قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس سیکیورٹی اخراجات کیلیے قومی فنڈ قائم کرنے کافیصلہ
مجموعی محاصل کا 3 فیصد مختص کرنے کی تجویز، ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی ششماہی مانیٹرنگ رپورٹ منظور
وفاقی حکومت نے نیشنل سیکیورٹی فنڈ قائم کرنیکا فیصلہ کیا ہے، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں اخراجات میں اضافے کے باعث فنڈ کیلیے مجموعی محاصل کا 3 فیصد مختص کرنیکی تجویز دی گئی ہے۔ 9 ویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) کا دوسرا اجلاس پیر کو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت ہوا۔
وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، ممبر این ایف سی سندھ سینیٹر سلیم مانڈوی والا، ممبر این ایف سی خیبرپختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان اور ممبر این ایف سی بلوچستان ڈاکٹر قیصر بنگالی کے علاوہ وفاقی سیکریٹری خزانہ، چاروں صوبوں کے خزانہ سیکریٹریز ، چیئرمین ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے سینئر حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔
اسحاق ڈار نے شرکا کا خیرمقدم کیا اور موجودہ حکومت کی جانب سے گذشتہ 3 برس کے دوران کیے گئے ڈھانچہ جاتی اور اصلاحاتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔ انھوں نے این ایف سی کے تحت صوبوں اور وفاقی حکومت کے مابین مشاورت کے عمل کو سراہا۔ اجلاس میں9 ویں این ایف سی ایوارڈ کے پہلے اجلاس کے منٹس کی منظوری دی گئی۔ اجلاس نے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی جنوری تا جون 2016 کے عرصہ کے لیے ششماہی مانیٹرنگ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اس کی منظوری دی۔ اس موقع پر چیئرمین این ایف سی نے صوبوں کے نمائندوں کے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی ششماہی عملدرآمدی مانیٹرنگ رپورٹ رواں ہفتہ کے دوران پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی جائے گی جو کہ ایک آئینی ضرورت ہے۔ اس موقع پر 4 مختلف ورکنگ گروپس کی جانب سے کمیشن کو پریزنٹیشنز بھی دی گئیں۔ کمیشن کے ممبران نے چاروں ورکنگ گروپس کے کام کو سراہا جو آئندہ این ایف سی ایوارڈ کیلیے مضبوط بنیاد فراہم کریگا۔
کمیشن نے آئندہ ماہ 10دسمبر تک ان گروپس کی رپورٹس اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایت کی۔ اسحاق ڈار نے9 ویں این ایف سی ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کے نمائندوں اور این ایف سی کے ممبران کی فعال شرکت کو سراہا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اگلا ایوارڈ جلد طے کرنے اور اس سلسلہ میں باقاعدگی کے ساتھ اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین اور ممبرز این ایف سی نے اگلے مرحلہ کی مشاورت کیلیے دسمبر کے تیسرے ہفتہ میں اجلاس پر اتفاق کیا ہے۔البتہ صوبوں نیاجلاس میں نئے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا، سندھ نے خام تیل پر 5 فیصد لیوی یا ٹیکس عائد کرنیکا مطالبہ کردیا ہے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ اجلاس میں صوبوں کی ورکنگ رپورٹس پیش کی گئیں جن پر سیر حاصل بحث کی گئی۔
ورکنگ گروپس کی رپورٹس کو اپ ڈیٹ کرنے کیلیے 10 دسمبر کا وقت دیا گیا ہے جس کے بعد آئندہ بات چیت کا دور دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ہوگا۔ انھوں نے کہا سیکیورٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلیے مجموعی محاصل کے 3 فیصد پر مشتمل نیشنل سیکیورٹی فنڈکے قیام کی تجویز زیر غور ہے کیونکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کیلیے 57ونگز بن چکے ہیں اور سی پیک کی حفاظت کیلیے نارتھ ونگ بھی قائم کیا گیا ہے، جنگ سے متاثرہ صوبہ کے پی کے نے مجموعی قومی محاصل کا پانچ فیصد دینے کی سفارش کی تھی جبکہ سندھ حکومت کے ممبر نے بھی کراچی میں جاری آپریشن کی وجہ سے حصہ مانگا تھا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کا معاملہ نان این ایف سی کا حصہ ہے اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ غازی بروتھا کے حوالے سے کے پی کے کا کلیم قانونی ہے اس میں متعلقہ صوبے کو یکساں حصہ دیا جائیگا۔ این ایف سی کے فیصلوں کو وفاق بھی تبدیل نہیں کر سکتا، 9ویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں، جلد اعلان ہوگا، آئینی طور پر کسی صوبے کے حصے میں کمی نہیں کی جاسکتی۔
سیکیورٹی فنڈ کے قیام کے حوالے سے بھی تجویز دی گئی ہے، آپریشن ضرب عضب پر ہونیوالے اخراجات سب کے علم میں ہیں۔ کمیشن کے چیئرمین کے طور پر میرا کردار نیوٹرل ہے، میرا کام تمام فریقین کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔اسحا ق ڈار نے کہا اسمارٹ میٹر تین سے چار ماہ میں لگ جائیں گے جس کے بعد شکایات میں کمی آجائے گی۔
وفاق چاہے بھی تو صوبوں کا حصہ کم نہیں ہو سکتا سندھ کے بجلی کے بلوں کے واجبات کا ایشو چھ سال بعد حل کر دیا ہے۔ دسمبر کے بعد اچھی خبر دیں گے۔سندھ کے این ایف سی ممبر سلیم مانڈووی والا نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ دینے کے حوالے سے بات چیت اچھی ہے، گروپس کی رپورٹس سے صوبوں کے بارے میں ایک دوسرے کو مدد ملے گی، سندھ نے کروڈ آئل پر پانچ فیصد لیوی فراہم کرنے کو کہا تھا جبکہ صوبوں کی جانب سے اشیاء پر لگے ٹیکسز وفاق سے زائد اکٹھے کرنے پر ان کا حصہ صوبوں کو دینے کی بات کی گئی تھی اس پر بات چیت آئندہ میٹنگ میںہوگی۔ نواں این ایف سی ایوارڈ آئندہ بجٹ سے قبل فائنل ہوجائیگا۔ کے پی کے این ایف سی ممبر پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ وفاق کی جانب سے این ایف سی کا اجلاس بلانے میں جلدی کا مظاہرہ کیا گیا جس کے باعث صوبائی وزیر خزانہ شرکت نہ کر سکے، ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ آئندہ بجٹ میں صوبے کی ڈیمانڈز کو اہمیت دی جائیگی۔
وزیر خزانہ پنجاب ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا، ممبر این ایف سی سندھ سینیٹر سلیم مانڈوی والا، ممبر این ایف سی خیبرپختونخوا پروفیسر محمد ابراہیم خان اور ممبر این ایف سی بلوچستان ڈاکٹر قیصر بنگالی کے علاوہ وفاقی سیکریٹری خزانہ، چاروں صوبوں کے خزانہ سیکریٹریز ، چیئرمین ایف بی آر اور وزارت خزانہ کے سینئر حکام نے اجلاس میں شرکت کی۔
اسحاق ڈار نے شرکا کا خیرمقدم کیا اور موجودہ حکومت کی جانب سے گذشتہ 3 برس کے دوران کیے گئے ڈھانچہ جاتی اور اصلاحاتی اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔ انھوں نے این ایف سی کے تحت صوبوں اور وفاقی حکومت کے مابین مشاورت کے عمل کو سراہا۔ اجلاس میں9 ویں این ایف سی ایوارڈ کے پہلے اجلاس کے منٹس کی منظوری دی گئی۔ اجلاس نے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی جنوری تا جون 2016 کے عرصہ کے لیے ششماہی مانیٹرنگ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اس کی منظوری دی۔ اس موقع پر چیئرمین این ایف سی نے صوبوں کے نمائندوں کے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی ششماہی عملدرآمدی مانیٹرنگ رپورٹ رواں ہفتہ کے دوران پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی جائے گی جو کہ ایک آئینی ضرورت ہے۔ اس موقع پر 4 مختلف ورکنگ گروپس کی جانب سے کمیشن کو پریزنٹیشنز بھی دی گئیں۔ کمیشن کے ممبران نے چاروں ورکنگ گروپس کے کام کو سراہا جو آئندہ این ایف سی ایوارڈ کیلیے مضبوط بنیاد فراہم کریگا۔
کمیشن نے آئندہ ماہ 10دسمبر تک ان گروپس کی رپورٹس اپ ڈیٹ کرنے کی ہدایت کی۔ اسحاق ڈار نے9 ویں این ایف سی ایوارڈ کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کے نمائندوں اور این ایف سی کے ممبران کی فعال شرکت کو سراہا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اگلا ایوارڈ جلد طے کرنے اور اس سلسلہ میں باقاعدگی کے ساتھ اجلاس منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین اور ممبرز این ایف سی نے اگلے مرحلہ کی مشاورت کیلیے دسمبر کے تیسرے ہفتہ میں اجلاس پر اتفاق کیا ہے۔البتہ صوبوں نیاجلاس میں نئے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء میں تاخیر پر تحفظات کا اظہار کیا، سندھ نے خام تیل پر 5 فیصد لیوی یا ٹیکس عائد کرنیکا مطالبہ کردیا ہے۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ اجلاس میں صوبوں کی ورکنگ رپورٹس پیش کی گئیں جن پر سیر حاصل بحث کی گئی۔
ورکنگ گروپس کی رپورٹس کو اپ ڈیٹ کرنے کیلیے 10 دسمبر کا وقت دیا گیا ہے جس کے بعد آئندہ بات چیت کا دور دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ہوگا۔ انھوں نے کہا سیکیورٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلیے مجموعی محاصل کے 3 فیصد پر مشتمل نیشنل سیکیورٹی فنڈکے قیام کی تجویز زیر غور ہے کیونکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ کیلیے 57ونگز بن چکے ہیں اور سی پیک کی حفاظت کیلیے نارتھ ونگ بھی قائم کیا گیا ہے، جنگ سے متاثرہ صوبہ کے پی کے نے مجموعی قومی محاصل کا پانچ فیصد دینے کی سفارش کی تھی جبکہ سندھ حکومت کے ممبر نے بھی کراچی میں جاری آپریشن کی وجہ سے حصہ مانگا تھا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ کا معاملہ نان این ایف سی کا حصہ ہے اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ غازی بروتھا کے حوالے سے کے پی کے کا کلیم قانونی ہے اس میں متعلقہ صوبے کو یکساں حصہ دیا جائیگا۔ این ایف سی کے فیصلوں کو وفاق بھی تبدیل نہیں کر سکتا، 9ویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کی تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں، جلد اعلان ہوگا، آئینی طور پر کسی صوبے کے حصے میں کمی نہیں کی جاسکتی۔
سیکیورٹی فنڈ کے قیام کے حوالے سے بھی تجویز دی گئی ہے، آپریشن ضرب عضب پر ہونیوالے اخراجات سب کے علم میں ہیں۔ کمیشن کے چیئرمین کے طور پر میرا کردار نیوٹرل ہے، میرا کام تمام فریقین کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔اسحا ق ڈار نے کہا اسمارٹ میٹر تین سے چار ماہ میں لگ جائیں گے جس کے بعد شکایات میں کمی آجائے گی۔
وفاق چاہے بھی تو صوبوں کا حصہ کم نہیں ہو سکتا سندھ کے بجلی کے بلوں کے واجبات کا ایشو چھ سال بعد حل کر دیا ہے۔ دسمبر کے بعد اچھی خبر دیں گے۔سندھ کے این ایف سی ممبر سلیم مانڈووی والا نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ دینے کے حوالے سے بات چیت اچھی ہے، گروپس کی رپورٹس سے صوبوں کے بارے میں ایک دوسرے کو مدد ملے گی، سندھ نے کروڈ آئل پر پانچ فیصد لیوی فراہم کرنے کو کہا تھا جبکہ صوبوں کی جانب سے اشیاء پر لگے ٹیکسز وفاق سے زائد اکٹھے کرنے پر ان کا حصہ صوبوں کو دینے کی بات کی گئی تھی اس پر بات چیت آئندہ میٹنگ میںہوگی۔ نواں این ایف سی ایوارڈ آئندہ بجٹ سے قبل فائنل ہوجائیگا۔ کے پی کے این ایف سی ممبر پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ وفاق کی جانب سے این ایف سی کا اجلاس بلانے میں جلدی کا مظاہرہ کیا گیا جس کے باعث صوبائی وزیر خزانہ شرکت نہ کر سکے، ہمیں یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ آئندہ بجٹ میں صوبے کی ڈیمانڈز کو اہمیت دی جائیگی۔