آبی جارحیت جوابی حکمت عملی
پاکستان بھارت کی دھمکیاں دینے کے معاملے پر ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف سے رجوع کریگا۔
انتہاپسند خیالات کے حامل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی عوامی جلسوں سے جب بھی خطاب کرتے ہیں، تو وہ پاکستان کو دھمکیاں دینا ہرگز نہیں بھولتے، تازہ ترین دھمکی پاکستان کو صحرا بنانے کی دے ڈالی، خطاب تو کر رہے تھے وہ بھارتی پنجاب کے کسانوں سے لیکن توپوں کا رخ پاکستان کی جانب تھا۔
مودی دوران خطاب کہہ رہے تھے کہ دریائے سندھ کے بہنے والے پانی پر بھارتی کسانوں کا حق ہے لہذا اب ہم دریائے سندھ کے پانی کا ایک ایک قطرہ پاکستان جانے سے روک دیں گے، پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارتی کسانوں پر جو مظالم دلی سرکار نے ڈھائے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، طویل ہڑتالیں، قرضوں کے بوجھ تلے کسانوں کی خودکشیاں، رتی برابر ریلیف نہیں ملا کسانوں کو۔ جو کچھ بھارتی وزیراعظم نے کہا اسے آپ ایک مائند سیٹ بھی کہہ سکتے ہیں، جو پاکستان کے وجود کا قائل ہی نہیں اور خاکم بدہن اسے نقصان پہنچا کر اپنا زیرتسلط علاقہ بنانا چاہتا ہے۔
مودی تو ویسے بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں 'مکتی باہنی' کے مسلح کارکن رہے ہیں اور حال ہی میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم سے اس 'کارنامے' پر اعزاز بھی پا چکے ہیں۔ ان سے کچھ بعید نہیں کہ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں، پاکستان کی حکومت کو یہ دیکھنا ہے کہ آیا کس طرح ان کی جارحانہ باتوں کا توڑ کرنا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ دریائے ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا حق ہے اور اس پانی کو ہم پاکستان جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بھارت کا پانی پاکستان جاتا رہا اور دہلی کی سابق حکومتیں سوتی رہیں جب کہ ہمارے کاشتکار پانی کے لیے روتے رہے۔ حیرت کی بات ہے مودی کو اس بات کا علم تک نہیں کہ سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان 1960ء سے موجود ہے۔ معاہدے کی رو سے پنجاب میں بہنے والے بیاس، راوی اور ستلج دریاؤں کے پانیوں پر انڈیا جب کہ سندھ، چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کے اختیار میں دیا گیا۔
معاملہ یہ ہے کہ کشمیر میں مظالم کا بھارتی سلسلہ جاری ہے، آزادی کشمیر کی نئی لہر آنے کے بعد، لائن آف کنٹرول پر بلاجواز فائرنگ سے پاکستانی عام شہری شہید ہو رہے ہیں۔ اور اب آبی جارحیت کا خواب۔ اگر بھارتی وزیراعظم تھوڑا سا وقت نکال کر سندھ طاس معاہدے کی شقیں پڑھ لیں تو ان کو جھوٹ بولنے کی شرمندگی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ مودی جی! دریائے سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق ہے، بھارت کوئی احسان نہیں کر رہا۔
پانی کے زیاں کا الزام درست نہیں کیونکہ بھارت کا اپنا 8 سے9 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ وفاقی حکومت نے دریاؤں کا پانی بند کرنے کی دھمکی دینے کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی دھمکیاں دینے کے معاملے پر ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف سے رجوع کریگا۔
تقریباً دو ہفتے قبل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے خلاف پاکستان کی شکایت پر عالمی بینک نے ثالثی عدالت کی تجویز مان لی ہے۔ معاہدے کی رو سے بھارت پابند ہے کہ وہ بہتے ہوئے پانی کو کم سے کم استعمال کریگا لیکن ڈھٹائی کی حد ہے کہ وہ پاکستان آنیوالے دریاؤں پر ڈیمز بنا رہا ہے اور یہ عمل پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا جا رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آپس کے اختلافات کو بھلا کر اپنے حصے کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئے ڈیم تعمیر کریں۔
