سوکھے پتے بھی ایسے نہیں جھڑتے

اچانک اس میں ایسا کیا ہوا کہ بیٹسمینوں کیلیے قدم جمانا دشوار ہو گیا۔


سلیم خالق November 30, 2016
دو ٹیسٹ کی سیریز میں سرفراز احمد جب آپ کے پاس موجود تھا تو دوسرے وکٹ کیپر کو کیا سوچ کر منتخب کیا گیا؟ ۔ فوٹو: فائل

پاکستان کی بیٹنگ ناقابل اعتبار ہے یہ سب جانتے ہیں مگر پھر بھی جب اچانک وہ تباہی کا شکار ہو جائے تو حیرت کا جھٹکاتو لگتا ہی ہے،ایسا ہی منگل کوہوا ، اب تک یقین نہیں آ رہا کہ جو میچ یقینی ڈرا لگ رہا تھا وہ ہم ہار گئے، ایک وکٹ پر 159 رنز بنانے کے بعد 71 کے اضافے سے پوری ٹیم کا آؤٹ ہونا غلطی نہیں جرم ہے، سوکھے پتے بھی ایسے نہیں جھڑتے ،ایک ایسی وکٹ جہاں اظہر علی اور سمیع اسلم 131 رنز کا آغاز فراہم کر چکے تھے اچانک اس میں ایسا کیا ہوا کہ بیٹسمینوں کیلیے قدم جمانا دشوار ہو گیا، نئی گیند سے وہ ایسے ڈرے جیسا بولرز بم پھینک رہے ہیں، 369 رنز بنا کر جیت کی تو خیر مجھے کوئی امید نہ تھی مگر ایسے ہارنے کا بھی اندازہ نہ تھا،4 اننگز میں 16 رنز یونس خان کیلیے خود بھی باعث شرم ہیں۔

اس سے قبل انگلینڈ کیخلاف بھی وہ ناکام جا رہے تھے مگر ڈبل سنچری بنا کر کیریئر کو دوام بخش دیا،پھر بیماری سے نجات کے بعد فیورٹ یو اے ای کی سیدھی پچز پر بہتر کھیل پیش کیا، اب پھر جس طرح کی بیٹنگ کر رہے ہیں آسٹریلیا کیخلاف کامیابی کا امکان بھی کم ہے، فٹ ورک کے حوالے سے انھیں مسائل کا سامنا لگتا ہے، وہ عظیم بیٹسمین ہیں امید ہے ان مسائل سے نجات پا کر دس ہزار رنز کا اپنا خواب مکمل کر لیں گے،البتہ حالات ان کیلیے زیادہ سازگار نہیں لگتے، اتنے بڑے کھلاڑی کا کیریئر افسوسناک انداز سے ختم ہوتا دیکھنا کسی شائق کیلیے خوشگوار تجربہ نہیں ہو سکتا، سرفراز احمد بھی نیوزی لینڈ میں توقعات پر پورا نہ اتر سکے، باؤنسی پچز پر ان کی روایتی جارحیت کامیاب نہیں ہو پا رہی،ایک ایسے وقت میں جب کامران اکمل کے چاہنے والے انھیں ٹیم میں واپس لانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں سرفراز کو احتیاط سے کام لینا ہوگا۔

مزید ناکامیاں ان کیلیے مسائل بڑھا سکتی ہیں،اسد شفیق گذشتہ 13 میں سے 5 اننگز میں کھاتہ بھی نہیں کھول پائے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں بیٹنگ میں تکنیکی مسائل کا سامنا ہے،نجانے بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کیا کر رہے ہیں، یونس خان ، اسد شفیق اور سرفراز احمد کیلیے باعث شرم بات ہے کہ ایک ٹیل اینڈر سہیل خان نے سیریز میں ان سے زیادہ 94 رنز بنائے، نوجوان بابر اعظم اور سمیع اسلم نے گوکہ ایک، ایک ہی اچھی اننگز کھیلی مگر دونوں بڑے باصلاحیت ہیں اور مشکل کنڈیشنز میں کھیل کر کارکردگی میں مزید نکھار آئے گا، اب آسٹریلیا کے مشکل دورے میں کپتان مصباح الحق بھی واپس آ رہے ہیں امید ہے بیٹنگ میں کچھ بہتری آئے گی،ویسے نیوزی لینڈ میں پاکستانی بیٹنگ کا حال دیکھ کر آسٹریلوی بورڈ بھی اب ایسی ہی پچز بنائے گا، یوں مستقبل میں حالات زیادہ بہتر ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔

ٹیم کا ایک بڑا مسئلہ آل راؤنڈرز کی کمی کا بھی ہے، ٹیل بہت بڑی اور6 وکٹیں گرنے کے بعد کوئی ضمانت نہیں کہ زیادہ رنز بن سکیں،ماضی میں اسپیشلسٹ بیٹسمین ٹیل اینڈرزکو بچاتے تھے اب بیچارے ٹیم میں اپنی جگہ بچانے کے چکر میں چاہتے ہیں کہ وہ جلد آؤٹ ہوں تاکہ خود ناٹ آؤٹ واپس جائیں، جیسا رضوان نے کیا، پہلے انھوں نے سنگل لے کر سہیل خان کو اسٹرائیک دی جو وکٹ گنوا بیٹھے، پھر اگلے اوور کی پہلی ہی بال پر ایک رن بنا کر عامر کو ویگنر کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جو پہلی ہی گیند پر رخصت ہو گئے، ایک بال کے فرق سے وہاب ریاض بھی چلتے بنے،رضوان نے عمران خان کو بھی بچنے کا موقع نہ دیا اور اپنے مقصد میں کامیاب ناٹ آؤٹ واپس آئے۔

پہلی اننگز میں ٹیسٹ کیریئر کی اولین گیند پر وہ چھکا لگاتے ہوئے کیچ ہو گئے تھے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو ٹیسٹ کی سیریز میں سرفراز احمد جب آپ کے پاس موجود تھا تو دوسرے وکٹ کیپر کو کیا سوچ کر منتخب کیا گیا؟ رضوان میں ایسی کیا خاصیت ہے کہ وہ ہر ٹور میں ٹیم کے ساتھ جاتے ہیں ، وہ کوئی ڈان بریڈ مین جیسی صلاحیتوں کے حامل تو نہیں کہ وکٹ کیپر نہیں تو بطور بیٹسمین کھلا لیا جاتا، اگر ڈومیسٹک کرکٹ میں پرفارم کرنے والے کسی نئے کھلاڑی کو نہیں شامل کرنا تھا تو فواد عالم جیسے کسی تجربہ کار بیٹسمین کو ہی بھجوا دیتے، اسی طرح جب شرجیل خان موجود تھے تو رضوان کو کیوں کھلایا گیا؟ جارح مزاج بیٹسمین کو کیا نیوزی لینڈ کی سیر کرانے لے کر گئے تھے؟

اٹیم متواترکیچز چھوڑ رہی ہے فیلڈنگ کوچ کا کیا فائدہ؟ اسی طرح بورڈ نے نجانے کیا سوچ کر اظہر محمود سے بطور بولنگ کوچ دو سالہ معاہدہ کیا، وہ پہلے بھی ناکام تھے اور اب بھی آغاز اچھا نہیں ہوا ہے، اگر آپ کے پاس وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے فاسٹ بولرز ہوں تو چار کو ایک سال کھلانے کا سوچا جا سکتا ہے، مگر ہمارے پیسرز سال میں 1،2 بار اچھے اسپیل کر کے خود کو مائیکل ہولڈنگ اور میلکم مارشل سمجھنے لگتے ہیں، واپسی کے بعد عامر کی بولنگ میں ماضی جیسی کاٹ نہیں رہی ، باقی کسر ڈراپ کیچز پوری کر دیتے ہیں، نجانے انھیں کس کی بددعا لگی ہے، سہیل خان اور وہاب ریاض کے اچھے دن کبھی کبھار ہی آتے ہیں، دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں گوکہ سہیل نے چار وکٹیں لیں مگر تقریباً100 رنز دے دیے، عمران خان کو بھی مزید بہتری لانا ہوگی، میں بھی اس بات سے متفق ہوں کہ یاسر شاہ کو غلط ڈراپ کیا گیا۔

اسپنرز اگر ثقلین مشتاق اور مشتاق احمد جیسے ہیں تو ایک کو بٹھانے کا خطرہ مول لینا جائز کہلائے گا، آپ کے پاس ایک اچھا اسپنر ہے اور اسی کو نہ کھلایا تو کیسے بولنگ میں وارئٹی آئے گی؟ دونوں شکستوں نے سلیکشن کمیٹی کے منتخب کردہ اسکواڈ پر بھی سوال اٹھا دیے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود دورئہ آسٹریلیا کیلیے بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، انضمام الحق شاید اب سیر پر نہ جا سکیں کیونکہ وہ بھی شدید دباؤ کا شکار ہو چکے ہیں مزید ناکامیاں ان کی کرسی ہلا سکتی ہیں، چیف سلیکٹر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے،دورئہ آسٹریلیا کئی افراد کے مستقبل کا تعین کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں