اسمگل شدہ بھارتی و ایرانی پھلوں کی ملک بھر میں کھلے عام فروخت جاری
کسٹم حکام اسمگلڈ اشیا کی ضبطگی اورتلفی کا مکمل اختیارحاصل ہونے کے باوجود جان بوجھ کر کارروائی سے گریزاں
غیرقانونی طریقے سے درآمد کی جانے والی بھارتی اور ایرانی پھل کراچی سمیت ملک کی تمام بڑی منڈیوں میں کھلے عام فروخت کیے جارہے ہیں۔
ایرانی ٹرالر قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاک ایران سرحد تک محدود رہنے کے بجائے ملک بھر میں اسمگل شدہ پھلوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر غیرقانونی ڈیزل کی ترسیل کررہے ہیں تاہم متعلقہ محکموں کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔ تاجروں نے خدشہ ظاہر کی ہے کہ بھارتی مصنوعات پر پابندی کے بعد غیرقانونی درآمد میں اضافہ ہوگا جس کی روک تھام کیلیے سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ تاجروں کے مطابق پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور کسٹم حکام کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ غیرقانونی طریقے سے درآمد کی جانے والی مصنوعات کے اسٹاک اور ریٹیل فروخت کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے تمام اسٹاک ضبط اور تلف کردیا جائے تاہم غیرقانونی پھلوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے جس سے پاکستانی زرعی شعبے کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔
کراچی فروٹ منڈی کے تاجروں کے مطابق زرعی مصنوعات کی درآمد پر پابندی کے باوجود بھارتی پھل کشمیر کے راستے اسلام آباد اور وہاں سے ملک بھر کی منڈیوں میں فروخت کیے جارہے ہیں۔ بھارتی زرعی مصنوعات پر حال ہی میں پابندی عائد کردی گئی ہے تاہم اس پابندی کا اطلاق صرف قانونی ذرائع سے درآمد ہونے والے پھل اور زرعی مصنوعات پر کیا جارہا ہے جبکہ کشمیر (چکوٹھی)کے راستے بھارتی پھل بھی پاکستان کی تمام منڈیوں میں پھیلائے جارہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت بھی بھارتی انناس کی وافر مقدار پاکستان کی بڑی منڈیوں میں فروخت کی جارہی ہے۔
اس سے قبل بڑے پیمانے پر بھارتی کیلا بھی پاکستان میں درآمد اور فروخت کیا جارہا تھا۔ بھارتی انناس کی ایک بڑی لاٹ اس وقت بھی کراچی سبزی منڈی میں لائی گئی ہے جس میں پانچ سو کاٹن پر مشتمل ہزاروں کلو گرام بھارتی انناس لدا ہوا ہے۔ تاجروں کے مطابق پھلوں کی اسمگلنگ میں ایران کا حصہ70 فیصد جبکہ بھارت کا 10فیصد ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبے کو سب سے زیادہ نقصان ایرانی پھلوں کی غیرقانونی ڈمپنگ سے پہنچ رہا ہے جبکہ پاکستانی مصنوعات کو مختلف حیلے بہانوں اور پابندیوں کے ذریعے ایران میں داخل اور کلیئر ہونے سے روکا جاتا ہے۔
اس ضمن میں مارچ 2016میں ہونیوالی پاک ایران انٹرمنسٹریل میٹنگ میں بھی کوئٹہ چیمبر آف کامرس کی جانب سے پاکستان پر ایرانی پابندیوں پراحتجاج کیا گیا جن کے تحت ایران نے پاکستانی کینو اور آلو پر پابندی عائد کی تھی اسی طرح ایرانی حکام نے پاکستانی چاول کی کنسائمنٹس کو بھی چھ ماہ تک کلیئرنس نہیں دی جس سے پاکستان کو زرمبادلہ کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کے برعکس ایرانی ٹرالرز پاکستان بھر میں بلا روک ٹوک ایرانی مصنوعات پھیلا رہے ہیں۔ پاکستانی ٹرالرز کو ایران کے سرحدی علاقے سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے تاہم ایرانی ہیوی ٹرالرز پاکستان بھر میں دندناتے پھررہے ہیں اور پھلوں کی ترسیل کے ساتھ بڑے پیمانے پر ایرانی ڈیزل بھی پاکستانی شہروں میں پھیلایا جارہا ہے۔
ایرانی پھلوں کی بڑی لاٹ لے کر آنیوالے 4ایرانی ٹرالرز اس وقت بھی کراچی سبزی منڈی کے فروٹ سیکشن میں بلاک نمبر دو اور تین میں کھڑے ہوئے ہیں جن سے ایرانی پھلوں کی براہ راست نیلامی کی جارہی ہے۔ پاکستان اور ایران کے مابین زمینی راستے سے تجارت کیلیے روڈ ٹرانسپورٹیشن، گڈز اینڈ پسنجرز کا معاہدہ 1987میں کیا گیا جس میں 1992میں ترمیم بھی کی گئی اس معاہدے کے تحت ایرانی مصنوعات کی پاکستان میں آمد کیلیے تفتان جبکہ پاکستانی مصنوعات کی ایران ایکسپورٹ کیلیے زاہدان کی پوسٹ کو مخصوص کیا گیا اور ٹرکوں کو اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں اس کے علاوہ کسی مقام تک جانے کیلیے خصوصی اجازت نامے اور سیل بند کنٹینرز کو لازم قرار دیا گیا۔
