سخت مانیٹرنگ کے بغیر

حکمراں طبقات جب کسی عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہیں تو اس علاقے کی ترقی کے لیے اربوں روپوں کی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں


Zaheer Akhter Bedari November 28, 2016
[email protected]

PESHAWAR: ایک خبر کے مطابق قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں وزارت دفاع کے 40 ارب 2 کروڑ پندرہ لاکھ روپے کے آڈٹ اعتراض پیش کیے گئے ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق وزیر اعظم نے گرین پاکستان کے حوالے سے ملک بھر میں 10 کروڑ پودے لگانے کی منظوری دی تھی۔ اس فیصلے کے لیے 17-ء 16ء کے بجٹ میں مختص ایک ارب روپے میں سے اب تک کوئی رقم جاری نہیں کی گئی اور وزیر اعظم کا یہ انتہائی اہم پروگرام 8 ماہ گزرنے کے باوجود روبہ عمل نہ لایا جا سکا۔

حکمراں طبقات جب کسی عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہیں تو اس علاقے کی ترقی کے لیے اربوں روپوں کی اسکیموں کا اعلان کرتے ہیں لیکن زور بیان اور عوام کو متاثر کرنے کے لیے کیے جانے والے اس قسم کے اربوں مالیت کے پروگراموں پر عملدرآمد کرنے کے حوالے سے تفصیلات سامنے نہیں آتیں۔ اسٹیل ملز ملک کا ایک اہم قومی ادارہ ہے ۔ میڈیا کے مطابق اب تک اس ادارے میں اربوں کی کرپشن ہوئی ہے۔

کیا کرپشن کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف اور کرپشن روکنے کے حوالے سے سخت اقدامات کیے گئے؟ اسٹیل ملز اب تقریباً تباہ ہو چکی ہے اگر اس کو منافع بخش طور پر چلانے کے احکامات نہیں ہیں تو پھر اس ادارے کو زندہ کیوں رکھا جا رہا ہے۔ اس طریقہ کار سے ملک اوراس قومی ادارے کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس کا انکشاف سرکار کو کرنا چاہیے۔ہمارے ملک میں ترقیاتی کاموں کے لیے مرکزی اور صوبائی بجٹوں میں اربوں ڈالر رکھے جاتے ہیں اور یہ بھاری رقمیں خرچ بھی ہو جاتی ہیں لیکن اس حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بجٹ کا درست استعمال ہو رہا ہے؟

یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ میڈیا میں آئے دن ترقیاتی بجٹ کے استعمال کے حوالے سے بڑی بڑی بدعنوانیوں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اسٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے جیسے قومی اداروں میں بدعنوانیوں کی خبریں ہمارے میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں بلکہ ان اداروں کی تباہی کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ ان اداروں میں موجود بیورو کریسی نے اربوں کی لوٹ مار کر کے ان اداروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ بڑی کرپشن کا ارتکاب ''بڑے لوگ'' ہی کرتے ہیں لیکن اس کرپٹ سسٹم میں اعلیٰ سطح سے لے کر ادنیٰ ترین سطح تک کرپشن کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

ہمارے ملک میں جو بڑے بڑے اربوں کے پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے، ان میں کئی موٹروے،کراچی کی گرین لائن بس سروس اور سب سے بڑا پراجیکٹ ''اقتصادی راہداری'' ہے جو چین کی پارٹنر شپ میں تیار کی جا رہی ہے۔ اس لگ بھگ 43 ارب ڈالر کے منصوبے پر عملدرآمد کی ذمے داری اعلیٰ سطح سے نچلی سطح تک ہوتی ہے اور ہمارے سسٹم میں جس کو جتنی کرپشن کا موقع ملتا ہے وہ دھڑلے سے کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بڑے بڑے ترقیاتی پروگراموں پر جوکھربوں روپے مختص کیے جا رہے ہیں کیا ان کی مانیٹرنگ کا کوئی انتظام ہے؟ بدقسمتی سے اس کا جواب نفی ہی میں آتا ہے۔ اگرچہ ہمارے ملک میں مانیٹرنگ کے لیے پارلیمنٹ نے قائمہ کمیٹیاں بنائی ہیں اور وہ فعال بھی نظر آتی ہیں لیکن جب تک مانیٹرنگ کا ایک علیحدہ آزاد اور خودمختار نظام موجود نہیں ہو گا کرپشن کا بامعنی خاتمہ ممکن نہ ہو گا کیونکہ اسی سسٹم کے لوگوں کو مانیٹرنگ کی ذمے داری سونپی گئی تو بہت ساری دشواریوں بہت سارے تحفظات درپیش رہنا ایک فطری بات ہو گی۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر روز 13 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، اگر یہ درست ہے تو ماہانہ 390 ارب روپے کی کرپشن اور سالانہ 4680 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اگر یہ کھربوں روپے کرپشن سے بچائے جائیں تو عوام کے معیار زندگی میں قابل ذکر بہتری آ سکتی ہے۔ کرپشن کے میڈیا میں آنے والے اعدادوشمار یقینی طور پر حکمرانوں کی نظر سے بھی گزرتے ہوں گے پھر اس کے سدباب کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے جا رہے ہیں؟

اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب حکمران طبقہ ہی کرپشن کا ارتکاب کرے توکرپشن کون روک سکتا ہے؟ مثال کے طور پر راہداری پروجیکٹ ہی کو لے لیں اس 43 ارب ڈالر کے منصوبے میں بدعنوانیوں کو روکنے کا کوئی مانیٹرنگ نظام موجود ہے؟ ہو سکتا ہے فرض کی ادائیگی کے لیے کوئی مانیٹرنگ کا ادارہ قائم کیا گیا ہو لیکن اس قسم کے نام نہاد اداروں سے کرپشن کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے۔ ہر ملک میں عوام بدعنوانیوں کی روک تھام کے لیے احتسابی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں لیکن صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پسماندہ ممالک میں عموماً احتسابی ادارے کرپشن روکنے کے بجائے کرپشن میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

احتسابی اداروں میں سب سے بڑا ادارہ عدلیہ ہے، لیکن بڑے دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سیاسی دباؤ نے عدلیہ کو بھی متاثر کیا ہے۔۔ ایسی صورت حال میں کرپشن کی مانیٹرنگ کا کام ان افراد یا اداروں سے لیا جانا چاہیے جو مکمل طور پر غیرجانبدار اور سیاسی دباؤ سے آزاد ہوں ایسے افراد اور ادارے بلاشبہ پاکستان سمیت دیگر پسماندہ ملکوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاردربارکی نظروں سے اوجھل اورگوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ایسے افراد اور اداروں کو ڈھونڈا جائے اور ان کی خدمات حاصل کی جائیں کیونکہ اگر مانیٹرنگ کا سخت نظام نہ ہو تو اقتصادی راہداری سمیت کوئی منصوبہ اربوں کی کرپشن سے پاک نہیں ہو سکتا۔ سوشلسٹ نظام معیشت میں نجی ملکیت کے حق پر پابندی لگا کر اس ناسورکوکامیابی سے ختم کر دیا گیا تھا لیکن کرپشن کے سرپرست نظام سرمایہ داری کے محافظوں نے سوشلسٹ معیشت کے خلاف شش جہتی اقدامات کر کے کرپشن کے راستوں کوکھول دیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں