ٹوٹتے بکھرتے رشتے
طلاقوں اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات میں 80 فیصد سوشل میڈیا کا ہاتھ ہے۔
دنیا واقعی ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ یقین نہ آئے تو مغربی معاشرے اور پاکستانی سوسائٹی میں طلاقوں، خلع اورکورٹ میرج کا تناسب دیکھ لیجیے۔ پہلے کبھی جب ایسی خبریں پڑھتے تھے کہ ''میاں کے خراٹوں سے تنگ آ کر بیوی نے طلاق لے لی'' تو سوچتے تھے کہ یہ عجیب نامعقول لوگ ہیں جو خراٹوں کی وجہ سے خواب گاہ بدلنے کے بجائے ساتھی بدل لیتے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ آنے سے پہلے اور بھی بہت سی بچگانہ اور احمقانہ باتوں پر طلاق لینے کے واقعات جب اخبارات میں نقل ہوتے تھے تو ہنسی بھی آتی تھی اور تعجب بھی ہوتا تھا کہ کیسے لوگ ہیں یہ کہ زندگی کو مذاق سمجھا ہوا ہے۔ کبھی ڈنر پہ نہ لے جانے پر طلاق کا مطالبہ، کبھی اس بات پر کہ شوہر گھر کے برتن نہیں دھوتا، کبھی اس بات پرکہ شوہر بیوی کے بوائے فرینڈ کے گھر آنے پر اعتراض کرتا ہے۔ کبھی بچوں کی پرورش پہ جھگڑا کہ طلاق کے بعد بچوں کا کیا بنے گا؟
لیکن اب دیکھ لیجیے کہ مغربی سوسائٹی کی غیراخلاقی اور معیوب باتوں کو تو ہم نے بڑی جلدی اور بڑے فخر سے اپنا لیا۔ لیکن ان کی انسان دوستی انسانی فلاح و بہبود، سینئر سٹیزن کے لیے ہر جگہ بہترین سہولتوں، ایکسپائری ڈیٹ کی دواؤں اور خوردنی اشیا کو تلف کر دینے والی جیسی اچھی باتوں کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا۔ ریاست کیا ہوتی ہے؟ ریاست میں رہنے والوں کے حقوق کیا ہوتے ہیں۔ عوام کے ووٹ کی قدروقیمت کیا ہوتی ہے۔
وزیراعظم کے بچے عام بچوں کے ساتھ اسکول میں پڑھتے ہیں۔ تمام اسکولوں کا تعلیمی معیار یکساں ہے۔ وہاں تعلیم خدمت اور لازمی سروس کا درجہ رکھتی ہے جب کہ ہمارے ہاں تعلیم تجارت ہے۔ صحافت ہی کو لیجیے جو نیک نامی اس شعبے نے 1970ء تک کمائی تھی وہ رفتہ رفتہ مفقود ہوگئی۔ آج صحافت بھی تجارت ہے اور باقاعدہ ایک انڈسٹری ہے جس کے پاس سرمایہ آیا اس نے ایک اخبار نکال لیا اور خود ایڈیٹر بن کے بیٹھ گیا۔
صحافتی اصول غتربود ہوئے۔ زرد صحافت اور لفافہ جرنلزم نے ساری حدود پار کر لیں۔گویا ہر غلط بات اور غلط سمت کو اپنانے میں ہم سب سے آگے۔ بے ایمانی اور دغا بازی میں مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنا بینک بیلنس اور دولت بڑھانے میں سارے پاکستانی سیاستدان سب سے آگے۔ جی حضوری کرنے والے میاں مٹھو ٹائپ کے ''وزیر باتدبیر'' سے لے کر عدالتی نظام کے رکھوالے تک حکمرانوں کے پے رول پر۔
ادھر وہ کہ سب سے زیادہ توجہ صحت اور تعلیم پر ساٹھ سال سے زائد شہریوں کے لیے ہر سہولت مفت۔ اس میں ملکی، غیر ملکی، ہندو، مسلمان، عیسائی اور یہودی کی تخصیص نہیں کہ پہلے سب انسان ہیں۔ بعد میں کچھ اور۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں نوازتا ہے۔ البتہ ہم جو مغربی سوسائٹی کی دلدل کو اپنا کلچر بنا رہے ہیں وہ ہولناک ہے۔
بات شروع ہوئی تھی طلاق، خلع اور کورٹ میرج سے جس کا دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا نکل رہے ہیں۔ میں کوئی مصلح نہیں کہ نصیحت کروں، آج صرف چند واقعات گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔ گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرنا، کورٹ میرج کرنا، طلاقوں اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات میں 80 فیصد سوشل میڈیا کا ہاتھ ہے۔ ٹی وی چینلز ان بیہودہ حرکات کو ڈراموں کے ذریعے خوب بڑھاوا دے رہے ہیں۔
ہمارے چینلز نے بھی مغربی الیکٹرانک میڈیا سے صرف، کم لباسی اور معاشقوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ کیا کیجیے کہ جب ملک کی باگ ڈور بنیوں کے ہاتھ میں ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ تاجر صرف اپنے فائدے پہ نظر رکھتا ہے۔ یوں کہیے کہ ایک کہاوت کے مطابق ''بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے''۔ جب مدنظر صرف ذاتی اور خاندانی فائدہ ہو تو ان بے لگام ٹی وی چینلز کو اخلاق کی لگام کون ڈالے گا۔
فاخرہ کا رابطہ فیس بک پہ فرید سے ہوا، فاخرہ لاہور میں اور فرید کراچی کا رہائشی تھا۔ دونوں میں تعلقات بڑھتے گئے۔ پہلی بار فرید لاہور اپنے دوست کے ساتھ گیا، اور فاخرہ کو ملنے کے لیے باغ جناح بلایا۔ پھر یہ سلسلے دراز ہوتے گئے، دونوں کے مسلک جدا۔ گھر والے کسی طرح شادی پہ راضی نہ تھے۔ لیکن معاملات ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ دونوں نے کورٹ میرج کر لی۔ فرید ایک پرائیویٹ ادارے میں ملازم تھا۔ چند ماہ بعد ہی وہ ایک بچی کا باپ بن گیا، فاخرہ جو سہانے خواب دیکھ کر آئی تھی وہ تنگدستی نے چکنا چور کر دیے۔
وہ ماسٹر ڈگری ہولڈر تھی لیکن عیش و عشرت کی عادی۔ اسے انڈہ تلنا بھی نہیں آتا تھا۔ روز بازار سے کھانا آتا تھا۔ دن بہ دن اس کی فرمائشیں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ اس نے فرید کو ایک غلام سمجھ لیا تھا جو اس کی ہر خواہش کو پورا کرنے کا پابند تھا۔ اسی دوران فاخرہ کا رابطہ ایک اور شخص سے ہو گیا اور وہ ایک دن اپنی چھ ماہ کی بچی کو چھوڑ کر کہیں چلی گئی۔ فرید بچی کو لے کر ماں باپ کے پاس پہنچا جنھوں نے اپنے بیٹے کی اولاد کو گلے سے لگا لیا۔ لیکن فاخرہ کے ماں باپ نے فرید کو اور بچی کو گھر میں بھی نہیں گھسنے دیا۔ فرید اتنا دل برداشتہ اور شرمندہ ہے کہ دوسری شادی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔
امینہ کو ایک صاحب ٹیوشن پڑھانے آتے تھے۔ خاصے خوش شکل بھی تھے۔ کچھ شعر و ادب سے بھی تعلق تھا۔ ایک بیوی اور پانچ بچوں کے والد محترم بھی تھے۔ امینہ ان میں دلچسپی لینے لگیں، ٹیوٹر کے گھر بھی جانا شروع کر دیا اور ان کی بیگم کو آپا کہنے لگیں اور پھر ایک دن ان صاحب سے نکاح کر کے ماں باپ کو ٹھینگا دکھا آئیں۔