مودی دوران خطاب کہہ رہے تھے کہ دریائے سندھ کے بہنے والے پانی پر بھارتی کسانوں کا حق ہے لہذا اب ہم دریائے سندھ کے پانی کا ایک ایک قطرہ پاکستان جانے سے روک دیں گے، پہلی بات تو یہ ہے کہ بھارتی کسانوں پر جو مظالم دلی سرکار نے ڈھائے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، طویل ہڑتالیں، قرضوں کے بوجھ تلے کسانوں کی خودکشیاں، رتی برابر ریلیف نہیں ملا کسانوں کو۔ جو کچھ بھارتی وزیراعظم نے کہا اسے آپ ایک مائند سیٹ بھی کہہ سکتے ہیں، جو پاکستان کے وجود کا قائل ہی نہیں اور خاکم بدہن اسے نقصان پہنچا کر اپنا زیرتسلط علاقہ بنانا چاہتا ہے۔
مودی تو ویسے بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں 'مکتی باہنی' کے مسلح کارکن رہے ہیں اور حال ہی میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم سے اس 'کارنامے' پر اعزاز بھی پا چکے ہیں۔ ان سے کچھ بعید نہیں کہ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں، پاکستان کی حکومت کو یہ دیکھنا ہے کہ آیا کس طرح ان کی جارحانہ باتوں کا توڑ کرنا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ دریائے ستلج، بیاس اور راوی کے پانی پر بھارت کا حق ہے اور اس پانی کو ہم پاکستان جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
بھارت کا پانی پاکستان جاتا رہا اور دہلی کی سابق حکومتیں سوتی رہیں جب کہ ہمارے کاشتکار پانی کے لیے روتے رہے۔ حیرت کی بات ہے مودی کو اس بات کا علم تک نہیں کہ سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان 1960ء سے موجود ہے۔ معاہدے کی رو سے پنجاب میں بہنے والے بیاس، راوی اور ستلج دریاؤں کے پانیوں پر انڈیا جب کہ سندھ، چناب اور جہلم کا پانی پاکستان کے اختیار میں دیا گیا۔
معاملہ یہ ہے کہ کشمیر میں مظالم کا بھارتی سلسلہ جاری ہے، آزادی کشمیر کی نئی لہر آنے کے بعد، لائن آف کنٹرول پر بلاجواز فائرنگ سے پاکستانی عام شہری شہید ہو رہے ہیں۔ اور اب آبی جارحیت کا خواب۔ اگر بھارتی وزیراعظم تھوڑا سا وقت نکال کر سندھ طاس معاہدے کی شقیں پڑھ لیں تو ان کو جھوٹ بولنے کی شرمندگی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ مودی جی! دریائے سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق ہے، بھارت کوئی احسان نہیں کر رہا۔
پانی کے زیاں کا الزام درست نہیں کیونکہ بھارت کا اپنا 8 سے9 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے۔ وفاقی حکومت نے دریاؤں کا پانی بند کرنے کی دھمکی دینے کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی دھمکیاں دینے کے معاملے پر ورلڈ بینک، اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف سے رجوع کریگا۔
تقریباً دو ہفتے قبل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے خلاف پاکستان کی شکایت پر عالمی بینک نے ثالثی عدالت کی تجویز مان لی ہے۔ معاہدے کی رو سے بھارت پابند ہے کہ وہ بہتے ہوئے پانی کو کم سے کم استعمال کریگا لیکن ڈھٹائی کی حد ہے کہ وہ پاکستان آنیوالے دریاؤں پر ڈیمز بنا رہا ہے اور یہ عمل پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر کیا جا رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آپس کے اختلافات کو بھلا کر اپنے حصے کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئے ڈیم تعمیر کریں۔