الوداع جنرل راحیل شریف الوداع جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا
جنرل راحیل شریف اپنے پیچھے بلند معیار اور اعلیٰ روایات چھوڑ کر جا رہے ہیں
ہجوم کی نظر بے سمت ہوا کرتی ہے، ایسے ہجوم میں مرکزِ نگاہ بننا حد درجے مشکل ہوتا ہے۔ ہرچند وہ میرِ عساکر بننے سے پہلے بھی معزز و محترم تھے، کہ ایک ایسے خانوادے سے تھے، جو شمعِ وطن پر جاں سوز ہونے کی روایات کا امین رہا ہے۔
چیف بنائے گئے تو اس نیک نامی کے اثاثے میں خوب خوب اضافے کیے۔ ہماری سپاہ پر ایک ایسا وقت بھی پڑا کہ جب وردی پہن کر عوام میں جانے سے گریز کیا جانے لگا تھا لیکن اس رنگ ریز نے اس خاک رنگ وردی کو پھر سے اعزاز و احترام کے رنگ میں رنگا۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے کاررواں کی میری کا حق ادا کر دیا۔
ان کی سالاری کے دورانیے میں بہتوں نے انہیں شکوک و شبہات کی زد پر لیے رکھا، بعضے اپنی خوش گمانیوں کی پینگ جھولا کیے۔۔۔۔اور اس میں شک بھی نہیں کہ ایک سے زیادہ ایسے مواقع انہیں طشتری میں رکھ کر پیش کیے گئے کہ اگر وہ چاہتے تو بڑی سہولت کے ساتھ بساط الٹ دیتے لیکن انہوں نے جو سپاہیانہ قول دیا تھا، مرد کی طرح اس پر ڈٹے رہے۔ یوں ''یارانِ تیز گام'' کو تشنہ کام چھوڑ کر ایک قابلِ فخر تاریخ بناتے ہوئے انتہائی وقار کے ساتھ آج رخصت ہو رہے ہیں۔
(الف فا)
۔۔۔۔۔۔۔
آمد:-
ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے کہ جب 29 نومبر 2013 کو جنرل راحیل شریف نے بہ حیثیت پندرہویں آرمی چیف کے پاکستان آرمی کی کمان سنبھالی تھی۔ جنرل راحیل شریف کا دور چند لحاظ سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں ایک ابہام سا تھا کہ وہ شاید اتنی بھاری ذمہ داری سے عہدہ برآء نہ ہو پائیں گے مگر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف ایک اچھے جرنیل ہیں بلکہ اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں کی بناء پر یہ بھی ثابت کیا کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
پذیرائی کی وجوہات:-
جنرل راحیل کو پاک فوج کا سب سے زیادہ کامیاب اور نڈر سربراہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ گزشتہ تین سال میں جنرل راحیل کا اشاعتی اور برقی ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ ذکر رہا، جو ذہن میں کئی سوالات اجاگر کرتا ہے کہ آخر ان میں ایسی کیا منفرد صلاحیتیں ہیں، جن کی وجہ سے انہیں نہ صرف قومی بل کہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہے، آخر کیوں لوگ انہیں نہ صرف ایک آرمی چیف بل کہ ایک محافظ کی سی حیثیت سے دیکھتے ہیں؟ جس طرح سے انہوں نے ایک پست حاصلہ قوم میں اعتماد، خود داری اور اچھے مستقبل کے لیے نئی امید اجاگر کی، ان سب کی بدولت انہوں نے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔ ضرب عضب ہو، کراچی کے امن و امان کی صورت حال ہو، یا بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب؛ ان سارے مراحل سے جنرل راحیل شریف اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر بحسن و خوبی عہدہ برآء ہوئے۔
ضربِ عضب:-
اپنے دور کے آغاز سے جنرل راحیل شریف کو یہ فخر حاصل رہا کہ انہوں نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا اور پھر اس کا دائرہ پورے پاکستان میں پھیلا دیا۔ آج ضرب عضب کے اثرات فوجی آپریشنز اور دہشت گردوں کے تعصب سے کہیں آگے تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں ہی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات 69 فی صد، لوٹ مار میں 85 فی صد اور اغوا برائے تعاون کی وارداتوں میں 90 فی صد کمی آئی جب کہ متاثرہ علاقوں میں حکومت کی رٹ کا قیام، متاثرہ عوام کی گھروں کو واپسی شامل ہے۔
اقتصادی منصوبہ:-
ایک بہت بڑے اقتصادی منصوبے کا آغاز اور مخیر حضرات کی جانب سے فلاح و بہبود کی کارروائیاں بھی ان کے کھتے میں شامل ہیں۔ مرکزی تجارتی راہ داری جیسے عظیم الشان اقتصادی منصوبے کا آغاز کیاگیا۔ اس منصوبے میں 300 کلومیٹر سے زیادہ پختہ سڑکوں کی تعمیر، آبی منصوبے، بجلی پیدا کرنے اور اس کو تقسیم کرنے کے منصوبے، اسپتالوں اور اسکولوں کی تعمیر جیسے اقدامات کیے گئے۔
فاٹا سے فوجی بھرتیاں:-
فاٹا کے نوجوانوں کی ترقی کے لیے جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر ایک طویل مدتی منصوبہ ترتیب دیاگیا، جس کے تحت فاٹا کے ہزاروں نوجوانوں کی پاک فوج میں بھرتی، ملک بھر میں ملٹری اسکولوں میں داخلے اور ان کے لیے ٹیکنیکل تعلیم دلوانے کے منصوبے شامل ہیں۔ یہ سب کچھ صرف ضربِ عضب کے باعث ہی ممکن تھا، جس کے ذریعے سے متاثرہ علاقوں میں امن بحال ہوا۔
کاری ضرب:-
آرمی پبلک اسکول پشاور اسکول کے واقعہ کے بعد جنرل راحیل نے دلیرانہ قدم اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں پر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا۔ جنرل راحیل شریف دہشت گردی، عدم تحفظ اور بے یقینی کے دور میں سب سے زیادہ مقبول فوجی سربراہوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔
کمانڈر کی شان:-
تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ جنگ آرمی لڑ رہی ہے تو اس کا سہرا آرمی چیف کے سر کیوں؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ صحیح اور غلط سمت کا فرق صرف اور صرف قیادت سے پڑتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے بذاتِ خود آپریشن میں حصہ نہیں لیا مگر جنگی حکمتِ عملی ترتیب دینے اور اپنی سپاہ کی پشت پناہی کے لیے وہ ہمہ وقت موجود تھے، جس کا احساس ان کی سپاہ کو بہ خوبی تھا۔
یہ ہی ایک کمانڈر کی شان اور پہچان ہے۔ انہوں نے اپنے دور کی تمام عیدیں اپنی سپاہ کے ساتھ منائیں۔ جنرل راحیل کی مقبولیت فوجی بیرکوں تک ہی محدود نہ تھی بل کہ ہر پاکستانی شہری انہیں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیوں کہ وہ اپنے جوانوں کے علاوہ ہرمشکل گھڑی میں عوام کے ساتھ بھی کھڑے رہے۔ جب انہوں نے کرپشن کے خلاف جنگ کا عندیہ دیا تو اس کا آغاز اپنے گھر یعنی فوج سے کیا۔ فوج کے اعلیٰ افسروں کو بدعنوانی کے الزامات پر قانونی کارروائی کا نشانہ بنا کر انہوں نے منفرد مثال قائم کی۔
غیر ملکی دورے:-
جنرل راحیل شریف کے دور کا سب سے اہم جزو ان کے غیر ملکی دورے ہیں۔ انہوں نے اٹلی، ملیشیا، انڈونیشیا، سری لنکا، امریکا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن، چین، افغانستان، جرمنی اور ترکی کے دورے کیے، جن کے باعث نہ صرف پاکستان اور ان ممالک کے درمیان فوجی تعاون اور تعلقات مضبوط ہوئے بل کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار بلند ہوا۔ انہوں نے دوروں اور تعلقات کے باعث PACES ، کرکٹ میچ، مشترکہ فوجی مشقوں کا انعقاد کیا گیا، جس میں دوستانہ ممالک کی افواج
نے بھرپور شرکت کی۔ اس کے علاوہ افغانستان اور دیگر ممالک کے فوجی افسروں کی پاک ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ مکمل کی گئی۔ بہت سے دوست ممالک نے اپنی افواج کی کاؤنٹر ٹریننگ سنٹر میں ٹریننگ کے لیے پاکستان آرمی سے درخواست کی، جو جدید خطوط سے ہم آہنگ تربیت کا منفرد ادارہ ہے۔ ان ہی دوروں کے دیرپا اثرات کے باعث دفاعی نمائش IDEAS-2016 کے دوران بہت سے ممالک نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تجارت کے معاہدے طے کیے۔
تعلق میں توازن:-
گو ان کے دور میں سول ملٹری تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے مگر اس کے باوجود جنرل راحیل شریف نے سیاسی حکومت کے ساتھ ایک متوازن تعلق برقرار رکھا، جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کبھی سیاسی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی اور نہ ہی کبھی وہ جمہوریت کے لیے خطرہ بنے حالاں کہ اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہے۔
اعلیٰ ترین کامیابی:-
بلاشبہ ان کے دور کی اعلیٰ ترین کامیابی پاک چین اقتصادی راہداری کا آغاز ہے۔ پاک چین راہداری کا ایسے موقع پر آغاز ہوا، جب کہ دہشت گردی کے سائے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے یہ واضح کر دیا کہ پاکستان ہر قیمت پر اقتصادی راہداری کے خواب کو پورا کرے گا، جو پاکستانی عوام کی زندگی بدل دینے کا ضامن ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اس راہ داری کو مکمل تحفظ فراہم کیا، جس کے باعث پاکستان کے اقتصادی حالات بہتر ہو جائیں گے۔
بھارتی ڈاکٹرائین کا قلع قمع:-
جنرل راحیل شریف نے واضح الفاظ میں بھارت کو پیغام دیے رکھا۔ ان کے دور سے قبل ہی پاکستان آرمی نے اپنی دفاعی حکمت عملی میں دو بڑی تبدیلیاں کی تھیں، جن کا بنیادی مقصد بھارت کی Cold Start Doctrine کا سدباب کرنا تھا۔ چھوٹے پیمانے کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے باعث انڈین آرمی کی ڈاکٹرائین حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی۔ اس ڈاکٹرئین پر بھارت نے تین دہائیوں میں اربوں روپے خرچ کیے تھے۔ بھارت کے جارحانہ اقدامات، جیسا کہ بھارتی جاسوسوں کا پاکستان میں پکڑے جانا اور بھارت کی کھلی دھمکیوں کے باوجود جنرل راحیل شریف نے اقتصادی راہ داری کے منصوبے کو پیہم رواں رکھا۔
جنرل راحیل شریف اپنے پیچھے بلند معیار اور اعلیٰ روایات چھوڑ کر جا رہے ہیں، جن کو برقرار رکھنا ان کے پیش رو کے لیے یقیناً کارے دارد ہوگا۔
چیف بنائے گئے تو اس نیک نامی کے اثاثے میں خوب خوب اضافے کیے۔ ہماری سپاہ پر ایک ایسا وقت بھی پڑا کہ جب وردی پہن کر عوام میں جانے سے گریز کیا جانے لگا تھا لیکن اس رنگ ریز نے اس خاک رنگ وردی کو پھر سے اعزاز و احترام کے رنگ میں رنگا۔ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے کاررواں کی میری کا حق ادا کر دیا۔
ان کی سالاری کے دورانیے میں بہتوں نے انہیں شکوک و شبہات کی زد پر لیے رکھا، بعضے اپنی خوش گمانیوں کی پینگ جھولا کیے۔۔۔۔اور اس میں شک بھی نہیں کہ ایک سے زیادہ ایسے مواقع انہیں طشتری میں رکھ کر پیش کیے گئے کہ اگر وہ چاہتے تو بڑی سہولت کے ساتھ بساط الٹ دیتے لیکن انہوں نے جو سپاہیانہ قول دیا تھا، مرد کی طرح اس پر ڈٹے رہے۔ یوں ''یارانِ تیز گام'' کو تشنہ کام چھوڑ کر ایک قابلِ فخر تاریخ بناتے ہوئے انتہائی وقار کے ساتھ آج رخصت ہو رہے ہیں۔
(الف فا)
۔۔۔۔۔۔۔
آمد:-
ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے کہ جب 29 نومبر 2013 کو جنرل راحیل شریف نے بہ حیثیت پندرہویں آرمی چیف کے پاکستان آرمی کی کمان سنبھالی تھی۔ جنرل راحیل شریف کا دور چند لحاظ سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں ایک ابہام سا تھا کہ وہ شاید اتنی بھاری ذمہ داری سے عہدہ برآء نہ ہو پائیں گے مگر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف ایک اچھے جرنیل ہیں بلکہ اپنی بہترین قائدانہ صلاحیتوں کی بناء پر یہ بھی ثابت کیا کہ وہ اپنی مثال آپ ہیں۔
پذیرائی کی وجوہات:-
جنرل راحیل کو پاک فوج کا سب سے زیادہ کامیاب اور نڈر سربراہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ گزشتہ تین سال میں جنرل راحیل کا اشاعتی اور برقی ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ ذکر رہا، جو ذہن میں کئی سوالات اجاگر کرتا ہے کہ آخر ان میں ایسی کیا منفرد صلاحیتیں ہیں، جن کی وجہ سے انہیں نہ صرف قومی بل کہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت اور پذیرائی حاصل ہے، آخر کیوں لوگ انہیں نہ صرف ایک آرمی چیف بل کہ ایک محافظ کی سی حیثیت سے دیکھتے ہیں؟ جس طرح سے انہوں نے ایک پست حاصلہ قوم میں اعتماد، خود داری اور اچھے مستقبل کے لیے نئی امید اجاگر کی، ان سب کی بدولت انہوں نے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔ ضرب عضب ہو، کراچی کے امن و امان کی صورت حال ہو، یا بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب؛ ان سارے مراحل سے جنرل راحیل شریف اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر بحسن و خوبی عہدہ برآء ہوئے۔
ضربِ عضب:-
اپنے دور کے آغاز سے جنرل راحیل شریف کو یہ فخر حاصل رہا کہ انہوں نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا اور پھر اس کا دائرہ پورے پاکستان میں پھیلا دیا۔ آج ضرب عضب کے اثرات فوجی آپریشنز اور دہشت گردوں کے تعصب سے کہیں آگے تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ صرف کراچی شہر میں ہی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات 69 فی صد، لوٹ مار میں 85 فی صد اور اغوا برائے تعاون کی وارداتوں میں 90 فی صد کمی آئی جب کہ متاثرہ علاقوں میں حکومت کی رٹ کا قیام، متاثرہ عوام کی گھروں کو واپسی شامل ہے۔
اقتصادی منصوبہ:-
ایک بہت بڑے اقتصادی منصوبے کا آغاز اور مخیر حضرات کی جانب سے فلاح و بہبود کی کارروائیاں بھی ان کے کھتے میں شامل ہیں۔ مرکزی تجارتی راہ داری جیسے عظیم الشان اقتصادی منصوبے کا آغاز کیاگیا۔ اس منصوبے میں 300 کلومیٹر سے زیادہ پختہ سڑکوں کی تعمیر، آبی منصوبے، بجلی پیدا کرنے اور اس کو تقسیم کرنے کے منصوبے، اسپتالوں اور اسکولوں کی تعمیر جیسے اقدامات کیے گئے۔
فاٹا سے فوجی بھرتیاں:-
فاٹا کے نوجوانوں کی ترقی کے لیے جنرل راحیل شریف کی ہدایت پر ایک طویل مدتی منصوبہ ترتیب دیاگیا، جس کے تحت فاٹا کے ہزاروں نوجوانوں کی پاک فوج میں بھرتی، ملک بھر میں ملٹری اسکولوں میں داخلے اور ان کے لیے ٹیکنیکل تعلیم دلوانے کے منصوبے شامل ہیں۔ یہ سب کچھ صرف ضربِ عضب کے باعث ہی ممکن تھا، جس کے ذریعے سے متاثرہ علاقوں میں امن بحال ہوا۔
کاری ضرب:-
آرمی پبلک اسکول پشاور اسکول کے واقعہ کے بعد جنرل راحیل نے دلیرانہ قدم اٹھاتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں اور پناہ گاہوں پر کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا۔ جنرل راحیل شریف دہشت گردی، عدم تحفظ اور بے یقینی کے دور میں سب سے زیادہ مقبول فوجی سربراہوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں۔
کمانڈر کی شان:-
تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ جنگ آرمی لڑ رہی ہے تو اس کا سہرا آرمی چیف کے سر کیوں؟ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ صحیح اور غلط سمت کا فرق صرف اور صرف قیادت سے پڑتا ہے۔ اگرچہ انہوں نے بذاتِ خود آپریشن میں حصہ نہیں لیا مگر جنگی حکمتِ عملی ترتیب دینے اور اپنی سپاہ کی پشت پناہی کے لیے وہ ہمہ وقت موجود تھے، جس کا احساس ان کی سپاہ کو بہ خوبی تھا۔
یہ ہی ایک کمانڈر کی شان اور پہچان ہے۔ انہوں نے اپنے دور کی تمام عیدیں اپنی سپاہ کے ساتھ منائیں۔ جنرل راحیل کی مقبولیت فوجی بیرکوں تک ہی محدود نہ تھی بل کہ ہر پاکستانی شہری انہیں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیوں کہ وہ اپنے جوانوں کے علاوہ ہرمشکل گھڑی میں عوام کے ساتھ بھی کھڑے رہے۔ جب انہوں نے کرپشن کے خلاف جنگ کا عندیہ دیا تو اس کا آغاز اپنے گھر یعنی فوج سے کیا۔ فوج کے اعلیٰ افسروں کو بدعنوانی کے الزامات پر قانونی کارروائی کا نشانہ بنا کر انہوں نے منفرد مثال قائم کی۔
غیر ملکی دورے:-
جنرل راحیل شریف کے دور کا سب سے اہم جزو ان کے غیر ملکی دورے ہیں۔ انہوں نے اٹلی، ملیشیا، انڈونیشیا، سری لنکا، امریکا، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اردن، چین، افغانستان، جرمنی اور ترکی کے دورے کیے، جن کے باعث نہ صرف پاکستان اور ان ممالک کے درمیان فوجی تعاون اور تعلقات مضبوط ہوئے بل کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار بلند ہوا۔ انہوں نے دوروں اور تعلقات کے باعث PACES ، کرکٹ میچ، مشترکہ فوجی مشقوں کا انعقاد کیا گیا، جس میں دوستانہ ممالک کی افواج
نے بھرپور شرکت کی۔ اس کے علاوہ افغانستان اور دیگر ممالک کے فوجی افسروں کی پاک ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ مکمل کی گئی۔ بہت سے دوست ممالک نے اپنی افواج کی کاؤنٹر ٹریننگ سنٹر میں ٹریننگ کے لیے پاکستان آرمی سے درخواست کی، جو جدید خطوط سے ہم آہنگ تربیت کا منفرد ادارہ ہے۔ ان ہی دوروں کے دیرپا اثرات کے باعث دفاعی نمائش IDEAS-2016 کے دوران بہت سے ممالک نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تجارت کے معاہدے طے کیے۔
تعلق میں توازن:-
گو ان کے دور میں سول ملٹری تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے مگر اس کے باوجود جنرل راحیل شریف نے سیاسی حکومت کے ساتھ ایک متوازن تعلق برقرار رکھا، جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے کبھی سیاسی حکومت کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی اور نہ ہی کبھی وہ جمہوریت کے لیے خطرہ بنے حالاں کہ اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہے۔
اعلیٰ ترین کامیابی:-
بلاشبہ ان کے دور کی اعلیٰ ترین کامیابی پاک چین اقتصادی راہداری کا آغاز ہے۔ پاک چین راہداری کا ایسے موقع پر آغاز ہوا، جب کہ دہشت گردی کے سائے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے یہ واضح کر دیا کہ پاکستان ہر قیمت پر اقتصادی راہداری کے خواب کو پورا کرے گا، جو پاکستانی عوام کی زندگی بدل دینے کا ضامن ہے۔ جنرل راحیل شریف نے اس راہ داری کو مکمل تحفظ فراہم کیا، جس کے باعث پاکستان کے اقتصادی حالات بہتر ہو جائیں گے۔
بھارتی ڈاکٹرائین کا قلع قمع:-
جنرل راحیل شریف نے واضح الفاظ میں بھارت کو پیغام دیے رکھا۔ ان کے دور سے قبل ہی پاکستان آرمی نے اپنی دفاعی حکمت عملی میں دو بڑی تبدیلیاں کی تھیں، جن کا بنیادی مقصد بھارت کی Cold Start Doctrine کا سدباب کرنا تھا۔ چھوٹے پیمانے کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے باعث انڈین آرمی کی ڈاکٹرائین حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی۔ اس ڈاکٹرئین پر بھارت نے تین دہائیوں میں اربوں روپے خرچ کیے تھے۔ بھارت کے جارحانہ اقدامات، جیسا کہ بھارتی جاسوسوں کا پاکستان میں پکڑے جانا اور بھارت کی کھلی دھمکیوں کے باوجود جنرل راحیل شریف نے اقتصادی راہ داری کے منصوبے کو پیہم رواں رکھا۔
جنرل راحیل شریف اپنے پیچھے بلند معیار اور اعلیٰ روایات چھوڑ کر جا رہے ہیں، جن کو برقرار رکھنا ان کے پیش رو کے لیے یقیناً کارے دارد ہوگا۔