ایک لاہور یہ بھی تھا
اس بدلی ہوئی دنیا کو پرانے لوگ یاد کرتے ہیں اور ختم ہوتی روایات پر ماتم کرتے ہیں۔
گزشتہ ایک دو دن کی غیر حاضری میں مرمت کا کام کرتا رہا یعنی اپنی مرمت کا۔ مزدور کو زندہ و سلامت رہنا چاہیے۔ میں نے اپنے ان اعضاء کی دیکھ بھال کی اور متعلقہ ماہرین کی خدمات بھی حاصل کیں تاکہ ایک تو گھر بار کا کام کرتا رہوں دوسرے دفتر میں کسی کام کے قابل بھی رہوں تاکہ دال روٹی چلتی رہے۔ زمینوں کا تو اب یہ حال ہے کہ اس سال ابھی تک بارش نہیں ہوئی اور قحط کا خوف منڈلا رہا ہے اگر قدرت مہربان نہ ہوئی اور قحط کا خطرہ جاری رہا تو میں اپنے بارانی علاقے سے مستقل نقل مکانی کی سوچوں گا۔
آدھا گھر لاہور تو پہلے ہی سے ہے لیکن یہ آدھا بھی اس وقت تک ہے جب تک میرے دفتر والے مجھ سے قدرے مطمئن رہیں اور مجھے برداشت کرتے رہیں۔ فی الوقت اگرچہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور بارش کچھ لیٹ ہو جائے تو پھر سال بھر کی زندگی لیٹ ہو جاتی ہے۔ اس لیے حالات سے خوفزدہ رہتا ہوں۔ اس وقت بھی آسمان نے پریشان کر رکھا ہے اور اب تک اس کے سامنے نہ تو بادل دکھائی دیے اور نہ ہی پانی کی ایک بوند بھی آسمان سے عطا ہوئی یوں تو زندگی ہمیشہ آسمان کی محتاج رہتی ہے لیکن بارانی لوگوں کی زندگی تو آسمان کی طرف دیکھتے دیکھتے گزر جاتی ہے کہ اوپر کی دنیا میں بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی دیا ہے اور کیا اس میں بارش کا کوئی قطرہ بھی موجود ہے۔
بس یہی زندگی ہے جو آسمان کی طرف دیکھتے دیکھتے گزر رہی ہے اور زمین کی طرف بھی کہ اس کی خشک مٹی میں کہیں وتر آیا ہے یا خاک ہی اڑ رہی ہے اور فصل کاشت کرنے کا موقع ہے یا نہیں زمین میں نرمی اور وتر نہ آیا اور زمین خشک اور سخت رہی تو شہر میں راشن کے کسی ڈپو سے کچھ آٹا مل جائے مگر وہ لذت نصیب میں نہیں ہوتی جو گاؤں کی گندم سے ملتی ہے اور وہ توانائی بھی جسم میں پیدا نہیں ہوئی جو گندم سے پیدا ہوتی ہے۔ سال بہ سال گندم کی فصل ہم کاشتکار اور زمین کی خوشنودی کے طالب گار لوگوں کے لیے لازم ہے۔ ہم راشن ڈپو کی مردہ گندم پر زندہ نہیں رہ سکتے۔
ہمیں تو سال بہ سال تازہ گندم چاہیے جس میں قدرت اس قدر طاقت بھر دیتی ہے کہ اس کے گندم کے کاشتکار بھی تازہ گندم کا آٹا ہضم نہیں کر پاتے اور گھر کی خواتین اس میں گزشتہ سال کا بچا ہوا آٹا ملا دیتی ہیں تاکہ گھر والے اسے ہضم کر سکیں۔ میں یہ اپنے بارانی علاقے کی بات کر رہا ہوں جس کی طاقت کو اس کے کاشتکار بھی ہضم نہیں کر پاتے۔
شہروں میں پہلے گندم کے راشن ڈپو اور اب دکان سے جو آٹا ملتا ہے اس کی روٹی کھا کر پتہ ہی نہیں چاہتا کہ کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں۔ درست کہ شہروں میں انسانی آسودگی کے بہت سامان ہوتے ہیں لیکن زندگی کی جو لذت دیہات کی زندگی میں ہے وہ شہروں میں کہاں۔ بہرکیف ہماری زیادہ آبادی شہروں میں آباد ہے اور اس کے دم قدم سے اسپتال بھی آباد ہیں اور ڈاکٹر ایک خوشحال طبقہ سمجھے جاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔
اس دنیا کا بڑا کاروبار بیماروں پر چلتا ہے اور اگر ڈاکٹر اور اسپتال نہ ہوں تو خدا جانے شہری اور دیہاتی دونوں قسم کے انسانوں کا کیا حال ہو۔ پہلے دیہات میں بیماریاں بہت کم ہوتی تھیں اور ایسے مریض بہت ہی کم جو علاج کے لیے شہروں میں لے جائے جاتے تھے۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں تو اگر کوئی شہر میں اسپتال بھی داخل ہوتا ہے تو اس کی مزاج پرسی اور مستقل مزاج پرسی کے لیے عزیزوں رشتے داروں کا ہجوم شہر میں آنا جانا شروع ہو جاتا اور قریبی لوگ وہاں قیام بھی کر لیتے تھے۔ کبھی لاہور کے میو اسپتال کا ایک سبزہ زار ان پردیسی بیمار پرسوں کے لیے مختص سمجھا جاتا تھا اور ڈاکٹر بھی اس ہجوم سے صرف نظر کرتے تھے لیکن اب مثلاً میو اسپتال کے پارک صرف دن میں بیمار پرسوں کے لیے ہوتے ہیں راتوں کو یہ خالی کرا لیے جاتے ہیں اور بیمار پرسی کرنے والے ادھر ادھر لاہور کے گلی کوچوں میں پناہ لیتے ہیں۔
زمانہ بہت ہی بدل گیا ہے۔ کسی مریض کے لیے ہمارے گاؤں سے کچھ لوگ لاہور آتے تھے تو کسی سرائے میں ڈیرہ ڈال لیتے تھے اور کچھ دے دلا کر وقت گزار لیتے تھے۔ اب ایسی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہوٹل ہیں یا کسی عزیز کے گھر کا برآمدہ۔ اب تو لاہور میں کوئی سرائے بھی نہیں ایک مشہور سرائے تھی لیکن وہ بھی اب پرانی سرائے نہیں رہی۔ آج کا زمانہ کاروباری ہے۔
مہمان داری بھی اب قریباً ختم ہو گئی ہے۔ مہمانوں کے لیے ہر نرخ کے ہوٹل موجود ہیں اور کوئی کسی کے گھر رہنے کی امید بھی نہیں کرتا۔ لاہور میں ہوٹلوں کی کثرت ہے مگر وہ مہمان نہیں ٹھہراتے، کرایہ دار ٹھہراتے ہیں جن سے کرایہ لیا جاتا ہے۔ لاہور میں ایک ہوٹل تھا جس کے مالک نے انارکلی بازار میں ایک بورڈ لگا رکھا تھا کہ ہم ایک لاکھ سے زاید مہمانوں کی خدمت کر چکے ہیں۔
کچھ پہلے تک لاہور میں کئی ہوٹل ایسے تھے جو بیرون لاہور کے معززین کی خدمت کر چکے تھے اور وہ اس پر فخر کرتے تھے۔ اب یہ سب کچھ قصے کہانیاں ہیں۔ اب کاروباری انداز ہی چلتا ہے اور ہر حیثیت والے مہمان کے لیے لاہور میں ہر نرخ اور معیار کے ہوٹل موجود ہیں۔ اس بدلی ہوئی دنیا کو پرانے لوگ یاد کرتے ہیں اور ختم ہوتی روایات پر ماتم کرتے ہیں۔ جب بڑے ہوٹلوں میں مہمانوں کے ملازمین کو مفت ٹھہرایا جاتا تھا۔ ایسی باتیں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں اور یہ قصے کہانیاں محض دلچسپی کے لیے باقی ہیں کہ یوں بھی ہوتا تھا۔
آدھا گھر لاہور تو پہلے ہی سے ہے لیکن یہ آدھا بھی اس وقت تک ہے جب تک میرے دفتر والے مجھ سے قدرے مطمئن رہیں اور مجھے برداشت کرتے رہیں۔ فی الوقت اگرچہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور بارش کچھ لیٹ ہو جائے تو پھر سال بھر کی زندگی لیٹ ہو جاتی ہے۔ اس لیے حالات سے خوفزدہ رہتا ہوں۔ اس وقت بھی آسمان نے پریشان کر رکھا ہے اور اب تک اس کے سامنے نہ تو بادل دکھائی دیے اور نہ ہی پانی کی ایک بوند بھی آسمان سے عطا ہوئی یوں تو زندگی ہمیشہ آسمان کی محتاج رہتی ہے لیکن بارانی لوگوں کی زندگی تو آسمان کی طرف دیکھتے دیکھتے گزر جاتی ہے کہ اوپر کی دنیا میں بادل کا کوئی ٹکڑا دکھائی دیا ہے اور کیا اس میں بارش کا کوئی قطرہ بھی موجود ہے۔
بس یہی زندگی ہے جو آسمان کی طرف دیکھتے دیکھتے گزر رہی ہے اور زمین کی طرف بھی کہ اس کی خشک مٹی میں کہیں وتر آیا ہے یا خاک ہی اڑ رہی ہے اور فصل کاشت کرنے کا موقع ہے یا نہیں زمین میں نرمی اور وتر نہ آیا اور زمین خشک اور سخت رہی تو شہر میں راشن کے کسی ڈپو سے کچھ آٹا مل جائے مگر وہ لذت نصیب میں نہیں ہوتی جو گاؤں کی گندم سے ملتی ہے اور وہ توانائی بھی جسم میں پیدا نہیں ہوئی جو گندم سے پیدا ہوتی ہے۔ سال بہ سال گندم کی فصل ہم کاشتکار اور زمین کی خوشنودی کے طالب گار لوگوں کے لیے لازم ہے۔ ہم راشن ڈپو کی مردہ گندم پر زندہ نہیں رہ سکتے۔
ہمیں تو سال بہ سال تازہ گندم چاہیے جس میں قدرت اس قدر طاقت بھر دیتی ہے کہ اس کے گندم کے کاشتکار بھی تازہ گندم کا آٹا ہضم نہیں کر پاتے اور گھر کی خواتین اس میں گزشتہ سال کا بچا ہوا آٹا ملا دیتی ہیں تاکہ گھر والے اسے ہضم کر سکیں۔ میں یہ اپنے بارانی علاقے کی بات کر رہا ہوں جس کی طاقت کو اس کے کاشتکار بھی ہضم نہیں کر پاتے۔
شہروں میں پہلے گندم کے راشن ڈپو اور اب دکان سے جو آٹا ملتا ہے اس کی روٹی کھا کر پتہ ہی نہیں چاہتا کہ کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں۔ درست کہ شہروں میں انسانی آسودگی کے بہت سامان ہوتے ہیں لیکن زندگی کی جو لذت دیہات کی زندگی میں ہے وہ شہروں میں کہاں۔ بہرکیف ہماری زیادہ آبادی شہروں میں آباد ہے اور اس کے دم قدم سے اسپتال بھی آباد ہیں اور ڈاکٹر ایک خوشحال طبقہ سمجھے جاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے۔
اس دنیا کا بڑا کاروبار بیماروں پر چلتا ہے اور اگر ڈاکٹر اور اسپتال نہ ہوں تو خدا جانے شہری اور دیہاتی دونوں قسم کے انسانوں کا کیا حال ہو۔ پہلے دیہات میں بیماریاں بہت کم ہوتی تھیں اور ایسے مریض بہت ہی کم جو علاج کے لیے شہروں میں لے جائے جاتے تھے۔ ہمارے دیہاتی معاشرے میں تو اگر کوئی شہر میں اسپتال بھی داخل ہوتا ہے تو اس کی مزاج پرسی اور مستقل مزاج پرسی کے لیے عزیزوں رشتے داروں کا ہجوم شہر میں آنا جانا شروع ہو جاتا اور قریبی لوگ وہاں قیام بھی کر لیتے تھے۔ کبھی لاہور کے میو اسپتال کا ایک سبزہ زار ان پردیسی بیمار پرسوں کے لیے مختص سمجھا جاتا تھا اور ڈاکٹر بھی اس ہجوم سے صرف نظر کرتے تھے لیکن اب مثلاً میو اسپتال کے پارک صرف دن میں بیمار پرسوں کے لیے ہوتے ہیں راتوں کو یہ خالی کرا لیے جاتے ہیں اور بیمار پرسی کرنے والے ادھر ادھر لاہور کے گلی کوچوں میں پناہ لیتے ہیں۔
زمانہ بہت ہی بدل گیا ہے۔ کسی مریض کے لیے ہمارے گاؤں سے کچھ لوگ لاہور آتے تھے تو کسی سرائے میں ڈیرہ ڈال لیتے تھے اور کچھ دے دلا کر وقت گزار لیتے تھے۔ اب ایسی کوئی صورت باقی نہیں رہی ہوٹل ہیں یا کسی عزیز کے گھر کا برآمدہ۔ اب تو لاہور میں کوئی سرائے بھی نہیں ایک مشہور سرائے تھی لیکن وہ بھی اب پرانی سرائے نہیں رہی۔ آج کا زمانہ کاروباری ہے۔
مہمان داری بھی اب قریباً ختم ہو گئی ہے۔ مہمانوں کے لیے ہر نرخ کے ہوٹل موجود ہیں اور کوئی کسی کے گھر رہنے کی امید بھی نہیں کرتا۔ لاہور میں ہوٹلوں کی کثرت ہے مگر وہ مہمان نہیں ٹھہراتے، کرایہ دار ٹھہراتے ہیں جن سے کرایہ لیا جاتا ہے۔ لاہور میں ایک ہوٹل تھا جس کے مالک نے انارکلی بازار میں ایک بورڈ لگا رکھا تھا کہ ہم ایک لاکھ سے زاید مہمانوں کی خدمت کر چکے ہیں۔
کچھ پہلے تک لاہور میں کئی ہوٹل ایسے تھے جو بیرون لاہور کے معززین کی خدمت کر چکے تھے اور وہ اس پر فخر کرتے تھے۔ اب یہ سب کچھ قصے کہانیاں ہیں۔ اب کاروباری انداز ہی چلتا ہے اور ہر حیثیت والے مہمان کے لیے لاہور میں ہر نرخ اور معیار کے ہوٹل موجود ہیں۔ اس بدلی ہوئی دنیا کو پرانے لوگ یاد کرتے ہیں اور ختم ہوتی روایات پر ماتم کرتے ہیں۔ جب بڑے ہوٹلوں میں مہمانوں کے ملازمین کو مفت ٹھہرایا جاتا تھا۔ ایسی باتیں کبھی ختم نہیں ہو سکتیں اور یہ قصے کہانیاں محض دلچسپی کے لیے باقی ہیں کہ یوں بھی ہوتا تھا۔