تین سال میں دو بچے ہوئے اور پھر ٹیوٹر صاحب لمبی بیماری کے بعد انتقال کر گئے۔ امینہ اپنے بچوں کو لے کر والدین کے در پر گئیں تو انھوں نے گھر کے اندر بھی نہیں گھسنے دیا اور کہہ دیا کہ وہ ان کے لیے اسی دن مر گئی تھی جس دن اس نے چوری چھپے نکاح کیا تھا۔ آج محترمہ ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی ہیں اور بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں۔
دو شادیاں گزشتہ سال بڑے ارمانوں سے ہوئیں۔ لیکن ایک لڑکی کو تین ماہ بعد طلاق ہو گئی اور دوسری نے پندرہ دن بعد ہی سسرال کی دہلیز پار کر کے میکے جا کر خلع حاصل کر لیا۔ وجہ بھی سنیے! اول الذکر نے شادی کے بعد بھی اپنے پرانے عاشق صادق سے رابطہ بحال رکھا۔ البتہ شادی کے لیے ماں باپ کو منع نہیں کیا، کیونکہ آج کل کی لڑکیاں بے وقوف نہیں ہیں۔ وہ پہلے لڑکے کی مالی حیثیت دیکھتی ہیں پھر آگے بڑھتی ہیں۔
عاشق صاحب بیروزگار تھے اور شوہر ایک بینک میں اچھے عہدے پر۔ گھاٹے کا سودا کوئی لڑکی کرتی ہے نہ لڑکی کی ماں۔ شادی ہو گئی۔ شوہر کے جانے کے بعد لڑکی زیادہ تر موبائل فون سے جڑی رہتی تھی۔ ایک دن وہ واش روم میں تھی موبائل چارجنگ پہ لگا تھا، میاں گھر میں تھے جوں ہی MSG کی آواز آئی میاں نے غیر ارادی طور پر موبائل اٹھا لیا، اس میں جو MSG تھا وہ بہت شرمناک تھا۔ تب اس نے مزید MSG چیک کیے وہ بھی کافی حد تک غیر اخلاقی اور معیوب تھے۔
بیگم واش روم سے باہر آئیں تو میاں نے جواب مانگا۔ بجائے شرمندہ ہونے کے الٹا شوہر پر گرم ہو گئی کہ اس نے موبائل چیک کیوں کیا۔ بہرحال لڑکی کے والدین کو بلوایا گیا، ان کے سامنے سارا معاملہ رکھا گیا۔ عاشق صادق سے بھی میاں نے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ لڑکی نے کہا تھا کہ شادی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم بعد میں بھی ملتے رہیں گے۔ لڑکی کبھی میکے جانے کا اور کبھی کسی سہیلی کے گھر جانے کا بہانہ کر کے اس لڑکے کے ساتھ گھومتی تھی اور ایک دوست کے خالی فلیٹ میں یہ دونوں وقت بھی گزارتے تھے۔
مختصراً یہ کہ لڑکے نے طلاق دے دی۔ اپنی بیوی کی بے وفائی اور بدکرداری پہ بہت افسردہ بھی ہے۔ ٹھیک ٹھاک ڈپریشن کا شکار ہو گیا ہے۔ دوسری لڑکی جس نے شادی کے پندرہ دن بعد میکے جا کر خلع کا مطالبہ کر دیا۔ اس نے پہلے ہی دن شوہر سے کہہ دیا کہ یہ شادی اس کے ماں باپ نے زبردستی کی ہے۔ وہ اپنے پھوپھی زاد بھائی کو پسند کرتی ہے، لیکن پھوپھی چونکہ بھاوج کو پسند نہیں کرتی تھیں کیونکہ بھاوج نے لڑکی کی تربیت صحیح نہیں کی تھی۔ لیکن لڑکی نے پھوپھی کے بیٹے کو راضی کر لیا تھا کہ وہ کورٹ میرج کر لیں گے۔ تاہم انھیں موقع نہ ملا اور شادی ہو گئی۔
لڑکی کی بات سن کر شوہر چند دن کے لیے شہر سے باہر چلا گیا اور لڑکی میکے۔ سولہویں دن لڑکے نے خلع کی بات مان لی۔ لیکن تماشا یہ ہوا کہ خلع کے بعد پھوپھی نے ہنگامہ کر دیا۔ ساتھ ہی لڑکے نے بھی راستہ بدل لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ''جب تم اپنے ماں باپ، شوہر اور ساس سسرکی عزت کو ٹھوکر مار کر خلع لے کر چلی آئیں تو کل کو میرے ساتھ بھی یہی کر سکتی ہو۔ تم ناقابل اعتبار عورت ہو، تم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ تم بیوی بننے کے لائق ہی نہیں ہو۔''
صرف یہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ آنے سے پہلے اور بھی بہت سی بچگانہ اور احمقانہ باتوں پر طلاق لینے کے واقعات جب اخبارات میں نقل ہوتے تھے تو ہنسی بھی آتی تھی اور تعجب بھی ہوتا تھا کہ کیسے لوگ ہیں یہ کہ زندگی کو مذاق سمجھا ہوا ہے۔ کبھی ڈنر پہ نہ لے جانے پر طلاق کا مطالبہ، کبھی اس بات پر کہ شوہر گھر کے برتن نہیں دھوتا، کبھی اس بات پرکہ شوہر بیوی کے بوائے فرینڈ کے گھر آنے پر اعتراض کرتا ہے۔ کبھی بچوں کی پرورش پہ جھگڑا کہ طلاق کے بعد بچوں کا کیا بنے گا؟
لیکن اب دیکھ لیجیے کہ مغربی سوسائٹی کی غیراخلاقی اور معیوب باتوں کو تو ہم نے بڑی جلدی اور بڑے فخر سے اپنا لیا۔ لیکن ان کی انسان دوستی انسانی فلاح و بہبود، سینئر سٹیزن کے لیے ہر جگہ بہترین سہولتوں، ایکسپائری ڈیٹ کی دواؤں اور خوردنی اشیا کو تلف کر دینے والی جیسی اچھی باتوں کی طرف نظر بھر کر بھی نہیں دیکھا۔ ریاست کیا ہوتی ہے؟ ریاست میں رہنے والوں کے حقوق کیا ہوتے ہیں۔ عوام کے ووٹ کی قدروقیمت کیا ہوتی ہے۔
وزیراعظم کے بچے عام بچوں کے ساتھ اسکول میں پڑھتے ہیں۔ تمام اسکولوں کا تعلیمی معیار یکساں ہے۔ وہاں تعلیم خدمت اور لازمی سروس کا درجہ رکھتی ہے جب کہ ہمارے ہاں تعلیم تجارت ہے۔ صحافت ہی کو لیجیے جو نیک نامی اس شعبے نے 1970ء تک کمائی تھی وہ رفتہ رفتہ مفقود ہوگئی۔ آج صحافت بھی تجارت ہے اور باقاعدہ ایک انڈسٹری ہے جس کے پاس سرمایہ آیا اس نے ایک اخبار نکال لیا اور خود ایڈیٹر بن کے بیٹھ گیا۔
صحافتی اصول غتربود ہوئے۔ زرد صحافت اور لفافہ جرنلزم نے ساری حدود پار کر لیں۔گویا ہر غلط بات اور غلط سمت کو اپنانے میں ہم سب سے آگے۔ بے ایمانی اور دغا بازی میں مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنا بینک بیلنس اور دولت بڑھانے میں سارے پاکستانی سیاستدان سب سے آگے۔ جی حضوری کرنے والے میاں مٹھو ٹائپ کے ''وزیر باتدبیر'' سے لے کر عدالتی نظام کے رکھوالے تک حکمرانوں کے پے رول پر۔
ادھر وہ کہ سب سے زیادہ توجہ صحت اور تعلیم پر ساٹھ سال سے زائد شہریوں کے لیے ہر سہولت مفت۔ اس میں ملکی، غیر ملکی، ہندو، مسلمان، عیسائی اور یہودی کی تخصیص نہیں کہ پہلے سب انسان ہیں۔ بعد میں کچھ اور۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں نوازتا ہے۔ البتہ ہم جو مغربی سوسائٹی کی دلدل کو اپنا کلچر بنا رہے ہیں وہ ہولناک ہے۔
بات شروع ہوئی تھی طلاق، خلع اور کورٹ میرج سے جس کا دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اس کے نتائج کیا نکل رہے ہیں۔ میں کوئی مصلح نہیں کہ نصیحت کروں، آج صرف چند واقعات گوش گزار کرنا چاہتی ہوں۔ گھروں سے بھاگ کر شادیاں کرنا، کورٹ میرج کرنا، طلاقوں اور خلع کے بڑھتے ہوئے واقعات میں 80 فیصد سوشل میڈیا کا ہاتھ ہے۔ ٹی وی چینلز ان بیہودہ حرکات کو ڈراموں کے ذریعے خوب بڑھاوا دے رہے ہیں۔
ہمارے چینلز نے بھی مغربی الیکٹرانک میڈیا سے صرف، کم لباسی اور معاشقوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ کیا کیجیے کہ جب ملک کی باگ ڈور بنیوں کے ہاتھ میں ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ تاجر صرف اپنے فائدے پہ نظر رکھتا ہے۔ یوں کہیے کہ ایک کہاوت کے مطابق ''بنیے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے''۔ جب مدنظر صرف ذاتی اور خاندانی فائدہ ہو تو ان بے لگام ٹی وی چینلز کو اخلاق کی لگام کون ڈالے گا۔
فاخرہ کا رابطہ فیس بک پہ فرید سے ہوا، فاخرہ لاہور میں اور فرید کراچی کا رہائشی تھا۔ دونوں میں تعلقات بڑھتے گئے۔ پہلی بار فرید لاہور اپنے دوست کے ساتھ گیا، اور فاخرہ کو ملنے کے لیے باغ جناح بلایا۔ پھر یہ سلسلے دراز ہوتے گئے، دونوں کے مسلک جدا۔ گھر والے کسی طرح شادی پہ راضی نہ تھے۔ لیکن معاملات ہاتھ سے نکل گئے تھے۔ دونوں نے کورٹ میرج کر لی۔ فرید ایک پرائیویٹ ادارے میں ملازم تھا۔ چند ماہ بعد ہی وہ ایک بچی کا باپ بن گیا، فاخرہ جو سہانے خواب دیکھ کر آئی تھی وہ تنگدستی نے چکنا چور کر دیے۔
وہ ماسٹر ڈگری ہولڈر تھی لیکن عیش و عشرت کی عادی۔ اسے انڈہ تلنا بھی نہیں آتا تھا۔ روز بازار سے کھانا آتا تھا۔ دن بہ دن اس کی فرمائشیں بھی بڑھتی جا رہی تھیں۔ اس نے فرید کو ایک غلام سمجھ لیا تھا جو اس کی ہر خواہش کو پورا کرنے کا پابند تھا۔ اسی دوران فاخرہ کا رابطہ ایک اور شخص سے ہو گیا اور وہ ایک دن اپنی چھ ماہ کی بچی کو چھوڑ کر کہیں چلی گئی۔ فرید بچی کو لے کر ماں باپ کے پاس پہنچا جنھوں نے اپنے بیٹے کی اولاد کو گلے سے لگا لیا۔ لیکن فاخرہ کے ماں باپ نے فرید کو اور بچی کو گھر میں بھی نہیں گھسنے دیا۔ فرید اتنا دل برداشتہ اور شرمندہ ہے کہ دوسری شادی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔
امینہ کو ایک صاحب ٹیوشن پڑھانے آتے تھے۔ خاصے خوش شکل بھی تھے۔ کچھ شعر و ادب سے بھی تعلق تھا۔ ایک بیوی اور پانچ بچوں کے والد محترم بھی تھے۔ امینہ ان میں دلچسپی لینے لگیں، ٹیوٹر کے گھر بھی جانا شروع کر دیا اور ان کی بیگم کو آپا کہنے لگیں اور پھر ایک دن ان صاحب سے نکاح کر کے ماں باپ کو ٹھینگا دکھا آئیں۔
تین سال میں دو بچے ہوئے اور پھر ٹیوٹر صاحب لمبی بیماری کے بعد انتقال کر گئے۔ امینہ اپنے بچوں کو لے کر والدین کے در پر گئیں تو انھوں نے گھر کے اندر بھی نہیں گھسنے دیا اور کہہ دیا کہ وہ ان کے لیے اسی دن مر گئی تھی جس دن اس نے چوری چھپے نکاح کیا تھا۔ آج محترمہ ایک گارمنٹ فیکٹری میں کام کرتی ہیں اور بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی ہیں۔
دو شادیاں گزشتہ سال بڑے ارمانوں سے ہوئیں۔ لیکن ایک لڑکی کو تین ماہ بعد طلاق ہو گئی اور دوسری نے پندرہ دن بعد ہی سسرال کی دہلیز پار کر کے میکے جا کر خلع حاصل کر لیا۔ وجہ بھی سنیے! اول الذکر نے شادی کے بعد بھی اپنے پرانے عاشق صادق سے رابطہ بحال رکھا۔ البتہ شادی کے لیے ماں باپ کو منع نہیں کیا، کیونکہ آج کل کی لڑکیاں بے وقوف نہیں ہیں۔ وہ پہلے لڑکے کی مالی حیثیت دیکھتی ہیں پھر آگے بڑھتی ہیں۔
عاشق صاحب بیروزگار تھے اور شوہر ایک بینک میں اچھے عہدے پر۔ گھاٹے کا سودا کوئی لڑکی کرتی ہے نہ لڑکی کی ماں۔ شادی ہو گئی۔ شوہر کے جانے کے بعد لڑکی زیادہ تر موبائل فون سے جڑی رہتی تھی۔ ایک دن وہ واش روم میں تھی موبائل چارجنگ پہ لگا تھا، میاں گھر میں تھے جوں ہی MSG کی آواز آئی میاں نے غیر ارادی طور پر موبائل اٹھا لیا، اس میں جو MSG تھا وہ بہت شرمناک تھا۔ تب اس نے مزید MSG چیک کیے وہ بھی کافی حد تک غیر اخلاقی اور معیوب تھے۔
بیگم واش روم سے باہر آئیں تو میاں نے جواب مانگا۔ بجائے شرمندہ ہونے کے الٹا شوہر پر گرم ہو گئی کہ اس نے موبائل چیک کیوں کیا۔ بہرحال لڑکی کے والدین کو بلوایا گیا، ان کے سامنے سارا معاملہ رکھا گیا۔ عاشق صادق سے بھی میاں نے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ لڑکی نے کہا تھا کہ شادی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم بعد میں بھی ملتے رہیں گے۔ لڑکی کبھی میکے جانے کا اور کبھی کسی سہیلی کے گھر جانے کا بہانہ کر کے اس لڑکے کے ساتھ گھومتی تھی اور ایک دوست کے خالی فلیٹ میں یہ دونوں وقت بھی گزارتے تھے۔
مختصراً یہ کہ لڑکے نے طلاق دے دی۔ اپنی بیوی کی بے وفائی اور بدکرداری پہ بہت افسردہ بھی ہے۔ ٹھیک ٹھاک ڈپریشن کا شکار ہو گیا ہے۔ دوسری لڑکی جس نے شادی کے پندرہ دن بعد میکے جا کر خلع کا مطالبہ کر دیا۔ اس نے پہلے ہی دن شوہر سے کہہ دیا کہ یہ شادی اس کے ماں باپ نے زبردستی کی ہے۔ وہ اپنے پھوپھی زاد بھائی کو پسند کرتی ہے، لیکن پھوپھی چونکہ بھاوج کو پسند نہیں کرتی تھیں کیونکہ بھاوج نے لڑکی کی تربیت صحیح نہیں کی تھی۔ لیکن لڑکی نے پھوپھی کے بیٹے کو راضی کر لیا تھا کہ وہ کورٹ میرج کر لیں گے۔ تاہم انھیں موقع نہ ملا اور شادی ہو گئی۔
لڑکی کی بات سن کر شوہر چند دن کے لیے شہر سے باہر چلا گیا اور لڑکی میکے۔ سولہویں دن لڑکے نے خلع کی بات مان لی۔ لیکن تماشا یہ ہوا کہ خلع کے بعد پھوپھی نے ہنگامہ کر دیا۔ ساتھ ہی لڑکے نے بھی راستہ بدل لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ''جب تم اپنے ماں باپ، شوہر اور ساس سسرکی عزت کو ٹھوکر مار کر خلع لے کر چلی آئیں تو کل کو میرے ساتھ بھی یہی کر سکتی ہو۔ تم ناقابل اعتبار عورت ہو، تم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ تم بیوی بننے کے لائق ہی نہیں ہو۔''