ایک مستحسن اقدام
ریاستی اداروں کے عہدیداروں کی ریٹائرمنٹ معمول کا حصہ ہوتی ہے
PESHAWAR:
ریاستی اداروں کے عہدیداروں کی ریٹائرمنٹ معمول کا حصہ ہوتی ہے، لیکن پاکستان جیسے معاشروں میں جو فکری طور پر قبائلی ذہنیت اور جاگیردارانہ کلچرکی بندشوں میں جکڑا ہوا ہو، یہ معاملات کچھ زیادہ ہی اہمیت اختیارکر جاتے ہیں۔ خاص طور پر جب ملک کے انتظامی ڈھانچے پر سول اور ملٹری بیوروکریسی کسی نہ کسی شکل میں حاوی چلی آ رہی ہو، اس کے اعلیٰ عہدوں بالخصوص آرمی چیف کی تقرری اور تعیناتی عوامی توجہ کا مرکزومحور ہوتی ہے۔
پاکستان میں گزشتہ کئی مہینوں سے سیاسی پنڈت، صحافتی بوجھ بجھکڑ اور طوطا فال قسم کے تجزیہ نگاروں نے میاں نواز شریف کی منتخب حکومت کے جانے کی پیش گوئیوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ ان کی دلی آرزو تھی کہ جنرل راحیل شریف دوسرے شریف کا تختہ الٹ کو اقتدارکے سنگھاسن پر برا جمان ہو جائیں، مگر ان عناصرکو یہ اندازہ نہیں کہ ایک ایسا جرنیل جو اپنی سرشت میں پیشہ ور سپاہی ہو، وہ سیاسی ایڈونچر نہیں کرتا۔ راحیل شریف کا معاملہ اس سے بڑھ کر ہے۔
وہ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جس کے دو افسران نے ملک کے تحفظ کی خاطر جان کا نذرانہ پیش کر کے نشان حیدر جیسا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کیا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سیاست کے خار زار میں قدم رکھنے کے نتیجے میں صرف فرد واحد ہی عوامی تنقیدوتضحیک کا نشانہ نہیں بنتا، بلکہ خاندان کی عزت وناموس بھی متاثر ہوتی ہے۔ لہذا ان سے غیر آئینی اقدام کی توقع نہیں ہو سکتی۔
علاوہ ازیںچند دیگر اہم پہلوبھی ہیں، جن پر ہمارے تبدیلی کے خواہاں دانشوروں نے توجہ نہیں دی۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، وہ کسی بھی طور اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ کوئی ایڈونچرکیا جائے۔ خطے کی انتہائی دگرگوں صورتحال بھی ایسے کسی اقدام کے لیے موزوں نہیں جس سے سیاسی انتشار میں اضافہ ہو۔ یہ بات فوج کے ذمے دار بھی محسوس کرتے ہیں اور ریاستی منصوبہ ساز بھی۔ اس لیے سیاسی حکومت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ کو بہتر بنا کر مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے خواہاں ہیں۔
اب جہاں تک ان عناصرکا معاملہ ہے، جو جمہوری حکومت کے خاتمے کی خواہشات کا بڑے وثوق سے اظہار کرتے رہے ہیں۔ وہ دراصل اپنے مستقبل کے تاریک ہو جانے کے خوف میں مبتلا ہیں۔
خاص طورپر وہ سیاستدان ، جن کا سیاسی قدکاٹھ صرف غیر جمہوری دور حکمرانی ہی میں بڑھتا ہے۔ جب کہ وہ صحافی اور تجزیہ نگارجو صبح سے شام تک ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر سیاسی حکومت کے خاتمے کے لیے الٹی گنتی گنتے رہے ہیں۔ دراصل چٹ پٹی خبروں اورکہانیوں کے ذریعے اپنی اہمیت جتانے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ اول تو ان میں سے بیشتر میدان صحافت میں آسمان سے ٹپکی مخلوق ہیں، جنھیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ آزادی اظہار، جمہوری اقدار سے مشروط ہوتی ہے۔ دوسرے انھیں اس بات کی بھی آگہی نہیں کہ پرنٹ میڈیا کے صحافیوں نے آزادیِ اظہار کے حصول کی خاطرکئی دہائیوں پر محیط طویل جدوجہد کی ہے۔
دراصل پاکستان کی70 برس کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں، تو ابتدائی دس برس سول بیوروکریسی ریاستی منصوبہ سازی اور امور سلطنت پرحاوی نظر آتی ہے۔ دوسری دہائی سے فوج کی بالادستی کا دور شروع ہوا، لیکن اس کی بنیاد پہلی دہائی میں کیے جانے والے بعض فیصلوں کی وجہ سے رکھی جا چکی تھی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے دبنگ سیاستدان میاں افتخار الدین مرحوم نے 1953ء میں لاہور سمیت پنجاب کے چند شہروں میں لگنے والے مارشل لا کو پورے ملک میں مارشل لا کی ریہرسل قرار دیا تھا۔ اس سلسلے میں دوسرا فیصلہ 1954ء میں بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو وردی میں وزیر دفاع مقررکیا جانا تھا۔
سیاسی حکومت اور سیاستدانوںکی کردار کشی کا سلسلہ پہلے روز ہی سے شروع ہو گیا تھا۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ قیام پاکستان سے تین روز قبل بانی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی جانے والی تقریر سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی مرحوم کی ہدایت پر سنسر کی گئی۔ معروف دانشور حمزہ علوی کے مطابق لیاقت علی خان گو کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم تھے، مگر انھیں اپنی کابینہ کے وزرا کے انتخاب کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔ کئی وزرا بالخصوص وزیر خزانہ ملک غلام محمد مرحوم بیوروکریسی کی خواہش پر کابینہ میں شامل کیے گئے۔
ان کی چار سالہ وزارت عظمیٰ کے د وران شاذونادر ہی کابینہ کے اجلاس ہو سکے۔ اس دوران دو مرتبہ انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ بھی دیا۔ وہ اکثر اپنے وزرا سے کہا کرتے تھے کہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے چوہدری محمدعلی سے مشورہ کرلو،کیونکہ اہم ریاستی فیصلے چوہدری محمدعلی چند سینئر بیوروکریٹس کی مشاورت سے کیا کرتے تھے۔
یہ واقعات اس بات کا اظہار ہیں کہ سیاستدان پہلے روز ہی سے بے دست وپا کردیے گئے تھے۔ رہی سہی کسر ایوب خان کی آمریت نے پوری کردی۔ جنہوں نے ایبڈوکے ذریعے کئی اہم سیاستدانوں کو سیاسی عمل سے نکال باہرکیا،جن کا تقسیم ہند میں کلیدی کردار تھا۔کتنی عجیب بات ہے کہ شیر بنگال مولوی فضل الحق، جنہوں نے 1940ء میں لاہور کے مقام پر قرارداد پاکستان پیش کی، قیام پاکستان کے چند برسوں کے اندر ملک دشمن قرار پائے۔
سائیں جی ایم سید جن کی مساعی سے سندھ اسمبلی میں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور ہوسکی، وہ بھی پاکستان کے مخالف ٹہرے۔شیخ مجیب جس نے اپنی جوانی پاکستان کے بننے کے لیے وقف کردی تھی، وہ بھی ملک دشمن قرار پایا۔ایسی ان گنت مثالیں ہیں، جب سیاستدان بیوروکریسی کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوئے اور صحافیوں کے ایک مخصوص ٹولے نے بیوروکریسی کے ہاں میں ہاں ملائی۔ایسے صحافی اور تجزیہ نگار ہر دور میں اپنی ڈفلیوں اور بانسریوں کے ساتھ موجود رہے ہیں۔
سیاستدانوں پر بے جاتنقید اورکردار کشی کی اس حد تک سرپرستی کی گئی کہ غیر ملکی سفیروں کو بھی تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے بھری محفلوں میں سیاستدانوں پر تنقید کرنے کاحوصلہ ہوا۔ جس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ 1957ء میں ایک تقریب کے دوران پاکستان میں امریکی سفیر نے میاں افتخار الدین پر نام لے کر تنقید کی، مگر کسی حکومتی ذمے دار کو یہ جرأت نہ ہوسکی کہ وہ انھیں سفارتی آداب یاد دلاتا۔اس کے برعکس پیرا سائیٹ قسم کے صحافیوں نے بغیر سوچے سمجھے اس تنقید کو نمک مرچ لگا کر پیش کیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امریکی سفیر نے جو کچھ کہا وہ درست تھا۔یہ وہ اخبارات تھے، جو پروگریسو پیپرزکی پبلیکشنزسے حسد کا شکار تھے۔
ایسے ہی عناصر آج بھی موجود ہیں، جو تمامتر خرابی بسیارکی ذمے داری کا ملبہ سیاستدانوں پر ڈال کر اپنی دانشوری کا سکہ بٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔حالانکہ اس ملک کا ہر متوشش شہری یہ جانتا ہے کہ 32 برس چار فوجی آمریتیں اقتدار کے سنگھاسن پربراجمان رہیں، مگر وہ بھی سوائے نت نئے تجربات کرنے کے کچھ اور نہیں کرسکیں۔ بقیہ38برسوںکے دوران جو سیاسی حکومتیں قائم ہوئی، وہ بھی عوام کو ڈیلیورکرنے میںاس لیے ناکام رہیں کہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ لہٰذا خرابی بسیارکی تمامتر ذمے داری سیاست دانوں کے سر تھوپناکسی طورانصاف نہیں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں سیاست اشرافیائی کلچرکی زد میں ہے اور اس میں عوام کوڈیلیورکرنے کی اہلیت کم ہے، لیکن اشرافیائی کلچر کا خاتمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ سیاسی عمل تسلسل کے ساتھ کسی رکاوٹ کے بغیر چلتا رہے۔
شیخ ایاز مرحوم کی ایک سندھی نظم ہے ''سچ وڈو ڈوہاری آ'' (سچ بہت بڑا مجرم ہے)۔ ویسے تو یہ ایک آفاقی حقیقت ہے، لیکن پاکستان میں اس کے شواہد جا بجا نظر آتے ہیں۔ اس اظہاریے کا مقصد کسی بھی طورپر مسلم لیگ(ن) کی حکومت کی خراب حکمرانی، انتظامی خرابیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں کو سند فراہم کرنا نہیں ہے۔
موجود حکومت کی کارکردگی پر عدم اعتماد اپنی جگہ، مگر اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ منتخب حکومت کو غیرآئینی اورغیر سیاسی طریقے سے ختم کر دیا جائے۔ تنقید ہمارا حق ہے، جو ہم کرتے رہیں گے۔بہرحال خوشی اس بات کی ہے کہ ملک ایک مثبت سمت میں رواں ہوا چاہتا ہے۔ جس طرح2013ء میں مہذب اور شائستہ طریقے سے ایک منتخب حکومت نے دوسری منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کیا، وہی سلسلہ اب آگے بڑھا ہے اور اب ہم اپنے ہیروزکو ان کی مدت ملازمت پوری ہونے پرعزت وتوقیر کے ساتھ رخصت کرنے کی روایت کے امین بنے جارہے ہیں۔