کھوپڑیاں جھیل کے اتھلے پانی میں موجود مقبرے میں موجود تھیں۔ ماہرین آثار قدیمہ نے اس جگہ انسانی ہڈیاں، جانوروں کی باقیات اور سینگوں، پتھروں اور ہڈیوں سے بنے ہوئے آلات و اوزار بھی دریافت کیے تھے۔

اس پراسرار آبی مقبرے کے بارے میں مختلف نظریات ملتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ جانوروں کے سر اصل میں ٹرافیوں کے طور پر ان سپاہیوں کو دیے جاتے تھے جو میدان جنگ میں بہادری کے کارنامے انجام دیتے تھے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جھیل اصل میں تدفین کی ایک جگہ تھی۔ یہ باقیات دریافت ہونے سے پہلے مسخ ہوچکی تھیں اور جھیل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوچکی تھیں۔ آج یہ کھوپڑیاں ماضی میں آخری رسوم کی ادائیگی کا ایک کھلا اظہار ہیں اور سوئیڈن کے ماضی کو ظاہر کرتی ہیں۔

٭میکسیکو کا بلیک ہول:
میکسیکو میں زیرآب بلیک ہول نامی ایک غار ہے، جسے مقامی لوگ Hoyo Negro کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ غار مقامی امریکی باقیات کا قدیم ترین مقام ہے۔ 12,000 سالہ پرانی یہ باقیات ایک نوجوان عورت کی ہیں جنہیں سائنس دانوں نے Naia کا نام دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عورت پانی کی تلاش میں اس قدیم غار تک پہنچی تو لگ بھگ 30 میٹرز یا 100 فٹ کی بلندی سے گرکر مرگئی۔ اس وقت یہ غار خشک تھا، مگر 10,000 اور 4,000 سال پہلے جب غار میں پانی کی سطح بلند ہوئی تو بلیک ہول میں پانی بھرگیا اور اس کی وجہ سے مرنے والی اس عورت کی باقیات کو تحفظ مل گیا۔ آثار قدیمہ کے ماہرین نے بہت پہلے یہ نوٹ کرلیا تھا کہ براعظم امریکا میں رہنے والے ابتدائی لوگ افریقیوں اور مقامی آسٹریلینز سے ملتے جلتے تھے اور جنوبی بحرالکاہل کے دیسی لوگ جدید مقامی امریکیوں سے کافی حد تک مشابہت رکھتے تھے۔

تنگ چہرے، چوڑی آنکھوں، کشادہ پیشانی، نکیلے دانتوں اور سیدھی ناک کی وجہ سے Naia نامی یہ جوان عورت قدیم علم الاشکال کی ایک مثال ہے۔ لیکن اس کے جینیاتی ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ Naia کا ڈی این اے جدید مقامی امریکیوں سے میچ کرتا ہے۔

٭ ڈنمارک میں جنگجوؤں کی باقیات:
ڈنمارک کے ماہرین آثار قدیمہ نے اس ملک کے Alken Enge ویٹ لینڈز میں کھدائی کے دوران ایک بہت بڑی قبر دریافت کی ہے جس میں لگ بھگ 1,000 جنگ جوؤں کی باقیات ہیں جو 2000 سال قبل ایک جنگ کے دوران مارے گئے تھے۔ ان کی عمریں 13اور45سال کے درمیان تھیں، ان کی ہڈیاں نکیلی یعنی کلہاڑی اور تلوار نما ہیں۔ لاشوں کی یہ باقیات اپنی موت کے مقام سے کافی دور پائی گئی تھیں۔ ان کی ہڈیوں پر کاٹنے کے نشان تھے جس سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ باقیات کافی عرصے تک میدان جنگ میں ایسے ہی پڑی رہی تھیں اور انہیں وحشی پرندوں نے نوچا اور کاٹا تھا۔




ابھی تک 3,600مربع میٹر میں سے صرف 90 مربع میٹر تک کھدائی کی گئی ہے اور ماہرین نے 240 مردوں کی باقیات نکالی ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کسی شکست خوردہ لشکر کے سپاہی تھے، جنہیں کسی دیوتا کی بھینٹ چڑھایا گیا تھا۔ ان کی ہڈیاں کسی زمانے میں جھیل Mosso میں دفن ہوگئی تھیں۔ مرنے والے ان جنگ جوؤں کی اصلیت کے بارے میں آج تک کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ وہ کون تھے اور کس جگہ سے تعلق رکھتے تھے۔

٭اسرائیل کے سمندر میں غرقاب بیماری:
یہ 2008ء کی بات ہے جب بحری ماہرین آثار قدیمہ نے پتھر کے دور کے کھنڈرات میں کھدائی کرتے ہوئے ٹی بی کی بیماری کا شکار ہونے والے بالکل ابتدائی لوگوں کی باقیات دریافت کی تھیں۔ یہ دریافت بحیرۂ روم کے نیچے ہائفہ کے ساحل کے بالمقابل ہوئی تھی۔ ان میں ایک ڈھانچا ایک عورت اور اس کے شیرخوار بچے کا تھا۔ اس بچے کی ہڈیوں کی ہیئت اس قدر بگڑ گئی تھی جس سے ماہرین نے یہ اندازہ لگایا کہ شیرخوار بچے کو یہ بیماری اپنی پیدائش کے فوری بعد اپنی ماں سے لگی تھی۔

ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ فیصلہ ہوا کہ وہ ماں اور بچہ Mycobacterium tuberculosis کا شکار ہوئے تھے۔ اس حوالے سے بحیرۂ روم کا یہ ساحل آج بھی پراسرار طور پر خاموش ہے۔ سمندر کے اندر موجود اس جگہ کا تعلق ساتویں ملینیئم قبل مسیح سے ہے۔ یہاں کچھ دیواریں بھی ہیں اور ہموار راستے بھی اور ایک جزوی گول ڈھانچا بھی ہے جو کبھی تازہ پانی کا چشمہ ہوا کرتا تھا۔ کسی کو پتا نہیں کہ یہ جگہ کب اور کیسے سمندر میں غرق ہوگئی۔ایک اندازہ یہ ہے کہ 8,500 سال قبل ماؤنٹ ایٹنا کا آتش فشاں پھٹا تھا جس سے چالیس میٹر بلند سونامی پیدا ہوا جو گھنٹوں میں ساحلی شہروں کا نام و نشان مٹاسکتا تھا، مگر ایسا نہ ہوا جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اس کی وجہ سے سمندروں کی لہریں زیادہ شدت سے اوپر نہیں اٹھی تھیں۔

٭انڈیا میں دریائے گنگا کی لاشیں:
یہ 2015کی بات ہے جب انڈین اتھارٹیز نے یہ اعلان کیا کہ دریائے گنگا میں ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں لگ بھگ 80لاشیں تیرتی ہوئی سطح پر آگئی ہیں۔ یوپی (اتر پردیش) کے پریار نامی گاؤں کے لوگوں نے یہ لاشیں اس وقت دیکھیں جب وہاں کتوں کو بھی دیکھا گیا اور گِدھوں کو غیرمعمولی طور پر منڈلاتے دیکھا گیا۔ بعد میں تفتیش کی گئی تو اصل کہانی کا علم ہوا۔ ان میں زیادہ لاشیں بچوں کی تھیں، جنہیں مرنے کے بعد آخری رسوم کی ادائیگی کرتے ہوئے دریائے گنگا میں بہادیا گیا تھا، جو بعد میں دریا میں پانی کم ہونے کی وجہ سے سطح پر نمودار ہوگئی تھیں۔ ان لاشوں کی بری حالت بتارہی تھی کہ یہ طویل عرصے سے پانی میں ہیں۔ حفظان صحت سے تعلق رکھنے والے رضاکاروں نے ان باقیات کو ہاتھ لگانے سے انکار کردیا تھا۔

انڈیا میں پانی میں مُردوں کو بہانا غیرقانونی ہے، لیکن بعض اوقات اس ضمن میں ہندو روایات جیت جاتی ہیں اور وہ اپنے مُردوں کو جلانے کے بجائے پانی میں بہادیتے ہیں۔ مثال کے طور پر غیرشادی شدہ لڑکیوں کو موت کے بعد نذر آتش نہیں کیا جاتا، بل کہ انہیں پانی میں بہایا جاتا ہے، کیوں کہ ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگر کنواری لڑکی کو اس کی موت کے بعد پانی میں بہایا جائے تو وہ دوبارہ اسی خاندان میں جنم لیتی ہے۔اس کے علاوہ دریائے گنگا ان غریب ہندو خاندانوں کے لیے اپنے مُردوں کی آخری رسوم ادا کرنے کی ایک پُرکشش جگہ ہے جو اپنے مرنے والوں کو جلانے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔ گنگا انڈیا کا سب سے مقدس دریا ہے، لیکن یہ اس ملک بل کہ اس خطے کا سب سے زیادہ آلودہ دریا ہے جس کی آلودگی اس وجہ سے بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اس میں مردے بہائے جانے کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔

٭میکیسکو کا Sac Uayum نامی آسیبی گڑھا :
میکسیکو کے جزیرہ نما Yucatan میں Sac Uayum نام کا ایک آبی گڑھا ہے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ آسیبی ہے۔ اسی لیے یہاں کے رہنے والے اس گڑھے کے قریب جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ قدیم روایات کے مطابق بھوت پریت اور بدروحیں اس کا پہرا دیتی ہیں اور قریب جانے والے بچوں پر جھپٹ پڑتی ہیں۔ آخر اس خوف کی کیا وجہ ہے؟ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ Sac Uayum سے ڈرنے کی بڑی ٹھوس وجوہ ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ پراسرار آبی اور آسیبی گڑھا انسانی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی گہرائی 35میٹر کے قریب ہے اور اس میں ڈھیروں پراسرار اور خوف ناک چیزیں ہیں۔ ایک عورت کی مصنوعی کھوپڑی ہے اور درجنوں دوسری کھوپڑیاں ہیں۔ مویشیوں کی ہڈیاں ہیں اور مختلف دور کے جان داروں کی ہڈیوں سے اس آبی گڑھے کا فرش بھرا ہوا ہے۔

مایا تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ یا تو اس جگہ کے قریب دفن کیے جاتے تھے یا اپنے گھروں کے نیچے ان کی تدفین ہوتی تھی۔ Sac Uayum نامی اس آسیبی گڑھے کی ہڈیاں کسی بھی پُرتشدد موت کا ثبوت پیش نہیں کرتیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہاں کسی کو بھی زبردستی مارا یا دیوتا کی راہ میں قربان نہیں کیا گیا۔ اس کے باوجود مقامی لوگ اس پراسرار آسیبی گڑھے سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں اور اس کے قریب نہیں آتے۔

٭ٹیکساس میں غلاموں کی نیم غرقاب قبریں:
2011 میں ٹیکساس میں جب طویل اور خوف ناک خشک سالی آئی تو اس نے بہت سی پوشیدہ چیزیں اگل دیں۔ اس موقع پر Richland Chambers Reservoir کے نیچے سے 25پراسرار قبریں دریافت کی گئیں۔ 1980میں اصل مدفن اس وقت نیم غرقاب ہوگئے تھے جب ٹیرنٹ کاؤنڈی واٹر امپروومنٹ ڈسٹرکٹ نمبر 1کی وجہ سے سیلاب آگیا اور ایک مصنوعی جھیل پیدا ہوگئی جس نے اطراف کے علاقے کو پانی میں ڈبودیا۔ یہ ایک چھوٹا سا قبرستان تھا جس کی قبروں پر کتبے نہیں تھے، اسی لیے کسی نے ان پر توجہ نہیں دی۔ کچھ مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ یہ قبریں غلاموں کی ہیں جو کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ پھر 2009 میں کچھ ملاحوں نے ایک انسانی ڈھانچا اور ایک جبڑے کی ہڈی بھی دریافت کی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ جبڑے کی ہڈی جس شخص کی تھی، اس کی عمر سو سے ایک سو بیس سال کے درمیان ہے۔ وہ افریقی امریکی نسل سے تعلق رکھتا تھا۔



بعد میں ملنے والی قبریں زیادہ تر بچوں کی تھیں۔ ان کے تابوتوں پر ٹھونکی جانے والی چوکور کیلوں یا میخوں کے تجزیے سے پتا چلا کہ ان کا تعلق 1890سے تھا۔ بچوں کی باقیات لکڑی کے چھوٹے تابوتوں میں تھیں۔ ابھی تک صرف ایک بالغ کی کھلی ہڈی مل سکی ہے جو کسی تابوت میں نہیں ہے۔ کسی کو پتا نہیں کہ ان بچوں کو علیحدہ اور اتنے اہتمام سے کیوں دفن کیا گیا تھا۔

٭ جھیل Okeechobee کے پراسرار ڈھانچے:
امریکی ریاست فلوریڈا کی جھیل Okeechobee پراسرار کہانیوں، روایات، انسانی ڈھانچوں وغیرہ سے بھری پڑی ہے۔ 1900کی دہائی کے ابتدائی آبادکاروں نے شروع میں ہی اس جھیل کے اطراف انسانی ہڈیاں دریافت کی تھیں۔ مچھیروں کو اکثر مچھلی کا شکار کرتے ہوئے اپنے جالوں میں انسانی ہڈیاں ملتی تھیں۔ بعد میں ایک گھاس کے جزیرے میں کھدائی کے دوران پچاس انسانی ڈھانچے ملے تھے۔ پھر 1918ء میں جب اس خطے میں خوف ناک قسم کا قحط پڑا تو ریتا اور کریمر نامی جزائر پر سیکڑوں انسانی باقیات نمودار ہوئیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ ان ہڈیوں کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو hurricane کا شکار ہوئے تھے۔ پھر 1928میں ایک شدید قسم کا طوفان اس علاقے سے ٹکرایا اور لگ بھگ 2000 افراد اس کی وجہ سے لقمۂ اجل بن گئے۔ لیکن ابتدائی دور میں ملنے والے ڈھانچوں کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لوگ کسی جنگ یا خانہ جنگی کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن یہاں ملنے والی باقیات کے زمانے کا اب تک تعین نہیں ہوسکا، لوگ اپنے اپنے طور پر قیاس آرائیاں کررہے ہیں، لیکن یقینی طور پر ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔

٭Antikythera کا خفیہ ڈھانچا:
یہ 1900 کی بات ہے جب کچھ غوطہ خوروں نےAntikythera کے یونانی جزیرے پر غوطہ خوری کرتے ہوئے ایک بحری جہاز کا دو ہزار سالہ پرانا ڈھانچا دریافت کیا تھا۔ پھر 2016 میں بحری غوطہ خوروں نے اس بحری جہاز کے تباہ شدہ ڈھانچے پر انسانی باقیات بھی کھوج نکالیں، مگر کئی فٹ مٹی کے برتنوں اور ریت کے ڈھیر نے ان ڈھانچوں کو چھپا رکھا تھا۔ ان ڈھانچوں کا ابتدائی ٹیسٹ اور ڈی این اے بتاتا ہے کہ ان مرنے والوں کا تعلق شمالی یورپ سے ہے۔ ابھی تحقیق کا عمل جاری ہے اور جلد ہی نتائج سامنے آجائیں گے۔ تباہ شدہ بحری جہاز میں ملنے والی باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں مچھلیوں نے کھایا تھا یا پھر یہ لاشیں پانی میں تیرتی ہوئی دور چلی گئی تھیں۔ اس تباہ شدہ بحری جہاز کے ڈھانچے اور اس میں ملنے والے انسانی ڈھانچوں اور باقیات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور ماہرین اس نتیجے پر پہنچے کہ چوں کہ یہ باقیات طویل عرصے تک اس پوزیشن میں پڑی رہیں کہ انہیں کسی نے دیکھا نہیں، اس لیے ان پر توجہ نہیں دی گئی۔
Load Next Story