پانی کے مسائل پر جنگیں ہوسکتی ہیں ماہرینِ ماحولیات کا انتباہ

پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو آب و ہوا میں تبدیلی سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔

پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو آب و ہوا میں تبدیلی سے شدید متاثر ہورہے ہیں۔ فوٹو؛ بشکریہ، شاہد علی

پاکستان نہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے بلکہ یہاں موسمیاتی شدت مثلاً بارشوں، گرمی اور خشک سالی جیسے موسمیاتی سانحات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے جب کہ بھارت پاکستان کا پانی روکنے پر تُلا ہے جس سے نئے جنگی تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔

کراچی کے مقامی ہوٹل میں گرین میڈیا انشی ایٹو اور فریڈرک نومین فاؤنڈیشن ( ایف این ایف ) کی جانب سے میڈیا ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد صحافیوں کو تربیت فراہم کرنا تھا۔ '' آب و ہوا میں تبدیلی کے ابلاغ'' کے عنوان سے منعقدہ اس تقریب میں ماہرین نے پاکستان میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں، اس کے بہتر اظہار اور درپیش مسائل پر بھی گفتگو کی۔ اس موقع پر ایکسپریس نیوز سے وابستہ صحافی سہیل یوسف نے سلائیڈز کی مدد سے شرکا کو سائنسی اور ماحولیاتی صحافت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ آب و ہوا میں تبدیلی پر صحافیوں کو یک زباں ہوکر کام کرنا ہوگا۔

ورکشاپ سے ڈجیٹل میڈیا ماہر فواد رضا نے کہا کہ فیس بک اور ٹویٹر نے ڈجیٹل میڈیا کی تشکیل کی ہے اور اب عوام اپنے موبائل فون سے خبروں کی ویب سائٹ دیکھتے ہیں، اس تناظر میں 90 سیکنڈ کی ایک معلوماتی ویڈیو 2 ہزار الفاظ کے کسی مضمون سے زیادہ مؤثر اور طاقتور ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ماحولیاتی اور موسمیاتی ڈیٹا کی کمی سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس اور سروے کو مقامی حالات سے وابستہ کرکے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اردو اور انگریزی بلاگنگ کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا اور صحافیوں سے کہا کہ اگر آپ کی خبر نہیں چھپتی تو آپ اسے بلاگ کی صورت میں بھی پیش کرسکتے ہیں۔

سندھ سیڈ کارپوریشن کے سربراہ اور ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر اقبال سعید خان نے کہا کہ کراچی میں مبارک گوٹھ کے قریب چرنا جزیرے کے پانی میں مونگے اور مرجانی چٹانیں ہیں جہاں 80 فیصد آبی حیات رہتی ہے، اس حساس جگہ پر تفریحی سرگرمیاں بڑھی ہیں اور یہاں تک کہ بحری جہاز اور کشتیاں بھی دھوئی جارہی ہیں جس سے وہاں موجود حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ اقبال سعید خان نے زور دیا کہ پاکستان میں آب و ہوا کی قومی پالیسی اب باضابطہ طور پر منظور ہوچکی ہے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میں ماحولیات کے کالم نگار اور سینیئر صحافی محمود عالم خالد نے کہا کہ بڑے ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات، ان میں ماحولیات کے معاملے کو ٹائم پاس سمجھا جاتا ہے اور اسے عموماً صحت کی خبروں کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل کی اشاعت سے ایک جانب تو عوامی شعور بیدار ہوتا ہے تو دوسری جانب اخباری تراشے اور میڈیا میں تشہیر کے بعد متعلقہ مسئلے کے لیے بین الاقوامی مالی مدد کی راہ ہموار ہوتی ہے اور اس لیے ماحولیاتی رپورٹنگ ایک بہت ہی اہم کام ہے۔



سندھ کے ماحولیاتی مسائل پر ایک نظر:

ورکشاپ کے ایک اور اہم حصے میں تھرپارکر، حیدرآباد اور کراچی سے شامل صحافیوں کے وفود سے ان کے علاقوں میں اہم ترین مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ان مسائل پر میڈیا کوریج ہونی چاہیے۔

تھرپارکر:

1: تھرپارکر سے آئے مہمان صحافی دلیپ دوشی لوہانونے کہا کہ تھرپارکر میں جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ جاری ہے۔

2: تھرکول کی وجہ سے 8 گاؤں کے باسیوں کو بے دخل کیا گیا ہے اور مویشیوں کی چراہ گاہیں تباہ ہوکر رہ گئی ہیں۔

3: مریم صدیقہ نے کہا کہ تھری نقل مکانی پر مجبور ہیں اور انہیں غذائی تحفظ حاصل نہیں۔


حیدرآباد:

1: حیدرآباد سے آئے صحافیوں نے کہا کہ نہر پھلیلی ایک زمانے میں پھولوں کا مرغزار ہوا کرتی تھی اور اب آلودگی اور صنعتی فضلے سے ہلاکت خیز پانی کا جوہڑ بن چکی ہے اور غریب لوگ اس کا پانی پی کر بیمار ہورہے ہیں۔

2: حیدرآباد شہر میں طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے کھلے عام پھینکا جارہا ہے۔

3: حیدرآباد کے شہریوں کو منچھر جھیل کا آلودہ پانی فراہم کیا جارہا ہے جو کئی امراج کی وجہ بن رہا ہے۔

4: ایک زمانے میں مٹیاری کے جنگلات بہت وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب تیزی سے ختم ہورہے ہیں اور اس کی ذمے دار ٹمبر مافیا اور لینڈ مافیا ہے۔

کراچی:

1: کراچی میں کے ایم سی کے ٹرک مصروف اوقات میں کچرا اٹھا رہے ہیں اور ٹرک بند نہ ہونے کی وجہ سے کچرا روڈ پر گرتا ہے۔

2: کراچی میں درختوں کی تیزی سے کٹائی جاری ہے اور یہ شہر شجرکاری کی ایک بھرپور مہم کا متقاضی ہے۔

3: سمندر آلودہ ہورہے ہیں اور اس پانی میں سیوریج کا گند شامل ہورہا ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہے۔

4: سرکاری اسکولوں میں بچوں کو ماحولیات اور کلائمٹ چینج کا شعور پہنچانے کی مہم کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل ایف این ایف کے سینیئر پروگرام کوآرڈنیٹر عامر امجد نے کہا کہ ان کی تنظیم گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے وابستہ مسائل اور شعور پر کام کررہی ہے اور اس ضمن میں کئی اداروں اور تنظیموں سے تعاون کیا جارہا ہے، پاکستان بھر کے اسکولوں میں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کا شعور اور توانائی کی بچت کے طریقے بھی بتائے جارہے اور اس ضمن میں کوئی بھی اسکول ان کی تنظیم سے رابطہ کرسکتا ہے۔

عامر امجد نے بتایا کہ ایف این ایف جمہوری اقدار، آزادی، خواتین اور نوجوانوں کی بہبود سمیت کئی اہم مسائل پر کام کررہی ہے تاکہ سول سوسائٹی کو مضبوط کرکے قومی ترجیحات میں ان کی آواز شامل کی جاسکے۔

اس کے بعد گرین میڈیا انشی ایٹوز کی روحِ رواں اور ایکسپریس اخبار کی کالم نگار شبینہ فراز نے اپنی تنظیم کا تعارف پیش کیا۔
Load Next Story