ویزا اسکینڈل ڈپٹی ڈائریکٹر سمیت 5 اہلکار بیگناہ قرار

4 ملزموں کا3 روزہ ریمانڈ، لندن اولمپکس کیلیے اشتہار دینے والی میڈم بابری گرفتار

4 ملزموں کا3 روزہ ریمانڈ، لندن اولمپکس کیلیے اشتہار دینے والی میڈم بابری گرفتار ۔ فائل فوٹو

اولمپکس ویزا اسکینڈل کی چھان بین کیلیے ایف آئی اے اور نادرا کی تحقیقاتی ٹیموں نے اپنی کارروائی جاری رکھی ، پاسپورٹ آفس گارڈن ٹائون کے ڈپٹی ڈائریکٹر شاہد اقبال کو تفتیش میں بے گناہ ثابت ہونے پر رہا کردیاگیا، ابتدائی تحقیقات میں پاسپورٹ آفس کے ملازمین کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاسپورٹ اسٹاف نے نادرا کے شناختی کارڈ کے ڈیٹا کے مطابق پاسپورٹ بنایا ہے جبکہ چار گرفتار ملزموں کا جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت سے تین روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا ہے،

نادرا کی انٹرنل انکوائری کے سلسلے میں ٹیکنیکل ٹیم نے باغبانپورہ آفس کا دورہ کرکے آفس میںنصب سسٹم اور ریکارڈ کے اہم نکات نوٹ کیے ہیں، اسکینڈل کے مبینہ مرکزی کردار عابد چوہدری کی گرفتاری کیلیے بھی چھاپوںکا سلسلہ جاری ہے۔ نادرا آفس کی 5 خواتین نے بھی ایف آئی اے حکام کو اپنا بیان قلمبند کرادیا۔ ایف آئی اے لاہور نے لندن اولمپکس کیلیے ویزوں کا اشتہار دینے والی خاتون نزہت صباناز عرف میڈم بابری کو گرفتارکرلیا ۔

میڈم بابری پر انسانی اسمگلنگ کے7 مقدمات پہلے سے درج ہیں۔ جوڈیشل مجسٹریٹ عمران شفیع نے پاسپورٹ اسکینڈل میں ملوث4ملزموں کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ ملزموں کے وکیل نے مئوقف اختیار کیا کہ اسکینڈل میں بااثر شخصیات ملوث ہیں جبکہ ایف آئی اے چھوٹے ملازمین پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔


دوسری طرف '' نادرا '' حکام نے برطانوی اخبار ''دی سن''کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنواتے وقت کوئی خلاف ضابطہ یا غیرقانونی کارروائی نہیں کی گئی، محمد علی اسد نے دراصل ''دی سن'' کے ایما پر خود ہی دستاویزات کیلیے پراسس کیا تھا۔ دستاویزی اور وڈیو ثبوتوں کی بنیاد پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کی تجدید کے وقت محمد علی اسد خود موجود تھا۔ اس نے شناختی کارڈ نمبر 35202-2660630-5 نادرا سے 6 فروری 2002کو حاصل کیا تھا،

اس کے بعد وہ امیگریشن کرکے گزشتہ آٹھ سے دس برسوں سے برطانیہ میں قیام پذیر ہے۔ اس کا برطانوی پاسپورٹ نمبر 506486804 ہے جو 24 اکتوبر 2011 کو جاری کیا گیا تھا اور اس کا وہی نام محمد علی اسد اور فوٹو ہے جو نادرا کے ڈیٹا بیس میں ہے تاہم پاسپورٹ میں جعلی جائے پیدائش اور تاریخ پیدائش درج ہے۔ نادرا حکام نے الزام لگایا کہ محمد علی اسد نے ''دی سن'' کے آلہ کارکے طور پرکام کیا اور8 جولائی 2012 کو پاکستان کا سفر کیا،

اس نے پاکستان آنے کے بعد ہوٹل میں قیام کیا اور اس مقصد کیلیے ایک کمرہ بھی8 سے31 جولائی 2012ء تک کیلیے بُک کرایا، ان حقائق کے منظرعام پر آنے کے بعد اب اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس خطرناک کوشش کا مقصد نادرا کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ اجرأ کے نظام کی ساکھ ختم کرنا تھا ۔

 

Recommended Stories

Load Next Story