ٹریفک سرکس اور وارڈن

ٹریفک جو ان دنوں بدنظمی کی آخری حد کا شکار ہے، اس کی وجوہات کی نشاندہی مشکل کام نہیں۔

h.sethi@hotmail.com

میرا بچپن کا دوست شہریار، جس کے بزرگ گورداسپور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے، کئی دیگر دوستوں کی طرح نقل مکانی کر کے بیرون پاکستان جا آباد ہوا تھا لیکن ہر سال پندرہ بیس دن کے لیے اسکول اور کالج کے دوستوں سے ملنے آ جاتا اور اکثر میں اس کا مع کار ڈرائیور ہوتا۔ اس بار اس نے خواہش کی کہ ڈرائیونگ وہ کریگا۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا لیکن کچھ ہی دیر بعد میں نے اس سے کہا کہ موٹر کار پٹرول سے چلتی ہے نہ کہ ہارن کے زور پر۔ مجھے لگا وہ ایکسیلریٹر پر پاؤں اورا سٹیئرنگ پر ہاتھ رکھ کر دونوں کو برابر طاقت سے دبائے چلا جا رہا ہے۔

میں نے اسے مسلسل ہارن بجائے چلے جانے سے منع کرتے ہوئے پوچھا لندن میں تو ہارن بجانا منع ہے کیا تم وہاں بھی یہی کرتے ہو۔ اس نے ذرا پریشانی سے کہا مجھے یوں لگ رہا ہے کہ ہر دوسری کار، رکشہ، ویگن اور موٹر بائیک مجھے ٹکر مارنے کے در پے ہے۔ میں نے اپنی کار اس سے لے کر خود اسٹیئرنگ سنبھال لیا تو اس نے ہانپنا بند کر کے اپنی سانسیں بحال کیں اور بولا کیا اب پاکستان میں ڈرائیونگ ٹیسٹ اور لائسنس کے بغیر آٹو موبائل سڑکوں پر دوڑانے کی آزادی ہو گئی ہے اور خطرناک ڈرائیونگ پر کوئی کسی کو روکنے ٹوکنے والا نہیں۔

دیکھو سڑک پر کیسا گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا اس لیے مصنوعی غصے دار آواز میں جواب دیا '' اپنے بیہودہ الفاظ واپس لو ورنہ'' اس نے کہا ''ورنہ کیا؟'' میں نے قہقہہ لگا کر کہا ''ورنہ تمہیں دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دوں گا۔'' شہریار نے میرا بازو دبا کر کہا گاڑی آہستہ کرو۔ میں نے جواب دیا پریشان مت ہو، میں نے سرکس کے کھلاڑیوں کو دیکھ لیا ہے، اس وقت ہمارے آگے دو موٹرسائیکل سوار ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے پیچھے آنیوالوں کو تماشا دکھاتے ہوئے سڑک پر کبھی دائیں اور کبھی بائیں اپنی بائیکس گھماتے ہوئے خطرناک کھیل کھیلنے کے علاوہ ٹریفک بلاک کیے ہوئے تھے۔

میں ہنسا تو شہریار بولا تم ہنس رہے ہو اور میں فکرمندی سے سوچ رہا تھا کہ تفریح کے مواقع نہ ہونے پر یہاں کے نوجوان کتنے خطرات سے کھیلتے پائے جاتے ہیں۔ خود جب سے پیارے پاکستان آیا ہوں صرف دعوتیں کھا کھا کر بے حال ہو رہا ہوں یا پھر ٹریفک کے ایڈونچر دیکھ کر بلڈپریشر نارمل رکھنے کی پریکٹس کر رہا ہوں۔ کار میں بیٹھے بیٹھے اخبار پڑھتے ہوئے شہریار نے ایک خبر سنائی کہ موٹروے پر اووراسپیڈ پر پولیس نے چیئرمین NHA کا چالان کر کے جرمانہ کیا تو ان پولیس ملازمین کا فوری طور پر تبادلہ کر دیا گیا۔


