بے چارے پنشنرز
بزرگ پنشنرز کے لیے پنشن کی ادائیگی میں غیر ضروری بلکہ ظالمانہ تاخیر، ٹینشن کی سب سے بڑی وجہ ہے
یوں تو آج کے پرآشوب دور میں ٹینشن کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن بزرگ پنشنرز کے لیے پنشن کی ادائیگی میں غیر ضروری بلکہ ظالمانہ تاخیر، ٹینشن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کے حصول میں جن پریشانیوں اور دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے ان کا تذکرہ آئے دن میڈیا میں ہوتا رہتا ہے۔ اخبارات میں تقریباً ہر روز اس بارے میں متاثرین کے دکھ بھرے مراسلات شایع ہوتے رہتے ہیں جس میں صرف سرکاری ملازمین ہی نہیں بلکہ ای او بی آئی اور بینکوں سے متعلق متاثرین بھی شامل ہوتے ہیں۔
مثلاً ای او بی آئی کے پنشنرز کی دیرینہ شکایات یہ ہے کہ ان کی موجودہ پنشن میں بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ مہنگائی میں ہوش ربا اضافے کے نتیجے میں اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں مگر حکومت ان کی جانب مسلسل بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چپ سادھے ہوئے بیٹھی ہے۔ ساری زندگی ملازمت کے لیے وقف کردینے کے بعد وہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ بڑھاپے میں اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پال سکیں اور اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ سکیں۔ ان کا جائز مطالبہ ہے کہ ان کی پنشن میں کم سے کم اتنا اضافہ تو کر ہی دیا جائے کہ مزدوری کی کم از کم شرح 13 ہزار روپے ماہانہ کے برابر ہوجائے۔
ملک کے ایک بینک کے ریٹائرڈ ملازمین کی شکایت یہ ہے کہ گزشتہ 6 برس سے ان کی پنشن میں سالانہ اضافہ نہیں کیا گیا ہے جو سراسر ناانصافی اور زیادتی ہے۔ اپیل پر اپیل بھی کرچکے ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ سالانہ اضافہ رکے رہنے اور کمر توڑ گرانی نے ان کا جینا محال کردیا ہے۔ یہ ریٹائرڈ ملازمین متعلقہ وزیر صاحب کی خدمت میں بھی اپیل کرچکے ہیں جو تاحال صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوئی ہے۔ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے والے حکمرانوں کو بھلا اتنی فرصت اور توفیق کہاں کہ بے چارے ریٹائرڈ ملازمین کی فریاد سنیں۔
جہاں بے درد ہوں حاکم وہاں فریاد کیا کرنا
ہماری قومی ایئرلائن کے ریٹائرڈ ملازمین کی شکایت یہ ہے کہ پرانے پنشنرز کو ادا کی جانے والی رقم نئے پنشنرز کے مقابلے میں کم ہے ۔ ان کا استدلال ہے کہ قومی ایئرلائن کو عالمگیر شہرت دلانے میں انھوں نے ہی اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا۔ ماضی کے مقابلے میں قومی ایئرلائن کا آج جو بھی حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ماضی میں اسے لاجواب سروس کی شہرت دلانے میں ان ہی باکمال لوگوں کا ہاتھ شامل تھا۔
قوم کی آواز کہلانے والے اور قیام پاکستان سے لے کر بقائے پاکستان تک قابل ذکر اور قابل فخر ادارے ریڈیو پاکستان کے ریٹائرڈ ملازمین کے حالات بھی غیر تسلی بخش اور فوری توجہ طلب ہیں۔ ان کو سالانہ انکریمنٹ کے بقایاجات چند روز قبل ادا کیے گئے ہیں۔بہتر ہوگا کہ بعض دیگر سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ملازمین کی طرح ریڈیو پاکستان کے ملازمین اور پنشنرز کے لیے بھی ماہانہ میڈیکل الاؤنس مقرر کردیا جائے ۔لگے ہاتھوں اس بینک کی پنشن پالیسی کا تذکرہ ہوجائے جو ریٹائرمنٹ کے حامل ملازم کو میڈیکل کی مد میں ریٹائرمنٹ کے وقت یکمشت رقم ادا کر دیتا ہے اور اس کے بعد وہ بس حالات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔
اگر خدانخواستہ کسی ریٹائرڈ ملازم کو کوئی بڑی سرجری کرانی پڑ جائے تو پھر اس بے چارے کا تو بس دیوالہ ہی نکل جائے گا یا پھر وہ بری طرح مقروض ہوجائے گا۔پنشن کے حصول میں پیش آنے والی دشواریوں اور پریشانیوں کی فہرست بہت دل سوز اور طویل ہے۔ عمر عزیز کا ایک لمبا عرصہ کسی بھی ادارے کی خدمت میں گزارنے کے بعد اس کے عوض ملنے والی پنشن ریٹائرڈ ملازم کی بڑھاپے میں باعزت گزر اوقات کا واحد سہارا ہے۔ لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس کی ادائیگی میں اس قدر غفلت اور بے جا تاخیر برتی جاتی ہے گویا ریٹائرڈ ملازم کو خیرات دی جا رہی ہو۔ پنشن کا اس انداز میں ادا کیا جانا نہ صرف ریٹائرڈ ملازم کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے مترادف غیر اخلاقی فعل ہے بلکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 اور 14 کے تحت دیے گئے بنیادی حق کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ جب کبھی کسی سرکاری محکمے میں فنڈز کی عدم دستیابی یا کمی کا مسئلہ پیش آتا ہے تو اس کا اولین نشانہ بے چارے پنشنرز ہی بنتے ہیں، یعنی:
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
بے چارے پنشنرز کے ساتھ لاوارثوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے جو صرف غیر اسلامی ہی نہیں بلکہ سراسر غیر انسانی اور غیر قانونی بھی ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے اس صورتحال کا ازخود نوٹس لینے کے بعد باقاعدہ رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس سے قبل محمد اسماعیل میمن کے کیس میں 2007 میں سپریم کورٹ کی جانب سے پنشن کی بروقت ادائیگی کے لیے واضح ہدایات جاری کی جاچکی ہیں۔ اس سلسلے میں تازہ ترین پیش رفت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے سرکاری، نیم سرکاری، خودمختار اور سرکاری کارپوریشن کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی ہے اور پنشن کی ادائیگی میں تاخیر کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی بروقت ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر تاخیر کے بارے میں عدالت رپورٹ سے مطمئن نہیں ہوئی اور یہ ثابت ہوگیا کہ رکاوٹیں بدنیتی کی وجہ سے کھڑی کی گئیں تو جواب دینے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
عدالت نے واضح کیا کہ پنشن ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کا حق ہے اور اس کی ادائیگی حق کے طور پر ہی ہونی چاہیے۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن کی ادائیگی کی داد رسی کے لیے کوئی فورم ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک بزرگ پنشنرز کو پنشن کی ادائیگی میں تاخیر کے مختلف حیلے بہانے تراشنے والے مجرمانہ غفلت اور ذہنیت کے حامل اہل کاروں اور ان کے ماتحت کارندوں کی گردنیں نہیں ناپی جائیں گی اور ان کے لیے سزائیں نہیں مقرر کی جاتیں تب تک ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ چیف جسٹس سے ہماری دست بستہ التجا ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی اٹل فیصلہ صادر فرما کر ستم رسیدہ پنشنرز کی دعائیں لیں۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر