ایک فائدہ ایک نقصان
ملک میں عوامی تحریکوں کے اندر اتنی طاقت پیدا ہونی چاہیے کہ سب مل کر قوم کو بری حکمرانی اور کرپشن سے پاک کرا سکیں۔
KARACHI:
گجرات اور ہماچل پردیش میں پہلا ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے ہی یہ بات متوقع تھی کہ گجرات بی جے پی کی پیروی کرے گا جب کہ ہماچل کانگریس کی۔ اگرچہ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے اپنی پرانی 117 کی تعداد بڑھا لی ہے مگر 145 نشستیں حاصل نہیں کر سکے جیسا کہ انتخابی تخمینوں میں ظاہر کیا گیا تھا اور جس پر مودی نے یقین کرنا شروع کردیا تھا۔ اور یہ کہ اگرچہ کانگریس نے چار پانچ نشستیں زیادہ لے لی ہیں لیکن یہ کوئی مثبت نکتہ نہیں کیونکہ یہ اس کا اپنا دور حکومت تھا نیز بے جے پی کے چوٹی کے لیڈر کیشوبھائی پٹیل کی پارٹی کے خلاف بغاوت سے مودی کی طاقت میں کمی ہونی چاہیے تھی اور یہ کہ 182 نشستوں والے ایوان میں اب بھی اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہے جو کانگریس کے لیے کوئی اچھی بات نہیں جس کی چوٹی کی قیادت اس ریاست میں مسلمانوں اور قبائلیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بے شک ہماچل میں بی جے پی کی کرپشن کے عنصر نے اس پر منفی اثرات مرتب کیے۔ خود وزیراعلیٰ پریم کمار دھومل کے اپنے اوپر کرپشن کے الزامات ہیں حالانکہ اس کی حکمرانی کی وسیع پیمانے پر ستائش کی جاتی رہی ہے۔ اب لگتا ہے جیسے ہماچل بھی تامل ناڈو کی روایت پر چل رہا ہے جہاں 'ڈی ایم کے' اور 'اے آئی اے ڈی ایم کے' باری باری اقتدار میں آتی ہیں۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر ریاست گجرات مودی کو دوبارہ منتخب کر کے باقی ماندہ بھارت کو کیا پیغام دے رہی ہے؟ یہ مودی کی فتح ہے اور اس کے نظریات کی جیت ہے لیکن یہ 21 ویں صدی کی سوچ کے ہم آہنگ نہیں ہے۔ جمہوریت کا مطلب اجتماعیت بھی ہے۔
قانون کے روبرو سب لوگ برابر ہیں خواہ ان کا کوئی بھی مذہب اور ذات پات ہو۔ مودی کو اس قسم کے خیالات اور قدروں کا قطعاً کوئی لحاظ نہیں۔درست کہ مڈل کلاس' جس کی گجرات میں اکثریت ہے' ایسی پالیسی چاہتی ہے جو انھیں زیادہ کمائی کرنے اور زیادہ سہولتوں سے مستفید ہونے کا موقع دے نیز حالات کو معمول پر رکھے، خواہ ظاہری طور پر ہی سہی۔ مڈل کلاس حکمرانوں پر شاذ و نادر ہی کوئی سوال اٹھاتی ہے، ان کے اقدامات کی دانائی کو کبھی چیلنج نہیں کرتی لیکن مڈل کلاس اس بات کا بھی احساس نہیں کرتی... یا اس کی پروا نہیں کرتی... کہ مودی بھی آنجہانی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی مانند مطلق العنان حکمران ہے اور اس میں مسلمان دشمنی کا تعصب اس قدر مضبوط ہے کہ اس نے کسی ایک بھی مسلمان امیدوار کے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔میری مودی یا اس کی پارٹی کے خلاف کوئی کدورت نہیں کہ اس نے ریاستی انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن کیا ہم اس قسم کا بھارت تیار کرنا چاہتے ہیں، ایسا معاشرہ جو سیکولر ازم کو تیاگ دے؟ مہاتما گاندھی جنہوں نے تحریکِ آزادی کی قیادت کی تھی وہ خود ایک گجراتی تھے اور کہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ان کی دو آنکھیں ہیں۔
پُر امن جلوسوں پر برطانوی حکمران بھی لاٹھی چارج کراتے تھے مگر مودی حکومت کی پولیس نے جو قتل و غارت کرایا وہ عصبیت زدگی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اسی گجرات میں مودی کی رہنمائی میں مسلمانوں کی نسل کُشی کی منصوبہ بندی اور اس پر باقاعدہ عملدرآمد بھی کرایا گیا۔ ملک کے 17 کروڑ مسلمانوں کے دل پر کیا گزری ہوگی جب انھوں نے مودی کو مذہبی تعصب کی لڑائی میں انتخاب جیتتے دیکھا ہو گا؟گاندھی جی کا طرز عمل مختلف تھا حتیٰ کہ خود انھوں نے ایک ہندو عصبیت زدہ کے ہاتھ اپنی جان گنوا دی۔ یہ درست ہے کہ مودی کی انتخابی مہم چلانے والوں نے مسلمانوں کا ایک برادری کے طور پر کبھی ذکر نہیں کیا تاہم مودی نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کے نام سے پہلے میاں کا اضافہ کر کے اپنی اندرونی سوچ ظاہر کر دی۔ مودی نے پولنگ سے محض دو روز قبل سرکریک تنازعہ کا حوالہ دے کر اینٹی پاکستان کارڈ استعمال کیا۔ انھوں نے وزیراعظم منموہن سنگھ کے نام ایک خط لکھا کہ سرکریک کی تنگ پٹی ہرگز پاکستان کے حوالے نہ کی جائے اور الزام لگایا کہ گجرات کے انتخابات کے دوران وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ وزیراعظم نے واضح کر دیا کہ اس قسم کی کوئی بات نہیں۔
وزیر خزانہ پی چدم برم نے مودی کے الزام کو احمقانہ قرار دیا اور اسے خام خیالی پر محمول کیا۔ لیکن جو نقصان ہونا تھا ہو گیا۔ خود کو ملک کا نگہبان سمجھنے والے سرکریک کو بچانے کی خاطر مودی کے طرفدار بن گئے جس سے وہ انتخاب جیت گیا۔ ویسے الیکشن کمیشن کو مودی کے اس ناجائز انتخابی حربے کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔گجرات کے وزیراعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اپنے ترقیاتی کاموں کے سبب انتخاب جیتا ہے لیکن آخر اس نے کس قسم کے ترقیاتی کام کرائے ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان غریب سے غریب تر ہو گئے ہیں حتیٰ کہ فسادات کے متاثرین کو ابھی تک بحال نہیں کیا گیا۔ ان کے علاقوں میں نہ پانی ہے' نہ سڑکیں ہیں، نہ شہری سہولیات۔خانہ بدوشوں کی تعداد بے حد کم ہو چکی ہے اور قبائلیوں کو کسی بھی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ شہروں اور دیہات میں یہ مڈل کلاس ہی ہے جس کو فائدہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مودی کو انتخاب میں کامیاب کرادیا۔ اس کے برعکس ہماچل میں مڈل کلاس کی بڑھتی ہوئی تعداد نے دھومل کے غبارے سے ہوا نکال دی۔یہ صحت مند اشارہ ہے کہ مڈل کلاس اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے لگی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ طبقہ بھی تعصب کے شکنجے سے آزاد نہیں ہوا۔ ہماچل میں پنجابیوں اور مقامی آبادی میں فاصلوں نے انتخابات پر سب سے زیادہ اثر ڈالا۔دھومل کی شکست کو صرف بی جے پی کی ہائی کمان محسوس کرے گی جب کہ مودی کی کامیابی پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کر دے گی۔
ریاست میں پہلے ہی ایسے پوسٹر دکھائی دینے لگے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ریاست کا شیر ہی بھارت کا شیر ثابت ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ مودی سب سے بلند منصب کے لیے تیاری کر رہا ہے مگر پارٹی کے بعض چوٹی کے لیڈروں کے لیے یہ قابل قبول نہ ہو گا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب مجھے پارٹی کے صدر نتن گڈکری نے بتایا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی کے بہت زیادہ امیدوار تیار ہو رہے ہیں اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ گڈکری اور مودی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھتے۔ لیکن چونکہ بی جے پی کی سرپرست اعلیٰ آر ایس ایس مودی کی حمایت کر رہی ہے لہٰذا وہی متوقع امیدوار بن سکتا ہے۔مودی کو جہاں خسارہ ہو گا وہ اس کا مسلمان دشمن رویہ ہے جس سے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) والے بھی نالاں ہیں۔ اس الائنس کی قیادت بی جے پی کے پاس ہے۔ این ڈی اے کے ایک لیڈر نتیش کمار کا، جو بہار کا وزیراعلیٰ ہے، کہنا ہے کہ بی جے پی کو اپنا امیدوار نامزد کرنے کا حق حاصل ہے مگر امیدوار باشعور ہونا چاہیے جب کہ مودی اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ مودی کا نام سن کر ہی زیادہ تر لوگ دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہماچل اور گجرات دونوں کی حیثیت تیز ہوا کے سامنے ایک تنکے سے زیادہ نہیں۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ جن ریاستوں پر بی جے پی کی حکومت ہے2014ء کے انتخابات میں انھی کے امیدوار کامیاب ہوں گے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ قوم کو کانگریس اور بی جے پی میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے کیونکہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ ملک بھر میں عوامی تحریکوں کو اپنے اندر اتنی طاقت پیدا کرنی چاہیے کہ سب مل کر قوم کو بری حکمرانی اور کرپشن سے پاک کرا سکیں جو متذکرہ دونوں پارٹی کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
گجرات اور ہماچل پردیش میں پہلا ووٹ کاسٹ ہونے سے پہلے ہی یہ بات متوقع تھی کہ گجرات بی جے پی کی پیروی کرے گا جب کہ ہماچل کانگریس کی۔ اگرچہ گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے اپنی پرانی 117 کی تعداد بڑھا لی ہے مگر 145 نشستیں حاصل نہیں کر سکے جیسا کہ انتخابی تخمینوں میں ظاہر کیا گیا تھا اور جس پر مودی نے یقین کرنا شروع کردیا تھا۔ اور یہ کہ اگرچہ کانگریس نے چار پانچ نشستیں زیادہ لے لی ہیں لیکن یہ کوئی مثبت نکتہ نہیں کیونکہ یہ اس کا اپنا دور حکومت تھا نیز بے جے پی کے چوٹی کے لیڈر کیشوبھائی پٹیل کی پارٹی کے خلاف بغاوت سے مودی کی طاقت میں کمی ہونی چاہیے تھی اور یہ کہ 182 نشستوں والے ایوان میں اب بھی اسے دو تہائی اکثریت حاصل ہے جو کانگریس کے لیے کوئی اچھی بات نہیں جس کی چوٹی کی قیادت اس ریاست میں مسلمانوں اور قبائلیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بے شک ہماچل میں بی جے پی کی کرپشن کے عنصر نے اس پر منفی اثرات مرتب کیے۔ خود وزیراعلیٰ پریم کمار دھومل کے اپنے اوپر کرپشن کے الزامات ہیں حالانکہ اس کی حکمرانی کی وسیع پیمانے پر ستائش کی جاتی رہی ہے۔ اب لگتا ہے جیسے ہماچل بھی تامل ناڈو کی روایت پر چل رہا ہے جہاں 'ڈی ایم کے' اور 'اے آئی اے ڈی ایم کے' باری باری اقتدار میں آتی ہیں۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ آخر ریاست گجرات مودی کو دوبارہ منتخب کر کے باقی ماندہ بھارت کو کیا پیغام دے رہی ہے؟ یہ مودی کی فتح ہے اور اس کے نظریات کی جیت ہے لیکن یہ 21 ویں صدی کی سوچ کے ہم آہنگ نہیں ہے۔ جمہوریت کا مطلب اجتماعیت بھی ہے۔
قانون کے روبرو سب لوگ برابر ہیں خواہ ان کا کوئی بھی مذہب اور ذات پات ہو۔ مودی کو اس قسم کے خیالات اور قدروں کا قطعاً کوئی لحاظ نہیں۔درست کہ مڈل کلاس' جس کی گجرات میں اکثریت ہے' ایسی پالیسی چاہتی ہے جو انھیں زیادہ کمائی کرنے اور زیادہ سہولتوں سے مستفید ہونے کا موقع دے نیز حالات کو معمول پر رکھے، خواہ ظاہری طور پر ہی سہی۔ مڈل کلاس حکمرانوں پر شاذ و نادر ہی کوئی سوال اٹھاتی ہے، ان کے اقدامات کی دانائی کو کبھی چیلنج نہیں کرتی لیکن مڈل کلاس اس بات کا بھی احساس نہیں کرتی... یا اس کی پروا نہیں کرتی... کہ مودی بھی آنجہانی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی کی مانند مطلق العنان حکمران ہے اور اس میں مسلمان دشمنی کا تعصب اس قدر مضبوط ہے کہ اس نے کسی ایک بھی مسلمان امیدوار کے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے۔میری مودی یا اس کی پارٹی کے خلاف کوئی کدورت نہیں کہ اس نے ریاستی انتخابات میں بھر پور کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن کیا ہم اس قسم کا بھارت تیار کرنا چاہتے ہیں، ایسا معاشرہ جو سیکولر ازم کو تیاگ دے؟ مہاتما گاندھی جنہوں نے تحریکِ آزادی کی قیادت کی تھی وہ خود ایک گجراتی تھے اور کہتے تھے کہ ہندو اور مسلمان ان کی دو آنکھیں ہیں۔
پُر امن جلوسوں پر برطانوی حکمران بھی لاٹھی چارج کراتے تھے مگر مودی حکومت کی پولیس نے جو قتل و غارت کرایا وہ عصبیت زدگی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اسی گجرات میں مودی کی رہنمائی میں مسلمانوں کی نسل کُشی کی منصوبہ بندی اور اس پر باقاعدہ عملدرآمد بھی کرایا گیا۔ ملک کے 17 کروڑ مسلمانوں کے دل پر کیا گزری ہوگی جب انھوں نے مودی کو مذہبی تعصب کی لڑائی میں انتخاب جیتتے دیکھا ہو گا؟گاندھی جی کا طرز عمل مختلف تھا حتیٰ کہ خود انھوں نے ایک ہندو عصبیت زدہ کے ہاتھ اپنی جان گنوا دی۔ یہ درست ہے کہ مودی کی انتخابی مہم چلانے والوں نے مسلمانوں کا ایک برادری کے طور پر کبھی ذکر نہیں کیا تاہم مودی نے کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے سیاسی مشیر احمد پٹیل کے نام سے پہلے میاں کا اضافہ کر کے اپنی اندرونی سوچ ظاہر کر دی۔ مودی نے پولنگ سے محض دو روز قبل سرکریک تنازعہ کا حوالہ دے کر اینٹی پاکستان کارڈ استعمال کیا۔ انھوں نے وزیراعظم منموہن سنگھ کے نام ایک خط لکھا کہ سرکریک کی تنگ پٹی ہرگز پاکستان کے حوالے نہ کی جائے اور الزام لگایا کہ گجرات کے انتخابات کے دوران وزیر داخلہ رحمٰن ملک کا دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ وزیراعظم نے واضح کر دیا کہ اس قسم کی کوئی بات نہیں۔
وزیر خزانہ پی چدم برم نے مودی کے الزام کو احمقانہ قرار دیا اور اسے خام خیالی پر محمول کیا۔ لیکن جو نقصان ہونا تھا ہو گیا۔ خود کو ملک کا نگہبان سمجھنے والے سرکریک کو بچانے کی خاطر مودی کے طرفدار بن گئے جس سے وہ انتخاب جیت گیا۔ ویسے الیکشن کمیشن کو مودی کے اس ناجائز انتخابی حربے کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔گجرات کے وزیراعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اپنے ترقیاتی کاموں کے سبب انتخاب جیتا ہے لیکن آخر اس نے کس قسم کے ترقیاتی کام کرائے ہیں جن کے نتیجے میں مسلمان غریب سے غریب تر ہو گئے ہیں حتیٰ کہ فسادات کے متاثرین کو ابھی تک بحال نہیں کیا گیا۔ ان کے علاقوں میں نہ پانی ہے' نہ سڑکیں ہیں، نہ شہری سہولیات۔خانہ بدوشوں کی تعداد بے حد کم ہو چکی ہے اور قبائلیوں کو کسی بھی اعتبار سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ شہروں اور دیہات میں یہ مڈل کلاس ہی ہے جس کو فائدہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مودی کو انتخاب میں کامیاب کرادیا۔ اس کے برعکس ہماچل میں مڈل کلاس کی بڑھتی ہوئی تعداد نے دھومل کے غبارے سے ہوا نکال دی۔یہ صحت مند اشارہ ہے کہ مڈل کلاس اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے لگی ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ طبقہ بھی تعصب کے شکنجے سے آزاد نہیں ہوا۔ ہماچل میں پنجابیوں اور مقامی آبادی میں فاصلوں نے انتخابات پر سب سے زیادہ اثر ڈالا۔دھومل کی شکست کو صرف بی جے پی کی ہائی کمان محسوس کرے گی جب کہ مودی کی کامیابی پارٹی کے لیے مشکلات پیدا کر دے گی۔
ریاست میں پہلے ہی ایسے پوسٹر دکھائی دینے لگے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ریاست کا شیر ہی بھارت کا شیر ثابت ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ مودی سب سے بلند منصب کے لیے تیاری کر رہا ہے مگر پارٹی کے بعض چوٹی کے لیڈروں کے لیے یہ قابل قبول نہ ہو گا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب مجھے پارٹی کے صدر نتن گڈکری نے بتایا تھا کہ وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی کے بہت زیادہ امیدوار تیار ہو رہے ہیں اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ گڈکری اور مودی ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھتے۔ لیکن چونکہ بی جے پی کی سرپرست اعلیٰ آر ایس ایس مودی کی حمایت کر رہی ہے لہٰذا وہی متوقع امیدوار بن سکتا ہے۔مودی کو جہاں خسارہ ہو گا وہ اس کا مسلمان دشمن رویہ ہے جس سے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) والے بھی نالاں ہیں۔ اس الائنس کی قیادت بی جے پی کے پاس ہے۔ این ڈی اے کے ایک لیڈر نتیش کمار کا، جو بہار کا وزیراعلیٰ ہے، کہنا ہے کہ بی جے پی کو اپنا امیدوار نامزد کرنے کا حق حاصل ہے مگر امیدوار باشعور ہونا چاہیے جب کہ مودی اس معیار پر پورا نہیں اترتا۔ مودی کا نام سن کر ہی زیادہ تر لوگ دہشت زدہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہماچل اور گجرات دونوں کی حیثیت تیز ہوا کے سامنے ایک تنکے سے زیادہ نہیں۔ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ جن ریاستوں پر بی جے پی کی حکومت ہے2014ء کے انتخابات میں انھی کے امیدوار کامیاب ہوں گے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ قوم کو کانگریس اور بی جے پی میں سے ہی کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے کیونکہ کوئی متبادل نہیں ہے۔ ملک بھر میں عوامی تحریکوں کو اپنے اندر اتنی طاقت پیدا کرنی چاہیے کہ سب مل کر قوم کو بری حکمرانی اور کرپشن سے پاک کرا سکیں جو متذکرہ دونوں پارٹی کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)