حملہ ناکام بنادیا گیا

غیر ممالک میں ہماری شناخت اور ساکھ کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟جو ذمہ دار ہیں قوم کو جواب دیں۔


Anis Baqar December 20, 2012
[email protected]

KARACHI: جب بھی پاکستان کی فوجی تنصیبات پر طالبان کا حملہ ہوتا ہے، ہر حملے کے بعد الیکٹرانک میڈیا سے یہی خبر نشر ہوتی ہے کہ حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ یقیناً یہ حملے ناکام ہی ہونے تھے کیونکہ پاکستانی افواج کے ٹھکانوں پر چند لوگوں کے حملے کامیاب ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پاکستانی افواج خواہ وہ زمینی ہو، بحری یا فضائی ہو، نہ صرف اپنے قیمتی اسلحے سے لیس ہیں بلکہ اعلیٰ مہارت کے حامل ہیں اور حربی فنون سے آراستہ بھی ہیں۔

دراصل دیکھنا یہ ہے کہ ان حملوں کے پس پشت کیا عوامل کار فرما ہیں اور یہ حملے تواتر سے کیوں کیے جارہے ہیں اس بار پشاور ایئر بیس (Air Base) پر جو حملہ ہوا ہے اس میں ازبک باشندوں کی شمولیت پر حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے جسم پر ٹیٹو کے نشان تھے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ جسم پر جو نشان بنائے جاتے ہیں آج بھی افغان پاوندوں میں رائج ہے اور بلوچستان میں بعض قبائل مرد و زن میں رائج ہیں۔
امریکا میں جو نوجوان ٹیٹو بناتے ہیں وہ بالکل الگ ہوتے ہیں۔ ان میں تصوراتی شیطان کی شبیہہ ہوتی ہے، ان کے ہاتھ اور جسم کے بعض حصے نمایاں طور پر داغ دار ہوتے ہیں۔

یہ لوگ خود کو شیطان کا پیروکار سمجھتے ہیں۔ بڑے بڑے بال، سیاہ لباس، بدمست مگر اپنی جان کی بڑی پروا کرتے ہیں، صرف اپنے سے کمزور لوگ یا شرفاء پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ گروہی انداز کے ہوتے ہیں ان کی تعداد 15 یا بیس لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے، عام طور پر یہ تیز دھن پر شور و غل والے میوزک بجاتے ہیں، ان کا انداز غنڈوں والا ہوتا ہے، البتہ یہ غیر سیاسی ہوتے ہیں، ان کے شر سے عام امریکی دور رہنا چاہتا ہے، یہاں تک کہ ان کے والدین بھی پناہ مانگتے ہیں، مگر پشاور ایئر بیس پر جو حملہ آور تھے یہ وسطی ایشیائی ریاست کے باشندے ہیں جو تاجکستان، ترکمانستان، قازقستان وغیرہ سے وابستہ لوگ ہیں جو سوویت یونین کے خلاف جہاد افغانستان میں شریک تھے۔ ان کا مقصد اپنے قسم کا ایک مسلم نظریاتی ملک بنانا ہے جہاں وہ اپنے برانڈ کا اسلام نافذ کرسکیں۔ چیچنیا میں یہ برانڈ نافذ ہوتے ہوتے رہ گیا، کیونکہ روس ازخود ان کے مقابلے پر تھا۔ اس نظریاتی گروہ یا نظریے کو ایک خطے کی ضرورت ہے جہاں سے اسلام کا یہ برانڈ نشوونما پاسکے۔

ان کا اصل مقصد کسی بھی ملک کے خطہ زمین پر اپنی حکمرانی قائم کرنا ہے اور اس کے تعلقات اپنے پڑوسی ملکوں سے اچھے نہیں اس لیے پاکستان کو غیر مستحکم کرکے اپنے اہداف حاصل کرنا ان کا مقصد ہے، پہلے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا بعدازاں اپنے عالمی مقاصد کا حصول ہے جس کے لیے یہ ایندھن بن رہے ہیں، ظاہر ہے اس قسم کے حملے عالمی سطح پر بعض پاکستان دشمن پالیسیوں پر کام کرنا ہے اور پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کے خلاف ہیں اور ہر دم اسی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جائے، ہر حملے پر یہ حملہ آور یہ تاثر دیتے ہیں کہ پاکستان کی فوجی تنصیبات بھی غیر محفوظ ہیں اور طالبان کی زد پر ہیں، اس طرح دنیا میں وہ ممالک جو پاکستان کے ایٹمی قوت ہونے کے خلاف ہیں ان کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا ان کا ہدف ہے۔ہر بار جب حملہ ہوتا ہے اس قسم کی بازگشت دنیا میں سنی جاسکتی ہے۔

لہٰذا یہ حملہ آور بھی جانتے ہیں کہ 5 یا 10 افراد کا دہشت پسندانہ حملہ کسی طرح بھی ایئر بیس پر قبضہ نہیں کرسکتا ہے۔ اس لیے جو لوگ بھی حملہ کرنے آتے ہیں وہ یہ سوچ کر آتے ہیں کہ وہ خودکشی کرنے جارہے ہیں اور ایسی خودکشی جو اعلیٰ مقاصد کے لیے ہے اور وہ دین کی خاطر قربانی دے رہے ہیں۔ عام طور سے کیونکہ ان حملہ آوروں میں چھوٹے بچے ہرگز نہیں ہوتے جیساکہ خودکش حملہ آور ہوتے ہیں ہمارے ملک کو عالمی پیمانے پر یہ لوگ بدنام کرنے کی مہم میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک دشمنوں کی بقیہ اقسام بھی ہیں جو اس طرح کسی فوجی یا نیم فوجی تنصیبات پر حملہ آور نہیں ہوتے بلکہ ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی میں مصروف کار ہیں جو ملک میں خوف و ہراس پیدا کر رہے ہیں اور ملک میں ایسی فضا پیدا کر رہے ہیں کہ ہر شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھے، عدم تحفظ، پھر مذہبی اور نسلی بنیاد پر قتل و غارت گری یہ سب ایک ہی ایجنڈے کی کڑیاں ہیں گوکہ ان مقتولین پر نہ کوئی کمنٹری نشر ہوتی ہے اور نہ کوئی بریکنگ نیوز ہوتی ہے بلکہ ہر روز مرنے والوں کو لوگوں نے ایک حقیقت جان کر تسلیم کرلیا ہے۔

خصوصاً کراچی شہر میں اور ملک کے ان سرحدی علاقوں میں جن علاقوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں گویا ہر قتل و خون جو پاکستان میں بہہ رہا ہے بے سبب نہیں، اس کے پس پشت ایک ہی مقصد کار فرما ہے پاکستان میں بسنے والوں کو خوفزدہ کرنا۔ افراد کا قتل خوف، اغواء برائے تاوان، ٹریڈ اور انڈسٹری کے لیے خوف کی فضاء پیدا کرنا لہٰذا صرف فوجی تنصیبات پر حملہ ہی اصل حملہ نہیں بلکہ ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیل دینا بھی اسی قسم کا ایک جرم ہے اس دہشت گردی کے نتیجے میں کچھ لوگ تو اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں تو کچھ اپنے مال و اسباب اور مکان دکان کو تباہ ہوتے بھی دیکھتے ہیں اور زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے زندگی کے بڑے کاموں میں انسان کو اپنا مکان بنانا ہوتا ہے اور اگر کوئی شخص اپنی زندگی کی پوری کمائی راکٹ حملے میں گنوا بیٹھے تو پھر اس کا اعتماد کس طرح بحال ہوگا؟ ابھی پشاور امریکی ایئر بیس پر جو حملہ ہوا اس میں ایئرپورٹ کے گرد و پیش جو مکانات تھے وہ بھی تباہ ہوگئے۔

آخر وہ لوگ کس سے اپنے مکان کا معاوضہ مانگیں؟ اس طرح پاکستان پر صرف ایک سمت سے حملہ نہیں کئی اطراف سے حملے ہورہے ہیں اور حکمران ہیں کہ وہ الیکشن کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں، مگر کسی کے پاس پاکستان کی بہتری کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں اور نہ منزل کا تعین ہے کہ بحران سے کیسے نکلا جائے؟ منافقت کی سیاست عروج پر ہے، ہر قومی پارٹی نے خود کو صوبائی عصبیت کی چادر میں لپیٹ رکھا ہے جس سے قوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان جنم لے رہے ہیں اگر مجموعی طور پر حالات کا جائزہ لیا جائے تو قومی قیادت کا فقدان نظر آئے گا۔

ابھی تک تو معاملہ فوجی اور دیگر ملکی تنصیبات کا تھا ، اب پولیو کے قطرے پلانے والی خواتین پر بھی حملہ ہوچکا ہے، حملہ آوروں کا واضح پیغام ہے کہ قوم کو اپاہج بناؤ یا وہ اس قدر ناواقف ہیں کہ جدید طبی سہولیات کا ان کو کوئی ادراک بھی نہیں، غرض یہ تمام سرے صرف پاکستان کی بیخ کنی پر ہی ختم ہوتے ہیں پاکستان ہماری ناقص خارجہ پالیسی کی بدولت دراندازی کا مرکز بن گیا ہے اور روز بروز شدت پسندی میں مزید شدت پیدا ہوتی جارہی ہے اور ہم اتنے غافل ہیں کہ ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ حملہ آور ناکام ہوگئے۔ درحقیقت وہ ہر حملے میں کامیابی سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں کیونکہ پاکستان عالمی پیمانے پر بدنام ہورہا ہے، عام آدمی کی بات کیا کی جائے اب تو ملک میں امن وامان قائم کرنے والی قوتوں کی جان بھی محفوظ نہیں، لہٰذا یہ پاکستان کے 18کروڑ عوام کا مسئلہ ہے کہ پاکستان کو کس طرح بچایا جاسکتا ہے؟ ہر دھماکا، ہر حملہ، اپنے اثرات پیدا کر رہا ہے، ہم تو عادی ہوچکے ہیں۔ غیر ممالک میں ہماری شناخت اور ساکھ کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟جو ذمہ دار ہیں قوم کو جواب دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