دوسری شادی

زیراعظم نے اپنی سیکریٹری عالیہ سے شادی کرلی جب کہ ان کی پہلی بیوی حمیدہ بانو بھی ان کے نکاح میں تھیں


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate November 27, 2016
[email protected]

وزیراعظم نے اپنی سیکریٹری عالیہ سے شادی کرلی جب کہ ان کی پہلی بیوی حمیدہ بانو بھی ان کے نکاح میں تھیں۔ محمد علی بوگرہ کی دوسری شادی پر ماڈرن خواتین نے بڑا احتجاج کیا۔ قاہرہ اور لندن میں رہنے والی لبرل بیگمات بھی وزیر اعظم پر غصے میں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بوگرہ نے برطانیہ میں پاکستانیوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ یہ سب کچھ سن کر پاکستان کے علما نے اپوا کی بیگمات پر جوابی حملہ کیا۔

انھوں نے پاکستان اور انگلینڈ کے سیاست دانوں، کھلاڑیوں، اداکاروں اور مشہور لوگوں کی گرل فرینڈز کی بات کرکے اسے مغربی تہذیب کا دوغلا پن قرار دیا۔ علما اور بیگمات کی کشمکش کا تفصیلی ذکر ''عزم نو'' میں چند ماہ قبل کیا جاچکا ہے۔ آج ہم پاکستان کے ابتدائی دور میں دوسری شادی کے حوالے سے ہونے والی نظریاتی جنگ کی بات کریں گے۔

وار اور جوابی وار بڑے دلچسپ تھے۔ یہی وہ دور تھا جب ''ملا اور مغرب زدہ'' کی اصطلاحیں وجود میں آئیں۔ علما نے کہا کہ جبہ و دستار والوں سے زیادہ کوٹ پینٹ والوں کی دوسری شادیاں ریکارڈ پر ہیں۔ سیکولر خواتین کا ساتھ دیتے ہوئے لبرل حضرات نے بھی مردوں کی دوسری شادی پر پابندی کا مطالبہ کردیا۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں محمد علی بوگرہ پرائم منسٹر ہاؤس سے رخصت ہوئے۔ چوہدری محمد علی وزیر اعظم بن گئے۔

انھوں نے چیف جسٹس عبدالرشید کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا جس نے نکاح، طلاق، تعدد ازدواج، وصیت، مہر، بیوی بچوں کا گزارہ، حضانت، فیملی کورٹس، وراثت، مال یتیم، حلالہ، عدت کے حوالے سے سفارشات مرتب کیں۔ وقت گزرتا گیا اور سہروردی کے بعد چند دیگر اور ان کے بعد فیروز خان نون بھی رخصت ہوئے اور معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ ایوب خان جب پاکستان کے صدر بنے تو انھیں یاد آیا کہ محمد علی بوگرہ کی دوسری شادی کے حوالے سے ایک معاملہ اٹھا تھا۔ فوجی حکومت نے کمیشن کی سفارشات منظور کرلیں۔ سب سے نازک معاملہ نکاح ثانی کا تھا۔

پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی پر پابندی عائد کی گئی تھی جب تک ثالثی کونسل سے اجازت حاصل نہ کی جائے۔ تحریری اور پیشگی اجازت۔ گھریلو معاملے کو پنچایت کے حوالے کرنے کی بات پر علما نے سخت مزاحمت کی۔ ایوب خان کو علما کے خطوط اور صدر کے جوابات تاریخ کا حصہ ہیں۔ مذہبی طبقے کا کہنا تھا کہ اسلام دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن اسے لازمی قرار نہیں دیتا۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے چودہ علما نے مسلم فیملی لا آرڈیننس پر متفقہ تبصرہ کیا۔

ایک طرف ایوبی حکومت کی قانون سازی تھی تو دوسری طرف لبرل طبقے کی حوصلہ افزائی تو تیسری طرف علما کی مزاحمت۔ ایسے میں اس دور کی اخباری خبریں اور کالم و مضامین دو مختلف نظریات اور دو متضاد تہذیبوں کی منظر کشی کرتے تھے۔ کاٹ دار اخباری خبروں اور زوردار بحثوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہم اس دور کی مشہور فلم ''سہیلی'' کی جانب آئیں گے جس میں ایک مرد کے نکاح میں دو بیویوں کی موجودگی کو موضوع بحث بنایا گیا تھا۔ پہلے کاٹ دار اخباری کالم کی جھلک۔

''آگے آگے چند بیگمات دکھائی دیتی ہیں اور ان کے پیچھے پرستاران فرنگ کا مختصر سا طبقہ ہے جو تاویل کی چھلنی اور انکار سنت کے ہتھوڑوں کی ضربوں سے تراش رہے ہیں۔ پھر ان کے پیچھے کمال ازم کی صہبا کے سرپرست ہیں اور آخر میں بیرونی کرم فرما ہیں جو چاہتے ہیں کہ ایک ہی انقلابی ہلے میں نظریہ اسلامی کی دستار اکھاڑ پھینکیں اور اگر قوم نہ مانے تو اس کے خون سے ہاتھ رنگین کرلیں۔''

اخباری خبروں اور کالم پر بے شک دوسرے دن پکوڑے کھائے جاتے ہوں لیکن یہ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حکومت، علما اور بیگمات پر مشتمل اس مثلث کی جنگ ساٹھ کی دہائی میں اپنے اندر دلچسپی لیے ہوئے تھی۔

کچھ علما کی جانب سے نابالغ لڑکے لڑکی کے نکاح کو غیر قانونی قرار دینے کو سراہا گیا تو کچھ نے یتیم پوتے کو دادا کی وراثت میں سے حصہ دلانے کے قانون کی تعریف بھی کی۔ اکثر نے دوسری شادی میں رکاوٹ ڈالنے کو ناقابل عمل قرار دیا جب کہ عورتوں کی حالت سدھارنے کو بہتر سمجھا۔ خواتین کی جانب سے کہا گیا کہ عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن سوکن کو گوارا نہیں کرسکتی۔ 65 میں ایس ایم یوسف نے ''سہیلی'' نامی فلم بناکر تصویر کا دوسرا رخ دکھایا۔ آئیے اب دوسری شادی کے حوالے سے سیاست و قانون کے ساتھ ساتھ اس دور کی ایک فلم کا جائزہ لیتے ہیں۔

فلم ''سہیلی'' کی تعریف تو سنی تھی لیکن دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ بھٹو اور ضیا کا زمانہ ہمارے لڑکپن اور جوانی کا زمانہ تھا۔ اس دور میں کئی پرانی فلمیں دیکھنے کا موقع ملا لیکن ان میں ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم نہ تھی۔ ہماری جوانی بہترین پاکستانی فلمیں سینماؤں میں اور عمدہ بھارتی فلمیں وی سی آر پر دیکھنے سے عبارت ہے۔

جب پرانی فلمیں سینماؤں میں لگتیں تو اخبارات میں اشتہارات ہوتے۔ ''آخری چار شو یا آخری دو دن رہ گئے ہیں پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی''۔ ڈش اور کیبل کے بعد نیٹ کا دور آیا جو ہماری ڈھلتی جوانی اور ادھیڑ عمری کا دور تھا۔ اب کوئی بھی شخص کوئی بھی فلم اپنے موبائل پر کسی بھی وقت دیکھ سکتا ہے۔ کئی کئی دنوں میں ہی سہی، ٹکڑوں ٹکڑوں میں ہی سہی، قسطوں میں ہی سہی، آہستہ آہستہ ہی سہی، موقع ملا کہ بھولی بسری اور تاریخی فلموں کی فہرست بنائی جائے اور ماضی کو حال میں سمیٹ کر اس دور کو سمجھا جائے۔

اس کوشش میں فلم ''سہیلی'' بھی تھی۔''مسلم فیملی لا آرڈیننس 1961'' اور اس کے چار سال بعد دوسری شادی کے موضوع پر ریلیز ہونے والی فلم پر آج ہم گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ تو سنا تھا کہ نیر سلطانہ نے قربانی دے کر اپنے شوہر کی شادی اپنی سہیلی سے کروائی تھی۔ کیوں؟ کیا دونوں ایک ہی شخص سے محبت کرتی تھیں؟ کیا ہیرو ایک ہی تھا؟ کیا درپن کا ڈبل رول تھا؟ یہ وہ سوالات تھے جن پر پردہ پڑا ہوا تھا کہ فلم ہم نے پردہ اسکرین پر نہیں دیکھی تھی۔ طاقتور حکومت کی پالیسی سے ہٹ کر ایک مقبول اور نغماتی فلم نے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا۔ دوسری شادی کے حوالے سے تصویر کا دوسرا رخ۔

''شمیم آرا اور نیر سلطانہ سہیلیاں ہوتی ہیں اور الگ الگ شہروں میں رہتی ہیں۔ ہیروئن کی بیماری پر درپن اپنی مریضہ کا علاج کرتے کرتے خود ہی مریض محبت بن جاتا ہے۔ عین شادی کے دن ڈاکٹر کو ایک مریض کے علاج کے لیے جانا پڑتا ہے۔ واپسی پر ہیرو کی کار حادثے کا شکار ہوجاتی ہے۔ شمیم آرا کے رشتے داروں کو درپن دکھائی دیتا ہے۔ تحقیق اور معلومات پر پتا چلتا ہے کہ دونوں سگے بھائی اور ملتی جلتی شکل کے ہیں۔

نیر سلطانہ کو اپنی سہیلی کے دکھ کا علم ہوتا ہے تو وہ قربانی دیتی ہے۔ ''نیک پروین'' کی مانند بیوی بن کر اپنے شوہر کو تیار کرتی ہے کہ وہ اس کی سہیلی سے شادی کرلے۔ یوں نیر سلطانہ اپنے ہی گھر میں اپنی سہیلی سے ملنے آتی ہے۔ دونوں خواتین شادی، محبت اور شوہر کے حوالے سے باتیں کرتی ہیں۔ شمیم آرا کسی طرح بھی خاوند کی محبت کو تقسیم کرنے کے خلاف ہوتی ہیں۔ چند غلط فہمیوں کے بعد دوسری بیوی کو علم ہوتا ہے کہ اس کی سہیلی اس کے شوہرکی پہلی بیوی ہے۔ شمیم آرا کو پتا چلتا ہے کہ دونوں شخصیات الگ الگ تھیں اور نیر سلطانہ نے قربانی دی ہے۔ دونوں ایک ہی گھر میں ایک ہی شوہر کی بیوی کے طور پر رہنے کو تیار ہوجاتی ہیں۔دوسری شادی کے حوالے سے ایک دور کی منظر کشی کی گئی ہے کہ پاکستان کے ابتدائی دور میں کیا کشمکش ہوئی تھی۔

کالم اس کے سوا کچھ نہیں۔ آئیے اب فائدے نقصان کا حساب کرتے ہیں۔ پانچ منٹ میں ہم نے پانچ باتیں جانیں۔ پہلی بات یہ کہ ایک وزیر اعظم کا اپنی سیکریٹری سے نکاح ثانی، ایوب دور کا مسلم فیملی لا آرڈیننس دوسری بات علما اور بیگمات کی کشمکش تیسری اور اخبارات میں اس زمانے میں ہونے والی کالم نگاری چوتھی بات تھی۔ کم خرچ اور بالا نشینی کا معاملہ رہا اور آخر میں ہم نے ایک عمدہ فلم کے بارے میں جانا کہ کس طرح ایک سہیلی کرواتی ہے اپنی سہیلی کی اپنی شوہر سے دوسری شادی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