ایرانی ٹرالر قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے پاک ایران سرحد تک محدود رہنے کے بجائے ملک بھر میں اسمگل شدہ پھلوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر غیرقانونی ڈیزل کی ترسیل کررہے ہیں تاہم متعلقہ محکموں کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔ تاجروں نے خدشہ ظاہر کی ہے کہ بھارتی مصنوعات پر پابندی کے بعد غیرقانونی درآمد میں اضافہ ہوگا جس کی روک تھام کیلیے سخت اقدامات ناگزیر ہیں۔ تاجروں کے مطابق پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور کسٹم حکام کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ غیرقانونی طریقے سے درآمد کی جانے والی مصنوعات کے اسٹاک اور ریٹیل فروخت کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے تمام اسٹاک ضبط اور تلف کردیا جائے تاہم غیرقانونی پھلوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جارہا ہے جس سے پاکستانی زرعی شعبے کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔
کراچی فروٹ منڈی کے تاجروں کے مطابق زرعی مصنوعات کی درآمد پر پابندی کے باوجود بھارتی پھل کشمیر کے راستے اسلام آباد اور وہاں سے ملک بھر کی منڈیوں میں فروخت کیے جارہے ہیں۔ بھارتی زرعی مصنوعات پر حال ہی میں پابندی عائد کردی گئی ہے تاہم اس پابندی کا اطلاق صرف قانونی ذرائع سے درآمد ہونے والے پھل اور زرعی مصنوعات پر کیا جارہا ہے جبکہ کشمیر (چکوٹھی)کے راستے بھارتی پھل بھی پاکستان کی تمام منڈیوں میں پھیلائے جارہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت بھی بھارتی انناس کی وافر مقدار پاکستان کی بڑی منڈیوں میں فروخت کی جارہی ہے۔
اس سے قبل بڑے پیمانے پر بھارتی کیلا بھی پاکستان میں درآمد اور فروخت کیا جارہا تھا۔ بھارتی انناس کی ایک بڑی لاٹ اس وقت بھی کراچی سبزی منڈی میں لائی گئی ہے جس میں پانچ سو کاٹن پر مشتمل ہزاروں کلو گرام بھارتی انناس لدا ہوا ہے۔ تاجروں کے مطابق پھلوں کی اسمگلنگ میں ایران کا حصہ70 فیصد جبکہ بھارت کا 10فیصد ہے۔ پاکستان کے زرعی شعبے کو سب سے زیادہ نقصان ایرانی پھلوں کی غیرقانونی ڈمپنگ سے پہنچ رہا ہے جبکہ پاکستانی مصنوعات کو مختلف حیلے بہانوں اور پابندیوں کے ذریعے ایران میں داخل اور کلیئر ہونے سے روکا جاتا ہے۔
اس ضمن میں مارچ 2016میں ہونیوالی پاک ایران انٹرمنسٹریل میٹنگ میں بھی کوئٹہ چیمبر آف کامرس کی جانب سے پاکستان پر ایرانی پابندیوں پراحتجاج کیا گیا جن کے تحت ایران نے پاکستانی کینو اور آلو پر پابندی عائد کی تھی اسی طرح ایرانی حکام نے پاکستانی چاول کی کنسائمنٹس کو بھی چھ ماہ تک کلیئرنس نہیں دی جس سے پاکستان کو زرمبادلہ کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا اس کے برعکس ایرانی ٹرالرز پاکستان بھر میں بلا روک ٹوک ایرانی مصنوعات پھیلا رہے ہیں۔ پاکستانی ٹرالرز کو ایران کے سرحدی علاقے سے آگے جانے کی اجازت نہیں ہے تاہم ایرانی ہیوی ٹرالرز پاکستان بھر میں دندناتے پھررہے ہیں اور پھلوں کی ترسیل کے ساتھ بڑے پیمانے پر ایرانی ڈیزل بھی پاکستانی شہروں میں پھیلایا جارہا ہے۔
ایرانی پھلوں کی بڑی لاٹ لے کر آنیوالے 4ایرانی ٹرالرز اس وقت بھی کراچی سبزی منڈی کے فروٹ سیکشن میں بلاک نمبر دو اور تین میں کھڑے ہوئے ہیں جن سے ایرانی پھلوں کی براہ راست نیلامی کی جارہی ہے۔ پاکستان اور ایران کے مابین زمینی راستے سے تجارت کیلیے روڈ ٹرانسپورٹیشن، گڈز اینڈ پسنجرز کا معاہدہ 1987میں کیا گیا جس میں 1992میں ترمیم بھی کی گئی اس معاہدے کے تحت ایرانی مصنوعات کی پاکستان میں آمد کیلیے تفتان جبکہ پاکستانی مصنوعات کی ایران ایکسپورٹ کیلیے زاہدان کی پوسٹ کو مخصوص کیا گیا اور ٹرکوں کو اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں اس کے علاوہ کسی مقام تک جانے کیلیے خصوصی اجازت نامے اور سیل بند کنٹینرز کو لازم قرار دیا گیا۔