آئینی اختیارکھودیا بلوچستان حکومت کس طرح چلائی جارہی ہے سپریم کورٹ

ہمارا مقصد حکومت گرانا نہیں، جب وزیر مجرم چھڑانے جائینگے تو حالات کیسے ٹھیک ہونگے، چیف جسٹس


اب نیاعبوری حکم نہیں،کیس نمٹائیں گے، ارکان اسمبلی کے کروڑوں کے فنڈز کا حساب نہیں، ریمارکس۔ فوٹو: آن لائن/فائل

سپریم کورٹ نے بلوچستان بدامنی کیس میں حکومتی رپورٹ مستردکرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ تاوان ادا کرکے لوگوں کی بازیابی باعث تشویش ہے۔

یہ بات حکومت کیخلاف جائیگی، چیف جسٹس نے کہا 12اکتوبرکے عبوری حکم کو 2ماہ گزر گئے مگر بلوچستان کے حالات میں بہتری نہیں آئی، شہریوں کے بنیادی حقوق پامال ہورہے ہیں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں جاری ہیں، مزیدکوئی عبوری حکم جاری نہیںکیا جا سکتا، اب اس کیس کو نمٹانا ہے، مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے تحریری حکم میں کہا ہے کہ صوبائی حکومت حکمرانی کا آئینی اختیار کھو چکی ہے، صوبائی حکومت کے وکیل آئندہ سماعت پر تیاری کرکے آئیں اور بتائیںکہ حکومت کیسے چلائی جا رہی ہے ۔

نمائندہ ایکسپریس کے مطابقچیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے صوبے میں بنیادی حقوق کی مسلسل پامالیوں پر سخت تشویش کا اظہارکرتے ہوئے قرار دیا کہ کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ حکومت کی ذمے داری ہے لیکن حکومت ناکام ہوئی ہے ۔حکومت بلوچستان کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ دوکمیٹیاں حالات کو بہتر بنانے کیلئے قائم ہیں، دو ہفتے سے کوئی شخص اغوا نہیں ہوا۔ عدالت نے چیف سیکرٹری کے متعلق شائع خبروں پر تشویش کا اظہارکیا، چیف جسٹس نے کہا ایک افسرکو اس لیے ہراساں کیا جا رہا ہے کہ وہ عدالت کے احکام پر عملدرآمدکرتے ہیں،کوئی آرڈر جاری ہوا تو عدالت انھیں تحفظ دے گی۔

08

چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت چاہے تو ایک دن میں بلوچستان کے حالات درست ہو سکتے ہیں لیکن جب وزیر مجرموںکو چھڑانے تھانے جائیںگے تو پھر حالات درست نہیں ہوںگے، چیئرمین پبلک سروس کمیشن بلوچستان نے800افرادکو رشوت لیکر بھرتی کیا، ایک ڈپٹی کمشنرکی تقرری کے40لاکھ روپے لیے، وہ بدستور عہدے پر موجود ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا اگر نظام میں کرپشن آجائے تو اس پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن اگر نظام ہی کرپٹ ہوجائے تو بات بہت خطرناک ہے ۔چیف جسٹس کا کہنا تھا ایک ایک ایم پی اے کو ترقیاتی فنڈ کے نام پر20سے 25 کروڑ سالانہ مل رہے ہیں لیکن حساب کتاب کوئی نہیں۔ فیصلے میں لکھا کہ صوبائی وزرا جرائم میں ملوث قرار دیئے گئے ہیں، اگر وفاقی وزرا کرپشن میں گرفتار ہو سکتے ہیں تو صوبائی وزرا کیوں نہیں۔

آئی این پی کے مطابق عدالت کہا کہ ہمارا مقصد کسی حکومت کو گرانا نہیں (58)2-Bکا سیاہ دور گزر چکا ہے اب آئین اور قانون کی بات ہوتی ہے اور حکومت اپنے معاملات کو خود دیکھے سیاسی معاملات کے حل کے علاوہ آئین کے تقاضوں کو پورا کرنا پارلیمنٹ سمیت انتظامی عہدیداروں کا کام ہے ۔سپیکر بلوچستان اسمبلی اسلم بھوتانی بھی عدالت میںموجود تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں