امیر خسروـؒ کا پانچ سالہ قیام ملتان۔۔۔۔ ادبی ثقافتی اور سیاسی تناظر میں

اپنے قیام ملتان کے دوران ہی قوالی اور نقش گل کی طرح ڈالی

بندرگاہ پر محصول کا رواج بھی شہزادہ سلطان کے عہد کی ہی یادگار ہے۔ فوٹو : فائل

ملتان شہر قدیم ایام سے ہی علم و ادب اور تہذیب و تمدن کا مرکز چلا آرہا ہے، ہندو مت کے دیوتاؤں، اوتاروں اور بھگتوں سے نامور صوفیاء تک تہذیبی تنوع اور انسانی ترفع کے مظاہر میں حیرانی کے کئی سلسلے ہیں۔

معروف ترقی پسند ادیب سید سبط حسن اپنے ایک مضمون ''ملتان ضمیر کی آواز کا شہر'' میں لکھتے ہیں: ''ملتان کی تاریخی حیثیت مسلمہ ہے، پاکستان کا یہ مقدس خطہ صدیوں سے تہذیب کا گہوارہ اور فکر و فن کا نہایت اہم مرکز رہا ہے، اسی شہر میں خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے چھ برس تک صوفیاء کرام کی صحبتوں سے فیض اٹھایا اور اسی شہر کی روح پرور فضاء میں حضرت امیر خسروؒ کے نغمے گونجے، یہ شہر مدتوں ہماری تہذیب کا ضمیر رہا اور آج بھی ہمارے ضمیر کو آواز دے رہا ہے''۔ جی ہاں ملتان ہی وہ شہر ہے جہاں امیر خسروؒ جیسا شاعر، صوفی اور موسیقی دان پانچ سال تک مقیم رہا، امیر خسروؒ کے اس پانچ سالہ قیام ملتان کا تعلق ان کی زندگی کے دوسرے دور سے ہے۔

یمین الدین امیر خسروؒ 1253ء میں پٹیالی ضلع ایٹہ یوپی میں پیدا ہوئے، بعض روایات کے مطابق ان کی پیدائش دہلی کی ہے، ان کے والد امیر سیف الدین بلخ کے امراء میں سے تھے، چنگیز خان کے فتنہ کے دوران ہندوستان آئے، امیر سیف الدین جو سپہ گری کے فن کے ماہر تھے جب ہندوستان آئے تو سلطان شمس الدین التتمش دہلی کے تخت پر براجمان تھا، امیر سیف الدین جو اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ ہندوستان آئے تھے سلطان التتمش کی ملازمت میں آگئے اور دہلی کے قریب ہی پٹیالی ضلع ایٹہ میں مقیم ہو گئے، سلطان التتمش کے دربار سے انہیں سالانہ 12 سو تنکے وظیفہ ملتا تھا۔

امیر سیف الدین کی شادی عماد الملک کی بیٹی سے ہوئی جو امرائے شاہی میں سے معروف آدمی تھے امیر سیف الدین کے تین بیٹے اعزاز الدین، حسام الدین اور امیر خسروؒ تھے، ابھی امیر خسروؒ کی عمر 7 سال تھی کہ ان کے والد ایک فوجی مہم میں شہید ہو گئے، اس کے بعد امیر خسروؒ اپنے نانا عماد الملک کی سرپرستی میں آگئے۔ 7 سال کی عمر میں اپنے والد سے سپہ گری کی تعلیم لینے والے امیر خسروؒ بچپن ہی سے بہت ذہین اور طباع تھے، 9 سال کی عمر میں انہوں نے شعر کہنے شروع کر دیئے تھے جبکہ 15 برس کی عمر تک درس و تدریس سے بھی فراغت پا چکے تھے، امیر خسروؒ اپنی تصنیف ''تحفتہ الصغر'' کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ''اس کمسنی میں بھی کہ میرے دودھ کے دانت ٹوٹ رہے تھے، اشعار میرے منہ سے موتیوں کی طرح جھڑتے تھے''۔ امیر خسروؒ جو صاحب سیف و قلم اور اپنے دور کے نامور درباری امراء میں سے تھے نے کل 9 بادشاہوں کی ملازمت کی اور اپنے زمانے میں گیارہ بادشاہوں کو دہلی کے تخت پر براجمان ہوتے دیکھا لیکن ہندوستان کے جس بادشاہ سے وابستگی انہیں ملتان لے کر آئی وہ سلطان غیاث الدین بلبن تھا۔



سلطان غیاث الدین بلبن کے دربار سے امیر خسروؒ کی وابستگی علاؤ الدین ملک چھجو کی وجہ سے ہوئی جو سلطان غیاث الدین کا بھتیجا اور بڑے رتبے کا سردار تھا اس کی فیاضی اور علم دوستی کا شہرہ دور دور تک ہو چکا تھا، اس کے دستر خوان پر کئی سو آدمی کھانا کھاتے تھے۔ صاحبان علم و ادب کی قدر افزائی امیر خسروؒ کو بھی علاؤ الدین کے دربار تک لے آئی، جہاں امیر نے دو سال تک ملازمت کی اور ان کی بہت زیادہ پذیرائی ہوئی لیکن امیر خسروؒ کی سب سے زیادہ قدر افزائی معزالدین کیقباد نے کی جو سلطان غیاث الدین بلبن کا چھوٹا بیٹا تھا۔

ایک روز اتفاق سے علاؤ الدین کی محفل میں کیقباد بھی موجود تھا شعرو شاعری کا دور چل رہا تھا، امیر خسروؒ نے اس محفل میں اپنی زمزمہ سنجی کا ایسا سماں باندھا کہ بغراخاں بڑا متاثر ہوا اور صلہ کے طور پر اس نے امیر کو لگن بھر کر روپے دیئے، کشلی خان جن کے امیر ملازم تھے کو یہ بات ناگوار گزری کہ امیر نے میرا ملازم ہوتے ہوئے دوسروں کو دی ہوئی رقم کیوں قبول کی، امیر خسروؒ نے اس کی تلافی کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے۔ جب امیر مجبور ہو گئے تو علاؤ الدین کی ملازمت چھوڑ کر کیقباد کے پاس چلے گئے جو ان دنوں سامانہ کا حاکم تھا، اس نے امیر کی بہت زیادہ قدرو منزلت کی اور اپنا ندیم خاص بنا لیا یہ وہ زمانہ تھا کہ جب کیقباد کو بنگال کی مہم میں کامیابی ہوئی تھی جس کے صلے میں سلطان غیاث الدین نے اسے بنگال کی حکومت بھی سونپ دی تھی۔

جن دنوں امیر خسروؒ بغراخان کیقباد کے ساتھ بنگال میں تھے، ملتان میں ان دنوں سلطان بلبن کا چچا زاد بھائی شیرخان بطور گورنر حاکم تھا، شیر خان جو نہایت بہادر اور شاندار منتظم تھا کا آباد کردہ ایک محلہ آج بھی ملتان میں موجود ہے جسے ٹبی شیر خان کہا جاتا ہے۔ ان دنوں ملتان کی سیاسی اور عسکری کیا اہمیت تھی، اس حوالہ سے ڈاکٹر وحید مرزا کہتے ہیں: ملتان شہر عرصے سے سندھ کا پایہ تخت رہا تھا، اس زمانے میں اس شہر کی عظمت میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا، اس لیے چنگیز خان کے بعد منگول ہندوستان پر مسلسل حملے کرتے رہتے تھے اور ان حملوں کی روک تھام کے لیے ملتان میں کوئی نہ کوئی قابل حاکم رکھا جاتا تھا جس کے پاس ایک بڑا لشکر ہمیشہ موجود رہتا تھا، اس کے علاوہ چونکہ یہ شہر ہندوستان کی سرحد سے زیادہ دور نہ تھا، اس لیے باہر کے ملکوں یعنی ترکستان اور ایران سے جو تجارتی تعلقات ہندوستان کے تھے ان میں ملتان کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی، اسی وجہ سے ملتان کے باشندے کافی خوشحال تھے اور ملتان کے تاجروں کی دولت ضرب المثل بن گئی تھی چنانچہ اس زمانے کے دیوالیہ امراء اکثر ان سوداگروں کی مدد حاصل کیا کرتے تھے۔

اس شہر کو اس زمانے میں اس وجہ سے بھی شہرت حاصل تھی کہ جس طرح دہلی میں شاہ نظام الدین اولیاءؒ کا چشمہ فیض جاری تھا، ملتان میںبھی حضرت صدر الدین عارف باللہ جو حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے فرزند تھے، ہدایت کی شمع روشن کیے ہوئے تھے''۔ گورنر ملتان شیر خان جو ایک عرصہ تک منگولوں کے حملوں کو روکتا رہا کی وفات کے بعد سلطان غیاث الدین بلبن نے 1270ء میں اپنے بڑے اور عزیز ترین بیٹے شہزادہ محمد قاآن جس نے تاریخ میں شہزادہ سلطان محمد کے نام سے شہرت پائی ملتان کا گورنر مقرر کیا، شہزادہ سلطان محمد جو علماء، شعراء اور مشائخ کا عقیدت مند تھا، ایک ہر دل عزیز حکمران کے طور پر سامنے آیا بقول ضیاء الدین برنی ''وہ نہایت آراستہ و پیراستہ شخصیت رکھتا تھا اور جہانبانی کی لیاقت اس کی پیشانی پر چمکتی تھی، التتمش کے کئی غلاموں نے جو خانان کبار میں شمار ہوتے تھے نے اپنے بیٹوں کے نام محمد رکھے تھے۔

ان میں سے ہر ایک کسی ایک خوبی میں مشہور ہوا مثلاً محمد کشلی خان جسے ملک علاء الدین بھی کہتے تھے، فیاضی اور خیرات میں اپنے وقت کا حاتم ثانی تھا لیکن سلطان غیاث الدین بلبن کا بیٹا سب سے زیادہ باادب اور مہذب تھا، سلطان اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا تھا، شہزادہ سلطان محمد سخاوت میں اپنی مثال آپ تھا، اس کی مجلس میں بڑے بڑے علماء و فضلا زینت افروز ہوتے تھے، شہزادہ ایسا مہذب اور مؤدب تھا کہ مجلس فرماں دہی میں اگر تمام دن رات اجلاس کرتا تو بھی اپنا زانو بلند نہ کرتا اس کی مجلس میں ہمیشہ شاہنامہ فردوسی، دیوان خاقانی و نوری، خمسہ مولانا نظامی اور اشعار امیر خسروؒ پڑھے جاتے تھے پھر ان پر بحث و تمحیص ہوتی تھی، ارباب فہم و دانش اس کی شعر فہمی کے معترف تھے''۔

امیر خسروؒ سے منقول ہے ''میں نے جدت طبع، دریافت معنی دقیق، سخن شناسی اور یادداشت اشعار متقدمین و متاخرین میں کسی کو مثل سلطان محمد کے نہیں دیکھا۔'' شہزادہ سلطان ان دنوں ہر سال اپنے والد سے ملنے کے لیے ملتان سے دہلی جایا کرتا تھا، دہلی میں ان دنوں امیر خسروؒ کے کمالات شاعری اور فضیلت علمی کا شہرہ ہو چکا تھا، شہزادہ اپنے والد سے ملنے دہلی گیا تو امیر خسروؒ کو اپنا ندیم خاص بنا کر ملتان لے آیا۔ بعض روایات کے مطابق سلطان غیاث الدین نے امیر خسروؒ کو بطور خاص شہزادہ سلطان کا اتالیق بنا کر ملتان بھیجا، کچھ مؤرخین کے نزدیک امیر خسروؒ بطور مصحف دار ملتان آئے، ان کے ہمراہ امیر حسن سجزی بھی تھے جو خود بہت اعلیٰ شاعر اور سعدی ؒ ہند کہلاتے تھے۔

شہزادہ سلطان محمد کے ہمراہ امیر خسروؒ کی ملتان آمد اور یہاں پانچ سالہ قیام بہت سے حوالوں سے یادگار ہے، اس دور میں سلطان بلبن کا دربار تو دہلی میں لگتا تھا لیکن شہزادہ سلطان کی قدر افزائی دیکھ کر بہت سے لوگ دہلی سے ملتان آگئے تھے، امیر خسروؒ اور امیر حسن سجزی جیسے صاحبان کمال نے اپنی شگفتہ بیانی، عقل و دانش اور فہم و فراست سے شہزادہ کے مزاج میں ایسا دخل پایا کہ خلوت و جلوت، مقام و سفر کی حالت میں شہزادہ کو ذرا بھی ان کی جدائی گوارہ نہ تھی۔ گو ان دنوں ملتان میں علماء فضلاء اور نغزگو شعراء کی موجودگی کی وجہ سے امیر خسروؒ کے لیے دلچسپی کی کوئی کمی نہ تھی لیکن خسروؒ جو ایک جذباتی آدمی تھے، ملتان آکر خوش نہیں تھے انہیں رہ رہ کر دہلی کی یاد ستاتی تھی شہزادہ سلطان نے ان کی دلجوئی میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھی لیکن خسروؒ کی ملتان سے بیزاری بڑھتی جا رہی تھی، خسروؒ ملتان اور دہلی کے تقابل اور اپنی بیزاری کا اظہار اپنی ایک نظم میں یوں کرتے ہیں:۔

دہلی میرے واسطے بہشت بریں ہے جس کی بلند عمارتیں آسمان سے باتیں کرتی ہیں اور ہر وقت بازاروں میں چہل پہل رہتی ہے، دریا کا بہتا ہوا شفاف پانی جنگل کو سیراب اور شاداب کرتا ہے، اس کے باغوں میں پھل بہشت کے پھلوں کی مانند شیریں اور مفرح ہوتے ہیں جہاں محبوب کی صحبت میسر ہوتی ہے، اب مجھے اس خارستان میں لا کر مقید کر دیا گیا ہے، قلعہ کیا ہے ایک دہکتا ہوا تنور ہے جہاں ویرانہ ہے گویا انسانوں کی بستی ہے لیکن یہ انسان بھی ایسے ہیں جن سے دیو پناہ مانگتے ہیں، سر کیا ہیں معلوم ہوتا ہے کہ بورے بھرے ہوئے ہیں اور داڑھیوں کی یہ کیفیت ہے کہ جولاہوں کے برش معلوم ہوتے ہیں، ٹانگیں لم ڈھینگ کی سی، سریوں نیچے کو جھکے ہوئے ہیں جیسے دیوانے چلتے ہیں۔

ان کی آوازیں کوے کی بولی کی طرح کرخت اور ان کے منہ اس طرح کھلے ہوئے ہیں جیسے مینا کار، زبانیں ایسی کند جیسے کہ خانہ سازتیر، الفاظ ایسے کرخت جیسے منجنیق سے پتھر نکل رہے ہوں''۔ بیشتر مؤرخین کے نزدیک امیر خسروؒ کی ملتان سے اس بیزاری کے پس منظر میں دراصل درباری امراء کے وہ بے سروپا الزامات تھے جو انہوں نے امیر خسروؒ اور امیر حسن سجزی کے تعلقات کے حوالے سے لگائے تھے۔ امیر خسروؒ کے ملتان کے بارے میں ان ''بیانات'' کے حوالہ سے مولانا نور احمد فریدی اپنی کتاب ''تاریخ ملتان'' میں لکھتے ہیں: ''بعض لوگوں کو ان بیانات کا پس منظر معلوم نہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ امیر خسروؒ کے یہ تاثرات ملتان اور اہل ملتان کے بارے میں ہیں حالانکہ یہ زمانہ شیخ الاسلام حضرت صدر الدین عارفؒ کا تھا جن کی مجلس میر حسینیؒ' فخر الدین عراقیؒ' ان کے فرزند شاہ رکن الدین عالمؒ اور حضرت حمید الدین حاکمؒ جیسے صلحاء سے آراستہ رہتی تھی' حضرت امیر خسروؒ نے اپنے ان اشعار میں دراصل ان درباری امراء اور کارندوں کی خبر لی ہے جنہوں نے امیر صاحب پر الزامات لگائے تھے' امیر خسروؒ کے یہ تاثرات اہل قلعہ اور درباری امراء تک محدود ہیں' ملتان سے امیرصاحب کو کوئی شکایت نہیں تھی''۔

امیر خسروؒ کا یہ 5 سالہ قیام ملتان ان کی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہے' امیر خسروؒ جب ملتان آئے تو ان کی عمر صرف 26 سال تھی' انہوں نے اپنی شاعری کا دوسرا دیوان ''دیوان وسط الحیات'' ملتان میں ہی ترتیب دیا۔ گو ملتان آنے سے پہلے ہی امیر خسروؒ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے مرید ہو چکے تھے لیکن انہوں نے یہاں بھی صوفیاء کی صحبتوں سے فیض اُٹھایا کیونکہ امیر خسروؒ کے عہد میں تصوف عقیدت کے رتبے سے کہیں آگے جا کر خود ایک باقاعدہ عقیدہ بن چکا تھا' ان دنوں ملتان اور پاکپتن صوفیانہ فلسفہ کے بڑے مراکز تھے۔

بیشتر مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امیر خسروؒ کا ذوق موسیقی ملتان آ کر اور بھی زیادہ ہو گیا تھا' اسی شہر میں رہتے ہوئے انہوں نے قوالی اور نقش گل کی طرح ڈالی جس سے ملتان کی موسیقی کا رنگ بدل گیا' قیام ملتان کے دوران امیر خسروؒ کی شاعری بھی شب و روز رفعت و تنوع سے ہمکنار ہوتی رہی۔ بقول خسروؒ ''کہ وہ 5 سال تک ملتان کے پانچوں دریاؤں کو اپنے اشعار کے سمندروں (بحروں) سے پانی دیتے رہے''۔ لیکن خسروؒ کا یہ 5 سالہ قیام ملتان ایک افسوسناک واقعہ یعنی مغلوں کے ہاتھوں شہزادہ سلطان کی شہادت اور خود امیر خسروؒ کی اسیری پر ختم ہوا۔ امیر خسروؒ جو شہزادہ سلطان کے دربار میں ایک سیاسی مشیر کی حیثیت رکھتے تھے اور میدان جنگ میں شمشیر افگنی بھی کرتے تھے' کے اشعار ہی دراصل اس افسوسناک واقعہ کی اصل تصویر سامنے لاتے ہیں۔ گو تمام مؤرخین نے مغلوں کے ہاتھوں شہزادہ سلطان کی شہادت کے حالات قلمبند کئے ہیں لیکن امیر خسروؒ نے اپنی چند نظموں' قصائد اور مراثی میں جن جزیات کے ساتھ اس واقعہ کو لکھا ہے وہ کوئی اور لکھ ہی نہیں سکتا تھا۔



شہزادہ سلطان کے زمانہ میں ملتان چناب کی دریائی بندرگاہ تھا' اس بندرگاہ پر محصول کا رواج بھی شہزادہ سلطان کے عہد کی ہی یادگار ہے۔ اس زمانہ میں مغل کسی نہ کسی سردار کی قیادت میں سال میں ایک دو مرتبہ ضرور ہندوستان کے زرخیز میدانوں پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح دھاوا بول دیا کرتے تھے اور اکثر ان سے خون ریز معرکے رہا کرتے تھے۔ مغلوں کو گورنر ملتان شہزادہ سلطان کی موجودگی کی وجہ سے لوٹ مار کا موقع کم ہی ملتا تھا' اکثر انہیں راہ فرار اختیار کرنا پڑتی، شہزادے کی اس بہادری کا ذکر خسروؒ نے بھی اپنے بعض قصائد میں کیا ہے۔

ملتان ان دنوں پنجاب اور سندھ دونوں علاقوں کیلئے فوجی مقام تھا' انہی دنوں شہزادہ سلطان کو مغلوں کےایک حملہ کی خبر ملی۔ یہ حملہ التمیر خان کی قیادت میں کیا گیا جو ہلاکو خان کے پوتے ارغون خان کی طرف سے ہرات' بلخ' بخارا' غزنین (غزنی)' غور اور بامیان کے صوبوں کا حاکم تھا۔ شہزادہ محمد سلطان کو اس حملے کی اطلاع حاکم لاہور نے بذریعہ عرضداشت دی جس میں لکھی گئی مغلوں کی 32 ہزار فوج کو شہزادہ سلطان نے 3 ہزار سمجھا اور انتہائی کم سامان حرب اور فوج کے ساتھ کوچ کرتا ہوا دریائے راوی کے کنارے آ گیا۔ شہزادہ سلطان کی فوج صرف دو ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی، شہزادہ سلطان کو اپنی بہادری پر اتنا اعتماد تھا کہ اس نے مزید فوج کی فراہمی یا سازوسازمان کی تیاری کا بھی خیال نہ کیا' شاہی لشکر دریائے راوی کے قریب پہنچ گیا' مغلوں کا لشکر دوسرے کنارے پر تھا۔

التمیر خان نے پیش قدمی کی اور شہزادے کی فوج پر دریا عبور کر کے حملہ کر دیا، بڑے گھمسان کی لڑائی ہوئی اور کئی مغل سردار کام آئے۔ ہندوستانی فوج اگرچہ تعداد میں کم تھی لیکن اس نے مغلوں کو پسپا کر دیا آخر انہیں بھاگتے ہی بنی۔ شہزادہ اور اس کے ساتھی سمجھے کہ میدان جیت لیا اس لئے زیادہ تر ہندوستانی سپاہی بھاگتے ہوئے مغلوں کے تعاقب میں روانہ ہو گئے، نتیجہ یہ ہوا کہ شہزادے کے ساتھ صرف 500 آدمی رہ گئے' اس دوران ظہر کی نماز کا وقت ہو رہا تھا سو ان لوگوں نے دریا کے کنارے نماز کی نیت باندھ لی۔

ادھر مغلوں کا ایک سردار جو 2 ہزار چنیدہ سواروں کی ایک جمیعت کے ساتھ کمین گاہ میں بیٹھا موقع کا منتظر تھا، شہزادے کو اس طرح مشغول عبادت دیکھ کر حملہ آور ہو گیا اور ہندوستانی فوج کو موت کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا' حملہ چونکہ اچانک اور مدمقابل بڑی فوج تھی پھر بھی شہزادے کے ساتھیوں نے وہ شجاعت دکھائی کہ کئی گھنٹے لڑائی رہی۔ اسی دوران ایک تیر شہزادے کو آ کر لگا اور ایسا کاری زخم آیا کہ وہ گر پڑا اور خالق حقیقی سے جا ملا۔ باقی ماندہ سپاہیوں کو بھی مغلوں نے مار دیا' سینکڑوں قیدی بنا لئے گئے انہی قیدیوں میں امیر خسروؒ اور امیر حسن سجزی بھی تھے۔ یہ سانحہ بروز جمعہ 1284ء کو ہوا' بقول ڈاکٹر معین الدین عقیل خسروؒ نے اس واقعہ کا ذکر اپنے دیوان ''غزۃ الکمال'' کے دیباچے اور اپنی گرفتاری کا حال اپنے مرثیے ''حکم الحکم'' میں بڑے پردرد انداز میں کیا ہے۔ اس مرثیے میں تقریباً دو سو اشعار ہیں' اس کی ابتداء فقر و تصوف اور واعظ و حکم سے کی گئی ہے' پھر بتایا گیا ہے کہ شہزادے کی شہادت کے بعد اس کے سپاہی خاک و خون میں آلودہ ہو گئے' مغلوں نے ان کے سر قلم کر دیئے' خسروؒ اس جنگ اور اپنی اسیری کا حال یوں بیان کرتے ہیں:

چنیں بداں کہ زا مسال درحد مولتاں
شکست میمنہء مومن از کف کفار

''کچھ تم نے سنا ہے کہ اس سال ملتان کے قریب مسلمانوں کا میمنہ کفار کے حملے سے کیسے ٹوٹ گیا'' میں اس مصیبت کا کیا بیان کروں کہ جس سے ملک الموت بھی بچ کر بھاگنا چاہتا تھا، یا ان حملوں کا کیا حال لکھوں جو کہ شہزادہ غازی نے حیدر کرار کی طرح کافروں پر کئے لیکن تقدیر کے ان احکام کو جو خود خدا کی طرف سے نافذ ہوتے ہیں کوئی کس طرح ٹال سکتا ہے' شہیدوں کا خون زمین کو پانی کی طرح سینچ رہا تھا اور قیدیوں کے گلے میں رسیوں کے پھندے یوں پڑے تھے جسے پھول دھاگے میں باندھ رہے ہوں' زین کی گرمیوں میں ان کے سر ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور لگاموں کے پھندوں میں ان کے گلے گھٹ رہے تھے۔

اگرچہ میں اس کشت و خون سے زندہ بچ رہا لیکن قید ہوا' دہشت اور موت کے ڈر سے میرے کمزور جسم میں خون خشک ہو گیا' مجھے ایک پہاڑی نالے کی طرح بھاگنا پڑا اور پیدل چلتے ہوئے میرے تلووں میں ہزار آبلے پانی کے بلبلوں کی طرح نمودار ہو گئے اور میرے پاؤں کی کھال جگہ جگہ سے کٹ گئی' میرا جسم خزاں دیدہ درخت کی طرح برہنہ تھا اور کانٹوں سے ہزاروں جگہ زخم پڑ گئے تھے' وہ سرکش باغی مجھے ہنکائے لئے جا رہا تھا' وہ گھوڑے پر یوں بیٹھا تھا جیسے پہاڑ پر چیتا' اس کے منہ سے بری بُو آ رہی تھی اور اس کی غلیظ مونچھیں اس کے دہانے پر لٹکی ہوئی تھیں' اگر میں کبھی درماندگی سے رفتار ہلکی کر دیتا تو وہ مجھے اپنا طوغمار دکھاتا تھا۔ میں یاس سے آہ بھرتا ہوا سوچ رہا تھا کہ اس بلا سے اب زندہ بچ کر نہ نکلوں گا مگر اس مہربان خدا کا ہزار بار شکر ہے کہ جس نے مجھے اس سے رہائی دی نہ تو کسی تیر نے میرے دل کو چھیدا نہ تلوار نے میرے جسم کو گھائل کیا''۔


امیر خسروؒ کو اس اسیری کے دوران ہنکا کر لے جانے والا ایک منگول سردار کا نوکر تھا' بعض مؤرخین کے نزدیک امیر خسروؒ کی ملتان میں گرفتاری اور رہائی صرف ایک دن کا واقعہ ہے' ان کے اشعار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ بحالت اسیری ملتان سے زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ قسمت نے ان کی رہائی کی عجیب صورت پیدا کر دی۔ امیر خسروؒ اپنی معروف مثنوی ''خضر خاں دول رانی'' میں کہتے ہیں:

''ان دنوں جب میں گناہ گار بندہ مغلوں کی قید میں گرفتار ہو گیا تھا تو ریگستان میں سرگرداں چلا جا رہا تھا اور گرمی کی شدت سے میرا سر دیگ کی طرح ابل رہا تھا، چلتے چلتے میرا ساتھی مغل سوار اور میں دونوں راستے میں ایک کنویں پر پہنچے' اگرچہ گرمی سے میرا تن بدن پھنک رہا تھا' مگر میں نے اس سلگتی ہوئی آگ پر پانی سے تیل ڈالنا مناسب نہ سمجھا بلکہ ذرا سے لب تر کرلئے جس سے دل اور جگر میں کچھ ٹھنڈک پیدا ہو گئی مگر اس پیاسے مغل سوار اور اس سے بھی پیاسے گھوڑے نے خوب سیر ہو کر پانی پینا شروع کر دیا اور اتنا پیا کہ جلد ہی دونوں مر گئے''۔

امیر خسروؒ کے ان اشعار سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انہیں مغلوں کی قید سے بہت جلد رہائی مل گئی تھی، غالباً وہ ملتان سے زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ اسی روز ملتان واپس آ گئے۔ بعض تذکرہ نگاروں کی ان اشعار سے یہ بات بھی غلط ثابت ہو جاتی ہے کہ مغل خسروؒ کو قید کر کے بلخ لے گئے تھے، جہاں سے انہیں دو سال بعد رہائی ملی۔ اس سے پیشتر کہ مغلوں کی قید سے رہا ہو کر خسروؒ کی ملتان آمد اور ان کی دل فگار مرثیہ نگاری کا ذکر کیا جائے' اس جنگ کے حوالے سے ایک بات اور وضاحت طلب ہے کہ امیر خسروؒ کے تمام تذکرہ نگاروں اور مؤرخین نے اس جنگ کا میدان لاہور دریائے راوی کا کنارہ لکھا ہے حالانکہ یہ جنگ ملتان کے نواح میں لڑی گئی تھی کیونکہ ان دنوں دریائے راوی ملتان کے قریب ہی بہتا تھا' مؤرخین کے مطابق مغل فوج لاہور اور دیپالپور کو تاراج کرتے ہوئے ملتان کی طرف بڑھی تو شہزادہ سلطان نے ملتان سے نکل کر اس کا مقابلہ کیا' اس حوالہ سے امیر خسروؒ کا ایک شعر مزید وضاحت کرتا ہے:

چنیں بداں کہ زا مسال درحد مولتاں
شکست میمنۂ مومن از کف کفار

تاریخ مبارک شاہی کا مؤلف اس جنگ کو ملتان کے قریب ہی بتاتا ہے، دیگر مؤرخین اسے لاہور کے قریب بتاتے ہیں لیکن ''حد ملتان'' اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ یہ ملتان کے قریب ہی لڑی گئی تھی۔ غرض جب خسروؒ مغلوں کی قید سے رہا ہو کر ملتان پہنچے تو یہاں عجیب کیفیت دیکھی، یہاں گھر گھر کہرام مچا ہوا تھا ایک تو ہردلعزیز شہزادے کی موت' دوسرا عزیزوں' رشتہ داروں کی جدائی نے تقریباً ہر شخص کو غم سے دیوانہ بنا رکھا تھا۔ شہزادہ سلطان کی مغلوں کے ہاتھوں شہادت کو گو تمام مؤرخین نے بڑی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے لیکن اس جنگ کے حوالہ سے اصل تاریخ اور وقائع نگاری امیر خسروؒ کے اشعار کرتے ہیں' امیر خسروؒ نے اس اندوہناک واقعہ پر جو مرثیے لکھے ان میں مغلوں سے لڑائی' شہزادے کی موت اور اہل ملتان کے رنج و الم کی ایسی تصویر کھینچ دی ہے کہ جو سچی بھی ہے اور انتہاء درجے کی پُراثر بھی' انہی میں سے ایک مرثیہ میں امیر کہتے ہیں:

''سورج اور چاند بھی شہزادے کے خوبصورت چہرے کا ماتم کر رہے تھے' رات اور دن بھی اس کی جواں مرگی پر گریاں تھے' اس کے عہد میں چونکہ مرغ و ماہی بھی امن اور چین سے رہتے تھے اس لئے ہوا اور پانی میں بھی نالہ و بکا برپا تھا' ملتان کے باشندے ہر گھر' ہر گلی اور ہر محلے سے رو رو کر اپنے کپڑے پھاڑ اور بال نوچ رہے تھے' رونے کی بلند صداؤں اور ڈھول کی مہیب آوازوں سے رات بھر کسی کو نیند نہ آئی' آتی بھی تو کس طرح جب ہر ایک گھر میں کسی نہ کسی مرنے والے کا ماتم ہو رہا تھا' ترکوں کی سفیدی اور ہندوؤں کی سیاہی دونوں غائب ہوگئیں، اس لئے کہ سب یکساں ماتمی لباس میں ملبوس تھے' نازنینوں کے چہروں کو اب نہ سرخی کی ضرورت تھی اور نہ وسمے کی کیونکہ منہ پیٹنے سے ان کے رخسار سرخ ہو رہے تھے اور ان کے ابرو نیلے''۔

مغلوں سے جنگ اور شہزادہ سلطان کی شہادت کے حوالہ سے امیر خسروؒ کے جو اشعار سب سے زیادہ معروف ہوئے ان میں سے تین اشعار ملاحظہ ہوں:

واقعہ است ایں یا بلا از آسماں آمد پدید
آفت است ایِں یاقیامت درجہاں آمد پدید

مجلس یاراں پریشاں شد چو برگ گل زباد
برگ ریزی گوئی اندر بوستاں آمد پدید

بس کہ آب چشم خلقے شدرواں از چارسو
پنج آب دیگر اندر مولتاں آمد پدید

ترجمہ: یہ کوئی واقعہ تھا یا کوئی بلا آسمان سے ظاہر ہوئی یا دنیا میں قیامت برپا ہوگئی ہے' دوستوں کی بزم اس طرح منتشر ہوگئی جیسے ہوا سے پھول کی پنکھڑی' گویا باغ میں خزاں آگئی' چاروں طرف ایک دنیا کی آنکھوں سے اس طرح آنسو بہنے لگے کہ ملتان کی سر زمین پر خون کے پانچ اور دریا بہنے لگے۔

مغلوں کی قید سے رہا ہونے کے بعد امیر خسروؒ چند روز ملتان میں قیام کرکے دہلی روانہ ہوگئے اور سلطان غیاث الدین بلبن کے دربار میں حاضر ہوکر اپنے دو پردرد مرثیے پڑھے' مرثیے سنتے ہی تمام دربار میں سناٹا چھا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے درباری امراء دھاڑیں مارمار کر رونے لگے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کو صدمے سے بخار ہوگیا' اسی صدمے اور بخار سے تیسرے دن اس کی وفات ہوگئی۔ امیر خسروؒ کے مذکورہ مرثیے دہلی کے لوگ مہینوں پڑھتے رہے اور اس جنگ کے شہداء کے بارے میں آنسو بہاتے رہے۔

شہزادہ سلطان کی شہادت پر امیر حسن سجزی نے بھی ایک مرثیہ نثر میں لکھ کر دہلی روانہ کیا' یہ مرثیہ کلیات میر حسن مرتبہ مسعود علی محوی کے علاوہ ضیاء الدین برنی کی منتخب التواریخ اور تاریخ مبارک شاہی میں بھی شامل ہے۔ 1284ء میں مغلوں کے ہاتھوں شہزادہ سلطان کی شہادت کے بعد امیر خسروؒ دوبارہ ملتان نہیں آئے، یوں بھی ملتان سے ان کی زندگی کی تلخ ترین یادیں وابستہ تھیں' گو امیر خسروؒ اپنی زندگی میں دوبارہ کبھی ملتان نہیں آئے لیکن ان کی وفات سے ملتان سے ایک تعلق بنتا ہے، وہ اس طرح کہ امیر خسروؒ کے مرشد حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور حضرت شاہ رکن الدین عالم ملتانیؒ کے درمیان نہایت خوشگوار تعلقات قائم تھے' مولانا نور احمد فریدیؒ کی ''تاریخ ملتان'' کے مطابق ''حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ جب بھی دہلی جاتے حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے پاس قیام کرتے' 745 ہجری 1325ء میں جب حضرت نظام الدین اولیاؒء کا وصال ہوا تو حضرت شاہ رکن عالمؒ بھی ان دنوں دہلی میں ہی تھے اور آپ نے ہی حضرت محبوب الٰہیؒ کی نماز جنازہ پڑھائی۔

حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ اپنے اس دورہ کے موقع پر 6 ماہ دہلی میں رہے' امیر خسروؒ جو اپنے مرشد کی وفات کے وقت دہلی سے باہر لکھنوتی (موجودہ مرشد آباد) میں تھے پورے چھ ماہ بعد دہلی آئے اور اپنے مرشد کے مزار پر نعرہ حق بلند کرتے ہوئے واصل حق ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت شاہ رکن الدین عالمؒ کو حضرت نظام الدین اولیاؒء کی طرف سے باطنی اشارہ ہوا تھا کہ ''میرا ترک آرہا ہے، اس کا جنازہ پڑھ کے ہی جائیو''۔ چنانچہ دہلی میں آپ کو جب امیر خسروؒ کی وفات کی اطلاع ملی تو آپ اپنے مریدوں کے ہمراہ خانقاہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ آئے اور نماز جنازہ کے بعد اس کشتئہ محبت کو حضرت محبوب الٰہیؒ کے قدموں میں سپرد خاک کردیا''۔

ملتان میں حضرت امیر خسروؒ کے مقام قیام کے حوالہ سے تاریخ ملتان میں کئی روایات ملتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ پہلے پہل امیر خسروؒ کا قیام قلعہ ملتان میں رہا۔ ان دنوں قلعہ ملتان کی فصیل نہایت مستحکم اور خوبصورت تھی جس میں امراء کے بنگلے' شاہی دفاتر تھے' گورنر کا پورا عملہ بھی قلعہ میں ہی رہتا تھا، ملتان میں قلعہ ملتان سے باہر بھی دو مقامات ایسے بتائے جاتے ہیں۔

جہاں امیر خسروؒ قیام پذیر رہے ان میں سب سے اہم مقام ملتان کا قدیم ترین محلہ کوٹلہ تغلق خان ہے جو لوہاری دروازے کے مغرب میں واقع ہے' اس علاقہ میں امیر خسروؒ کے قیام کی ایک تاریخی توضیح یوں بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ ملتان میں کوٹلہ تغلق خان ہی وہ علاقہ ہے جہاں قدیم ادوار سے قوالی کی روایت چلی آرہی ہے۔ ملتان کے معروف ماہر موسیقی اے ڈی نسیم نے بھی اپنے ایک مضمون میں امیر خسروؒ کی جائے قیام کا حوالہ دیا ہے۔ اے ڈی نسیم لکھتے ہیں ''جہاں آج دستکاری سکول ہے یہاں کسی زمانے میں ایک سرائے تھی جس کے صحن میں ایک بڑا چبوترہ تھا جس پر بیٹھ کر امیر خسروؒ ستار بجاتے تھے''۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں ملتان میں یہ دستکاری سکول اندرون شہر واقع تھا۔

شہزادہ سلطان کی شیخ سعدی ؒ کو ملتان آنے کی دعوت

شیخ سعدیؒ کا ملتان سے تعلق کئی حوالوں سے بنتا ہے' ان کا ملتان سے اہم ترین رشتہ حضرت بہاء الدین زکریا کی وجہ سے استوار ہوا' یہ دونوں مشائخ بغداد میں ہم جماعت رہے' بعض روایات کے مطابق دونوں پیر بھائی تھے حضرت بہاء الدین زکریاؒ کی ملتان آمد کے بعد بھی ان دونوں بزرگوں کے درمیان تعلق موجود رہا' شیخ سعدی ؒ نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی اپنی معروف تصانیف ''گلستان و بوستان'' کے نسخے بھی ملتان بھیجے تھے جو حضرت صدرالدین عارفؒ کی ملکیت میں رہے، کہا جاتا ہے کہ شیخ سعدی ؒ کے انہی نسخوں کی آمد سے ان کی ہندوستان میں مقبولیت کا آغاز ہوا۔

جن دنوں شہزادہ سلطان ملتان کا حاکم تھا ان دنوں شہزادہ نے دو مرتبہ اپنے مقربوں کو بہت سا روپیہ اور نادرو نایاب تحائف دے کر شیراز میں حضرت شیخ سعدیؒ کی خدمت میں روانہ کیا' امیر خسروؒ کے اشعار بھی شیخ سعدی ؒ کے ملاحظہ کے لئے روانہ کئے اور نہایت ادب سے التماس کیا کہ ملتان میں آپ کے لئے خانقاہ تعمیر کی جائے گی اور اس کے اخراجات کے لئے کچھ دیہات بھی وقف کئے جائیں گے' مگر دونوں مرتبہ شیخ نے ضعف پیری کا عذر کیا اور ہر بار اپنے ہاتھ سے اپنے کلام کی بیاض تیار کرکے شاہزادہ کے پاس روانہ کی' امیر خسروؒ کے کلام کی بہت تعریف کی' اور شہزادے کو تاکید کی کہ اس جوہر قابل کی قدر افزائی کی جائے۔

موسیقی اور امیر خسروؒ کا قیام ملتان

ملتان شہر ہندومت کا اہم ترین مرکز ہونے کی وجہ سے قدیم زمانے سے ہی موسیقی کا گڑھ تھا' ہندوستان میں داخل ہونے والے مختلف تہذیبوں کے رنگ پہلے پہل ملتان میں ہی اترے' عربی' ایرانی اور تورانی موسیقی نے بھی اسی شہر میں اپنے رنگ بِکھیرے' مولانا نور احمد فریدی اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ امیر خسروؒ کے حوالہ سے اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ امیر نے شاعری کا آغاز تو دہلی میں ہی کیا لیکن موسیقی کے حوالہ سے ان کا ذوق قیام ملتان کے دوران ہی دو چند ہوا' اس حوالہ سے ظ انصاری اپنی کتاب ''خسروؒ کا ذہنی سفر'' میں رقم طراز ہیں ''جن دنوں خسروؒ ملتان میں قیام پذیر تھے' ملتان ان دنوں علماء' صوفیاء' شعراء اور عراق و عرب کے موسیقاروں کا گڑھ تھا' شہزاد سلطان بہادر اور ذی علم ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری اور موسیقی کا بھی رسیا تھا۔

یہیں امیر نے اپنا دوسرا دیوان ''وسط الحیات'' ترتیب دیا' قول حدیث کے عربی لحن کو ہندوستانی موسیقی سے جوڑا جو آگے چل کر قول قلبانہ کہلایا' یہیں امیر خسروؒ نے عربی و تورانی سازوں کو پنجاب کے لوک گیتوں کے لئے استعمال کیا' یہیں انہوں نے بیک وقت عربی و فقہ کی تحصیل و تکمیل کی اور 23 قصیدے شہزادہ سلطان کی شان میں لکھے''۔ بعض مؤرخین دیگرراگوں سمیت راگ ملتانی کی ایجاد بھی امیر خسروؒ سے منسوب کرتے ہیں لیکن خواجہ خورشید انور' داؤد رہبر اور رشید ملک کی تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ امیر خسروؒ نے ایک بھی راگ ایجاد نہیں کیا' بہرحال یہ بات طے ہے کہ اپنے قیام ملتان کے دوران امیر نے یہاں کی موسیقی پر گہرے اثرات مرتب کئے' علامہ عتیق فکری اپنی کتاب ''نقش ملتان'' میں لکھتے ہیں:

''ہمیں اس بات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ امیر خسروؒ جیسا ماہر موسیقی جسے متفقہ طور پر نائیک تسلیم کیا گیا' ملتان میں ایک عرصہ قیام کرے اور ملتان میں فن موسیقی میں ترقی نہ ہو' یہ کیسے ہو سکتا ہے' امیر خسروؒ کے فن کا ضرور ملتان پراثر ہوا ہوگا کیونکہ امیر خسروؒ ہندوستان کی موسیقی میں نئے رنگ کا اضافہ کرنے والے ہیں' انہوں نے ایرانی اور ہندوستانی موسیقی کے امتزاج سے ایک نئے انداز اور سکول کا اضافہ کیا' اس زمانے میں یہ فنی ترقی پسندی تھی''۔
Load Next Story