کوئی پرسان حال ہو تو کہیں…
بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوان طبقے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔
ایک مشہور انگریزی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا، آسٹریلیا، جاپان، کینیڈا، برطانیہ، بھارت، ایران، عراق اور افغانستان سمیت دنیا کے 86 ممالک کی جیلوں میں اس وقت 21 ہزار 790 پاکستانی مختلف نوعیت کے معمولی جرائم کی پاداش میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔
یہ وہ پاکستانی ہیں جو اپنے وطن میں روزگارکی مناسب سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی قسمت آزمانے کے لیے بیرونی ممالک میں گئے لیکن وہاں کے قوانین سے عدم واقفیت، ضروری سفری دستاویزات کی عدم موجودگی یا اسی قسم کے بعض دوسرے جرائم میں پکڑے گئے۔ ان میں بیشتر لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی سزا پوری کرنے کے باوجود کئی برسوں سے اغیارکی جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ بعض ایسے بھی ہیں جنھیں بغیر کسی الزام مقامی زبانوں سے شناسائی یا ترجمان کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث ''پس دیوار زنداں'' رہنا پڑ رہا ہے۔ ان لوگوں کے خاندان اور لواحقین اس صورتحال پر جس قدر دل گرفتہ ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں، ان کے ورثا کی ایک بڑی تعداد مختلف دفاترکے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکی ہے مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔
ہمارے وزیر اعظم نے بھی بیرونی ممالک میں مقید ان پاکستانیوں کی حالت زارکا نوٹس لیا تھا لیکن اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاسکا اور اس کی واحد اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کا تقریباً ہر ادارہ اپنے فرائض سے غافل ہے۔ان سے پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے کیونکہ ہمارے یہاں جواب طلبی اور احتساب کا دستور سرے سے نہیں ہے۔ بدعنوان، مفاد پرست اور نااہل اہل کاروں نے ہر شعبہ حیات کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور خود حلوہ مانڈہ کھانے میں مصروف ہیں۔
کسی ملک کا کوئی ایک فرد بھی کسی دوسرے ملک میں اس طرح کی زندگی گزار رہا ہو تو اس کی حکومت اس پر حشر اٹھا دیتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے 21 ہزار سے زائد افراد بیرون ممالک میں کئی سالوں سے جیلوں میں ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اپنی نوجوان نسل پر خاص توجہ دیتے ہیں کیونکہ ان کا مستقبل ان کی نوجوان نسل پر ہی منحصر ہے، اس لیے وہ اپنے نوجوان طبقے کو تعلیم یافتہ یا ہنرمند بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
یہی نہیں وہ اپنے نوجوانوں کو معاشی استحکام کے لیے بھی خاص مراعات فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ ترقی کے سفر میں مثبت کردار ادا کرسکیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوان طبقے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ ملک کے قیمتی سرمائے کی نظراندازی کی وجہ سے ہی بیشتر نوجوان دیار غیر میں محنت مزدوری کرکے اپنے اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے کسالے اٹھاتے ہیں اور بدقسمتی سے وہ وہاں کے قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں، تو ہمارے ملک کے ارباب اختیار ان کے لیے کوئی قرار واقعی مثبت قدم اٹھانے سے بھی گریز کرتے ہیں اور یوں وہ بے چارے وہاں کی جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔
چند سال قبل منڈی بہاؤالدین کا ایک رہائشی حصول رزق کے لیے فرانس چلا گیا، وہیں اس نے ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کرلی جس سے ایک بچی پیدا ہوئی، پھر دونوں میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی۔ وہ شخص مغربی کلچر کے اثرات سے خوفزدہ ہوکر دس سال کے بعد اپنی بچی کو لے کر پاکستان آگیا۔ بچی کی ماں نے جو فرانس کی ایک عام سی شہری تھی، بچی کی واپسی کے لیے حکومت سے فریاد کی تو فرانسیسی حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا اور وہاں کی حکومت نے اسلام آباد اور لاہور کے سارے ایوان ہلاکر رکھ دیے۔
فرانسیسی حکومت کی حساسیت دیکھیں جب پاکستان کے وزیر اعظم فرانس گئے تو فرانسیسی صدر نے ان سے سب سے پہلے اس بچی کی بازیابی کے بارے میں بات کی تھی، یہی نہیں فرانسیسی صدر نے ہمارے صدر پاکستان سے بھی اس حوالے سے بھرپور گلہ کیا۔
پاکستان کے فرانس میں متعین سفیر نے جب اپنے ہم منصب سے یہ پوچھا کہ اس طرح کے تو سیکڑوں کیس ہوتے ہوں گے اور آپ کے صدر صاحب تو اتنے مصروف رہتے ہیں پھر وہ اس معمولی سے کیس کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟ تو اس پر فرانسیسی سفیر نے کہا کہ ''مملکت فرانس کی بنیادی ذمے داری اپنے شہریوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ کسی ایک شہری کے بنیادی حقوق کی پاسداری میں ناکامی سے ہمارے سفارت خانے، ہمارے سفیر، ہماری حکومت، ہمارے صدر بلکہ خود ہماری ریاست کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے۔''
افسوس صد افسوس ہماری مملکت قومی حمیت سے یکسر عاری چلی آرہی ہے۔ قومی حمیت کیا ہوتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں مہاتیر محمد کی طرف یا اس کے افکار کی طرف نگاہ کرنی چاہیے جس نے اپنے ملک ملائیشیا جیسے سوا دوکروڑ کی آبادی والے چھوٹے سے بے وسائل ملک کو ترقی میں یورپ کی سطح پر لے آیا، یہی مہاتیر محمد 20 سال خداوندان عالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا رہا۔ ترکی بھی دنیا کے نقشے پر کوئی بہت بڑا ملک نہیں ہے لیکن وہاں کے لیڈر طیب اردگان کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ خودمختاری کے معنوں کا ادراک بھی رکھتا ہے اور اس کا تحفظ کرنا بھی جانتا ہے۔ ترکی کی ترقی اور قانون کی بالادستی دنیا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ قومی حمیت کسی بھی قوم کی رگوں میں دوڑنے والے خون کی طرح ہوتی ہے۔ جس کے کم ہوجانے یا ٹھہر جانے سے قومیں مردہ ہوجاتی ہیں۔ زندہ قومیں ہر اس فعل کو سب سے بڑا جرم قرار دیتی ہیں جس سے ان کی قومی علامتوں، پرچم، پاسپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہاں کے شہریوں کی توہین ہو اور غیروں کے سامنے ان کی رسوائی ہو۔
مصر، لیبیا، یمن اور بحرین میں بھی ہمارے کتنے ہی پاکستانی بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری ریاست کے ہاتھ ان کی مدد اور حفاظت کے لیے آخر کیوں نہیں پہنچتے؟ یہ عصر حاضر کا سب سے اہم ترین ملکی سوال ہے؟ کیونکہ تاابد زندہ رہنے کا عزم رکھنے والی قومیں ہر حادثے سے سبق سیکھتی ہیں۔ کاش اہم ترین مناصب پر فائز حضرات یہ سوچیں کہ اپنے ہر ایک شہری کے حقوق کا تحفظ ایک اچھی ریاست اور اس کے حکمرانوں کے لیے کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔
گئے دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قتل کیس میں ایک سزا یافتہ مجرم کو 19 سال بعد ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنا پر مقدمے سے بری کرنے کا آرڈر دیا اور جب پولیس اہل کار اس کی رہائی کا حکم لے کر جیل پہنچے تو اس شخص کو وفات پائے دو سال ہوچکے تھے۔ یوں 19 سال وہ بے چارہ پنجاب کی جیل میں بے گناہ سزا کاٹتا رہا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی زندگی کے 19 سال جسے جوانی کا دور کہا جاتا ہے لیکن اس کی زندگی کی 19 سالہ حسین بہاروں کو خزاں میں بدلنے کا ذمے دار کون ہوگا؟
آفاقی سچائی ہے کہ جب معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ عدل وانصاف کا فقدان ہی ہوتا ہے اور ایسے معاشرے اجڑ جاتے ہیں جہاں انصاف کے پیمانے بدل جائیں۔ ہمارے ہاں لوگوں کا حد درجہ ڈپریشن، بلڈ پریشر کا ہمیشہ ہائی رہنا غماز ہے اس بات کا کہ ہمارے ہاں احتساب، باز پرس یا محاسبے کی چھلنی کمزور اور اسکروٹنی کا نظام غیر موثر ہے۔ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ محاسبے اور باز پرس کے ایسے مضبوط بیریئر نصب ہوں جنھیں اقتدار اوردولت یا اثر ورسوخ کے زور سے ہٹایا نہ جاسکے۔ ملک کے ہر شعبہ حیات میں میرٹ اور انصاف کی بالادستی کو یقینی بنانے سے ہمارے ملک میں سدھار آسکے گا۔
یہ وہ پاکستانی ہیں جو اپنے وطن میں روزگارکی مناسب سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے اپنی قسمت آزمانے کے لیے بیرونی ممالک میں گئے لیکن وہاں کے قوانین سے عدم واقفیت، ضروری سفری دستاویزات کی عدم موجودگی یا اسی قسم کے بعض دوسرے جرائم میں پکڑے گئے۔ ان میں بیشتر لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی سزا پوری کرنے کے باوجود کئی برسوں سے اغیارکی جیلوں میں قید و بند کی زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ بعض ایسے بھی ہیں جنھیں بغیر کسی الزام مقامی زبانوں سے شناسائی یا ترجمان کی سہولت میسر نہ ہونے کے باعث ''پس دیوار زنداں'' رہنا پڑ رہا ہے۔ ان لوگوں کے خاندان اور لواحقین اس صورتحال پر جس قدر دل گرفتہ ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں، ان کے ورثا کی ایک بڑی تعداد مختلف دفاترکے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکی ہے مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔
ہمارے وزیر اعظم نے بھی بیرونی ممالک میں مقید ان پاکستانیوں کی حالت زارکا نوٹس لیا تھا لیکن اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاسکا اور اس کی واحد اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کا تقریباً ہر ادارہ اپنے فرائض سے غافل ہے۔ان سے پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہے کیونکہ ہمارے یہاں جواب طلبی اور احتساب کا دستور سرے سے نہیں ہے۔ بدعنوان، مفاد پرست اور نااہل اہل کاروں نے ہر شعبہ حیات کو اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اور خود حلوہ مانڈہ کھانے میں مصروف ہیں۔
کسی ملک کا کوئی ایک فرد بھی کسی دوسرے ملک میں اس طرح کی زندگی گزار رہا ہو تو اس کی حکومت اس پر حشر اٹھا دیتی ہے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان کے 21 ہزار سے زائد افراد بیرون ممالک میں کئی سالوں سے جیلوں میں ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نوجوان کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک اپنی نوجوان نسل پر خاص توجہ دیتے ہیں کیونکہ ان کا مستقبل ان کی نوجوان نسل پر ہی منحصر ہے، اس لیے وہ اپنے نوجوان طبقے کو تعلیم یافتہ یا ہنرمند بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
یہی نہیں وہ اپنے نوجوانوں کو معاشی استحکام کے لیے بھی خاص مراعات فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ ترقی کے سفر میں مثبت کردار ادا کرسکیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں نوجوان طبقے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے۔ ملک کے قیمتی سرمائے کی نظراندازی کی وجہ سے ہی بیشتر نوجوان دیار غیر میں محنت مزدوری کرکے اپنے اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے کسالے اٹھاتے ہیں اور بدقسمتی سے وہ وہاں کے قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں، تو ہمارے ملک کے ارباب اختیار ان کے لیے کوئی قرار واقعی مثبت قدم اٹھانے سے بھی گریز کرتے ہیں اور یوں وہ بے چارے وہاں کی جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔
چند سال قبل منڈی بہاؤالدین کا ایک رہائشی حصول رزق کے لیے فرانس چلا گیا، وہیں اس نے ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کرلی جس سے ایک بچی پیدا ہوئی، پھر دونوں میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی۔ وہ شخص مغربی کلچر کے اثرات سے خوفزدہ ہوکر دس سال کے بعد اپنی بچی کو لے کر پاکستان آگیا۔ بچی کی ماں نے جو فرانس کی ایک عام سی شہری تھی، بچی کی واپسی کے لیے حکومت سے فریاد کی تو فرانسیسی حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ آگیا اور وہاں کی حکومت نے اسلام آباد اور لاہور کے سارے ایوان ہلاکر رکھ دیے۔
فرانسیسی حکومت کی حساسیت دیکھیں جب پاکستان کے وزیر اعظم فرانس گئے تو فرانسیسی صدر نے ان سے سب سے پہلے اس بچی کی بازیابی کے بارے میں بات کی تھی، یہی نہیں فرانسیسی صدر نے ہمارے صدر پاکستان سے بھی اس حوالے سے بھرپور گلہ کیا۔
پاکستان کے فرانس میں متعین سفیر نے جب اپنے ہم منصب سے یہ پوچھا کہ اس طرح کے تو سیکڑوں کیس ہوتے ہوں گے اور آپ کے صدر صاحب تو اتنے مصروف رہتے ہیں پھر وہ اس معمولی سے کیس کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟ تو اس پر فرانسیسی سفیر نے کہا کہ ''مملکت فرانس کی بنیادی ذمے داری اپنے شہریوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہے۔ کسی ایک شہری کے بنیادی حقوق کی پاسداری میں ناکامی سے ہمارے سفارت خانے، ہمارے سفیر، ہماری حکومت، ہمارے صدر بلکہ خود ہماری ریاست کا جواز ہی ختم ہوجاتا ہے۔''
افسوس صد افسوس ہماری مملکت قومی حمیت سے یکسر عاری چلی آرہی ہے۔ قومی حمیت کیا ہوتی ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں مہاتیر محمد کی طرف یا اس کے افکار کی طرف نگاہ کرنی چاہیے جس نے اپنے ملک ملائیشیا جیسے سوا دوکروڑ کی آبادی والے چھوٹے سے بے وسائل ملک کو ترقی میں یورپ کی سطح پر لے آیا، یہی مہاتیر محمد 20 سال خداوندان عالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا رہا۔ ترکی بھی دنیا کے نقشے پر کوئی بہت بڑا ملک نہیں ہے لیکن وہاں کے لیڈر طیب اردگان کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ خودمختاری کے معنوں کا ادراک بھی رکھتا ہے اور اس کا تحفظ کرنا بھی جانتا ہے۔ ترکی کی ترقی اور قانون کی بالادستی دنیا میں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
یہ ایک مسلم امر ہے کہ قومی حمیت کسی بھی قوم کی رگوں میں دوڑنے والے خون کی طرح ہوتی ہے۔ جس کے کم ہوجانے یا ٹھہر جانے سے قومیں مردہ ہوجاتی ہیں۔ زندہ قومیں ہر اس فعل کو سب سے بڑا جرم قرار دیتی ہیں جس سے ان کی قومی علامتوں، پرچم، پاسپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہاں کے شہریوں کی توہین ہو اور غیروں کے سامنے ان کی رسوائی ہو۔
مصر، لیبیا، یمن اور بحرین میں بھی ہمارے کتنے ہی پاکستانی بے یارومددگار پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری ریاست کے ہاتھ ان کی مدد اور حفاظت کے لیے آخر کیوں نہیں پہنچتے؟ یہ عصر حاضر کا سب سے اہم ترین ملکی سوال ہے؟ کیونکہ تاابد زندہ رہنے کا عزم رکھنے والی قومیں ہر حادثے سے سبق سیکھتی ہیں۔ کاش اہم ترین مناصب پر فائز حضرات یہ سوچیں کہ اپنے ہر ایک شہری کے حقوق کا تحفظ ایک اچھی ریاست اور اس کے حکمرانوں کے لیے کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔
گئے دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قتل کیس میں ایک سزا یافتہ مجرم کو 19 سال بعد ٹھوس شواہد نہ ہونے کی بنا پر مقدمے سے بری کرنے کا آرڈر دیا اور جب پولیس اہل کار اس کی رہائی کا حکم لے کر جیل پہنچے تو اس شخص کو وفات پائے دو سال ہوچکے تھے۔ یوں 19 سال وہ بے چارہ پنجاب کی جیل میں بے گناہ سزا کاٹتا رہا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اس کی زندگی کے 19 سال جسے جوانی کا دور کہا جاتا ہے لیکن اس کی زندگی کی 19 سالہ حسین بہاروں کو خزاں میں بدلنے کا ذمے دار کون ہوگا؟
آفاقی سچائی ہے کہ جب معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ عدل وانصاف کا فقدان ہی ہوتا ہے اور ایسے معاشرے اجڑ جاتے ہیں جہاں انصاف کے پیمانے بدل جائیں۔ ہمارے ہاں لوگوں کا حد درجہ ڈپریشن، بلڈ پریشر کا ہمیشہ ہائی رہنا غماز ہے اس بات کا کہ ہمارے ہاں احتساب، باز پرس یا محاسبے کی چھلنی کمزور اور اسکروٹنی کا نظام غیر موثر ہے۔ وقت کی ضرورت یہی ہے کہ محاسبے اور باز پرس کے ایسے مضبوط بیریئر نصب ہوں جنھیں اقتدار اوردولت یا اثر ورسوخ کے زور سے ہٹایا نہ جاسکے۔ ملک کے ہر شعبہ حیات میں میرٹ اور انصاف کی بالادستی کو یقینی بنانے سے ہمارے ملک میں سدھار آسکے گا۔