میں نے ہنس کر کہا کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں، خود میں نے جب گزٹ نوٹیفکیشن دکھاتے ہوئے ایک چیف منسٹر کو جواب دیا تھا کہ ان کی منشاء کے مطابق یا ان کے حکم پر ناجائز کام کر دینا ضوابط کی رو سے نہ میرے اور نہ ہی ان کے اختیار میں ہے تو اس سے اگلے روز خود میرا بھی تبادلہ ہو گیا تھا۔ ٹریفک رولز کی خلاف ورزی کے حوالے سے میں نے اسے بتایا کہ اکثر پولیس ملازمین بھی سرخ ٹریفک سگنل ہونے کے باوجود خلاف ورزی کرتے ہیں اور ٹریفک وارڈن دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اس پر اس نے اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ دیکھو تین ٹریفک وارڈن ایک جگہ کھڑے رونی صورت بنائے آپس میں یا موبائل فون پر باتیں کر رہے ہیں۔

ٹریفک جو ان دنوں بدنظمی کی آخری حد کا شکار ہے، اس کی وجوہات کی نشاندہی مشکل کام نہیں۔ اول یہ کہ اکثر آٹو موبائلز چلانے والوں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہوتا اور جن کے پاس ہوتا ہے ان کا ڈرائیونگ ٹیسٹ لیے بغیر سفارش یا رشوت کی بنیاد پر بنا ہوتا ہے۔ دوم یہ کہ شہر میں ڈرائیونگ ٹریننگ سینٹر نہیں ہیں۔ اکثریت نے سڑک ہی پر ڈرائیونگ سیکھی ہوتی ہے اور وہ ڈرائیونگ رولز سے نابلد ہوتے ہیں۔ سوئم یہ کہ غلط یا خطرناک ڈرائیونگ کی روک تھام کے لیے چیکنگ نہ ہونے کے برابر ہے اور ڈرائیونگ لائسنس معطل یا کینسل کرنے کی روایت نہیں۔ ارتکاب جرم پر پکڑ اور سزا نہ ہونے پر مزید جرم کرنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔

معاشرے میں موجودہ بگاڑ کی بھی یہی وجہ ہے جب کہ ٹریفک حادثات میں اضافے کی وجہ بھی غیرتربیت یافتہ ڈرائیور ہیں۔2006ء میں صوبہ پنجاب کے پانچ اضلاع لاہور، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں پنجاب پولیس کا ٹریفک کنٹرول نظام تبدیل کر کے نئی بھرتیوں کے ذریعے وارڈن سسٹم متعارف کرایا گیا۔ اس میں وارڈن بھرتی ہونے والوں کی کم ازکم تعلیم گریجویشن تھی جب کہ بہت سے ایم اے اور لاء گریجویٹ بھی تھے۔ ان کو 14 اسکیل میں بھرتی کیا گیا۔ پنجاب میں وارڈنوں کی تعداد آٹھ ہزار ہے جب کہ صرف لاہور میں 4 ہزار وارڈن ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

اس کے باوجود ٹریفک کنٹرول کی حالت ابتر ہوئی جب کہ وارڈنز کو شکایت ہے کہ ان کا سروس سٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے اور باوجود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے وہ جس اسکیل میں آٹھ دس سال قبل بھرتی ہوئے، آج بھی اسی اسکیل میں ہیں۔ جو وارڈن ملازمت چھوڑ کر (LTC) لاہور ٹریفک کمپنی میں چلے گئے انھیں وہاں گریڈ 16 دیا گیا۔ ان کی یونیفارم بے حد بجھی ہوئی رنگت کی اور ناقص کپڑے کی ہے۔ انھیں ذرا ذرا سی غلطی پر جرمانے کی سزا دی جاتی ہے بلکہ ان کا نامۂ اعمال سزاؤں سے بھرا پڑا ہے۔ آٹھ گھنٹے کے بجائے ان سے چودہ پندرہ گھنٹے ڈیوٹی لی جاتی ہے۔

سزاؤں میں ان کی ایک سزا تنخواہ کی بندش ہے۔ ان وجوہات کے باعث بہت سے وارڈن کام میں دلچسپی کھو دیتے اور ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ وارڈنز کا ایک قصور البتہ ناقابل معافی ہے کہ ان کی بھرتی سابق وزیراعلیٰ کے دور میں ہوئی۔وارڈنز کا احساس محرومی، موٹروں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ، غیرمعیاری ٹریفک چیکنگ، پبلک ٹرانسپورٹ کا ناکافی ہونا، ڈرائیوروں کا اناڑی پن، بغیر لائسنس ڈرائیونگ وجوہات جو بھی ہوں ٹریفک سسٹم کو ریگولیٹ کرنا فوری توجہ اور عمل کا متقاضی ہے کیونکہ سڑکوں پر سرکس خطرۂ جان ہو سکتا ہے۔
Load Next Story