ٹرمپ پروف عالمی ماحولیاتی کانفرنس

پاکستان کی طرف سے معاہدے کی دستاویز پر صدرممنون حسین نے دستخط کیے


محمود عالم خالد November 27, 2016
[email protected]

KARACHI: 12 دسمبر 2015ء کو پیرس میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی سربراہی کانفرنس کے آخری دن جب عالمی رہنماؤں نے ماحولیاتی تحفظ کے تاریخی معاہدے کو متفقہ طور پرمنظورکیا وہ دن کرہ ارض کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ واضح رہے کہ 30 نومبر سے 11 دسمبر تک جاری رہنے والی کانفرنس میں شرکاء کو تاریخی ماحولیاتی معاہدے پر متفق ہونے کے لیے مزید ایک دن کا وقت دیا گیا تھا۔پیرس موسمیاتی معاہدے میں اتفاق رائے سے طے کیا گیا کہ عالمی تپش میں ہونیوالے اضافے کو محدود کیے بغیر موسمیاتی تبدیلی اور اس کے بھیانک اثرات کو روکنا نا ممکن ہے۔

اس لیے عالمی درجہ حرارت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے عالمی سطح پر ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے جس کے لیے عالمی حکومتوں نے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے اپنے اپنے ملکوں کی طرف سے ماحولیاتی منصوبے پیش کیے جنھیں این ڈی ایس کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے کیمطابق دنیا کے وہ 55 ممالک جوگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے 55 فیصد ذمے دار ہیں جب اس معاہدے کی توثیق کردیں گے تو اس کے 30 دن بعد یہ معاہدہ نافذ العمل ہوجائے گا۔

پاکستان کی طرف سے معاہدے کی دستاویز پر صدرممنون حسین نے دستخط کیے اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں یہ دستاویزجمع کرائی۔پیرس موسمیاتی معاہدے کے بعد اقوام متحدہ اور عالمی حکومتوں نے بھرپور مشاورت کا سلسلہ جاری رکھا،اکتوبر 2016 کے دوسرے ہفتے رونڈا میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں ایک اور تاریخی پیش رفت سامنے آئی جب 150 سے زائد ملکوں نے زہریلی گیسوں کو محدود کرنے کے لیے مانٹریال پروٹوکول معاہدہ میں ایک انتہائی مشکل ترمیم کو شامل کیا ۔

جس کے تحت پہلی مرتبہ دنیاکے ترقی یافتہ ملکوں سے کہا گیا کہ وہ ترقی پذیر اورغریب ملکوں سے پہلے ہائیڈروجن، فلورین اورکاربن ڈائی آکسائڈ کے استعمال کوکم کریں۔اس معاہدے کے تحت مختلف ملکوں کے لیے 3 طرح کے طریقہ کار وضع کیے گئے۔ امریکا، یورپی ملکوں اورصنعتی طور پر دیگر ترقی یافتہ ملکوں سے کہا گیا کہ چند سالوں کے اندر ہائیڈروفلوروکاربن گیسوں میں کم از کم 10 فیصد کمی کریں جب کہ چین،لاطینی امریکا اور جزیرہ نما ریاستیں 2024ء تک ان مہلک گیسوں کا استعمال بند کردیں، غریب اورترقی پذیر ملک جن میں ایران، عراق، انڈیا، پاکستان اور خلیجی ممالک شامل ہیں کو ان زہریلی گیسوں کا استعمال ختم کرنے کی مہلت 2028 تک دی گئی۔ سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ اگر اس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل کرلیا جائے تو 2050ء تک کرہ ارض کے ماحول میں 70 ارب ٹن کا ربن ڈائی آکسائیڈ ختم ہوجائے گی۔

7 نومبر کو مراکش میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ 22) کے شروع ہونے سے قبل 4 نومبر کو ایک اور تاریخی مرحلے اس وقت مکمل ہوا جب یورپی یونین نے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے کی توثیق کردی یوں وہ 55 ممالک جوگرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 55 فیصد کے ذمے دار تھے نے پیرس موسمیاتی معاہدے کی توثیق مکمل کردی جس کے 30 دنوں بعد یہ معاہدہ نافذالعمل ہوجائے گا۔اب یہ معاہدہ ایک عالمی قانونی دستاویزکی شکل اختیارکرچکا ہے جس پر عمل درآمدکرنا اب ہر ملک کی ذمے داری ہے۔

مراکش میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ 22) کا بنیادی مقصد بھی پیرس معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق اقدامات کو حتمی شکل دینا تھا کیونکہ معاہدے کی مکمل توثیق کے بعد اب عالمی حکومتیں اس بات کی پابند ہوگئی ہیں کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی کے ساتھ جنگلات و جنگلی حیات کے تحفظ اور متبادل توانائی کے استعمال کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔کانفرنس میں ماحولیاتی منصوبوں سے متعلق تمام قوانین کو واضح کیا گیا، اسی حوالے سے ہر ملک نے واضح کیا کہ وہ اپنے اپنے ماحولیاتی منصوبوں کی شفافیت کو برقرار رکھیں گے۔

واضح رہے کہ ماحولیاتی منصوبوں پر ہر پانچ سال بعد نظر ثانی کی جائے گی۔ امریکا، برطانیہ، جرمنی سمیت دیگر ترقی یافتہ ملکوں نے ترقی پذیر اورغریب ملکوں جوکاربن کے اخراج کے انتہائی معمولی ذمے دار ہیں کو امداد فراہم کرنے کی یقین دہانیاں بھی کرائی۔ 45 ترقی پذیر اورغریب ملکوں کے اتحاد جس میں زیادہ ترایشیا اور افریقی ممالک شامل ہیں کو سی وی ایف کے نام سے جانا جاتا ہے نے اعلان کیا کہ وہ اپنی توانائی کی تمام ضروریات قابل تجدید توانائی کے ذریعے حاصل کرنے کے لیے 2020 تک اپنے اہداف کو حتمی شکل دے دیں گے۔

اقوام متحدہ نے اس اعلان کو حیرت انگیز پیش رفت قرار دیا، کچھ مبصرین نے اس اعلان کو عالمی کانفرنس کی جانب سے طاقتور پیغام سے تعبیر کیا جب کہ کچھ کے نزدیک یہ ناممکن ہے۔196 ملکوں کے دستخطوں سے جاری ہونیوالے اعلامیے میں کہا گیا کہ اعلیٰ سطح پر سیاسی عزم کے ساتھ ماحولیاتی مسائل کو اولیت دی جائے۔ کانفرنس میں 2020 تک پیرس معاہدے پر عمل درآمد کی حد مقررکی گئی ہے،کانفرنس میں موجود شرکا ء نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا اظہارکیا۔ اس کانفرنس میں متفقہ طور پر اعلان کیا گیا کہ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار غیرمعمولی ہے اور یہ ناقابلِ واپسی ہے جب کہ یہی پیغامات کانفرنس میں موجود ریاستوں،کاروباری اداروں، غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی مسلسل دہرائے گئے۔

اس کانفرنس کی اصل اہمیت یہ تھی کہ ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے پر عمل درآمد کے لیے حتمی فیصلے مشاورت کے ذریعے کیے جائیں۔اس کانفرنس میں 22500 سے زائد شرکاء جن میں 50 ملکوں کے سربراہان بھی شامل تھے کے علاوہ 15800 حکومتی نمایندے، اقوام متحدہ کی مختلف باڈیز اور ایجنسیز، بین الحکومتی اور سول سوسائٹی کے 5400 نمایندوں کے علاوہ 1200 نمایندوں کا تعلق میڈیا سے تھا۔میڈیا رپورٹنگ اور شرکاء میں ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب بھی موضوع بحث رہا جب کہ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ وہ پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیارکرلیں گے غیر یقینی کی فضا ضرور محسوس کی گئی لیکن عالمی برادری نے اس کانفرنس کے ذریعے یہ واضح پیغام دیا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر متحد ہیں۔

2018ء میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ 23) فجی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ فجی کے وزیراعظم فرینک ہائنماراما نے امریکا کے نئے سربراہ ڈونلڈ ٹرمپ سے اپیل کی کہ وہ بحرالکاہل کے جزائر کو بچانے میں مد دیں۔ انھوں نے کوپ کے اگلے سربراہ کا عہدہ قبول کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ دھوکا نہیں ہے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ٹرمپ اپنے شکوک و شبہات کو دورکریں اور اپنے موقف سے دستبردار ہوکر اس کی قیادت کریں۔ انھوں نے امریکی عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ درجہ حرارت میں ہونیوالے اضافے کے نتیجے میں سمندروں کی بڑھتی ہوئی سطح کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی مدد کو آگے آئیں بالکل اسی طرح جیسے ہم نے دوسری جنگ عظیم کے تاریک دنوں میں امریکا کی جانب دیکھا تھا۔

آج دنیا سیاسی ومعاشی لحاظ سے بہت تبدیل ہوچکی ہے، اقوام متحدہ، عالمی حکومتیں اور پالیسی ساز موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں ناکامی کے اثرات اور اس کے نتیجے میں کرہ ارض کو لاحق خطرات سے مکمل طورپر واقف ہوچکے ہیں۔ پندرہ سال قبل مراکش (2001) ہی میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے اعلان کیا تھا کہ وہ کیوٹو پروٹوکول معاہدے کی توثیق نہیں کریں گے لیکن آج پیرس میں ہونیوالے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے اور اس پر عمل درآمد کرنے کے لیے ہونے والی تاریخی پیش رفتوں کو روکنا اب نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا۔ یہ پیش رفتیں اب ٹرمپ پروف ہوں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں