حقیقی مستقبل کے لیے
احساس تب ہوتا ہے جب انسان کا آخری وقت سرپر آپہنچتا ہے
ISLAMABAD:
اسلامی عقیدہ آخرت مفہوم کے لحاظ سے اپنے دامن میں بڑی وسعت کا حامل ہے۔ یہ عقیدہ آخرت ہی کی بے مثال حکمتیں ہیں کہ جن کی بدولت ہماری معاشرتی زندگی اور اخلاقی نظام پر انتہائی سود مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آخرت کی سزاؤں کا تصور معاشرے کو خطرناک برائیوں اور گھناؤنے جرائم سے قطعی پاک کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے جب کہ آخرت کی لازوال نعمتوں کا تصور آدمی کو اس امر پر قائل کرتا ہے کہ اس دنیائے فانی کی تمام تر نعمتیں اورلذتیں آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔
اس طرح قدرتی وفطری طور پر دنیا کی آرائش اور ضرورت سے زائد چیزوں سے پرہیز اور قناعت کے ساتھ ساتھ آخرت کی فکر ان کاموں سے دلچسپی جو اُخروی زندگی میں نفع دے اﷲ عزوجل کے حضورحاضری کا شوق جو کچھ اﷲ عزوجل کے ہاں ہے، اسے ناپائیدار دنیا پر ترجیح دینا، ایمان پرخاتمہ اوراﷲ عزوجل کی راہ میں موت کا اس طرح استقبال کہ جیسے موت محبوب کے قربت حاصل کرنے کا وسیلہ ہو۔ یہ تمام امور آدمی کے احساس و شعور اور ایمان و وجدان کا جزو خاص بن جاتے ہیں۔
عقیدہ آخرت کا حامل شخص جب آخرت کا ذکروتذکرہ کرتا ہے تو اس پر ایک بے ساختگی لذت اور لطف کی وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ اسی ایمان کی بدولت انتہائی قوت، گرم جوشی اوریقین کے ساتھ اپنے دوسرے دینی بھائیوں کو بھی فکرآخرت کی دعوت دیتا ہے۔ درحقیقت یہ عقیدہ آخرت ہی کا کمال ہے کہ وہ قدرتی طور پر اپنے ماننے والوں میں اس عارضی و ناپائیدار دنیاوی زندگی کی بے وقعتی خواہشات پر قابو پانے اور مردانگی و حق پرستی کے اوصاف پیدا کرنے کا محرک بنتا ہے۔ بلاشبہ اسلام کی ابتدائی دورکی فتوحات وترقیات اور اس کی عام تبلیغ واشاعت اوراس میں کامیابیاں وکامرانیاں در اصل اسی ایمان اور فکر آخرت ہی کی بدولت اور مرہون منت تھیں۔
عہد حاضر میں فکرآخرت پر فکر دنیا حاوی نظر آتی ہے موجودہ انسانی معاشرے میں انسان مادی خواہشات کی تکمیل میں ہمہ وقت مصروف عمل نظر آتا ہے، وہ دنیا کے لیے کوشاں ہے، دماغ لا متناہی حرص و ہوس سے لبالب لبریز ہے، حلال و حرام جائز و ناجائز نیکی و بدی کی تمیز اٹھتی جارہی ہے، تقویٰ کی تعلیمات اور متقیوں کی حکایات ماضی بعید کا حصہ و قصہ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔
رشوت، سود خوری، غبن، دھوکا دہی، یتیموں اورکمزوروں کا ناحق مال کھانا، ماتحتوں کو غلام گرداننا، رشتے داروں اور دوسرے حق داروں کا حق مارنا، ناپ تول میں کمی وغیرہ ایسی برائیوں ہیں جنھیں اب کسی حد تک برا نہیں جانا جاتا، ایسے واقعات ہماری روز مرہ زندگی میں بے حد عام ہوچکے ہیں، حیات انسانی اب صرف دنیاوی معیارکی کسوٹی پر پرکھے جانے لگی ہے، جس میں آخرت کا دور دور تک کوئی حصہ نہیں ہے، حصہ ہو بھی توکیسے؟
ہمارے پاس تو آخرت کی دائمی و ابدی زندگی سے متعلق غوروفکر کے لیے وقت نہیں ہے اور جب غوروفکر نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ آخرت کے بارے میں قطعی شعور بھی نہیں رکھتے۔ دینی تعلیمات اور دینی معلومات کا شوق اب معاشرے سے مفقود ہوتا جارہاہے، قرآن حکیم فرقان حمید جو تمام انسانیت کے لیے سرچشمہ و رہنمائے ہدایت ہے۔ جس کے ذریعے اﷲ رب العزت تمام انسانیت سے مخاطب ہوا، اب صرف ہمارے گھروں میں محض خیروبرکت کی نیت سے خوبصورت و دیدہ زیب غلاف میں لپٹا مدتوں سے کسی بلند مقام پر رکھا ہے اور یہی کافی سمجھاجاتا ہے۔
ہم قرآن میں غوروفکر سے محروم رہتے ہیں، جب غوروفکر سے محروم رہتے ہیں تو دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے اسے اخروی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں، جب ہم اخروی زندگی پر دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر جائزوناجائز، حلال و حرام، نیکی و بدی کی تمیز رخصت ہوجاتی ہے اور ناجائز کام جائز لگتا ہے، حرام مال حلال معلوم ہونے لگتا ہے، ہر بدی نیکی کا روپ دھار لیتی ہے، معاشرے سے عقل و شعور اٹھ جاتا ہے، ابن آدم کو کوئی راہ نہیں سوجھتی، وہ ایک بندگلی میں دوڑتا چلا جاتا ہے۔
احساس تب ہوتا ہے جب انسان کا آخری وقت سرپر آپہنچتا ہے، جب موت کا فرشتہ بحکم ربی نازل ہوتا ہے اور انسان کو پھر ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں ملتی تب انسان کہتا ہے کہ ہائے میری شامت! پوری زندگی غفلت میں بیت گئی، ایسے سفر پر چلا جس کی کوئی منزل نہیں، ایسے راستے پر دیوانہ وار دوڑا جو آگے سے بند ملا، یا رب! ایک موقع عطا فرمادے، بس آخری بار مہلت اور دے دے، اب میں تیرا اور تیرے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانبردار رہوںگا، مکمل فرمانبردار! لیکن اب اﷲ عز وجل کی بات پوری ہوچکی ہے اور لمحہ بھر کی مہلت کا بھی سوال نہیں۔
اسلام چونکہ دین فطرت اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے لہٰذا اس کا ہر اصول بے مثال، اپنی مثال آپ اور لازوال ہے، لہٰذا اسی لیے دین محمدیؐ زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی مکمل رہنمائی فرماتا ہے پس مکمل ایمانداری کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے۔
عدم سے وجود، وجود سے عدم اور پھر عدم سے وجود در اصل یہی ہے راز حیات وکائنات، لہٰذا انسانی زندگی کے اس طویل سفر میں موت صرف ایک وقفہ ہے یعنی آگے بڑھیںگے دم لے کر، اس طرح زندگانی دو حصوں میں منقسم ہے اس میں دنیوی زندگی کا جو حصہ ہے اس کا مقصد ابتلا اور امتحان ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''اس نے موت اور حیات کا یہ سلسلہ اس لیے بنایا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون ہے، اچھے عمل کرنے والا'' اس زندگی کے بعد موت ہے اور پھر موت کے بعد دوبارہ زندگی ہے پھر حشر و نشر ہے۔
جزا و سزا کے فیصلے ہیں اس دن کو قرآن حکیم نے یوم الدین سے تعبیر فرمایا ہے یہ ہے وہ دن کہ جب طے ہوگا کہ انسان اپنی حیات دنیوی میں اپنی سعی و جہد کے اعتبار سے ناکام رہا یا کامیاب قرار پایا، لہٰذا دنیا کی زندگی تو درحقیقت کتابِ زندگی کے صرف دیباچے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب کہ اصل کتاب زندگی تو موت کے بعد کھلے گی، لہٰذا اس کی اخروی زندگی ہی درحقیقت اصل زندگی ہے جسے دوام حاصل ان ہی تمام امورکو تسلیم کرنے کا نام ایمان بالآخرت ہے۔ اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عقیدہ آخرت کو سمجھنے، اسے دل و دماغ سے ماننے، فکر آخرت کو زندگی کرنے اور اس کی بنیاد پر اپنے اعمال کو سنوارنے، نیز مستقبل حقیقی کے لیے صحیح معنوں میں جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
اسلامی عقیدہ آخرت مفہوم کے لحاظ سے اپنے دامن میں بڑی وسعت کا حامل ہے۔ یہ عقیدہ آخرت ہی کی بے مثال حکمتیں ہیں کہ جن کی بدولت ہماری معاشرتی زندگی اور اخلاقی نظام پر انتہائی سود مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آخرت کی سزاؤں کا تصور معاشرے کو خطرناک برائیوں اور گھناؤنے جرائم سے قطعی پاک کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتا ہے جب کہ آخرت کی لازوال نعمتوں کا تصور آدمی کو اس امر پر قائل کرتا ہے کہ اس دنیائے فانی کی تمام تر نعمتیں اورلذتیں آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔
اس طرح قدرتی وفطری طور پر دنیا کی آرائش اور ضرورت سے زائد چیزوں سے پرہیز اور قناعت کے ساتھ ساتھ آخرت کی فکر ان کاموں سے دلچسپی جو اُخروی زندگی میں نفع دے اﷲ عزوجل کے حضورحاضری کا شوق جو کچھ اﷲ عزوجل کے ہاں ہے، اسے ناپائیدار دنیا پر ترجیح دینا، ایمان پرخاتمہ اوراﷲ عزوجل کی راہ میں موت کا اس طرح استقبال کہ جیسے موت محبوب کے قربت حاصل کرنے کا وسیلہ ہو۔ یہ تمام امور آدمی کے احساس و شعور اور ایمان و وجدان کا جزو خاص بن جاتے ہیں۔
عقیدہ آخرت کا حامل شخص جب آخرت کا ذکروتذکرہ کرتا ہے تو اس پر ایک بے ساختگی لذت اور لطف کی وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ اسی ایمان کی بدولت انتہائی قوت، گرم جوشی اوریقین کے ساتھ اپنے دوسرے دینی بھائیوں کو بھی فکرآخرت کی دعوت دیتا ہے۔ درحقیقت یہ عقیدہ آخرت ہی کا کمال ہے کہ وہ قدرتی طور پر اپنے ماننے والوں میں اس عارضی و ناپائیدار دنیاوی زندگی کی بے وقعتی خواہشات پر قابو پانے اور مردانگی و حق پرستی کے اوصاف پیدا کرنے کا محرک بنتا ہے۔ بلاشبہ اسلام کی ابتدائی دورکی فتوحات وترقیات اور اس کی عام تبلیغ واشاعت اوراس میں کامیابیاں وکامرانیاں در اصل اسی ایمان اور فکر آخرت ہی کی بدولت اور مرہون منت تھیں۔
عہد حاضر میں فکرآخرت پر فکر دنیا حاوی نظر آتی ہے موجودہ انسانی معاشرے میں انسان مادی خواہشات کی تکمیل میں ہمہ وقت مصروف عمل نظر آتا ہے، وہ دنیا کے لیے کوشاں ہے، دماغ لا متناہی حرص و ہوس سے لبالب لبریز ہے، حلال و حرام جائز و ناجائز نیکی و بدی کی تمیز اٹھتی جارہی ہے، تقویٰ کی تعلیمات اور متقیوں کی حکایات ماضی بعید کا حصہ و قصہ پارینہ بنتی جارہی ہیں۔
رشوت، سود خوری، غبن، دھوکا دہی، یتیموں اورکمزوروں کا ناحق مال کھانا، ماتحتوں کو غلام گرداننا، رشتے داروں اور دوسرے حق داروں کا حق مارنا، ناپ تول میں کمی وغیرہ ایسی برائیوں ہیں جنھیں اب کسی حد تک برا نہیں جانا جاتا، ایسے واقعات ہماری روز مرہ زندگی میں بے حد عام ہوچکے ہیں، حیات انسانی اب صرف دنیاوی معیارکی کسوٹی پر پرکھے جانے لگی ہے، جس میں آخرت کا دور دور تک کوئی حصہ نہیں ہے، حصہ ہو بھی توکیسے؟
ہمارے پاس تو آخرت کی دائمی و ابدی زندگی سے متعلق غوروفکر کے لیے وقت نہیں ہے اور جب غوروفکر نہیں کرتے تو ظاہر ہے کہ آخرت کے بارے میں قطعی شعور بھی نہیں رکھتے۔ دینی تعلیمات اور دینی معلومات کا شوق اب معاشرے سے مفقود ہوتا جارہاہے، قرآن حکیم فرقان حمید جو تمام انسانیت کے لیے سرچشمہ و رہنمائے ہدایت ہے۔ جس کے ذریعے اﷲ رب العزت تمام انسانیت سے مخاطب ہوا، اب صرف ہمارے گھروں میں محض خیروبرکت کی نیت سے خوبصورت و دیدہ زیب غلاف میں لپٹا مدتوں سے کسی بلند مقام پر رکھا ہے اور یہی کافی سمجھاجاتا ہے۔
ہم قرآن میں غوروفکر سے محروم رہتے ہیں، جب غوروفکر سے محروم رہتے ہیں تو دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے اسے اخروی زندگی پر ترجیح دیتے ہیں، جب ہم اخروی زندگی پر دنیاوی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں تو پھر جائزوناجائز، حلال و حرام، نیکی و بدی کی تمیز رخصت ہوجاتی ہے اور ناجائز کام جائز لگتا ہے، حرام مال حلال معلوم ہونے لگتا ہے، ہر بدی نیکی کا روپ دھار لیتی ہے، معاشرے سے عقل و شعور اٹھ جاتا ہے، ابن آدم کو کوئی راہ نہیں سوجھتی، وہ ایک بندگلی میں دوڑتا چلا جاتا ہے۔
احساس تب ہوتا ہے جب انسان کا آخری وقت سرپر آپہنچتا ہے، جب موت کا فرشتہ بحکم ربی نازل ہوتا ہے اور انسان کو پھر ایک لمحے کی بھی مہلت نہیں ملتی تب انسان کہتا ہے کہ ہائے میری شامت! پوری زندگی غفلت میں بیت گئی، ایسے سفر پر چلا جس کی کوئی منزل نہیں، ایسے راستے پر دیوانہ وار دوڑا جو آگے سے بند ملا، یا رب! ایک موقع عطا فرمادے، بس آخری بار مہلت اور دے دے، اب میں تیرا اور تیرے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمانبردار رہوںگا، مکمل فرمانبردار! لیکن اب اﷲ عز وجل کی بات پوری ہوچکی ہے اور لمحہ بھر کی مہلت کا بھی سوال نہیں۔
اسلام چونکہ دین فطرت اور ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے لہٰذا اس کا ہر اصول بے مثال، اپنی مثال آپ اور لازوال ہے، لہٰذا اسی لیے دین محمدیؐ زندگی کے ہر شعبے میں انسان کی مکمل رہنمائی فرماتا ہے پس مکمل ایمانداری کے ساتھ عمل کی ضرورت ہے۔
عدم سے وجود، وجود سے عدم اور پھر عدم سے وجود در اصل یہی ہے راز حیات وکائنات، لہٰذا انسانی زندگی کے اس طویل سفر میں موت صرف ایک وقفہ ہے یعنی آگے بڑھیںگے دم لے کر، اس طرح زندگانی دو حصوں میں منقسم ہے اس میں دنیوی زندگی کا جو حصہ ہے اس کا مقصد ابتلا اور امتحان ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''اس نے موت اور حیات کا یہ سلسلہ اس لیے بنایا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون ہے، اچھے عمل کرنے والا'' اس زندگی کے بعد موت ہے اور پھر موت کے بعد دوبارہ زندگی ہے پھر حشر و نشر ہے۔
جزا و سزا کے فیصلے ہیں اس دن کو قرآن حکیم نے یوم الدین سے تعبیر فرمایا ہے یہ ہے وہ دن کہ جب طے ہوگا کہ انسان اپنی حیات دنیوی میں اپنی سعی و جہد کے اعتبار سے ناکام رہا یا کامیاب قرار پایا، لہٰذا دنیا کی زندگی تو درحقیقت کتابِ زندگی کے صرف دیباچے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب کہ اصل کتاب زندگی تو موت کے بعد کھلے گی، لہٰذا اس کی اخروی زندگی ہی درحقیقت اصل زندگی ہے جسے دوام حاصل ان ہی تمام امورکو تسلیم کرنے کا نام ایمان بالآخرت ہے۔ اﷲ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عقیدہ آخرت کو سمجھنے، اسے دل و دماغ سے ماننے، فکر آخرت کو زندگی کرنے اور اس کی بنیاد پر اپنے اعمال کو سنوارنے، نیز مستقبل حقیقی کے لیے صحیح معنوں میں جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)