غریبوں کے بھی کچھ تحفظات ہوتے ہیں
کسان کا نقصان کہاں نظر آرہا ہے سارا فائدہ تو زمیندار کو ہوتا ہے کسان تو صرف آخر میں اپنی مزدوری لیتا ہے
ISLAMABAD:
جتنے کھیل تماشے ہمارے ملک کی سیاست میں ہوتے ہیں وہ شاید کسی اور ملک میں نہ ہوتے ہوں۔ گزشتہ کالم میں، میں نے ''اعلیٰ سطح کے اجلاس'' پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔ ہمارا آج کا موضوع ہے ''تحفظات'' ویسے بھی قارئین ''تحفظات'' تو بڑے لوگوں کے ہوتے ہیں غریب اور مفلس آدمی کا ''تحفظات'' سے کیا لینا دینا۔ مگر اب غریب تعلیم یافتہ شخص بھی تحفظات کی جنگ میں کود گیا ہے اور ایڈوانس ٹیکنالوجی نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو بھی جگا دیا ہے جب تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ممکنہ اقدامات نہیں کریں گی حالات مزید بگڑتے جائیں گے۔
گزشتہ دنوں راقم اتوار کو آرٹس کونسل آف پاکستان کی طرف جا رہا تھا کہ ٹریفک پولیس کے چار اہلکاروں نے راقم کی گاڑی کے آگے آکر راستہ روک لیا اور مجھ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے حفاظتی بیلٹ نہیں باندھی ہے نیچے آجائیں سب سے پہلا سوال مجھ سے کیا گیا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں پرائیویٹ جاب کرتا ہوں۔ اپنے آپ کو صحافی نہیں ظاہر کیا اگر میں صحافی ظاہر کرتا تو مجھے قانون شرافت کا طویل درس دیا جاتا مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو شریف شہری حکومت پاکستان کو باقاعدگی سے ٹیکس دیتا ہے اس کی ذرا سی غلطی نظرانداز نہیں کی جاتی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شریف شہری قواعد و ضوابط کا احترام کرتے ہوئے اس ملک کی بقا کے لیے خاموشی سے ٹیکس دیتا ہے آپ کو بڑی حیرت ہوگی کہ رواں سال 10 ماہ کے دوران فائرنگ کے واقعات میں تقریباً 400 افراد ہلاک ہوئے ، بھتے کی 191، اغوا برائے تاوان کی 18 وارداتیں ہوئیں، شہری موٹرسائیکل سمیت 22 ہزار گاڑیوں سے محروم ہوگئے اس کے علاوہ جو موبائل چھینے جاتے ہیں لوگ زخمی ہوتے ہیں اور کچھ بے چارے بے موت مارے جاتے ہیں وہ کہانی الگ ہے۔
بے ہنگم اور ناکارہ ٹریفک نظام ہر طرف جام نظر آتا ہے اور اسی ٹریفک جام میں سامان سے بھری سوزوکی کو پولیس والے گھیرے کھڑے ہوتے ہیں جب کہ ایک گاڑی کے لیے ایک اہلکار کافی ہے بقیہ تو کم ازکم ٹریفک پر توجہ دیں غلط سمت سے جانا اب معمول ہوگیا ہے۔ رکشہ اور موٹرسائیکل پر نمبر پلیٹ تو نظر ہی نہیں آتی 12 سال کے بچے موٹرسائیکل چلاتے پھر رہے ہیں 80 فیصد موٹرسائیکل والے حضرات کے پاس نہ لائسنس ہے اور نہ کاغذات۔ رکشے روڈ پرکھڑے ہوتے ہیں جن سے ٹریفک کی روانی رک جاتی ہے پھر ایسے لاقانونیت کے بازار میں شریف شہری جو لائسنس اور کاغذات مکمل رکھتا ہے حکومت کو ٹیکس دیتا ہے اس سے حفاظتی بیلٹ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ہے ناں کمال کی بات؟ اور ایک شہری ہونے کے ناتے مجھے بھی تحفظات کا حق ہے کہ یہ حفاظتی بیلٹ اتنی بااختیار کب سے ہوگئی۔
گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اعلان کیا کہ شادیوں میں صرف ایک ڈش کی اجازت ہوگی بس پھر کیا تھا شادی ہال کے مالکان سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور پھر اس کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اور آخر میں یہ کہہ کر بات ختم کردی گئی کہ شادی ہال کے مالکان کے کچھ تحفظات ہیں ان تحفظات کی روشنی میں یہ اصلاحی کام فروری 2017 تک وزیر اعلیٰ نے موخر کردیا جب کہ 5-5-2016 بروز بدھ کے اخبارات نے لکھا کہ کراچی میں شادی ہال کا کاروبار انتہائی منافع بخش ہے اور صنعت کی شکل اختیار کرچکا ہے اور حساس ادارے کہتے ہیں کہ 60 فیصد غیر قانونی ہال ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 30 لاکھ روپے ہے۔
امیروں کے تحفظات کو تو اعتراف کمال کی شکل دی جاتی ہے غریب کا کوئی پرسان حال نہیں، مگر ون ڈش کی پابندی کو فروری تک منسوخ کرنے پر عوامی شدید ردعمل سامنے آیا ہے کہ غریبوں کے بھی کچھ تحفظات ہیں۔ رکن قومی اسمبلی نواب یوسف تالپور نے کہا ہے کہ بھارت سے آلو، پیاز ، ٹماٹر، مرچیں اور دیگر سبزیوں کی درآمد پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائے اس سے ہمارے کسان شدید مالی بحران کا شکار ہورہے ہیں، ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں پہلی بات تو یہ کہ کسان تو بے چارہ مزدور ہوتا ہے اس کا کام تو زمین میں ہل چلا کر بیچ ڈالنا ہوتا ہے اور جب فصل تیار ہوجاتی ہے تو کسان کٹائی کا کام شروع کرتے ہیں۔
اس میں کسان کا نقصان کہاں نظر آرہا ہے سارا فائدہ تو زمیندار کو ہوتا ہے کسان تو صرف آخر میں اپنی مزدوری لیتا ہے اگرکچھ درآمد کی جا رہی ہے تو اس پر بھی اعتراض ہے سبزیوں کا یہ حال ہے کہ غریب اس اکتا دینے والی مہنگائی کے تلے دب گیا ہے دلیلیں دے کر غریب کو رنج و الم کے حصار میں کھڑا کردیا جاتا ہے جو ٹھیلے پر سبزی فروخت کر رہا ہے وہ لینے دینے کے بے شمار مسائل سے نمٹنے کے بعد ہر سبزی سو روپے کلو فروخت کر رہا ہے اور جس کے پاس 5 بائی 5 کی دکان ہے اس نے روڈ پر 20 فٹ جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہر سبزی بڑے نخروں سے سکون کے ساتھ 150 روپے کلو فروخت کر رہا ہے جب کہ حکومت کو بیشتر دکاندار ٹیکس بھی نہیں دیتے اور اگر دیتے بھی ہیں تو 5بائی 5 کی جگہ کا 20 فٹ کا کوئی حساب کتاب نہیں۔
اس کا حساب کتاب دوسرے طریقے سے کیا جاتا ہے ان غلط کاریوں کا سدباب کیا جائے کہ غریب خریداروں کے بھی کچھ تحفظات ہیں کتنے مزے کی بات ہے کہ امیروں، بیورو کریٹس، ایم این ایز، ایم پی ایز، وفاقی وزرا، صوبائی وزرا کے اگر تحفظات ہوتے ہیں تو اس پر مل جل کر اتحاد کیا جاتا ہے اور آخر میں اب سب کے تحفظات کو احساس کی خوشبو کے تحت انتہائی عزت و احترام سے ایئرکنڈیشنڈ آفسوں میں بہتی گنگا کی طرح بغیر کسی لچکدار رویے کے تحت مسند اقتدار پر بیٹھے افراد کے مان لیے جاتے ہیں جب کہ غریب کے قدم بے شک لڑکھڑا جائیں ان کے تحفظات کا کوئی پرسان حال نہیں امیروں کے ان تحفظات کی وجہ سے انتظامی ڈھانچا تباہی کے دہانے تک پہنچ گیا ہے:
انھیں گماں کہ غروب ہو رہا ہوں میں
میں مطمئن کہ طلوع ہو رہا ہوں میں
جتنے کھیل تماشے ہمارے ملک کی سیاست میں ہوتے ہیں وہ شاید کسی اور ملک میں نہ ہوتے ہوں۔ گزشتہ کالم میں، میں نے ''اعلیٰ سطح کے اجلاس'' پر تفصیلی روشنی ڈالی تھی۔ ہمارا آج کا موضوع ہے ''تحفظات'' ویسے بھی قارئین ''تحفظات'' تو بڑے لوگوں کے ہوتے ہیں غریب اور مفلس آدمی کا ''تحفظات'' سے کیا لینا دینا۔ مگر اب غریب تعلیم یافتہ شخص بھی تحفظات کی جنگ میں کود گیا ہے اور ایڈوانس ٹیکنالوجی نے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کو بھی جگا دیا ہے جب تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں ممکنہ اقدامات نہیں کریں گی حالات مزید بگڑتے جائیں گے۔
گزشتہ دنوں راقم اتوار کو آرٹس کونسل آف پاکستان کی طرف جا رہا تھا کہ ٹریفک پولیس کے چار اہلکاروں نے راقم کی گاڑی کے آگے آکر راستہ روک لیا اور مجھ سے سوال کیا گیا کہ آپ نے حفاظتی بیلٹ نہیں باندھی ہے نیچے آجائیں سب سے پہلا سوال مجھ سے کیا گیا کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں پرائیویٹ جاب کرتا ہوں۔ اپنے آپ کو صحافی نہیں ظاہر کیا اگر میں صحافی ظاہر کرتا تو مجھے قانون شرافت کا طویل درس دیا جاتا مجھے بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جو شریف شہری حکومت پاکستان کو باقاعدگی سے ٹیکس دیتا ہے اس کی ذرا سی غلطی نظرانداز نہیں کی جاتی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شریف شہری قواعد و ضوابط کا احترام کرتے ہوئے اس ملک کی بقا کے لیے خاموشی سے ٹیکس دیتا ہے آپ کو بڑی حیرت ہوگی کہ رواں سال 10 ماہ کے دوران فائرنگ کے واقعات میں تقریباً 400 افراد ہلاک ہوئے ، بھتے کی 191، اغوا برائے تاوان کی 18 وارداتیں ہوئیں، شہری موٹرسائیکل سمیت 22 ہزار گاڑیوں سے محروم ہوگئے اس کے علاوہ جو موبائل چھینے جاتے ہیں لوگ زخمی ہوتے ہیں اور کچھ بے چارے بے موت مارے جاتے ہیں وہ کہانی الگ ہے۔
بے ہنگم اور ناکارہ ٹریفک نظام ہر طرف جام نظر آتا ہے اور اسی ٹریفک جام میں سامان سے بھری سوزوکی کو پولیس والے گھیرے کھڑے ہوتے ہیں جب کہ ایک گاڑی کے لیے ایک اہلکار کافی ہے بقیہ تو کم ازکم ٹریفک پر توجہ دیں غلط سمت سے جانا اب معمول ہوگیا ہے۔ رکشہ اور موٹرسائیکل پر نمبر پلیٹ تو نظر ہی نہیں آتی 12 سال کے بچے موٹرسائیکل چلاتے پھر رہے ہیں 80 فیصد موٹرسائیکل والے حضرات کے پاس نہ لائسنس ہے اور نہ کاغذات۔ رکشے روڈ پرکھڑے ہوتے ہیں جن سے ٹریفک کی روانی رک جاتی ہے پھر ایسے لاقانونیت کے بازار میں شریف شہری جو لائسنس اور کاغذات مکمل رکھتا ہے حکومت کو ٹیکس دیتا ہے اس سے حفاظتی بیلٹ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ہے ناں کمال کی بات؟ اور ایک شہری ہونے کے ناتے مجھے بھی تحفظات کا حق ہے کہ یہ حفاظتی بیلٹ اتنی بااختیار کب سے ہوگئی۔
گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اعلان کیا کہ شادیوں میں صرف ایک ڈش کی اجازت ہوگی بس پھر کیا تھا شادی ہال کے مالکان سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور پھر اس کے نقصانات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی اور آخر میں یہ کہہ کر بات ختم کردی گئی کہ شادی ہال کے مالکان کے کچھ تحفظات ہیں ان تحفظات کی روشنی میں یہ اصلاحی کام فروری 2017 تک وزیر اعلیٰ نے موخر کردیا جب کہ 5-5-2016 بروز بدھ کے اخبارات نے لکھا کہ کراچی میں شادی ہال کا کاروبار انتہائی منافع بخش ہے اور صنعت کی شکل اختیار کرچکا ہے اور حساس ادارے کہتے ہیں کہ 60 فیصد غیر قانونی ہال ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 30 لاکھ روپے ہے۔
امیروں کے تحفظات کو تو اعتراف کمال کی شکل دی جاتی ہے غریب کا کوئی پرسان حال نہیں، مگر ون ڈش کی پابندی کو فروری تک منسوخ کرنے پر عوامی شدید ردعمل سامنے آیا ہے کہ غریبوں کے بھی کچھ تحفظات ہیں۔ رکن قومی اسمبلی نواب یوسف تالپور نے کہا ہے کہ بھارت سے آلو، پیاز ، ٹماٹر، مرچیں اور دیگر سبزیوں کی درآمد پر فوری طور پر پابندی عائد کی جائے اس سے ہمارے کسان شدید مالی بحران کا شکار ہورہے ہیں، ہمیں اس پر شدید تحفظات ہیں پہلی بات تو یہ کہ کسان تو بے چارہ مزدور ہوتا ہے اس کا کام تو زمین میں ہل چلا کر بیچ ڈالنا ہوتا ہے اور جب فصل تیار ہوجاتی ہے تو کسان کٹائی کا کام شروع کرتے ہیں۔
اس میں کسان کا نقصان کہاں نظر آرہا ہے سارا فائدہ تو زمیندار کو ہوتا ہے کسان تو صرف آخر میں اپنی مزدوری لیتا ہے اگرکچھ درآمد کی جا رہی ہے تو اس پر بھی اعتراض ہے سبزیوں کا یہ حال ہے کہ غریب اس اکتا دینے والی مہنگائی کے تلے دب گیا ہے دلیلیں دے کر غریب کو رنج و الم کے حصار میں کھڑا کردیا جاتا ہے جو ٹھیلے پر سبزی فروخت کر رہا ہے وہ لینے دینے کے بے شمار مسائل سے نمٹنے کے بعد ہر سبزی سو روپے کلو فروخت کر رہا ہے اور جس کے پاس 5 بائی 5 کی دکان ہے اس نے روڈ پر 20 فٹ جگہ پر قبضہ کر رکھا ہے اور ہر سبزی بڑے نخروں سے سکون کے ساتھ 150 روپے کلو فروخت کر رہا ہے جب کہ حکومت کو بیشتر دکاندار ٹیکس بھی نہیں دیتے اور اگر دیتے بھی ہیں تو 5بائی 5 کی جگہ کا 20 فٹ کا کوئی حساب کتاب نہیں۔
اس کا حساب کتاب دوسرے طریقے سے کیا جاتا ہے ان غلط کاریوں کا سدباب کیا جائے کہ غریب خریداروں کے بھی کچھ تحفظات ہیں کتنے مزے کی بات ہے کہ امیروں، بیورو کریٹس، ایم این ایز، ایم پی ایز، وفاقی وزرا، صوبائی وزرا کے اگر تحفظات ہوتے ہیں تو اس پر مل جل کر اتحاد کیا جاتا ہے اور آخر میں اب سب کے تحفظات کو احساس کی خوشبو کے تحت انتہائی عزت و احترام سے ایئرکنڈیشنڈ آفسوں میں بہتی گنگا کی طرح بغیر کسی لچکدار رویے کے تحت مسند اقتدار پر بیٹھے افراد کے مان لیے جاتے ہیں جب کہ غریب کے قدم بے شک لڑکھڑا جائیں ان کے تحفظات کا کوئی پرسان حال نہیں امیروں کے ان تحفظات کی وجہ سے انتظامی ڈھانچا تباہی کے دہانے تک پہنچ گیا ہے:
انھیں گماں کہ غروب ہو رہا ہوں میں
میں مطمئن کہ طلوع ہو رہا ہوں میں